تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ کا عمرانی مطالعہ : قسط1

تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ کا عمرانی مطالعہ : قسط1

تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ کا عمرانی مطالعہ : قسط1

مصنف: حافظ محمد شہباز عزیز فروری 2021

عمرانیات کیاہے؟

عمرانیات عربی زبان کے لفظ ’’عمران‘‘ سے مآخذ ہے جسے انگریزی میں سوشیالوجی(Sociology) اور اُردو میں معاشرہ یا سماج کہتے ہیں- بابائے تاریخ و ماہرِ عمرانیات علامہ عبدالرحمٰن ابن خلدونؒ نے سماج یا معاشرے کے لئے ’’اجتماع‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ ان کے نزدیک انسان کی فطرت میں اجتماعیت پنہاں ہے اور وہ مدنی الطبع یعنی فطری طبع مدنی کی بنا پر اجتماع میں زندگی گزارنے کو ترجیح دیتا اور پسند کرتا ہے-

عمرانیات بنیادی طورپر ایک سماجی سائنس ہے جس میں فرد اور سماج کے باہمی تعلقات اور سماجی رویّوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے- رابرٹ موریسن میک ایور (R.M.Maciver) اور چارلس ہنری پیچ (C.H.Page) نے اپنی کتاب ’’سوسائٹی‘‘ میں لکھا ہے کہ عمرانیات سماجی تعلقات کا مطالعہ ہے اور سوسائٹی ان تعلقات کا تانا بانا ہے- جرمن سوشیالوجسٹ میکس ویبر (Max Weber) کے مطابق سوشیالوجی انسان کے سماجی عمل کا سائنسی مطالعہ ہے- اسی طرح فرانسیسی سوشیالوجسٹ ایمائل ڈرکیم( Emile Durkheim) نے عمرانیات کو سماجی حقائق کے مطالعہ کا نام دیا ہے -برطانوی سوشیالوجسٹ ایلن سونج وڈ (Alan Swinge Wood) عمرانیات کی تعریف کچھ یوں کی ہے:

“Sociology is essentially the scientific objective study of man in society, the study of social institutions and of social processes, it seeks to answer the question of social processes, it seeks to answer the question of how society is possible, how it works, why it persists”. [1]

’’عمرانیات اساسی طور پر سماج میں انسان کے سائنسی اور معروضی مطالعے کا علم ہے-یہ علم سماجی اداروں اور سماجی تسلسل کے طریقوں کا مطالعہ کرتا ہے-یہ علم اس سوال کا جواب تلاش کرتا ہے کہ سماج کس طرح ممکن ہوا ہے؟ یہ کس طرح کام کرتا ہے؟ اور یہ کیوں مسلسل جاری و ساری ہے‘‘-

چونکہ تغیر ایک فطری عمل ہے اور ’’ثبات ایک تغیّر کو ہے زمانے میں‘‘کے تحت زمین پر مختلف النوع ارتقاء سے ہی سماج اور سماجی تقاضوں میں تبدیلیاں(عمرانی تغیر) واقع ہوتی رہی ہیں اور عمرانی علم ارتقاء پاتا رہتا ہے- عمرانی و سماجی تغیرات میں کئی تاریخی، تہذیبی، ترقیاتی و ایجاداتی عوامل کار فرما ہوتے ہیں- مثلاً ماضی میں نوآبادیاتی دور، جاگیردارانہ و سرمایہ دارانہ نظام،صنعتی انقلاب اور انقلابِ فرانس و روس جیسے واقعات نے انسانی سماج پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں-اسی طرح ماضی بعید میں جھانکا جائے تو حیاتِ رسالتِ مآب (ﷺ) کا زمانہ ایسے عمرانی تغیرات کے دائرے میں آتا ہے جس نے انسانی سماج کی کایا پلٹ دی اور ایسے دُور رَس سماجی اصول و قوانین متعارف کروائے جس کی انسانی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی-اس لئے مذکورہ وجوہات کی بنا پر بھی سماج کی کوئی جامع ،موزوں اور مسلمہ تعریف نہیں کی جاسکتی -جیسا کہ معروف سماجی عالم بلیک مار( Blackmar) نے عمرانیات کی بعض تعریفوں کی بنا پر لکھا ہےکہ:

’’حقیقت یہ ہے کہ عمرانیات ایک ایسا علم ہے جو روز بروز ترقی کررہا ہے اور اس کی ایسی مختصر اور جامع تعریف کرنا جو ہر صورت میں موزوں ہو ،بہت مشکل ہے‘‘-[2]

بلیک مار نے امریکن سوشیالوجسٹ پروفیسر گڈنگز (Giddings) کی تعریف کو سب سے زیادہ جامع قرار دیا ہے -وہ تعریف کچھ اس طرح ہے:

’’عمرانیات ایک کوشش ہے اس بات کی کہ طبعی،حیاتی اور نفسی اسباب کے متحدہ عمل ارتقاء کے لحاظ سے معاشرے کی ابتدا اور نشو و نما، اس کی ساخت اور جد جہد کی توجیہہ کی جائے‘‘-[3]

اسی طرح عمرانی فلسفہ کی تعریف کرتے ہوئے ڈاکٹر وحید عشرت اپنی تصنیف ’’فلسفۂ عمرانیات‘‘ میں رقمطراز ہیں:

”عمرانی فلسفہ کسی سماج میں ہونے والے ان تغیرات کی روح پر مبنی نظام ہے جس میں سماجی مظہر کی ماہیت کے بارے میں اظہارِ خیال ہوتا ہے اور جو سماج کے مختلف نظامات کے اندر خصوصی صورتحال کا مظہر و پیکر ہوتا ہے اور جس میں فرد اور سماج کو کسی مخصوص عقیدے، نصب العین، روایت، سماجی شعور، معاشی تغیرات، مذہبی رجحانات، اخلاقی تعلقات اور رسوم و رواج اور تہدید و جزا کے قانون اور اصولوں کے حوالہ سے دیکھا جاتا ہے- کسی بھی عمرانی فلسفہ کو اس کے سماجی حالات اور شعور سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا اور نہ ان تغیرات سے علیحدہ کیا جاسکتا ہے جو کہ کسی سماج اور کسی عہد کی روح قرار پاتے ہیں‘‘-[4]

مزید برآں ! عمرانی فلسفہ کی اہمیت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

عمرانی فلسفہ سماج کے اساطیر، اخلاق، سیاسیات اور معاشیات سب پر محیط ہے-ان میں اور عمرانی فلسفہ میں کوئی نمایاں فرق نہیں -ان میں واضح طور پر خطِ امتیاز نہیں کھینچا جا سکتا اور ان سے الگ تھلگ ہو کر کسی قسم کا کوئی عمرانی فلسفہ تشکیل نہیں دیا جاسکتا -مزید لکھتے ہیں کہ عمرانی فلسفہ تمام علوم پر محیط اور ان کے حاصلات سے متعلق ہے -اس طرح وہ اپنی اہمیت اور فوقیت تمام علوم پر قائم رکھتا ہے بلکہ ان کی رہنمائی کی منصبی بھی قبول کرتا ہے-[5]

تاریخی پسِ منظر :

تاریخ میں مختلف فلاسفہ، دانشوروں، مفکرین اور عمرانیات کے علمبرداروں نے اپنی عقلی اور علمی بنیادوں اور منطقی توجیہات کی بناپر انسان اور سماج کا بنظرِ غائر مطالعہ کرتے ہوئے نفسیات ِانسانی کا باریک بینی سے مشاہدہ کیا اور کئی عمرانی افکار و نظریات پیش کیے- کسی نے مثالی سماج کا تصور پیش کیا اور سماج میں سیاست و ریاست کے کردار پر بات کی، کسی نے اشتراکی یا کمیونسٹ سماج کی داغ بیل ڈالی اور کسی نے سوشیالوجی میں سماجی تضاد (Social Conflict) کی تھیوری متعارف کروائی، تو کسی نےسوشل ڈارون ازم (Social Darwinism) کی تھیوری متعارف کروائی جبکہ کسی نے سماجی تقسیم (Social Class) پر بحث کو فروغ دیا-یہ تمام اپنے عقلی اجتہاد کے ذریعے عمرانی و سماجی مسائل کا حل ڈھونڈنے کی سعی کرتے رہے اور رفتہ رفتہ عمرانیات ایک باقاعدہ علم کی شکل اختیار کر گیا -

عمرانیات کے ارتقاء، مختصرتاریخی پسِ منظر اور مختلف عمرانی تصورات پر بحث کو درج ذیل پیرائے میں ملاحظہ فرمائیں :

’’علمِ عمرانیات کے تاریخی ارتقا کا مطالعہ کرتے ہوئے اکثر مصنفین یونانیوں کے عمرانی نظریات خصوصاً افلاطون کے ریاست اور ارسطو کے سیاست کے بارے میں تصورات کا تذکرہ کرتے ہیں -اس کے بعد اہلِ روم کے معاشرتی نقطہ نظر، نشاۃ ثانیہ اور تحریک اصلاح کے سماجی مصلحین کے خیالات، ازاں بعد سترھویں صدی میں ہابز، لاک، روسو اور اٹھارویں صدی میں مانٹیسکو (Montesquieu) وغیرہ کے فلسفہ سیاست میں معاہدہ عمرانی جیسے سیاسی اور سماجی تصورات کو عمرانیات کی تاریخ کے ابتدائی مراحل قرار دیتے ہیں‘‘-[6]

معروف فرانسیسی مفکر آگست کومٹ نےعمرانیات کے مطالعے کو تین ادوار (مذہبی، فلسفیانہ اور سائنسی) میں تقسیم کیا ہے:

’’پہلا دور مذہبی سماج کا دور تھا-اس دور میں معاشرے میں فیصلہ کن حیثیت مذہبی اعتقادات کو حاصل تھی-دوسرا دور فلسفیانہ سماج کا دور تھا-اس زمانے میں سماج میں فیصلہ کن حیثیت فلسفیانہ تخیلات یا مابعد الطبیعات کو حاصل تھی-اہلِ علم علت و معلول کے انداز میں ہر شئے کی توجیہہ کرتے تھے حتیٰ کہ مذہبی معتقدات کی توجیہہ بھی فلسفیانہ انداز میں کی جاتی تھی-تیسرا دور سائنسی سماج کا دور ہے، اس دور کا آغاز تجرباتی سائنس کے اُصول کی مقبولیت سے ہوا -اس دور میں علمی منہاج کی بنیاد مشاہدے اور تجربے پر ہے -گویا انسانی سماج ،مذہبی اور مابعد الطبیعاتی ادوار سے گزر کر موجودہ سائنسی دور میں داخل ہوچکا ہے-آگسٹ کومٹ کی یہ تحقیق کافی حد تک تاریخی حقائق پر مبنی ہے‘‘-[7]

مزید مقدمہ ’’تاریخ ابنِ خلدون ‘‘میں لکھا ہے کہ:

’’عمرانیات ایک جدید علم ہے اور اس کی عمر کچھ زیادہ نہیں- یو ں سمجھیے کہ دو صدی کا عرصہ ہوتا ہے کہ مغربی فلاسفر اور مفکرین نے اس پر باقاعدہ غور و غوض کرنا شروع کردیا اور اس کے اصول و فروغ کی نشاندہی کی- سب سے پہلے سوشیالوجی (Sociology)کی اصطلاح آگسٹ کومٹ کی تحریرو ں میں ملتی ہے-عمرانیات اگر چہ مدون و مرتب صورت میں ایک جدید علم ہے -اسے علم اجتماع کا کہا جاتا ہے اور اس جہت سے اجتماع کے مسائل پر غور و غوض تو اس وقت شروع ہوگیا تھا جب سے انسان نے اپنی ذات کے علاوہ دوسرے انسانوں کے بارے میں بھی سوچنا شروع کیا-گویا علم اجتماع کی حیثیت سے عمرانیات کی تاریخ بہت پرانی ہے‘‘-

Sociology as an academic science was thus born in 19th century (its formal establishment year being 1837) in Great Britain and Western Europe, especially in France and Germany, and it greatly advanced through out 19th and 20th centuries.” [8]

’’سوشیالوجی نے ایک علمی سائنس کی حیثیت سے انیسویں صدی (باقاعدہ قیام کا سال 1837ءہے) میں برطانیہ، مغربی یورپ اور بلخصوص فرانس اور جرمنی میں جنم لیا اور اس علم نے 19 ویں اور 20 ویں صدی میں بہت زیادہ ترقی کی ‘‘-

اسلام کا عمرانی نظام:

مذہب کو عمرانیات میں ایک اہم ترین مقام حاصل ہے جن کی باہمی ضرورت و افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا - ایک عالمگیر مذہب اور مکمل ضابطہ حیات ہونے کے ناطے اسلام کا عمرانی نظام اور سماجی دستور العمل آفاقی نوعیت کا ہے جو نہ صرف اسلامی معاشرے بلکہ کرۂ ارض پر بسنے والے تمام انسانی معاشروں کیلئے مشعل راہ اور فلاح و نجات کا سامان مہیا کرتا ہے- اسلامی سماج کی اساس وحدت،مساواتِ انسانی اور خدمتِ خلق جیسے انمول اصولوں پر قائم ہے- دین ِاسلام نے جہاں دیگر معاملاتِ حیات میں رہنمائی فراہم کی اور زندگی گزارنے کے کامل اصول وضع کیے وہیں فرد اور سماج کے باہمی تعلق پر بھی روشنی ڈالی کیونکہ معاشرہ فرد سے تکمیل پاتا ہے اور ایک فرد کے عمل کا خمیازہ پورے معاشرے کو بھگتنا پڑتا ہے- اگر کوئی فرد سماج کے اجتماعی مفاد کے خلاف کوئی عمل کرتا ہے تو اس سےنہ صرف معاشرے کا نقصان ہوتاہے بلکہ فردکی اپنی شخصیت اور وقار بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے-

قرآن کریم نے ہمیں قوموں کے عروج و زوال سے بھی عمرانی زندگی کی تفہیم کی راہیں سمجھائی ہیں کہ کس طرح عمرانی اور اخلاقی اقدار سے اغماض برتنے پر قومیں اور قبیلے ہلاک ہوئے- قرآن کریم اور احادیثِ مبارکہ کے عمرانی تصور سے ایک ایسےانسانی معاشرے کے قیام کی جانب راہ ہموار ہوتی ہے جہاں معاشرت کے بنیادی تصورات کے مطابق ایک عام فرد کو نہ صرف اس کے بنیادی حقوق (ضروریات ِ زندگی)میسر ہوں بلکہ اس کے شعور کی سطح اس قدر بلند اور پختہ ہو کہ  وہ نیکی اور بدی میں تمیز(فرق) کر سکے، لوگوں میں شر کو روکنے اور خیر کا حکم(دعوت)دینے کی صلاحیت اور اہلیت بدرجہ اُتم موجود ہو-الغرض!اسلام باہمی اتحاد،اخوت اور بھائی چارے جیسی اخلاقی اقدار اور وہ اقدار جو ہمارے سماج کے تہذیبی و ثقافتی، مذہبی اور روحانی تشخص سے ہم آہنگ ہوں کی بنا پر ایک پرامن اور مثالی سماج کی تشکیل پر زور دیتا ہے-

تصوف اور عمرانیات:

اسلام کے روحانی نظام (تصوف) اور عمرانیات میں ایک گہرا تعلق ہے جو معاشرے میں آدمی کےانفرادی و اجتماعی کردار، اصلاح اور سماج کی بنیادی ضروریات کا جزو لاینفک ہے کیونکہ روحانی تقاضوں کی فعالیت بھی اتنی ہی لازمی ہے جتنی ظاہری تقاضوں کی فعالیت اس لیے کہ سماجی انتشار، سماجی بد امنی، سماجی اخلاقی انحطاط، فرد کی فکری پسماندگی کا خاتمہ، سماجی فلاح و استحکام، فرد کی اصلاح اور ظاہری و باطنی استحکام روحانیت سے تعلق استوار کئے بغیر ممکن نہیں- فی الحقیقت جدید دور کا مادیت زدہ انسان جس طرح مادہ پرستانہ یلغار اور مادہ پرستی کے دریا کی لہروں کے ساتھ ہچکولے کھارہا ہے اسے اسلام کی روحانی کشتی ( تعلیمات ِ تصوف ) پر سواری (عمل ) ہی بچاسکتی ہے-

دنیا میں جتنے بھی صوفیائےکرام اور اسلامی مفکرین ہو گزرے ہیں تمام نے انسانی و عمرانی نشوونما میں جہاں دیگر بے شمار ظاہری عوامل کو ضروری گردانا وہیں فرد کی اصلاح اور سماج کی نشوونما میں روحانیت کو بھی بنیادی درجہ دیا- ایک طرح سے دیکھا جائے تو تصوف (روحانیت) بنیادی طور پر سماجی امراض کا مداوا کرتا ہے اس لیے تعلیماتِ تصوف عمرانی حکیم کی حیثیت رکھتی ہیں- تصوف کا بنیادی مقصد ایک ایسے مثالی معاشرے کی تخلیق ہے جو اخلاقی اور روحانی بنیادوں پر استوار ہو اور اپنے اندر عمرانی اقدار کا کلی و حقیقی اتمام رکھتا ہو- شاید یہی وجہ ہے کہ تصوف کے متحرک نظریہ عمرانیت اور جامد فلسفیانہ عمرانی نظریات کے مزاج اور اہداف میں بسیار تفریق ہے جس کی ایک بہت بڑی وجہ اسلامی تصوف کا حقیقی دنیا میں سفر کرنا جبکہ فلسفے ( بالخصوص مغربی، یونانی اور لاطینی فلسفہ) کا مفروضیاتی دنیا میں تگ و دو کرنا ہے-گرچہ اس نظام کے اربابِ فکر نے عمرانی علوم کی ترویج اور ترقی میں ایک زبردست کردار دا کیا ہے لیکن یہ نظام انسانیت کے مسائل کا کوئی قابلِ عمل حل پیش کرنے میں ناکام رہا ہے اور جس کے کثیر نظریات ایسے ہیں جو اسلامی روح کے متضاد ہیں جن کی اسلام میں قطعی کوئی گنجائش نہیں ؛ مثلاً: زندگی کی تمام تر جہد و سعی کا حاصل دولت کو بنانا، زبان جغرافیہ اور رنگ و نسل کی بنیاد پہ قوموں کی تعصباتی تشکیل، ہم جنس پرستی اورعلاوہ از آں ایک طویل فہرست -

اس کے برعکس مسلم علماء ،آئمہ اور صوفیائے کرام کے عمرانی افکار و نظریات سے سماج کے ہر پہلو کا احاطہ اور ہر طرح کے عمرانی وسماجی مسائل کا حل نظر آتا ہے اور ہر دور ( جس سے وہ معاشرہ گزر رہا ہو یا کوئی عمرانی تغیر وقوع پذیر ہورہا ہو ) کے تقاضوں کے مطابق رہنمائی موجود ہوتی ہے -

ڈاکٹر طالب حسین سیال اپنی تصنیف ’’تصوف اور عمرانی مسائل‘‘ میں حجّتہ الاسلام امام ابو حامد محمد الغزالیؒ اور مولانا جلال الدین رومیؒ کے عمرانی و سماجی افکار اور خدمات سے متعلق لکھتے ہیں:

’’امام غزالی علماء کے بھی امام ہیں اور صوفیہ میں بھی بلند مقام رکھتے ہیں- انہوں نے اخلاقیات اور تزکیہ نفس پر بہت زور دیا ہے- انہوں نے انسان کی شخصیت کی نشوو نما اور فرد و معاشرے کے باہمی تعلق اور عمرانی مسائل کو موضوع بحث بنایا ہے-مزید لکھتے ہیں کہ مولانا جلا ل الدین رومیؒ کا عمرانیات تصوف میں وافر حصہ ہے-انہوں نے عمرانی مسائل کا خوبصورت انداز میں تجزیہ کیا ہے اور حکایات و تمثیلات سے معاشرتی محاسن اور سماجی برائیوں کے عمرانی اثرات کا جائزہ لیا ہے ‘‘-[9]

مزید برآں! عصرِ جدید کی بات کی جائے تو حکیم الاُمت علامہ اقبالؒ نے ایک عالمگیر روحانی معاشرے کے قیام کی آرزو کی اور عمرانی اندازِ فکر اپناتے ہوئے امتِ مسلمہ کو در پیش مسائل کا تجزیہ کیا- آپؒ اپنے خطبات (تجدید فکریات ِ اسلام) کے ابتدائیہ میں فرماتے ہیں کہ:

’’انسانیت کو آج تین چیزوں کی ضرورت ہے: کائنات کی روحانی تعبیر، فرد کا روحانی اِستخلاص اور ایسے عالمگیر نوعیت کے بنیادی اُصول جو روحانی بنیادوں پر انسانی سماج کی نشو ونما میں رہنما ہوں‘‘-

زیرِ نظر تحریر تصوف و عمرانیات پر بحث کا ہی تسلسل ہے جس میں عالم ِ اسلام کی معروف شخصیت،عظیم صوفی بزرگ اور فقر و تصوف کے درخشندہ آفتاب سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیمات سے چند عمرانی گوشوں کا اجمالی جائزہ لیا گیا ہے-

تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ کے عمرانی پہلو:

تمام صوفیائے کرام نے کائنات میں خود کو سماج کے عملی پیکر اور سماج کے روحانی ترجمان کی حیثیت سے پیش کیا اور اپنی تعلیمات میں ایسے عمرانی و سماجی ضوابط اور رہنما اصول متعارف کروائے جو اپنے اندر انسانی فلاح و بہبود اور مثالی معاشرے کے قیام کا قیمتی و لازوال اثاثہ رکھتے ہیں-

سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیمات میں مختلف عمرانی پہلوؤں اور معاشرتی و اجتماعی مسائل کا جامع و مانع تجزیہ کیا گیا ہے- آپؒ کے عمرانی افکار تعلیماتِ قرآن و سنت کا عکس ہیں جس میں سماج اور فرد کی روحانی و اخلاقی تربیت کا گنجینہ موجود ہے اور فرد کی ظاہری و باطنی اصلاح اور اجتماعی پاکیزگی پر زور دیا گیا ہے- اسی طرح آپؒ کے عارفانہ کلام میں ’’ھو‘‘کی پکار کا تعلق کائنات کے ہر سماج اور ہر فرد کیلئے ہے جو اپنا رشتہ ھو ( ذاتِ ازلی و ابدی یعنی ذاتِ حق ) کے ساتھ قائم کر کے نفس اور نفسانی خواہشات جو سماجی و اخلاقی برائیوں سے دائمی چھٹکارا پانا (تزکیہ نفس) چاہتا ہے اور ایک کار آمد سماجی رکن کہلانے کا داعی ہے-

حضرت سلطان باھوؒ نے اپنی تعلیمات میں تمثیلات، تشبیہات و حکایات (جو صوفیاء کا منفرد انداز ہے تاکہ ایک عام آدمی بھی پیغام کی معنویت سمجھ سکے) اور اپنے مخصوص استفہامی انداز جو بیک وقت مع جواب روح کو چھو لینے والا ہے کے ذریعے فرد کی تربیت اور اصلاح کی کوشش کی ہے اور اس پوری بحث میں ان تمام ظاہری و باطنی عناصر (جیسے شریعت کی ناگزیریت،طریقت کی ضرورت،حقیقت تک رسائی، علم کا اصل مقصود، ذکر کی اہمیت،نفس کی حقیقت اور قلب و روح کی انسانی وجوود میں اہمیت) کا خاص اہتمام فرمایا ہے جو اسلامی سماج کی بنیادی ضروریات ہیں -

مزید برآں! آپؒ کی کتب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ نفس کی اصلاح کیسے اور کیونکر ضروری ہے؟ قلب و روح کی پاکی کیسے ممکن ہے؟ عالم (جوسماجی اور مذہبی نمائندہ کی حیثیت رکھتا ہے) کو کیسا ہونا چاہئے؟ علم کا اصل مقصو کیا ہے؟ دنیا کی حقیقت کیا ہے؟ عمرانی(معاشرتی و اجتماعی) خصائلِ رذیلہ اور برائیوں کے قلع قمع کرنے میں ذکر  کی اہمیت کیا ہے؟ ان تمام سوالات کے بعد یہ اندا زہ لگانا دشوار نہیں رہتا کہ آیا ہمارا جدید معاشرہ اسلام کے عمرانی اصولوں پر کھڑا ہے یا نہیں؟ آیا ہمارے موجودہ سماجی و معاشرتی اہداف مادی بنیادوں پر اُستوار ہیں یا روحانی بنیادوں پر ؟ اور سماجی اہداف کو خالصتاً روحانی اور اسلام کے عمرانی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کیلئے مذکورہ عناصر کی سمت اور مقصدیت کیا ہونی چاہیے؟

یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیمات کا ایک بڑا حصہ طالبانِ مولیٰ کیلئے خاص ہے لیکن تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ کی مراد عمومی ہے- مثلاً آپؒ ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ ’’طالب اللہ کیلئے صدق ضروری ہے‘‘- اس میں تخاطب خاص ہے لیکن مراد عموم (پوری انسانیت) ہے کیونکہ صدق ایسی چیز ہے جو نہ صرف طالبِ مولیٰ کیلئے ضروری ہے بلکہ یہ ہر مسلمان کا خاصہ اور ایک سماجی ضرورت ہے -

مزید برآں! تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ کے مطالعے کے دوران چند بنیادی اصطلاحات (جیسے ہوا و ہوس،اللہ بس ماسوی اللہ ھوس وغیرہ) کو سمجھنا اور ذہن میں رکھنا ضروری ہے (کیونکہ ہر صوفی کی کچھ اپنی مخصوص اصطلاحات اور ان سے اخذ کردہ معنی ہوتے ہیں) تاکہ معلوم ہو سکے کونسی اصطلاح کس مقصد اور ضرورت کے تحت باہم مربوط کی گئی ہے-مثلاً جب آپؒ ’’ہوا و ہوس‘‘کی اصطلاح استعمال فرماتے ہیں تو اس سے مراد نفسانی خواہشات اور ہر ایسی برائی ہے جو انسان کو اپنے عظیم مقاصد سے دور کرتی ہے اور اگر یہ ہوا و ہوس کسی معاشرے میں عام ہو جائے تو وہ معاشرہ تباہی کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے- قرآن کریم میں بھی ’’ھویٰ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور تنبیہ کی گئی ہے کہ ھوی (نفسانی خواہشات) کی پیروی مت کرو- اسی طرح آپؒ کے ہاں زندگی، علم، عقل، قلب و روح، نفس اور دین و دنیا کی تعریفات اور مفہوم بالکل مختلف ہے -

٭٭٭


[1](Lawrenson, Diana and Alan Swing Wood, Sociology of Literature, Granada Publishing Ltd. London 1972, 11,12)

[2](فکرِ اقبالؒ کا عمرانی مطالعہ،ڈاکٹر صدیق جاوید، اقبال اکادمی پاکستان ،ص: 13)

[3](ایضاً )

[4](فلسفۂ عمرانیات،ڈاکٹر وحید عشرت،سنگِ میل پبلیکیشنز لاہور،2007، ص:16-17)

[5](ایضاً)

[6](فکرِ اقبالؒ کا عمرانی مطالعہ،ڈاکٹر صدیق جاوید، اقبال اکادمی پاکستان ، ص: 6 )

[7](تصوف اور عمرانی مسائل اقبال کی نظر میں ، ڈاکٹر طالب حسین سیال،اقبال اکادمی پاکستان، 2012، ص: 61)

[8]https://www.cartercenter.org/resources/pdfs/health/ephti/library/lecture_notes/health_science_students/ln_sociology_final.pdf

[9](تصوف اور عمرانی مسائل اقبال کی نظر میں ، ڈاکٹر طالب حسین سیال،اقبال اکادمی پاکستان، 2012، ص: 90)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر