تعلیماتِ سیدسلطان بہادرشاہ المشہدیؒ اورطالب مولیٰ کے اوصاف

تعلیماتِ سیدسلطان بہادرشاہ المشہدیؒ اورطالب مولیٰ کے اوصاف

تعلیماتِ سیدسلطان بہادرشاہ المشہدیؒ اورطالب مولیٰ کے اوصاف

مصنف: وقار حسن فروری 2021

صوفیائے کاملین کے نزدیک انسانی زندگی کا مقصود ِ اصلی معرفت و قرب ِالٰہی کا حصول ہے-اس آب و خاک کے جہانِ ناتمام کی ہر چیز غیر ابدی اور فانی دیکھائی دیتی ہے- اس کا غذی پیرہن کے جہان میں دوام اسی کو حاصل ہے جس کو حی القیوم ذات کا دوامی قرب نصیب ہوگیا- خدائے لم یزل کے اس قائم کردہ نظام میں مرکزی کردار انسان کا ہےجس کےلیے آفاق کی ہر شے کو عدم سے وجود میں لا کر اس کا اظہار کیا گیا- انسان کو منصبِ خلافت عطا کرنے کے پیچھے محرک یہی تھا کہ بارِ امانت صرف اِسی نے قبول کیا، صوفیا کے نزدیک بارِ امانت مالکِ حقیقی کی معرفت و پہچان ہے جو کہ کائنات کے پیدا کرے کی وجہ بھی یہی کہا جاتا ہے - جس کی تصدیق اس حدیثِ قدسی سے ہوتی ہےکہ:

’’کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِاُعْرَفَ‘‘[1]

’’مَیں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں پس مَیں نے مخلوق کو پیدا فرمایا تاکہ میری پہچان ہو‘‘-

اس مقصد عظیم کی تکمیل کےلیے ہی یہ جہان بنایا گیا اور اسی مقصد اعلیٰ و ارفع کو پوراکرنے کےلیے انبیاء ورسل (علیھم السلام)انسانیت کی راہنمائی کےلیے تشریف لائے -سید الانبیاء خاتم النبیین حضرت محمد مصطفٰے(ﷺ) کی ذات ِ قدسیہ پر جب نبوت کا دربند ہوا تو یہ ذمہ داری امت کے صالحین و اولیاء پہ رکھی گئی- ان صالحین کی جماعت میں ہی صوفیا و اولیاءِ امت شامل ہیں جنہوں نے خالق کی طرف بلایا اور قرب کی منازل طے کرنے کے اسرار و رموز سے آگاہی بخشی- ان صوفیائے کاملین میں سید سلطان محمد بہارد علی شاہ المشہدیؒ ایک منفرد مقام و مرتبہ رکھتے ہیں-ایک طرف تو آپؒ  کا تعلق خانوادۂ سادات سے ہے او ر دوسرا  یہ کہ آپ سرورِ دو جہان کے باطنی نور کے وارث یعنی فقر محمدی (ﷺ) کے وراث اور امین بھی ہیں -وہ دولتِ فقر جس پر امام الانبیاء (ﷺ)کو فخر تھا- سید سلطان بہادر علی شاہؒ کو اپنے مرشد سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کی بارگاہ سےفقر بطور امانت ملا جس کو نہ صرف آپؒ نے باحفاظت متعلقہ ہستی (شہباز عارفاں حضرت سلطان عبدالعزیزؒ) تک پہنچایا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنی حیات و تعلیمات میں راہِ فقر کے مسافروں کو وہ اسلوب ِحیات اپنانے کادرس دیا جس پر چل کر انسان معرفت و قرب ِالٰہی کے حصول میں کامیاب ہو سکتا ہے-سید سلطان محمد بہاردر علی شاہؒ نے اپنی پوری زندگی بھی بطور طالب ِصادق بسر کی اور اپنی تعلیمات میں بھی طالبِ مولیٰ کو اس راہ پر چلنےکے اصول اور ضابطے بتائے-یہاں پر کلام سید سلطان بہادر علی شاہؒ میں سے ان اوصاف کا مطالعہ کیا جاتا ہے جو ایک طالبِ مولیٰ کیلیے راہ فقر میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں-آپؒ کا کلام پنجابی زبان میں لکھا گیا ہے جس میں زیادہ مناجات اور منقبت ہیں لیکن ان مناجات میں بھی آپؒ نے جگہ جگہ طالبِ مولیٰ کے اوصاف کا تذکرہ کیاہے-

راہ ِمعرفت میں پہلی سیڑھی سچی طلب کا پیدا ہونا ہے کہ جب انسان کے اندر طلبِ الٰہی ہی پیدا نہ ہو تو وہ کیونکرقرب الٰہی حاصل کرے گا-اس لیے طالب مولیٰ کے اوصاف میں پہلا وصف یہ ہے کہ اس کے اندرذات ِحق کے قرب و وصال کی طلب پیدا ہو جیساکہ حدیث قدسی میں فرمایا گیا کہ ’’جو مجھے طلب کرتا ہے وہ مجھے پالیتا ہے ‘‘-

راہِ معرفت میں طالبِ مولیٰ کیلیے پہلی شرط طلب ہے جب طلب پیدا ہو جاتی ہے تو راہِ معرفت کا سفر شروع ہو جاتا ہے- اگر یوں کہا جائے کہ طلبِ حق، راہ ِ معرفت کا زیرو پوائنٹ ہے تو مبالغہ نہ ہوگا-سیدسلطان بہادر علی شاہؒ فرماتے ہیں کہ اے طالب جب تیرے اندر طلب ِصادق پیدا ہو جائے تو پہلا کام یہ کرکہ ازروئے قرآن ذات حق کو پانے کےلیے وسیلہ تلاش کر -

وسیلہ اہل ایمان تے فرض ہویا ثابت نال آیت قرآں بیلی

قرآن میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی ذات کے وصال کےلیے وسیلہ پکڑنے کا حکم فرمایا ہے -صوفیاء کے نزدیک وہ وسیلہ دراصل مرشدِ کامل کی ذات ہے -وہ مرشد جو راہ ِحق کا راہبر اور راہنما ہو- توآپؒ بھی طالب کا پہلا وصف یہی بتاتے ہیں کہ جب طالب مولیٰ کے اندر سچی طلب ِالٰہی پیدا ہو جائے تو وہ مرشد کامل تلاش کرے -

طلب تینوں جے خدادی ہے اوّل مرشد گول کمال میاں
پیر ملیا تے رب مل گیا ایہا مثل ہے بے مثال میاں

ہر شعبہِ حیات میں راہبر کی ضرورت ہوتی ہے-جیسے علم و فن کی تعلیم و تربیت کےلیے اپنے میدان کے ماہر استاد کے آگے زانوئےتلمذ تہِ کرنا ضروری ہوتا ہے- ایسے ہی راہ ِ معرفت کے عقدہ کو وا کرنے اور ذات باری کے قرب کے حصول کے لیے بھی راہبر اور استاد کی ضرورت ہوتی ہے-اس استاد، راہبر، راہنما ،ہادی کو تصوف کی زبا ن میں مرشد اکمل کہا جاتا ہے - جوطالب مرشد اکمل کی راہبر ی اختیار نہیں کرتا وہ کبھی بھی وصال ِالٰہی اور قرب ِالٰہی کے مقام و مرتبہ پر قائم نہیں رہ سکتا- اس لیے اس راہ میں طالب کا یہ وصف ہوتا ہے کہ وہ ہر لمحہ مرشد ِکامل کی اطاعت و اتباع کرے اور اس کی نافرمانی نہ کرے -

اللہ دی خبر نہ بھلیاں نوں بھلے پیر توں رب توں بھل گئے
’’رفیق بِنا طریق ناہیں‘‘ اوجھڑ جنگل دے وچ رُل گئے

جب مرشدِ کامل کے حصول میں طالب مولیٰ کا میاب ہوجاتا ہے تو اگلامرحلہ مرشد کے احکامات کی تکمیل کا آتا ہے جبکہ مرشد کامل کی نشانی یہ ہے کہ وہ پہلے دن طالب اللہ کو اسم اللہ ذات کا باطنی ذکر عطا کرتا ہے جومرشد طالب کو پہلے ہی روز راہ حق پر چلنے کےلیے’’اسم اللہ ذات‘‘عطا نہیں کرتا اس کے طالب یا تو گمراہ ہوکر بارگاہِ الٰہی سے دور ہو جاتے ہیں یا پھر کرامات اور مقامات کے چکر میں زندگی ضائع کر دیتے ہیں- طالبِ مولیٰ کو مرشد کامل کی بارگاہ سے جب تصور اسم اللہ ذات مل جاتا ہے تو پھر اس کا ہر دم(سانس)ذکرِ الٰہی میں آتا جاتا ہے- پھر انسان لمحہ بھر بھی ذکرِ الٰہی سے غافل نہیں ہوتا اور یہ بھی طالبِ مولیٰ کا ایک وصف ہے-

وَاذْکُرْ رَبَّکَ اِذَا نَسِیْت  تینوں   اپنی  رہے  نہ  کَل   پیارے

یعنی ذکرِ الٰہی میں طالبِ مولیٰ اس حد تک غرق ہو کہ اسے اپنی خبر بھی نہ رہے -ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں:

نفی اثبات نور و نور ہوسی کر ذکر دم دم سبحان دا جی

تصورِ اسم اللہ ذات وہ نسخہ اکسیر ہے جس کے ذکر و تصور سے انسان کا دل جلوہ گاہ ِ رب کریم بن جاتا ہے- اسم اللہ ذات کا دائمی ذکر طالبِ مولیٰ میں مطالعہ ِدل کا وصف پیدا کرتا ہے -

دل گولیں جے توں رب لوڑیں اللہ دل اندر ڈیرہ لانوندا ای
ہزار کعبہ کولوں ہک دل بہتر صوفی فتویٰ علیہ فرمانوندا ای

راہ ِفقر و معرفت میں چلنے کےلیے جوزادِ راہ طالبِ مولیٰ کے پاس ہوتا ہے اس میں دوچیزیں خاص اہمیت کی حامل ہوتی ہیں، صدق اور یقین ِکامل- راہ ِقرب و وِصال میں طالب میں صدق کا ہونا بنیادی شرط ہے- انسان جس قدر خلوص کے ساتھ اس راہ میں سفر کرتاہے اتنا ہی جلد نوازا جاتا ہے-جیسا کہ سلطان سید بہادر علی شاہؒ فرماتے ہیں :

ثابت صدق یقین سیتی جہڑے پیر دے آ مُرید ہوئے
انہاں ’’نحن اقرب‘‘ پہچان لیا اوہ ماہر ’’حبل ورید‘‘ ہوئے

یقین بھی طالبِ مولیٰ کے اوصاف میں سے ایک بنیادی وصف ہے -جب مرشد کامل مل جاتا ہے تو پھر طالب کو چاہیے کہ کامل یقین کے ساتھ اس کی اتباع کرے -میدان ِمعرفت میں بھی یقین کے تین مدارج ہیں-جن میں علم القین،عین الیقین اور حق الیقین شامل ہیں-طالبِ مولیٰ کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ علم الیقین اور عین الیقین کے مراتب سے گزر کر حق الیقین کا مرتبہ حاصل کرے کیونکہ یقین ِکامل کے بغیر راہِ معرفت میں کوئی چیز حاصل نہیں ہوتی-

باہجھ یقین نہیں کچھ حاصل ہے سب ظلمت وادی

راہِ معرفت کے اس زادِراہ کا تذکرہ کرتے ہوئے آپؒ یہ درس دیتے ہیں کہ اپنےاند ریقین کی دولت کو پیدا کیا جائے-

حق یقین تے عین یقین ہے ایہہ سامان ضروری
سفر دراز طریقت دا اس باہجھ نہ منزل پوری

طالبِ مولیٰ کو ہر وقت دولتِ یقین کو بارگاہِ الٰہی سے طلب کرناچاہیے-آپؒ ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں :

سلطان بہادر شاہ یقین ہے دین بھائی رب بخشے ایہہ سامان میاں

 راہِ سلوک میں طالب مولیٰ کو ہر لمحہ و لحظہ مختلف مقامات اور امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے اور اس کی صدقِ طلب اور یقین کا امتحان لیا جاتا ہے- اس لیے اس راہ میں عاجز ی کی ضرورت ہوتی ہے اور اپنی انا اور تکبر کو ختم کرکے تسلیم و رضا کو اپنانا پڑتا ہے-طالبِ مولیٰ کے اوصاف میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ اپنی مرضی کو ختم کر کے مالکِ کریم کے حکم کی ہر دم پاسداری کرتا ہے -آپؒ اپنے مرشد کی بارگاہ سے بھی اسی چیز کو طلب کرتے دیکھائی دیتے ہیں :-

گستاخی معافی کریں یا قبلہ رہاں ہمیش حضوری
ہر دم شامل کامل فرما عادت تسلیم رضا دی

ب طالبِ مولیٰ میں تسلیم و رضا کی خوبی پیداہو جاتی ہے تو اس کے وجود سے ’’انا‘‘ یعنی ’’مَیں‘‘ کی نفی ہو جاتی ہے چونکہ جہاں میں تمام جھگڑا ہی ’’میں اور تو‘‘کی دوئی کا ہے -اس دوئی کو ختم کرنے اور اپنی ’’مَیں‘‘ سے چھٹکارا حاصل کرنے کا درس دیتے ہوئے آپؒ رقمطراز ہیں :

فرق فراق نہ بھال میاں تینوں ’’مَیں‘‘ دے پردے خوار کیتا

راہِ معرفت اصل میں راہ ِعشق ہے جس میں عقلِ ظاہری سے کام لینا نادانی ہے-اس راہ میں عقل کی بجائے عشق سے کام لیا جاتا ہے -عقل سود و زیاں کے ناپ تول میں لگی رہتی ہے جبکہ عشق آتش نمرودمیں بے خطر کود جاتا ہے بقول حکیم الامت:

عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ

عقل ِظاہر فقط مادیت کا محدود علم رکھتا ہے- اس کو باطن کے اسرار و رموز سے آگہی نصیب نہیں ہوئی اس لیے فقط ظاہری علم حجاب اکبر بن جاتا ہے- اس علم کےساتھ ساتھ طالب مولیٰ کیلئے باطنی علم حاصل کرنا ضروری ہوتاہے-

ہویا علم حجاب کبیر اکبر تولے نفس ہوا دے تُل گئے
بے سمجھاں نوں علم گمراہ کیتا العلم حجاب فضول ہویا

یہاں علم اور عقل کی نفی نہیں ہے بلکہ اُس علم و عقل کی نفی کی گئی ہے جو صرف مادیت تک محدود ہے جیساکہ ابلیس کا علم تھا جس نے اس کو مردود کیا- طالبِ مولیٰ کی نظر مادیت کے ساتھ ساتھ روحانیت پر بھی رہتی ہے-وہ انسان کےباطن کا مسافر ہوتاہے-فقط ظاہری علم جس کی پہنچ صرف مادیت تک ہے اس سے طالب ِ مولیٰ کو دور رہنے کی تلقین  کرتے ہوئے آپؒ فرماتے ہیں :

ثابت سمجھ تامل کر جد اُسجد دا فرمان ہویا
عامل ملائک کل رہے نافرمان شیطان ہویا
خشم دی چشم نوں طین لیا، وَنَفَخْتُ توں نادان ہویا
سلطان بہادر شاہؒ پناہ اس علم کولوں از دست سب نقصان ہویا

راہِ فقر میں انسان کے تین بڑے دشمن نفس، شیطان اور دنیا  ہیں -ان تینوں سے چھٹکارا حاصل کرنا بھی طالب مولیٰ کےاوصاف میں شامل ہےکیونکہ یہ تینوں راہِ فقر کے راہزن ہیں-جیسا کہ آپؒ وضاحت کے ساتھ فرماتے ہیں کہ:

دنیا متاع غرور بھائی ہو دور سلطان پسند کرے
جناب عالیٰ! استغاثہ سن اِس نفس اخبث اظلم دا
غارت کرے خزانہ دل دا لعل جواہر دم دا
غرق گناہ تباہ ہوئے شیطان کیتے حیران میاں
پیر بھلیاں دا پیر ابلیس ہویا،رہبر شرک اتے کفران میاں

انسان کا اس دنیا میں آنے کا فقط ایک اور ایک مقصد قرب الٰہی کا حصول ہے - اس لیے صرف محبتِ الٰہی کو اپناناہی سچے طالب مولیٰ کا وصف ہے-حضرت سلطان باھوؒاس تصور کو ان الفاظ میں جامعیت کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ ’’اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس‘‘کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کسی بھی چیز کی طلب (چاہے اس کا تعلق دنیا سے ہویاعقبیٰ سے) طالبِ مولیٰ پر حرام ہے- سلطان سید محمد بہادر شاہؒ بھی طالبِ مولیٰ کے اس وصف کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں :

بس اللہ ماسویٰ ہوس چھک لے ’’لا‘‘ تلوار پیارے
اللہ بس سکھایا جناب مینوں باقی غیر معلوم ہوس کیتا

ایک حقیقی طالب مولیٰ اسی وقت ان اوصاف سے متصف ہو سکتا ہے جب وہ خلوص اور عاجزی کے ساتھ مرشد کامل کی اتباع کرتا ہے چونکہ ان تمام اوصاف کا تعلق عطا، فضل اور کرم سےہے-طالبِ مولیٰ کو عاجزی ، یقین اور صدق کے ساتھ مرشد کی اتباع میں لگے رہنا چاہیے-یہ اُس کی مرضی کہ وہ کب ،کتنا اور کیسے عطا کرے-سلطان سید بہادر شاہؒ اس ضمن میں فرماتے ہیں :

خوف نہیں طالباں صادقاں نوں جیندا پیر اکمل دستگیر ہووے
چہرا پیر دا بدرمنیر بھائی طالب ویکھ کے روشن ضمیر ہووے
پیر پورا کرے تروٹاں ساریاں نوں ہر امر تے اوہ قدیر ہووے
سلطان سید محمد بہادرشاہؒ ویکھے ہر حال تیرے اوہ علیم، کلیم، بصیر ہووے

المختصر! سلطان سید محمد بہادر علی شاہؒ کا کلام طالبانِ مولیٰ کیلیے مشعل راہ ہے -راہ حق کے مسافر آپ کے کلام کو اپنا کر اس راہ میں باآسانی کامیابی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں-

٭٭٭


[1](تاریخ ابن خلدون، المقدمہ)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر