عاشِق عِشق ماہی دے کولوں نِت پھِرن ہمیشاں کھیوے ھو
جِنہاں جِیندیاں جاں ماہی نوں ڈِتی اوہ دُوہیں جہانیں جِیوے ھو
شمع چراغ جِنہاں دِل روشن اوہ کیوں بالن ڈِیوے ھو
عَقل فِکر دی پہنچ نہ کائی باھوؒ اوتھے فانی فہم کچیوے ھو
Aashiq roam absorbed in the ishq of beloved Hoo
Remain alive in both worlds those who presented their soul in life to beloved Hoo
Why should they kindle lamp in whose heart light is bright Hoo
Beyond reach of Intellect and thought Bahoo annihilate intellects flight Hoo
Aashiq ishq mahi day kolo’N nit phiran hmesha’N kheway Hoo
Jinha’N jendia’N jind mahi no’N ditti ohh dohai’N jahanai’N jeway Hoo
Shama chiragh jinha’N dil roshan ohh kiyo’N balan Deway Hoo
Aql fikr di pohanch na kai Bahoo othay fani faham kacheway Hoo
تشریح:۔
باھُوؒ! مرشد انِ واصلان عشق سوز |
|
ہر ساعتی ہر دم بسوزد شب و روز |
’’اے باھُوؒ ! واصل باللہ مرشد عشق سوز ہوتے ہیں جو ہر وقت، ہر گھڑی اور ہر دم سوزِ عشق میں جلتے رہتے ہیں‘‘-(عین الفقر)
بے قراری وسرمستی’’ عشقِ مصطفٰے (ﷺ)‘‘کا ہی نتیجہ ہوتی ہے اورجن لوگوں کی رگ وپے میں عشق ِ حقیقی سما جاتاہے وہ اپنے محبوب کے عشق میں ہمیشہ سرمست وسرگرداں رہتے ہیں جیساکہ حضور سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ ارشاد فرماتے ہیں :
’’بے قراری غضب کی ہے اور عشق پر زور نہیں ،عاشق کو مرے بنا تسکین نہیں - جو عاشق جامِ عشق سے مست ہوا اُسے مرکر بھی آرام نہ ملا‘‘-(نور الھدٰی)
آپؒ خود اپنے بارے میں ارشادفرماتے ہیں :
’’ فقر کی ابتدا و انتہا مجھ پر ختم ہو چکی ہے اور سوزِ عشق سے میرے وجود میں نفس جل کر راکھ ہو چکا ہے‘‘- (اسرار القادری)
2: ’’طالب اللہ پر فرضِ عین ہے کہ وہ دین و دنیا کا کوئی کام بھی مرشد کے حکم واجازت کے بغیر ہرگز نہ کرے اور اپنا ہر اختیار مرشد کے حوالے کرکے خود بے اختیار ہو جائے‘‘-(نور الھدٰی)
آپؒ طالب اللہ کو نصیحت اور اپنی کیفیت مبارک بیان فرماتےہوئے رقمطراز ہیں:
’’اِس علم کو اپنے دل سے دھو ڈال اور پورے شوق سے اسم اَللّٰہُ ذات کو وِردِ جان بنالے تا کہ تُو وحدتِ حق کی ندی بن جائے- مَیں اپنی جان محبوب کے حوالے کر چکا ہوں کہ مَیں اُس کے عشق کا پروانہ ہوں، اپنی جان سے بیگانہ ہوں ‘‘- (عین الفقر)
3: ’’ظاہری جسم کے اندرایک باطنی جسم پنہاں ہے جو نور ِذات سے روشن ہے، جو کوئی اُس روشن جسم کی نمو کر لیتا ہے وہ صاحب ِنظر بن کر ہر وقت دیدار ِذات کی لذت میں غرق رہتا ہے‘‘- مزید ارشادفرمایا : ’’ معرفت ایک نور ہے، اسرار ِ اِلٰہی کا نور ،اِسی نور ہی سے تو یہ جہان روشن ہے‘‘ -(عقلِ بیدار)
جب اللہ پاک کسی کے دل کوعشقِ مصطفٰے(ﷺ)سے روشن فرمادیتاہے تو وہ اب ظاہری چک وچوندسے بے نیاز ہوجاتاہے-دل کے چراغ کو روشن کرنے کا طریق بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا:اسمِ اللہ ذات کی تاثیر سے دل روشن ہوتاہے اور طالب اللہ کے وجود میں ایسا لامتناہی و لاریب ہدایت بخش علمِ غیب الغیب پیدا ہو جاتا ہے جو فیض و فضل کا نعم البدل اور عطائے الٰہی ہوتاہے‘‘-(کلید التوحید کلاں)
جس خوش نصیب کے دل میں یہ چراغ روشن ہوجائے اس کو آپؒ یوں نصیحت فرماتے ہیں:
’’جان لے کہ شوق و محبت ِالٰہی ایک روشن چراغ ہے اور رجوعاتِ خلق اور کشف و کرامات آندھی ہے- جس نے محبت ِالٰہی کے اِس چراغ کو خانۂ شریعت میں محفوظ نہ رکھا تو یہ بجھ جائے گا، آندھی اِسے بجھا دے گی اور اِس کی روشنی برباد ہو جائے گی‘‘-(نور الھدٰی)
4: ’’حضوری ٔ حق سے مشرف کرنے والا علمِ وصال اور چیز ہے اور عقل و شعور کو جِلا بخشنے والا علم اور چیز ہے‘‘ -(عقلِ بیدار)
مزید ارشادفرمایا :
’’معیت ِ ذاتِ حق کا یہی وہ دائمی اِستغراق ہے جو عارفانِ حق تعالیٰ کا مقصودِ کلی ہے بلکہ اِس مقام پر تو توجہّ و تفکر و دلیل و عقل و وہم و خیال و مراقبہ اور ظاہری علم وغیرہ تمام حجابات ہیں‘‘-(محک الفقر کلاں)
’’فقر قدرت ِربّانی کا ایک راز ہے جس کی شرح کا دفتر دل ہے نہ کہ دفاتر ِکتب- جہاں فقر ہے وہاں علم ہے نہ دانش و مطالعہ ہے نہ عقل و شعور ہے نہ وہم و خیال ہے اور نہ ذکر مذکور ہے- وہاں نورٌعلیٰ نور ہے جہاں پر طالب بشوق مسرور ہے- اِس مقام پر ابتدأ و انتہا ایک ہے- اِس مقام پر فرحت ِروح اور صفائے قلب ہے‘‘-(عقلِ بیدار)