حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرّہ کی عربی دانی کا تذکرہ :
گزشتہ ماہ ’’بہ زبانِ باھُو‘‘ کے سلسلہ میں حضرت سلطان باھُوقدس اللہ سرّہ کی تعلیم و تربیت کا تذکرہ ہوا جس میں آپ کی کتب کے بارے میں بھی آپ کے فرمودات ذکر کئے گئے- پھر اس موضوع پر بھی گفتگو ہوئی کہ آپ قدس اللہ سرّہ کی تمام کتب فارسی زبان میں ہیں لہٰذا ان کتب کو سمجھنے کے لیے فارسی زبان باقاعدہ سیکھنا ہوگی-
بلاشبہ آپ نے ایک سو چالیس کے قریب کتب اپنے دَور کی مروجہ رسمی زبان، فارسی میں لکھی ہیں لیکن ان کتب کا بغور جائزہ لیں تو تمام کتب میں کثرت سے آیاتِ قرآنیہ، احادیثِ قدسیہ، احادیثِ مبارکہ اور فرمودات و امثال بمع عربی عبارات مرقوم ہوئی ہیں اور اہم بات یہ کہ یہ تمام عبارتیں آپ کی کتب میں آپ کے خلفائ، کاتبین یا بعد میں نسخہ جات کے ناقلین علمائ و مشائخ کی ترامیم نہیں ہیں بلکہ یہ آپ کی خود نوشتہ یا خود خواندہ ہیں جس سے یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ آپ قدس اللہ سرّہ اُمّی ہونے کے باوجود جہاں فارسی زبان میں مہارت رکھتے تھے وہاں آپ قدس اللہ سرّہ کو عربی زبان پر بھی عبور حاصل تھا- لہٰذا آپ قدس اللہ سرّہ کے کتب کی تفہیم کے سلسلے میں جتنی فارسی میں مہارت ضروری ہے اس سے بڑھ کر عربی زبان سے آشنائی بھی لازم و ملزوم ہے-
قرآن و احادیث پر آپ قدس اللہ سرّہ کو جس قدر دسترس حاصل تھی اس کا اظہار تو آپ فرما چکے، اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ آپقدس اللہ سرّہ نے اپنی تمام کتب میں جس کثرت سے آیاتِ کریمہ، احادیثِ مبارکہ اور اقوال و امثال ذکر فرمائے ہیں ان کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی تمام کتب میں فارسی متن کی حیثیت قالب کی سی ہے اور ان میں عربی عبارات روح کا درجہ رکھتی ہیں-بہ طورِ دلیل آپ قدس اللہ سرّہ کی ایک سو چالیس کتب میں سے آپ کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی ، سب سے زیادہ چھپنے والی اور مدارس، خانقاہوں اور گھروں میں سبقاً پڑھائی جانے والی کتاب ’’عین الفقر‘‘ کی مثال پیشِ خدمت ہے؛
’’عین الفقر‘‘ جو کہ ’’العارفین پبلی کیشنز‘‘ کے زیرِ اہتمام ۳۹۹۱ئ میں پہلی بار شائع ہوئی اور اپریل ، ۵۱۰۲ئ تک کے بائیس ﴿۲۲﴾ سالوں میں الحمد للہ اٹھائیس ﴿۸۲﴾ بار شائع ہو چکی ہے، اس کے فارسی متن اور اردو ترجمہ کے مجموعی تین سو چونسٹھ ﴿۴۶۳﴾ صفحات ہیں- ان میں سے ایک سو بیاسی ﴿۲۸۱﴾ اردو کے صفحات نکال دیں تو باقی ایک سو بیاسی ﴿۲۸۱﴾ فارسی متن کے صفحات پر کم و بیش تین سو تئیس ﴿۳۲۳﴾ عربی عبارات ہیں جن میں آیاتِ قرآنیہ کی تعداد ایک سو اکیس ﴿۱۲۱﴾ ہے، احادیث قدسیہ کی تعداد بائیس ﴿۲۲﴾ ہے، احادیث یا حدیث کے عنوان سے چوبیس ﴿۴۲﴾ عربی عبارات ہیں، ﴿قال علیہ الصلوۃ و السلام﴾ کے عنوان سے ایک سو چوّن ﴿۴۵۱﴾ احادیثِ مبارکہ الگ سے ہیں اور دو عدد فرموداتِ مولیٰ علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے ہیں- ان تین سو تئیس ﴿۳۲۳﴾ عربی عبارات کو اگر ایک سو بیاسی ﴿۲۸۱﴾ صفحات پر تقسیم کریں تو فی صفحہ پونے دو عربی عبارات بنتی ہیں- کہنے کا مطلب یہ ہے تقریبا آپ کے فارسی متن کا کوئی صفحہ بھی قرآن و احادیث یا فرمودات سے خالی نہیں رہتا -
یہ آپ قدس اللہ سرّہ کی ایک کتاب ’’عین الفقر‘‘ میں عربی عبارات کے اعداد کو پیش کیا گیا ہے باقی تقریبا ہر کتاب میں عربی عبارات کی یہی صورتِ حال ہے- اس لیے بلا تردّد یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر آپ کے دور میں رسمی زبان فارسی کی بجائے عربی ہوتی تو یقینا آپ کی یہ تمام کتب اعلیٰ اور موزوں فنی فارسی نثر کی طرح ایک عمدہ عربی متن میں ہمارے سامنے موجود ہوتیں-
آپ قدس اللہ سرّہ کو عربی زبان سے از حد لگائو تھا- اسی لیے آپ نے اپنی بیشتر کتب کے نام بھی عربی زبان میں رکھنا پسند فرمائے جیسے :-
عین الفقر ﴿فقر کا چشمہ یا فقر کی آنکھ﴾
مجالسۃ النبی ﴿نبی اکرم ﷺ کی مجلسیں یا محفلیں﴾
رسالہ روحی ﴿روحانی کتابچہ﴾
امیر الکونین ﴿دونوں جہانوں کے بادشاہ﴾
نور الھدیٰ ﴿ہدایت کی روشنی﴾
اَسرار القادری ﴿قادری راز و رموز﴾
مِحَکُّ الفقر ﴿فقر کی کسوٹی﴾
فضل اللقائ ﴿ملاقات کی فضیلت﴾
مفتاح العارفین ﴿اللہ کو پہچاننے والوں کے لیے چابی﴾
توفیق الہدایت ﴿ہدایت کی توفیق﴾ وغیرہ---
علاوہ ازیں آپ نے اپنی تمام کتب کو عربی خطبات سے شروع فرمایا ہے- یہ عام طور پر ہر دَور میں رائج رہا ہے لیکن آپ نے اپنی بعض کتب میں بڑے اہتمام سے عربی آیات اور کلمات سے اپنے خطبہ کو رونق بخشی- مثلا ’’عقلِ بیدار‘‘ کو شروع کرنے سے پہلے فرماتے ہیں:-
﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ھُوَ الْحَیُّ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ فَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ ﴿المؤمن ۵۶ ﴾ ﴿ذٰ لِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اَنَّ الْکٰفِرِیْنَ لَا مَوْلٰی لَھُمْ﴾ ﴿ محمد ۱۱ ﴾﴿وَ الْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ﴾ ﴿الاعراف ۸۲۱﴾ ﴿وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْ تِیَکَ الْیَقِیْنُ﴾ ﴿الحجر ۹۹﴾ و نعتِ متبرکاتِ نبی الحیات، محمد رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وآلہٰ وسلّم ﴿ھُوَالَّذِ یْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہ، بِالْہُدیٰ وَ دِیْنِ الْحَقِّ﴾ لَآ اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ﴿وَ جَآئَ ھُمْ رَسُوْلٌ کَرِیْمٌ اَنْ اَدُّوْآ اِلَیَّ عِبَادَ اللّٰہِ اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ﴾ ﴿الدخان:۷۱، ۸۱﴾ قابَ قوسین عظیم شانِ او، فنا فی اللّٰہ لامکان نور بحضور جانِ او، احمدِ مجتبٰی محمدِ مصطفٰی صلّی اللّٰہ علیہ و آلہٰ و سلّم و اصحابہٰ و اہلِ بیتہٰ اجمعین- امّا بعدُ! میگوید مصنّفِ تصنیفِ بی تالیف---
’’تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس کی ذات دائم زندہ ہے ، نہیں ہے کوئی معبود سوائے اُس ذات کے- پس اُسی کو پکارو دین میں مخلص ہو کر- تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو پروردگار ہے دونوں جہان کا -فرمانِ حق تعالیٰ ہے:- ﴿۱﴾ ’’یہ اِس لئے ہے کہ مؤمنین کا مولیٰ اللہ ہے اور کافروں کا مولیٰ کوئی نہیں‘‘- ﴿۲﴾ ’’اور عقبیٰ کے تمام انعامات متقین کے لئے ہیں‘‘- ﴿۳﴾ ’’اور عبادت کرو اپنے ربّ کی حق الیقین کی حد تک‘‘- اور تمام متبرک نعمتوں کا ہدیہ پیش ِخدمت ہے صاحب ِحیات نبی ٔپاک حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٰ و سلم کی بارگاہ میں کہ جن کی شان میں فرمانِ حق تعالیٰ ہے - ﴿۱﴾ ’’اللہ وہ ذاتِ پاک ہے کہ جس نے اپنے رسول کو ہدایت و دینِ حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے‘‘- اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور حضرت محمد اللہ کے سول ہیں - ﴿۲﴾ ’’اور اُن کے پاس ایک نہایت ہی کریم رسول آیا اور اُس نے کہا کہ اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کر دو ، بے شک مَیں ایک امانت دار رسول ہوں‘‘-مراتب ِقابَ قوسین پر تصرف اُن کی عظیم شان ہے ، مراتب ِفنا فی اللہ اور لامکان میں نورِ حضور کا اِستغراق اُن کی جان ہے - بے حد و بے شمار درود و سلام ہوں احمد ِمجتبیٰ ، محمد ِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہٰ و سلم پر ، اُن کے اہل ِبیت پر اور اُن کے تمام اصحاب پر-اِس کے بعد اِس تصنیف ِبے تالیف کا مصنف کہتا ہے کہ---‘‘
اس ایک خطبہ سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ آپ کو عربی زبان سے کس قدر قلبی شغف تھا ، اِس میں شاید یہ بات ذہن میں آئے کہ خطبہ کا عربی دانی سے کیا تعلّق ہے ؟ تو علمِ فصاحت کو سمجھنے والے یہ جانتے ہیں کہ خطبہ کو نئے انداز میں معانی ، مفہوم ، نغمگیّت اور الفاظ کے حُسنِ انتخاب سے وہی شخص مزین کر سکتا ہے جو عربی زُبان میں قدرت و مہارت رکھتا ہو - آپ کی تصانیفِ عالیّہ کے ابتدائی رسمی عربی خطبات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کی عربی زبان پر کس قدر مہارت تھی جس سے اہلِ زبان حیران رہ جائیں- یہی بات ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرّہ نے اپنے زمانے کی عربی و فارسی کتب کا بڑی باریک بینی سے مطالعہ فرمایا ہے اور چونکہ آپ ہمیں بھی اپنی کتب کے مطالعہ کی دعوتِ عام دے رہے ہیں تو یقینا عوام کو آپ کی کتب کی تفہیم کے لیے جہاں فارسی زبان سیکھنا ہوگی وہاں عربی زبان میں بھی مہارت لازمی ہے- گویا آپ قدس اللہ سرّہ کی تعلیمات میں جو ظاہری و باطنی علوم کا امتزاج پایا جاتا ہے اس تک بلاواسطہ رسائی کے لیے جہاں راہِ سلوک اختیار کرنے کی ضرورت ہے وہیں ان دونوں زبانوں سے کامل آشنائی بھی لازم ہے- بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ عربی آیات اور احادیث کی ہی تفہیم کے لیے آپ نے فارسی متن کا انتخاب فرمایا اسی لیے آپ کی تمام کتب قرآن و احادیث کی فارسی زبان میں بے مثل عارفانہ تفسیر و تشریح ہیں-
اس فارسی متن کی عوام الناس تک رسائی کے لیے بانی ٔ’’ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ ، سلطان الفقر ششم سلطان محمد اصغر علی صاحب قدس اللہ سرّہ نے سَیْد امیر خان نیازی مرحوم سے فارسی متن کے اردو تراجم کروائے جس کی اپنی ایک الگ چاشنی ہے لیکن اصل مقصود و مطلوب محمد عربی صلی اللہ علیہ وا ٓلہٰ وسلم کی معرفت و پہچان اور آپ کی زبان مبارک سے نکلے کلمات کی توضیح و تفہیم ہے چاہے وہ کلمات آیاتِ قرآنیہ کی صورت میں ہوں، احادیثِ قدسیہ ہوں یا احادیثِ مبارکہ ہوں- حضرت سلطان باھُو کی تعلیمات ایک قاری کو ، آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک اُمتی کو اسی جانب رہنمائی کرتی ہیں جیسا کہ آپ فرماتے ہیں:-
’’جس روز حضور علیہ الصلوٰۃُ و السلام کی زبان مبارک پر ﴿اِقْرَاْ بِاِسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ﴾ کے الفاظ جاری ہوئے تو بالائے عرش سدرۃ المنتہیٰ سے قابَ قوسین تک کے دس لاکھ ستر ہزار مقامات تک آپ کی نظر جا پہنچی اور آپ کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی حجاب باقی نہ رہا اور اب بھی یہی کیفیت ہے کہ اگرحضور علیہ الصلوٰۃُ و السلام کا کوئی اُمتی ﴿اِقْرَآ بِاِسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ﴾ پڑھے اور اسمِ اَللّٰہ ُ کے ذکر میں مشغول رہے تو اُس کے دل میں معرفت ِ ﴿اِلَّااللّٰہُ ﴾روشن ہو جاتی ہے اور وہ باطن صفا ہو کر ہم صحبت ِمصطفےٰ علیہ الصلوٰۃُ و السلام ہو جاتا ہے ‘‘- ﴿محک الفقر، ص:۹۳۲﴾
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں آپ کی کتب کی کامل تفہیم عطا فرمائے﴿اٰمین ثم اٰمین بجاہِ نبی الامین﴾-