شمس العارفین : قسط 13

شمس العارفین : قسط 13

فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ’’خبردار! بے شک اؤلیائے اللہ پرخوف ہے نہ غم‘‘-ولی اللہ اُسے کہتے ہیں جو رحمت ِالٰہی میں لپٹا ہوا صاحب ِایمان و صدق، صاحب ِتصدیق و یقین اور ’’ لَآاِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کا ذاکر ہو کہ یہ تمام چیزیں ایمان و رحمت کی بنیاد ہیں جو کسی اہل ِایمان ہی کو نصیب ہوتی ہیں اور اِنہی سے ہی بندے کی عاقبت سنورتی ہے اور خاتمہ بالخیر ہوتا ہے- جو شخص دنیا سے ایمان کے ساتھ رخصت ہوا وہ گویا سینکڑوں خزانے سمیٹ لے گیا اور جو بے ایمان ہو کر گیا وہ گویامفلسی کی موت مرا- جان لے کہ ذکر چار ہیں، (1) ذکر ِ زبان، (2) ذکر ِ قلب،(3) ذکر ِ روح اور (4) ذکر ِ سرّ- ذکر ِزبان سے صاحب ِذکر کی زبان تلوار بن جاتی ہے-ذکر ِقلب سے صاحب ِ ذکر کے دل میں محبت ِالٰہی کا ایسا داغ لگتاہے کہ وہ ذکر اللہ کے علاوہ اور کسی چیز سے اُنس و الفت و محبت نہیں رکھتا- اُس کا دل ذکر اللہ سے زندہ ہوکر صاحب ِتصدیق ہو جاتا ہے اور پھر حیات و موت کی کسی بھی حالت میں نہیں مرتا-ذکر ِروح سے صاحب ِ ذکر ہر وقت انبیأو اؤلیا اللہ کی ارواح کا ہم مجلس رہتاہے اور اُسے مجلس ِاہل ِنفس ہر گز پسند نہیں آتی-ذکر ِسرّ سے صاحب ِذکر ظاہر باطن میں ہر وقت تجلیات کا مشاہدہ کرتا رہتاہے جو بارانِ رحمت کی طرح چار سو برستی رہتی ہیں- جب یہ چاروں ذکر کسی پر یک بارگی کھلتے ہیں تو وہ عارف باللہ خاکسار فقیر بن جاتاہے- جان لے کہ جب صاحب ِ تصور حروفِ اسم اللہ ذات کے تصور میں غرق ہوتاہے تو وہ دیکھتاہے کہ ہر حرفِ اسمِ اللہ ذات ساتوں طبقاتِ زمین، تمام افلاک اور عرش و کرسی و لوح و قلم بلکہ دونون جہان سے وسیع تر ہے- پس جب کوئی اِس وسیع مقام میں آجاتا ہے تو وہ صاحب ِمعرفت ِ مطلق توحید ِفنا فی اللہ بقا باللہ اور صاحب ِتجرید و تفرید [1] ہو جاتاہے-جو کوئی حروفِ اسم اللہ ذات میں سے کسی ایک حرف کا بھی محرم ہو جاتا ہے وہ اہل ِذات ہو جاتا ہے اور اُس کا وجود مطلق پاک ہو جاتا ہے- پس جو کوئی حروفِ اسمِ اللہ ذات کے تصور میں محو رہتاہے وہ پاک رہتاہے، اُسے قیامت کے دن محاسبے سے کیا خطرہ؟ فرمانِ حق تعالیٰ ہے :’’ خبردار!بے شک اؤلیا ئے اللہ پرخوف ہے نہ غم‘‘-جو کوئی معرفت ِحروفِ اسمِ اللہ ذات کا محرم ہوجاتاہے اُس پر دنیا و آخرت کی ہر چیز منکشف ہوجاتی ہے ، وہ ایک معروف عارف بن جاتاہے- بظاہر خواہ وہ خلق میں حقیر و خوار نظر آتا ہو لیکن بباطن وہ ہوشیار ہوتاہے اور تمام اہل ِارواح انبیاءو اؤلیاءاور تمام اہل ِ بہشت اُس کے مشتاق ہوتے ہیں- ایسے عارف کو عارف باللہ ذاتِ حروف کہا جاتا ہے-                                                                                             (جاری ہے)


[1]تجرید و تفرید = تجرید یہ ہے کہ سالک ہر ایک مقام سے نکل کر تنہا ہو جائے اور نفس و شیطان سے خلاصی پا جائے، مقامِ حضوری ہر وقت اُس کے سامنے رہے اور وہ منظورِ الٰہی ہو کر نفس ِ مطمئنہ حاصل کرلے- یہ مقام شیطان کی پہنچ سے باہر ہے- تفرید یہ ہے کہ سالک فرد ہو جائے- بظاہر ہر وقت لوگوں میں گھلا ملا رہے لیکن بباطن فردیت و ربوبیت میں غرق رہے- تجرید میں اغیار کی نفی ہے اور تفرید میں اپنے نفس کی نفی ہوتی ہے-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر