تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ کا عمرانی مطالعہ : آخری قسط

تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ کا عمرانی مطالعہ : آخری قسط

تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ کا عمرانی مطالعہ : آخری قسط

مصنف: حافظ محمد شہباز عزیز مارچ 2021

آئیے! اب کتب ِ حضرت سلطان باھوؒ سے چند عمرانی و سماجی پہلؤوں کا جائزہ لیتے ہیں جس میں آپؒ نے حیاتِ انسانی اور سماجِ نو کی تشکیل کیلئے ضروری اور قابلِ عمل عناصر کو تنقیدی و اصلاحی پیرائےمیں بیان فرمایا ہے:

1)     زندگی کی حقیقت:

حضرت سلطان باھوؒ نے زندگی کی حقیقت بیان کرتے ہوئے درس دیا ہے کہ انسان کو اپنی زندگی میں برائیوں اور شر و فساد سےدوری اختیار کرنی چاہیے کیونکہ اس کی عمر محض ایک ہی سانس پر قائم ہے -لیکن عارضی مکرو فریب میں مبتلا انسان جو یہ حقیقت نہیں جانتا وہ اپنی ہوس کی آڑ میں پورے جہان کا طالب بنا بیٹھا ہے -آپؒ فرماتے ہیں:

’’تیری عمر کا گھر ایک ہی سانس پر قائم ہے اور توہے کہ ایک سانس کی خاطر پورے جہان کا طالب بن رہا ہے؟ ایک ہی دم کی خاطر یہ کینہ و کبر و ریا؟ اور ایک ہی دم کی خاطر یہ سب حرص و ہوا؟ ایک ہی دم کی خاطر یہ غصہ و بد خوئی اور ایک ہی دم کی خاطر یہ ساری بے رخی ؟ ایک ہی دم کی خاطر اتنا شر وفسا کہ تیری ہریا وہ گوئی تیرا اجتہاد ہے؟ حیف و افسوس ہے تیری عقل و دانائی پر کہ جس نے تیری حق بین نگاہ کو اندھا کر رکھا ہے‘‘-[1]

اسی طرح آپؒ نے اپنے پنجابی کلام میں انسانی زندگی کو پتاسا سے تشبیہ دی ہے:

عمر بندے دی اینویں وہانی جیویں پانی وچہ پتاسا ھو

آدمی کی عمر پتاسا کی مانند ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے پانی میں گھل کر ختم ہوجاتا ہے( زندگی بھی ایسے ہی تیزی سے ضائع ہوجاتی ہے)-

2)     حب ِّ دنیا کی نفی:

دیگر صوفیائے کرام کی طرح حضرت سلطان باھوؒ نے بھی اپنی تعلیمات میں دنیا کی مذمت کرتے ہوئے ناجائز دنیاوی محبت کی نفی فرمائی ہے اور اسے ہر گز پاک نہ ہونے والی شئے سے تعبیر کیا ہے- آپؒ سماج کے ایسے دنیا داروں (طالبِ دنیا) کی مذمت فرماتے ہیں جو اپنا مال و دولت راہِ حق میں خرچ کرنے کی بجائے اپنے نفس کی تسکین اور دنیا وی عز وجاہ کے حصول کیلئے خرچ کرتے ہیں-

آپؒ کے نزدیک صرف دنیا کی محبت سے اچھا انسان نہیں بنا جا سکتا بلکہ اچھا انسان بننے کیلئے اللہ تعالیٰ کی محبت شرط ہے :

’’دنیا کا طالب بظاہر کتنی ہی شان و شوکت کا مالک کیوں نہ ہو،حقیقت میں وہ کتے سے بھی کمتر ہوتا ہے- اس کا قبلہ آرام، سونا چاندی اور مال و دولت ہوتا ہے اور اس کا کام محض حیوانوں کی طرح کھانا پینا اور سونا ہوتا ہے- وہ گویا غضب و شہوت اور حرص و ہوا سے بھرا ہوا آدمی نما حیوان ہے ‘‘-[2]

’’جو دنیا راہِ خدا میں صرف ہو وہ جنت کی کھیتی ہے اور جو دنیا ہوا و ہوس کے تحت خرچ ہو وہ جہنم کی کھیتی ہے-اے باھوؒ ! خدا کیلئے دنیا کو ترک کر دے تاکہ تو روشن ضمیر ہو کر عارفِ خد ا بن جائے‘‘-[3]

آپؒ’’عین الفقر شریف‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’جو دل حُبِ دنیا کی ظلمت میں گھر کر خطراتِ شیطانی اور ہوائے نفسانی کی آما جگاہ بن چکا ہو اُس پر اللہ تعالیٰ کی نگاہِ رحمت نہیں پڑتی اور جس دل پر اللہ تعالیٰ کی نگاہِ رحمت نہ پڑے وہ سیاہ و گمرا ہو کرحرص و حسد و کبر سے بھر جاتا ہے‘‘-[4]

مزید آپؒ لکھتے ہیں:

’’اسی دنیا کی خاطر آدمی آدمی کی پوجا کرتا ہے اور یہ ناشائستہ عمل ہے جو انسان کو دین سے دور کرتا ہے‘‘-

اسی طرح آپؒ اپنے پنجابی کلام میں دو مختلف مقامات پر فرماتے ہیں-

ایہہ دنیاں رن حیض پلیدی ہر گز پاک نہ تھیوے ھو
ادھی لعنت دنیاں تائیں ساری دنیا داراں ھو
جیں راہ صاحب دے خرچ نہ کیتی لین غضب دیاں مارا ھو

3)     حقیقتِ نفس، پہچان اور اصلاح:

صوفیائے کرام کے معاشرہ شناسی سے متعلق نظریات و افکار میں ’’نفس‘‘ سے متعلقہ حقائق اور حالتوں کو بہت اہمیت حاصل ہے ، کیونکہ ان کے نزدیک اصلاحِ نفس کے بغیر اچھا فرد تیار نہیں ہوتا اور اچھے افراد کے بغیر ایک اچھے سماج کی تشکیل ممکن نہیں، اس لئے اعلیٰ سماجی تشکیل کیلئے نفس کی پہچان اور اصلاح ایک ضروری عمل ہے- حضرت سلطان باھوؒ نے اپنی تعلیمات میں جگہ جگہ نفس کے خصائلِ رذیلہ اور لامتناہی نقصانات سے خبردار کرتے ہوئے نفسانی خواہشات کی بیخ کنی (تزکیہ نفس ) کا درس دیا ہے:

آپؒ فرماتے ہیں:

’’اگر کوئی سیاہ ناگ تیر ی آستین میں گھس آئے تو یہ اُس نفس سے کہیں بہتر ہے جو اِس وقت تیرا ہم نشین ہے- نفس پرور آدمی ہرگز فلاح نہیں پا سکتا- اس نفس کو اسمِ اللہ ذات کی تلوار سے قتل کر دے کہ جو اُسے قتل کرتا ہے وہ نجات پاجاتا ہے‘‘-[5]

نفس حرام خور جلاد کی مثل ہے-حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں :

’’نفس و دنیا و شیطان یہ تینوں کافر ہیں اور حرام خور جلاد کی مثل ہیں‘‘-[6]

آپؒ کے نزدیک اہم معاشرتی برائیاں نفس کی قوت ہیں:

’’نفس کی غذا و قوت کیا ہے؟نفس کی غذا و قوت طمع و حرص و لذتِ مردار ہے‘‘-[7]

اسی طرح نفس کو کتے سے تشبیہ دیتے ہوئے آپؒ اپنے پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:

صورت نفس امّارہ دی کوئی کتّا گلر کالا ھو
ضروری نفس کتّے نوں قیما قیم کچیوے ھو

فرد کو نفس کی مختلف حالتوں سے آپؒ آگاہ فرماتے ہیں :

’’نفس غصے کی حالت میں درندہ ہوتا ہے، گناہ کرتے وقت بچہ ہوتا ہے،فراوانئ نعمت کے وقت فرعون ہوتا ہے،سخاوت کے موقع پر قارون ہوتا ہے، بھوک کی حالت میں دیوانہ کتا ہوتا ہے اور پُر شکم ہوتو مغرور گدھا ہوتا ہے‘‘-[8]

نفس کی پیروی سے سماج میں دشمنی بڑھتی ہے :

’’جن لوگوں نے اپنے نفس کو آباد کررکھا ہے وہ شیطان کے پیرو کار ہیں-وہ خدا کے بھی دشمن ہیں اور اس کے بندوں کے بھی دشمن ہیں‘‘-[9]

معاشرے میں سیاہ دلی کی وجہ نفس کی پیروی ہے :

’’الغرض! یہ جہانِ دنیا دارالفنا ہے جس میں لوگ نفس کی خوشنودی کےلئے نفسانی لذات تلاش کرتے ہیں جن سے دل سیاہ و افسردہ و مردہ ہوجاتا ہے اور وہ حسرت و یاس کی موت مرتے ہیں‘‘-[10]

آپؒ نے اپنی کتاب ’’عین الفقر شریف‘‘ میں نفس سے متعلق ایک خوبصورت تمثیل بیان فرمائی ہے:

’’نفس بادشاہ کی مثل ہے اور شیطان اُس کے وزیر کی مثل ہے-اگر بادشاہ گرفتار ہوجائے تو وزیر اُس سے دُور بھاگ جائے گا-جوشخص نفس کو قید نہیں کرتا وہ احمق ہے‘‘-

اسی طرح آپؒ طالب کو تاکید فرماتے ہیں کہ :

’’اے طالب! تیرے لئے ضروری ہے کہ تو ہر حال میں کارہائے نفس پر نظر رکھ اور اُس کی ہر خواہش کو ردّ کرتا چلا جا‘‘-[11]

نفس کا علاج بتاتے ہوئے آپؒ نے لکھاہےکہ :

’’جو کوئی اپنے نفس کو قتل کرنا چاہتا ہےاسے چاہیےکہ وہ اُسے تصورِ اسم اللہ ذات کی تلوار اور ترکِ ہوا سے قتل کر دے‘‘-[12]

مزید برآں !’’محک الفقر‘‘ میں فرماتے ہیں :

بھلا یہ کیسے پتہ چلے گا کہ نفس مرگیا ہے؟

’’اِس کی نشانی یہ ہے کہ ذاکرِ قلبی کے وجود میں حرص حسد، کبر، طمع اور ہوا باقی نہیں رہتی اور وہ چوں چرا سے مکمل طور پر پاک ہو جاتا ہے-جو آدمی چوں چرا سے نجات پا لیتا ہے اُس کے دل میں خطرات پیدا نہیں ہوتے‘‘-

طریقِ تصوف بھی نفس کی موت کا سبب ہے جس کے ذریعے ہوائے نفس سے نجات ملتی ہے اور آدمی خدا کی طرف رجوع کرتا ہے-آپؒ فرماتے ہیں:

’’علمِ تصوف بندے کو خدا کی طرف کھینچتا ہے اور لذتِ ہوائے نفس سے بیزار کرتا ہے‘‘-[13]

4)     ہوا وہوس:

قرآن مجید میں جن معاشرتی برائیوں کو ردّ کیا گیا ہے ہوا اور ہوس بھی ان میں سے ہیں، اسلامی روایت کے حکمائے اخلاق بالاجماع اس برائی کو سماج میں چند ایک بڑی برائیوں میں شمار کرتے تھے-حضرت سلطان باھوؒ نے اپنی تعلیمات میں اگر کسی چیز کی سب سے زیادہ نفی فرمائی ہے یا جس چیز سے اولادِ آدم ؑ کو باز رہنے کی سختی سے تاکید فرمائی ہے وہ ہوا و ہوس ہے جو تمام سماجی برائیوں کا سبب بنتی ہے- آپؒ نے طلبِ الٰہی کے علاوہ انسان کی خواہشات کو ہوس کانام دیا ہے -جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں:

’’جان لے کہ تیرے لئے اللہ کافی ہے، اللہ کے سوا تیری ہر طلب ہوس ہے‘‘-[14]

سماج میں حسد، تکبر اور ایسی دیگر ناپاکیاں ہوس ہی سے پھوٹتی ہیں :

’’جو دل خانۂ ہوس بن جاتا ہے وہ ہر وقت حرص و حسد اور کبر و غرور سے پُر رہتا ہے اور کمینی دنیا کی خاطر پریشان رہتا ہے‘‘-[15]

اسی طرح ہوس کو شیطانی حجت قرار دیتے ہوئے آپؒ لکھتے ہیں :

’’اس ہوس کو دل سے نکال دے یہ شیطانی حجت و حیلہ ہے اِسے چھوڑ دے اور اپنا رُخ معرفتِ مولیٰ کی طرف کر لے‘‘-[16]

آپؒ ’’کلید التوحید کلاں‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’اے طالب!اِس شرک و ہوا سے باز آجا‘‘-

مزید برآں! آپؒ نے ہوا سے خلاصی پانے کو فرضِ عین قرار دیا ہے:

’’نفس و ہوا سے خلاصی پانا،محبتِ الٰہی میں غرق ہونا اور معرفتِ اللہ تو حید حاصل کرنا فرضِ عین ہے‘‘-[17]

5)     حیاتِ قلبی:

صوفی طریقِ تربیت کے مطابق معاشرہ میں روز مرہ انسانی زندگی کا سکون اس میں ہے کہ دل کی لطافت کو مجروح اور داغدار کرنے والے افعال سے دوری اختیار کی جائے، یہ دوری دل کو زندگی بخشتی ہے-حضرت سلطان باھوؒ نے مردہ دلی کے خطرات کو اس طرح بیان فرمایا ہے:

’’مردہ دل آدمی کا ہر دم شیطان کے پاس جا پہنچتا ہے اور خناس و خرطوم کی طرف سے اس کے دل میں خطرات، وسوسے، وہمات، حرص، طمع، کفر، شرک، ریا، عجب، ہوا اور اِسی قسم کی دیگر ناشائستہ برائیاں پیدا ہوجاتی ہیں جس سے دل مکدور خوار ہوکر مردہ ہوجاتا ہے‘‘-[18]

حیاتِ قلبی کے متعلق آپؒ ارشاد فرماتے ہیں:

’’کیا تو جانتا ہے کہ زندگی قلب کہاں سے حاصل ہوتی ہے؟ زندگی قلب اسے حاصل ہوتی ہے کہ جس کا باطن آباد اور دل مکمل طور پر صاف ہو جائے- جس کا دل زندہ ہو جائے وہ ہوا و ہوس سے پاک ہوجاتا ہے اور وہ ذاکرِ قلبی بن کر ادب و حیا سے زندگی گزارتا ہے-یہ بیل گدھے جیسے احمق انسان نما حیوان زندہ دل کہاں ہوسکتے ہیں کہ یہ سیم و زرّ اور دنیا مردار کے طالب ہیں ‘‘-[19]

روحانی سماج کی تشکیل کیلئے آپؒ تاکید فرماتے ہیں :

’’عقل سے کام لے اور آگاہ رہ کہ سب سے پہلے دل کو غلاظتِ غلیظ سے صاف کر‘‘-[20]

مزید برآں! آپؒ فرماتے ہیں کہ:

’’دانا بن اور یاد رکھ! کہ اپنے دل سے اللہ کی طلب کے سوا ہرچیز کی طلب کو نکال دے‘‘-[21]

6)     سماجی برائیوں کے سدِّ باب میں ذکر اللہ کی اہمیت:

حضرت سلطان باھوؒ نے اپنی تعلیمات میں بے شمار مقامات پر ذکر اللہ(اسم اللہ ذات)کے ان گنت فوائد بیان کیے ہیں جس سے آدمی کے وجود سے برائیاں، خصائلِ بد، ہوا و ہوس اور دیگر خواہشاتِ نفسانی و شیطانی رفع ہوجاتی ہیں:

آپؒ فرماتے ہیں کہ:

’’تصورِ اسم اللہ ذات سے راہِ حضوری کھلتی ہے جو طالب کو حضوری سے مشرف کرتی ہے اور اُس کا باطن نورِ توحید سے معمور ہوجاتا ہے ،اُس کا خاتمہ بالخیر ہوتا ہے اور وہ ہر برائی سے کنارہ کش ہوجاتا ہے‘‘-[22]

مزید آپؒ ’’محک الفقر‘‘میں لکھتے ہیں:

’’دل جب ذکر اسم اللہ میں محو ہو جاتا ہے تو اس میں کبر و کذب اور نفاق و طلبِ دنیا کی صفات مطلق ناپید ہو جاتی ہیں‘‘-

آپؒ ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:

’’تصور اسم الله سے نفس ہوا اور ہوس کو چھوڑ دیتا ہے اور وحدانیت خدا کی طرف رجوع کر لیتا ہے‘‘-[23]

مذکورہ مثالوں کے علاوہ بھی آپؒ نے اپنی کتب میں کئی مقامات پر سماجی برائیوں کے سدّباب کیلئے اسم اللہ کی اہمیت پر زور دیا ہے-

7)     تصور اسم اللہ ذات اور افراد کی تربیّت

ماڈرن لیڈر شپ ڈسکورس میں ’’مائنڈ فُل نِس‘‘ اور ’’فوکس‘‘(mindfulness & focus) کو بڑی اہمیت حاصل ہے سائیکالوجی اور لیڈر شپ کے ماہرین نے بچوں کیلئے ایسے کورسز متعارف کروائے ہیں جن سے بچے کم عمری سے ہی یہ دونوں صلاحیتیں (mindfulness & focus) سیکھ لیتے ہیں- حضرت سلطان باھُوؒ کے نظامِ فکر میں بھی اس پہلو کو بڑی اہمیت حاصل ہے، آپ نے مذکورہ دونوں صلاحیتیں حاصل کرنے کیلئے ’’تصور اسم اللہ ذات‘‘ کی بلا ناغہ مشق کو تجویز فرمایا ہے-

8)     سوشل ڈسپلن کیلئے شریعتِ محمدی () کو لازمی اختیار کرو:

شریعت کی اہمیت اور ناگزیریت سے متعلق آپؒ لکھتے ہیں:

’’تُو اپنے تن پر شریعت کا لباس پہن، شریعت میں کوشش کر، شریعت کی فرمانبرداری کر اور غیر شرع بدعت و نافرمانی سے اجتناب کر اور اِس کے بعد راہِ فقر میں قدم رکھ‘‘-[24]

مزید آپؒ فرماتے ہیں:

’’شریعتِ محمدی(ﷺ) کو ابتداء سے انتہاء تک زیرِ عمل رکھ کہ یہی دین کی بنیاد ہے‘‘-[25]

اسی طرح آپؒ ’’عین الفقر شریف‘‘میں لکھتے ہیں:

’’اگر تو چاہتا ہے کہ حضورنبی کریم (ﷺ) تجھ سے راضی رہیں تو ترکِ دنیا اختیار کر کے شریعت ِ محمدی (ﷺ)کی پاسداری میں کوشش کر‘‘-

9)     عِلم کا اصل مقصود اور علمائے کرام :

عالِم کسی بھی سماج کا اہم ترین حصہ ہوتا ہے جو اپنے علم کی بنا پر سماج کی اصلاح،تربیت اور تعمیر میں اہم کردار ادا کرتا ہے- عالم ایسا ہو نا چاہیے جو علم ِ باطن(معرفت) اور علمِ ظاہر دونوں حاصل کرے تاکہ وہ سماج کی ظاہری تربیت کے ساتھ ساتھ سماج کو اسلام کے روحانی پہلؤوں سے آشنا کرائے-مزید علم کا مقصود دینِ متین کی خدمت ہونا چاہئے نہ کہ دنیاوی لالچ-

حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:

’’پہلے علم حاصل کر پھر اِدھرآ کہ حضورِ حق میں جاہلوں کی کوئی گنجائش نہیں پہلے وہ علم حاصل کر جس کا تعلق معرفتِ حق تعالیٰ سے ہے‘‘-[26]

آپؒ ایک اور مقام پرفرماتے ہیں:

’’علم کو نصیحت اور معرفتِ الٰہی کی غرض سے حاصل کیا جائے‘‘-[27]

 مزید آپؒ نے ان علما ء کو بھی تنبیہ کی ہے جو دین کی بجائے دنیا (ذریعہ معاش) کی خاطر علم حاصل کرتے ہیں یا رشوت و رِیا میں ملوث ہیں :

’’جو عالم علم سے دنیا کا فائدہ اُٹھاتا ہے اُس سے دین کا فائدہ اُٹھ جاتا ہے‘‘-[28]

آپؒ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:

’’علم دین کی خاطر ہے اور دین اللہ کے لئے ہے وہ آدمی عالم ہرگز نہیں جو رشوت و رِیا میں ملوث ہے‘‘-[29]

مزید برآں! آپؒ ’’عین الفقر ‘‘ میں ارشاد فرماتے ہیں:

’’فقیر کیلیے بے ریا ہونا عالم کیلیے بےطمع ہونا اورغنی کے لیے سخی ہونا ضروری ہے‘‘-

10) حقیقی مسلمان کی تعریف:

حضرت سلطان باھوؒ نے اپنی کتاب ’’کلید التوحید کلاں‘‘ میں مسلمان کی جامع تعریف کرتے ہوئے ان عناصر کا ذکر کیا ہے جو ایک حقیقی مسلمان کیلئے ضروری ہیں -

’مسلمان کے چھ حروف ہیں یعنی ’’م، س، ل، م، ا، ن‘‘- حرف ’’م‘‘ سے موافق رحمن و مخالف شیطان، موافق علم و مخالف جہالت، موافق روح و مخالفت نفس، موافق شریعت و مخالف بدعت، موافق فقر و مخالف دنیا و اہل دنیا اور قاطع شہوات و حرص و طمع اور قاطع دیگر اوصاف ناشائستہ- حرف ’’س‘‘ سے سلیم الطبع یعنی صاحب قلب سلیم، صاحب تسلیم و رضا اور خلق خدا سے خوش خلقی سے پیش آنے والا حرف ’’ل‘‘ سے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا ذاکر- حرف ’’م‘‘ سے متکلم نص وحدیث، متکلم علم مسائل فقہ اور متکلم علم توحید تصوف- حرف ’’ا‘‘ سے ارادہ صادق کا حامل صدیق با تصدیق اور حرف ’’ن‘‘ سے نیک نیت، یہ ہے صحیح مسلمان تجھ پر سلام ہو اے مسلمان! جو شخص ان اوصاف سے متصف ہے وہ حق بردار، حق پر جان نثار اور باطل سے بیزار حقیقی مسلمان ہے‘‘-

11)  چند اخلاقی اور سماجی برائیوں سے اجتناب کی تاکید :

حضرت سلطان باھوؒ نے درج ذیل میں چند ایسے برے عناصر کا تذکرہ کیا ہے اور ان سے اجتنا ب کی دعوت دی ہے جو ہمارے موجودہ معاشرے میں تیزی سے پھیلتے جارہے ہیں-

’’گلے تک پُر ہوکر مت کھا کہ تو دیگ نہیں ہے اور زیادہ پانی مت پی کہ تو ریت نہیں ہے‘‘-[30]

یعنی کثرت ِ طعام و شراب بھی آدمی کیلیے صحت نقصان دہ ہے جو حرص کو بڑھاتی ہے- غصہ اور شہوت پرستی نے انسان کو زندگی کی حقیقی لذت سے کوسوں دور کردیا ہے-اس لئے آپ ’’محک الفقر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:

’’غصے اور شہوت کو اپنے پاوں تلے روند ڈال تاکہ تُو زندگی سے صحیح لطف اٹھا سکے‘‘-

جھوٹ ہمارے معاشرے کا وطیرہ بن چکا ہے، اس کی وعید میں آپؒ ’’امیرا لکونین‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’اے جان عزیز!تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ بے شک سچ بولنے سے نجات اور جھوٹ بولنے سے ہلاکت نصیب ہوتی ہے‘‘-

حضرت سلطان باھوؒ حسد جیسی موذی صفت سے متعلق فرماتے ہیں:

’’جس دل پر اللہ تعالیٰ کی نگاہِ رحمت نہ پڑے وہ سیاہ و گمرا ہو کرحرص و حسد و کبر سے بھر جاتا ہے- حسد کے باعث قابیل نے ہابیل کو قتل کر ڈالا، حرص نے حضرت آدم ؑ کو دانہ گندم کھلا کر بہشت سے نکلوادیا اور کبر نے ابلیس کو مرتبہ لعنت پر جا پہنچایا‘‘-[31]

اسی طرح آپؒ ریا کاری سے متعلق فرماتے ہیں:

’’جو شخص ذکرِ الٰہی سے غافل ہوجائے اس کا نفس کفر و ریا میں مبتلا ہو کر فربہ ہوجاتا ہے اور فرمایا گیا ہے:’’ریا کفرسے شدید تر گنا ہ ہے‘‘-[32]

مزید آپؒ نے طاعت و بندگی میں بھی ریاکاری سےمنع فرمایا ہے:

’’طاعت بے ریا ہونی چاہیے کہ با ریا طاعت حجابِ اکبر ہے جو اہلِ طاعت کو قربِ خدا سے دُور کر دیتی ہے‘‘-[33]

اسی طرح آپؒ نے کبر و ہوا سے باز رہنے کی تاکید ان الفاظ میں کی ہے:

’’اپنے دل میں کبر و ہوا کا ذرہ بھی نہ آنے دے کہ کبر سے کبھی کوئی معزز مرتبہ پر نہیں پہنچ سکتا‘‘-[34]

’’انسان جب تک انانیت اور کبر و ہوا سے پاک نہیں ہو جاتا مقامِ طریقت تک نہیں پہنچ سکتا‘‘-[35]

مزید آپؒ حکم ِ قرآنی (سورۃ النور: 30 ) کے تحت شرم و حیا کے متعلق لکھتے ہیں:

’’انسان کو چاہیے کہ وہ خلقِ خدا سے شرم کرے اور اللہ سے ڈرے، جس کا یہ مذہب نہیں وہ اکتسابِ حق سے محروم رہتا ہے‘‘-[36]

شرم و حیا اسلامی سماج کا اہم ترین عنصر بلکہ مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے لیکن بدقسمتی سے اس کی جگہ بے حیائی وبے شرمی نے لے لی ہے اور اب تو آزادانہ خیال کی حامل ایسی تحریکیں بھی جنم لے رہی ہیں جنہوں نے آزادی کے نام پر بےحیائی کو فروغ دینے میں کوئی کسر روا نہیں رکھی-

آپؒ خلقِ خدا سے شفقت کا درس دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’خلق کی ملامت وغیبت اور رنج وآزار سے غمزدہ نہ ہو بلکہ خلقِ خدا کا بار اُٹھا اور خلق کو تکلیف نہ دے کہ اِسی میں نجات ہے‘‘-[37]

اس قول سے سبق ملتا ہے کہ گرچہ خلقِ خدا تمہیں تکلیف بھی پہنچائے لیکن پھر بھی تم پریشان مت ہو بلکہ مخلوقِ خد ا سمجھ کر برادشت کرو یہی عمدہ اخلاق ہے-

حضرت سلطان باھوؒ کا یہ فرمان انتہائی قابلِ غور اور ہماری سماجی حالت کا عکاس ہے:

آپؒ اپنی کتاب ’’امیر الکونین‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’آنکھ کا نہ رونا دل کی سختی سے ہے، دل کی سختی حرام کھانے سے ہے،حرام کھانا کثرتِ گناہ سے ہے،کثرتِ گناہ موت کوبھلا دینے سے ہے، موت کوبھلاناطویل اُمیدوں سے ہے اور طویل اُمیدیں حب دنیا سے ہیں ‘‘-

12) ادب کا فقدان :

حضرت سلطان باھوؒ اپنے پنجابی کلام میں فرماتے ہیں:

تسبی پھری تے دل نہیں پھریا کی لیناں تسبی پھڑ کے ھو
علم پڑھیا تے ادب نہ سکھیا کی لیناں علم نوں پڑھ کے ھو

اس بیت سے درس ملتا ہے کہ فقط تسبی کو حرکت دینے سے دل زندہ نہیں ہوتا بلکہ تسبی کے ساتھ ساتھ دل کوبھی پھیرنا( اللہ کی طرف رجوع ) لازمی ہے-اسی طرح وہ علم بے فائدہ وبالِ جاں ہے جو ادب (اخلاق) نہ سکھائے-

آپؒ ایک اور جگہ فرماتے ہیں:

بے ادباں ناں سار ادب دی گئے ادباں توں وانجے ھُو
جیہڑے تھاں مٹی دے بھانڈے کدی نہ ہوندے کانجے ھُو

جن لوگوں کو ادب (اخلاق ) کی اہمیت کا اندازہ نہیں وہ ادب سے کوسوں دور ہیں کیونکہ مٹی کی برتن کبھی کانچ کے برتنوں کی طرح صاف و شفاف نہیں ہوسکتے-

13) بری صحبت سے اجتناب :

حضرت سلطان باھوؒ اپنے پنجابی کلام میں فرماتے ہیں:

نال کو سنگی سنگ نہ کرئیے کُل نوں لاج نہ لائیے ھو

مذکورہ بند میں صحبتِ طالع (برے لوگوں کی دوستی ) سے اجتناب کی دعوت ہے- ایسا کرنا خاندانی وقار کو داغ دار کرنے کے مترادف ہے-

14) فرقہ وارانہ سوچ کی نفی:

عصرِ حاضر میں دُنیائے اسلام کا بہت بڑا مسئلہ فرقہ وارانہ شدت پسندی اور تکفیر ہے-اختلافِ رائے اور مخالفت میں فرق مٹا دیا گیا ہے ، اختلافِ رائے ہوا کا تازہ جھونکا جب کہ نفرت انگیز مخالفت ایک عذاب ہے- صوفیائے کرام نے ہمیشہ اسبات پہ زور دیا کہ انسان کی تخلیق کا مقصد ، انبیائے کرام کے بھیجے جانے کا مقصد اور نبی آخر الزمان (ﷺ) کی بعثت کا مقصد مد نظر رکھ کر دعوتِ دین دینی چاہئے، لیکن بد قسمتی سے بہت سے لوگ مقصد سے دُور ہو گئے ہیں ، ان کے بارے حضرت سلطان باھوؒ اس طرح فرماتے ہیں -

مذہباں والے لڑ لڑ مردے، اصلی بات نہ کردے ھُو

15) اللہ بس ماسوٰی اللہ ہوس:

سُلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ نے اپنی کتب میں طالبانِ مولیٰ کو نصیحت و تلقین کے طور پر یہ جملہ ’’اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس‘‘ بالتکرار بیان فرمایا ہے-

’’اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس‘‘حضرت سلطان باھُوؒ کا اصل تصورِسماج ہے کہ انسان جو بھی کرے اللہ کیلئے کرے نہ کہ دنیاوی و مادی ہوس کیلئے- یعنی انسان دل سے غیر ماسویٰ اللہ کا خیال بھی نکال دے اور اپنا مطلوب و مقصود فقط محبت ِ الٰہی اور رضائے الٰہی کوبنالے اور اپنی نظر ہمہ وقت وحدتِ حق پر رکھے-حتیٰ کہ عُقبیٰ اور حور وقصور کا عمومی تصوربھی طلبِ الٰہی کے مقابلے میں ادنیٰ ترین شئے ہے کیونکہ اسلام میں تمام عبادات و ریاضات کا اصل مقصد رضائے الٰہی و قربِ الٰہی ہے -

کائنات میں ہر سماج اور انسان کی مختلف منازل اور مقاصد ہوتے ہیں جیسے دنیاوی و مادی نظام میں بادشاہ اپنی بادشاہت،وزیر اپنی وزارت، کسان اپنی کھیتی، ادباء اور شعراء کمالِ سخن کے لئے اپنی تگ و دو اسی جہان تک محدود کر دیتے ہیں- جبکہ اسلامی نظام و اسلامی سماج میں یہی عہدے اور مناصب ایک مختلف سماجی و روحانی اصول کے تحت زمان و مکان کی قید سے بالا تر ایک عظیم مقصد پہ کارفرما ہوتے ہیں جس میں ہر چیز کا محور و مرکز اللہ تعالیٰ کی ذات ہوتا ہے- طلبِ الہیٰ کے علاوہ کسی بھی چیز کی طلب دل میں رکھنا دراصل اسلامی سماج کے روحانی ’Protocols‘ کے خلاف ہے- اسلام کا مدعا بھی یہی ہے کہ ہوس کو ترک کر کے تعلق باللہ قائم کیا جائے-

اسلامی تاریخ میں اہلبیتِ اطہار و صحابہ کرام ؓ جیسی مُتبّرک ہستیاں ہرزمانے کیلئے طلبِ الٰہی اور تسلیم و رضا کا استعارہ ہیں جنہوں نے ایک فلاحی،روحانی اور مثالی سماج کی بنیاد رکھی اور اپنے اعمال، اقوال اور احوال سے ’’اللہ بس ماسوی اللہ ہوس‘‘ کا عملی نمونہ پیش کرتے ہوئے ساری زندگی رضائے الٰہی کی خاطرعملاً وقف کردی -یہاں تک کہ اپنا مال و متاع، عزت و شہرت، شان و شوکت اور رشتہ و بندھن ٹھکرا کر بارگاہِ الٰہی میں سر تسلیمِ خم کردیا اور ایک ہی منہج و مقصد اپنایا کہ قرب و وصالِ الٰہی نصیب ہو- پھر نہ رکھا کبھی غیر  سے کام اور نتیجے میں پایا ’’رضِیَ اللہُ عَنْہُمْ‘‘ُ کا مقام- جب راہ حق میں جہا د کیلئے مال پیش کرنے کا حکم ہوتا ہے تو سیدنا حضرت ابوبکر صدیق ؓ گھر کا سارا سامان رسالتِ مآب (ﷺ) کے قدموں میں نچھاور کردیتے ہیں(یہاں تک کہ ایک سوئی بھی گھر نہ رہنے دی) اور جب پوچھا جاتا ہے کہ گھر میں کیا چھوڑا ہے تو عرض کرتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے سوا کچھ نہیں چھو ڑا- یہ واقعہ عشقِ الٰہی و محبتِ رسول (ﷺ) میں صدق کا کامل معیار اور ماسوی اللہ سے بے رغبتی کی انتہا ہے جس سے ایک منفرد اور آئیڈیل سماج کی تشکیل کا درس ملتا ہے کہ مال و دولت اور رشتوں ناطوں کو بھی رضائے الٰہی کی خاطر وقف کیا جائے -

عصرِ حاضر میں انسانی سماج کے تقاضے بدل گئے ہیں- موجودہ ٹیکنالوجیکل اور سائنسی سماج کے اغراض و مقاصدمیں تغیرات معمول کی بات ہے- اس وقت دنیا میں سماجی سطح پہ سب بڑی تبدیلی یہ رو نما ہوئی ہے کہ انسانیت دانستہ یا نا دانستہ طور پہ’’Wage Slave‘‘ بن کر رہ گئی ہے - سرمایہ کاری کے میدان میں کہیں ڈالرز کے راگ الاپے جاتے ہیں توکہیں ڈالرز کی خاطر انسانیت کا معاشی قتلِ عام کیا جاتا ہے- یہ سب دولت کے انبار لگا کر ہوس کی تسکین کا غیرانسانی مشن ہے جو اشرف المخلوق(انسان ) کو زیب نہیں دیتا- ہوس گیر یہ نظام بظاہر انسانیت کی خیر خواہی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے لیکن اصل میں سرمائے میں اضافے کی حرص اور انسانیت کو معرکۂ کشت و خون میں دھکیل کراپنی خودساختہ حاکمیت کی تکمیل چاہتا ہے- چاہے ورلڈ بینکنگ اینڈ فنانشل سسٹم ہو، سپر مارکیٹ سسٹم ہو یا منی مارکیٹ سسٹم، معیشت ہو یا سیاست، ہر جگہ دولت کی پوجا اور ہوس کی اجارہ داری ہے- حیف وافسوس کہ اپنے اصل مقصد سےغافل انسان ہوس کی اس چکی میں بُری طرح پس رہا ہے جس کے نتیجے میں عالمی سماج تعصب و طبقاطیت، فرقہ واریت و لسانیت، فتنہ و فساد اور انتشار و افتراق کی آماجگاہ بن چکا ہے-

حضرت سلطان باھوؒ کا یہ نظریہ (اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس) انسانی سماج کے معاصر منظر پر درست طور پہ منطبق نظر آتا ہے جو انسان کو ہر لمحہ اپنے اصل مرکز (اللہ تعالیٰ) کی طرف رجوع کی دعوت دیتاہے جبکہ ہوس انسان کو ہمہ وقت اپنے مرکز سے گمراہ کرنے کی سرپٹ کوششوں میں لگی ہے-

مادیت زدہ اور ہوس گیر اس نازک دور میں انسانی سماج کی بقاء کیلیے واحد آپشن ہے کہ وہ ’’اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس‘‘ کا فلسفہ اپنا کر اپنا جینا مرنا اللہ کیلئے وقف کرے،ہوس کو اللہ کی طلب اور محبت و عشق سے تہِ تیغ کرتے ہوئے خدا کا حقیقی بندہ بن جائے اور زمین پر نائبِ خدا کہلانے کا اصلی حقدار ٹھہرے -الغرض! انسان اپنے سماجی رویوّں،سماجی عوامل اور سماج سے متصل ہر پہلو میں ’’اللہ بس ماسوی اللہ ہوس‘‘ کی عملی تفسیر پیش کرے یہی انسانی عظمت کا تقاضا،پیغام ِ محمدی(ﷺ)کا حقیقی مدعا اور تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ کا خلاصہ ہے-

ایک خوبصورت دُعا اور  حکایت:

آخر میں ہم ایک حکایت اور دعاکا تذکرہ کرتے ہیں جو ہماری اخلاقی،سماجی اور روحانی تربیت کاایک خوبصورت معیار رکھتی ہے:

حضرت سلطان باھوؒ بارگاہِ خدا وندی میں التجا فرماتے ہیں کہ:

’’الٰہی! وہ سر نہ دے جو تجھے چھوڑ کرمخلوق کوسجدہ کرے، وہ آنکھ نہ دے جو تجھے چھوڑ کر غیر کو دیکھے، وہ کان نہ دے جو تیرے کلام کو چھوڑ کرغیر کا کلام سنیں، وہ زبان نہ دے جو تیری ثنا چھوڑ کر غیر کی ثنا کرے، وہ قدم نہ دے جو تجھے چھوڑ کر غیر کی طرف اُٹھیں، وہ ہاتھ نہ دے جو تیری بجائے غیر سے دستگیری چاہیں، وہ کمر نہ دے جو تجھے چھوڑ کر غیر کی طاعت میں جھکے، وہ سینہ نہ دے جو تیرے پیار کی بجائے نجاست وغلاظت ِغیر سے بھرارہے اوروہ دل نہ دے جو تیری قربت کے بجائے قربتِ غیر سے معمورہو‘‘-[38]

اسی طرح آپؒ نے اپنی کتاب ’’محک الفقر‘‘ میں ایک خوبصورت حکایت نقل فرمائی ہے جو ابولبشر سیدنا آدم ؑ کی طرف سے اولادِآدم ؑ کو خطاب کی صورت میں ایک گراں بہا نصیحت ہے - حکایت ملاحظہ ہو:

’’حضرت آدم ؑ جب دنیا سے رخصت ہونے لگے تو اپنے بیٹوں سے فرمایا: مجھ سے پانچ سبق سیکھ لو تمہارے کام آئیں گے-1-اللہ کے سوا کسی سے دل نہ لگانا-مَیں نے بہشت سے دل لگایا اور مجھے اُس سے جدا کر دیا گیا-2-عورتوں کے کہنے پر کوئی کام نہ کرنا کہ میں نے حوا کی رائے پر عمل کیا اور وہ مجھے راس نہ آیا -3- اگر تمہارا دل کوئی چیز مانگے تو اُسے مت دو کہ میرے دل نے درخت کا میوہ کھانا چاہا تو میں نے کھا لیا مگر وہ مجھے راس نہ آیا- 4-کوئی کام کرتے وقت کسی سے مشورہ ضرور کر لینا-اگر میں فرشتوں سے مشورہ کر لیتا تو اِس حال کو نہ پہنچتا- 5-اگر کوئی بلاوجہ قسم کھائے تو اُس پر اعتبار نہ کرناکہ ابلیس لعین نے میرے سامنے قسم کھائی تو میں نے اُس پر اعتبار کر لیا پھر جو نقصان مجھے پہنچنا تھا وہ پہنچ کے رہا‘‘-

مذکورہ فرامین حضرت سلطان باھوؒ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ نفس کی بھر پور مخالفت اور ہواو  ہوس کی بیخ کنی، دنیا کی محبت سے کنارہ کشی، سماجی خصائلِ رذیلہ سے نفرت، اپنے تمام افعال و اعمال کا مقصود رضائے الٰہی و عشقِ خاتم النبیین (ﷺ)، علم کے مقصود کا دینی و روحانی تعین اور ذکر اسم اللہ ذات کے ذریعے تمام اخلاقی، سماجی و روحانی بیماریوں کا تدارک کرکے ایک پاکیزہ معاشرہ تشکیل دیا جاسکتا ہے- ایسا معاشرہ جو انسانی فلاح و اصلاح، سماجی انصاف، سماجی اعتدال و توازن، احترامِ آدمیت، اسلام کے عملی تصورِ معاشرت اور روحانی معاشرتی امنگوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچاتے ہوئے اسلام کی ثقافتی روح پروان چڑھا سکے-

مزید برآں! تصوف و عمرانیات کی عصری معنویت کو سمجھتے ہوئے اس میں علمی و عملی پیش رفت کیلئے چند تجاویز پیشِ خدمت ہیں:

تجاویز:

v     عصرِ جدید میں جب دنیا گلوبلائز ہوچکی ہے اور روحانی ترقی کی جگہ مادی ترقی عرو ج پر ہے جس کے نتیجے میں انسان سماجی و اخلاقی برائیوں کے گرداب میں بری طرح پھنس چکا ہے-ایسے میں انسانیت کو اخلاقی انحطاط و روحانی تنزلی سے بچانے کیلئے ایک روحانی سماج کا قیام ناگزیر ہو چکا ہےجس کیلئے اسلام کے عمرانی اور روحانی (تصوف) نظام کا شعور اور تعلیمی سکوپ وسیع کرنا ہوگا-

v     ہمارے تعلیمی نظام میں جہاں عمرانیات سے متعلق دیگر مضامین پڑھائے جاتے ہیں وہیں سماج کے روحانی موضوعات کو بھی نصاب کا حصہ ہو نا چاہیے تاکہ نوجوان نسل کو سماج کے مادہ پرستانہ تصور کی بجائے اس روحانی (حقیقی )تصور سماج کی طرف رغبت دلائی جائے-

v     مزید برآں! عصرِ ی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اگر ہم سماجی سطح پر نئی نئی اختراعات اور انقلاب کے مشتاق ہیں تو اس کے لئے لازم ہے کہ ہم سماجی حقائق جو جدید عمرانیات،قرآن و سنت اور تصوف کے اہم موضوعات کو مدِنظر رکھتے ہوئے فرد اور معاشرے کو جدید زاویہ نگاہ سے دیکھیں،پر کھیں اور ایسے مثبت اہداف کے حصول کیلئے مستقل لائحہ عمل تشکیل دیں جو فرد کی عملی تربیت، سماجی تطہیر، تعمیر و ترقی، خوشحالی اور دوام کیلئے ناگزیر ہوں-

v     فرد کی شخصیت میں سماجی ذمہ داری کا احساس اجاگر کرنےاور تمام سماجی و معاشرتی برائیوں اور جرائم پر قابو پانے کیلئے روحانی فکراور تعلیمات کے از سرِنو اجراء کی ضرورت ہےجس کیلئے سماجی شعور(Civic Sense) کی طرح روحانی شعور (Spiritual Sense) کو اجاگر کرنا ہو گا جو اپنے اندر انسانیت کی بھلائی ، فرد کی ظاہری و باطنی تربیت اور حقیقی تصورِ معاشرت تھامے ہوئے ہے-

٭٭٭


[1](نُورالہدٰ ی:ص:105-106)

[2](نور الہدیٰ شریفٰ ،ص: 103)

[3](نور الہدیٰ شریف شریفٰ ، ص :105)

[4]( ایضاً )

[5](نُورلہدیٰ:ص :107)

[6](عین الفقر شریف، ص :135)

[7](امیر الکونین ،ص:199)

[8](عین الفقر شریف،ص:141)

[9](عین الفقر شریف ،ص:149)

[10](امیرالکونین ،ص:291)

[11](عین الفقر شریف،ص:139)

[12](امیر الکونین،ص:401)

[13](عقلِ بیدار شریف، ص : 79)

[14](محک الفقر، ص:227)

[15](عین الفقر شریف،ص: 41)

[16](عقلِ بیدار شریف، ص : 283)

[17](نور الہدیٰ شریف،ص:555)

[18](نور الہدیٰ شریف،ص:205)

[19](نور الہدیٰ شریف،ص:547)

[20](امیرا لکونین ،ص:157)

[21](امیرالکونین ، ص: 196-197)

[22]( کلید التوحید کلاں،ص:329)

[23]( نُور الہدىٰ، ص: 203)

[24](امیر الکونین ،ص:243)

[25]( محک الفقر ، ص: 279)

[26]( محک الفقر ،ص: 71)

[27]( امیرالکونین ،ص:71)

[28]( عین الفقر شریف، ص : 329)

[29](محک الفقر، ص : 221)

[30]( نورلہدیٰ،ص:539)

[31](عین الفقر شریف،ص: 41)

[32]( کلید التوحید کلاں،ص:409)

[33]( عقلِ بیدار شریف: ص 141)

[34]( اسرار القادی ،ص:65)

[35]( محک الفقر، ص : 08)

[36]( محک الفقر ، ص : 173)

[37]( امیرالکونین ، ص:81)

[38]( عقل ِبیدار ، ص: 51-52)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر