عاشق دی دِل موم برابر مَعشوقاں وَل کاہلی ھو
طَاماں ویکھے تُر تُر تکّے جِیوں بازاں دی چَالی ھو
باز بے چارا کیونکر اُڈے پیریں پیوس دوالی ھو
جَیں دِل عِشق خَرید نہ کِیتا باھوؒ دوہاں جہانوں خالی ھو
Aashiq’s heart is like wax, which anxiously melts for beloved Hoo
With the characteristic of hawk he concentrates his feed Hoo
How could helpless hawk fly he has string tied to his feet Hoo
Such heart that didn’t purchased ishq Bahoo will remain in both worlds as empty defeat Hoo
Aashiq di dil mom barabar mashooqaa’N wal kahili Hoo
Tamaa’N wekhay tur tur takkay jeou’N bazaa’N di chali Hoo
Baz bay chara kiyonkar udday peree’N peous dawali Hoo
Jai’N dil ishq khareed na kita Bahoo dohaa’N jahanoo’N khali Hoo
تشریح:
-’’عاشق بے چارے کی جان خیالِ یار میں اٹکی رہتی ہے اِس لئے وہ ہر وقت عشق و محبت کے ترانے گاتا رہتا ہے‘‘-(عین الفقر)
اس مصر ع میں سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ عاشق کی کیفیت کو بیان فرماتے ہیں کہ اس کا دل موم کی طرح ہوتا ہے جو حرارتِ عشق سے پگھلتا رہتاہے اور وہ اپنے معشوق کے وصال کو جلدی حاصل کرنے کا خواہشمند ہوتاہے -اسی چیز کو آپؒ نے ایک مقام پہ یوں بیان فرمایا ہے:
’’فقیر کا وجود ایک لطیفہ ہے جو خاکِ عشق سے پیدا ہوتا ہے، اُسے معشوق کی ذات کے بغیر قرار نہیں آتا ، جب تک اُسے معشوق نظر نہ آجائے وہ ازل سے ابد تک اُس کے شوق میں سر گردان رہتا ہے‘‘-(عین الفقر)
2-3: ان دو مصرعوں میں عاشق صادق کو ’’باز‘‘سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح باز کے سامنے دور گوشت رکھ دیا جائے تو وہ گوشت حاصل کرنے کی شدید خواہش کے باوجود حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتا،کیونکہ اس کے پاؤں میں ایک مضبوط ڈوری بندھی ہوتی ہے اسی طرح عاشق بھی اپنے محبوب کی ملاقات ودیدار کی شدید خواہش رکھتاہے لیکن شیطان کے بچھائے ہوئے جال اس کی راہ میں حائل ہیں - جیساکہ آپؒ ارشادفرماتے ہیں:
’’شروع میں جب طالب اللہ تصورِ اسمِ اَللّٰہُ کے شغل میں محو ہوتا ہے تو ابلیس علیہ اللعنت ہنستا ہے اور اُس کے سامنے ہر قسم کی حجت و دلیل ِنفسانی اور زینت ِ دنیائے شیطانی پیش کرتا ہے اور شروع سے آخر تک معرفت ِالٰہی کی راہ میں اُس کے سامنے ہزاراں ہزار قسم کے حجابات کھڑے کرتا ہے‘‘-(محک الفقرکلاں)
مزید ارشادفرما یا:’’ تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ شیطان آدمی کا پکا دشمن ہے اور یہ ہر وقت آدمی کے ساتھ اِس طرح نتھی رہتا ہے جس طرح کہ دم جان کے ساتھ‘‘-(محک الفقرکلاں)
طالب ومطلوب کے درمیان حائل موذی دشمن کی حقیقت اور ا س کو ہٹانے کا طریق بتاتے ہوئے حضور سلطان العارفینؒ ارشادفرماتے ہیں:
’’جان لے کہ دیدارِ الٰہی اوراہل ِدیدار کے درمیان کوئی پتھر یا پہاڑ یا دیوار حائل نہیں ہوسکتی بلکہ دیو نفس حائل ہوتاہے جو پتھر اور دیوا ر سے بھی سخت تر حجاب ہے اور جس کا مارنا بے حد مشکل و دشوار ہے- مرشد ِکا مل سب سے پہلے اِسی دیو ِخبیث، مصاحب ِ ابلیس کو تصورِ اسم اللہ ذات کی تلوار سے قتل کرتا ہے اور جب یہ دیو نفس مرجاتاہے تو بندے اور ربّ کے درمیان سے بیگانگی کا پردہ ہٹ جاتاہے اور بندہ ہر وقت بلا حجاب دیدارِ پروردگار کرتا ہے‘‘-(نورالھدٰی)
4: ’’جس دل میں محبت ِالٰہی نہیں وہ آتش ِدوزخ میں جلے گا- آتش ِدوزخ اُسی کو جلائے گی جو آتش ِعشق میں نہ جلا ہو گا‘‘-(عین الفقر)
اس بیت مبارک میں دراصل طالب ومطلوب کی اس کیفیت کو بیان کیا گیا ہے جب طالب اپنے انتہائی طلب کے باوجود راستے کی حائل رکاوٹوں(نفس وشیطان وغیر ہ) کی وجہ سے اپنا مقصود (وصال)حاصل نہیں کرپاتاہے،لیکن اگر عشق اس کا ہمراہ بن جائے تو طالب کی دوری، حضوری میں بدل جاتی ہے ،جیساکہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) کا فرمان مبارک ہے:’’عشق ایک آگ ہے جو محبو ب کے سوا ہر چیز کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے ‘‘ -(عین الفقر)
اب سوال پید اہوتا ہے کہ عشق کا حصول کس طرح ممکن ہے ؟عشق کے حصول کا طریقہ بتاتے ہوئے آپؒ ارشادفرماتے ہیں :
’’عشق کی چھت بہت بلند ہے، اُس پر پہنچنے کے لئے اسم اَللّٰہُ ذات کی سیڑھی استعمال کر جو تجھے ہر منزل و ہر مقام بلکہ لامکان تک پہنچا دے‘‘-(عین الفقر)
مزید اپنے عارفانہ کلام میں ارشادفرمایا :
جِس دِل اِسم اللہ دا چمکے عِشق بھی کردا ہلّے ھو |