شمس العارفین : قسط 15

شمس العارفین  :   قسط  15

جو شخص دریائے توحید کے کنارے پر پہنچ کر نورِ الٰہی کا مشاہدہ کرلیتاہے وہ عارف باللہ ہوجاتا ہے اور جنہیں حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام پکڑ کر اپنے دست ِمبارک سے دریائے وحدت میں غوطہ دے دیتے ہیں وہ غواصِ توحید ہوکر مرتبۂ فنا فی اللہ پر پہنچ جاتے ہیں- دریائے توحید میں غوطہ زن ہونے سے بعض طالب تو سالک مجذوب ہو جاتے ہیں اور بعض مجذوب سالک اہل ِتوحید ِذات ہوجاتے ہیں- اہل ِدرجات مراتب ِذات سے محجوب رہتے ہیں- جو شخص لامکان میں پہنچ کر دریائے توحید کے نور کا مشاہدہ کرلیتاہے، اُس کو بیان نہیں کرسکتا کہ لامکان غیر مخلوق ہے اور اُس کی مثا ل نہیں دی جاسکتی کیونکہ وہاں نہ تو دنیا ئے گندگی کی بدبُوکا گزر ہے اور نہ ہی ہوائے نفس کی گنجائش ہے، وہاں تو ہر وقت استغراقِ بندگی ہے- لامکان میں شیطان کے داخلے کا امکان ہی نہیں ہے- الغرض لامکان کے اندر فرمانِ الٰہی:’’فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْافَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ‘‘[1]کے مصداق تُو جدھربھی دیکھے گا تجھے نورِ توحید ہی نظر آئے گا- معرفت ِتوحید اور قربِ حضور کے یہ مراتب صرف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رفاقت اور شریعت و کلمہ طیب  ’’ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘کی برکت سے حاصل ہوتے ہیں-  یہ راہِ لامکان تحقیق ہے، اِس میں شک کرنے و الا زندیق ہے- اے عزیز!جب تک طالب کے وجود کا برتن چار قسم کے ذکر، چار قسم کے مراقبے اور چار قسم کے فکر سے پک کر پختہ نہیں ہوجاتا وہ مجلس ِ محمدی (ﷺ)  کی حضوری کے لائق نہیں ہوتا-پہلا ذکر ذکر ِزوال ہے ، جس کے شروع کرتے ہی ادنیٰ واعلیٰ ہر قسم کی مخلوق ذاکر کی طرف رجوع کرتی ہے اور بے حدوبے شمار لوگ اُس کے طالب مرید بنتے ہیں- جب یہ ذکر اختتام کو پہنچتاہے تو تمام طالب مرید اُس سے برگشتہ ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری اِس ذکر فکر سے ہزار بار توبہ ہے- صرف وہ طالب مرید ارادت میں برقرار رہتاہے جو انتہا پر پہنچ کر معرفت ِ الٰہی حاصل کر چکا ہو- دوسرا ذکر ذکر ِکمال ہے جس کے شروع کرتے ہی فرشتے ذاکر کی  طرف رجوع کرتے ہیں - فرشتوں کے لشکر اُس کے گرد جمع ہوجاتے ہیں اور کراماً کاتبین اُسے نیک و بدسے آگاہ کرکے گناہوں سے باز رکھتے ہیں- جب یہ ذکر ختم ہوتاہے تو تیسرے ذکر ذکر ِوصال کی باری آجاتی ہے جس کے شروع کرتے ہی ذاکر کو باطن میں مجلس ِانبیا ءو اؤلیاءاللہ کی حضوری حاصل ہوجاتی ہے- جب یہ ذکر ختم ہوتاہے تو چوتھے ذکر ذکر ِاحوال کا آغاز ہوتاہے- ذکر ِ احوال شروع کرتے ہی ذاکر کو تجلیاتِ نورِ ذات کا مشاہدہ اور مرتبۂ فنا فی اللہ بقا باللہ حاصل ہوجاتاہے - جب طالب اِن چاروں اذکار سے گزرجاتاہے تو مجلس ِمحمدی (ﷺ)کی حضوری کے لائق ہو جاتا ہے-

(جاری ہے)


[1]پس تُو جدھر بھی دیکھے گا تجھے اللہ کا چہرہ ہی نظر آئے گا-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر