جنہاں شوہ الف تھیں پایا پھول قرآن ناں پڑھدے ھُو
اوہ مارن دم محبت والا، دور ہویو نیں پردے ھُو
دوزخ بہشت غلام تنہاندے چا کیتونے بَردے ھُو
میں قربان تنہاں دے باھُو (رح) جیہڑے وحدت دے وچ وَڑدے ھُو
Jinhaa'N shoh Alif The'N paya phol Quraan naa'N paRhdey Hoo
Oh maaran dam muhabbat waala, door huyone'N pardey Hoo
Dozakh bahisht ghulaam tinhaa'N day chaa kitone'N bardey Hoo
Mai'N qurbaan tinhaa'N day 'Bahoo' jehRay wahdat day wich waRday Hoo
They would not turn pages of Quran, those from Alif (Ism-e-Allah) reality who have gained Hoo
They claim divine love and their veils removal obtained Hoo
Heaven and hell are their slaves as ordained Hoo
I sacrifice upon those 'Bahoo' annihilated in oneness who has ascertained Hoo
تشریح:
﴿۱﴾ قرآنِ مجید اِنسان کے لیے اللہ تعالیٰ کا پیغام ہے کہ آئو! اِس پہ عمل کرکے خدائے برحق کی معرفت اور قرب حاصل کرو- مسلمان قرآن مجید کے ظاہر و باطن کو حرزِجان بنا کر اللہ تعالیٰ کے قرب کے متلاشی ہوتے ہیں- وہ قرآنِ مجید کے دِینی ،معاشی ،معاشرتی ،اَخلاقی اور ہمہ قسم کے اَحکامات یہاں تک کہ وہ اِس کے عائلی قوانین پہ بھی قربِ حق اور رضائے الٰہی کے لیے عمل کرتے ہیں- البتہ وہ اپنی نفسانی خواہشات ، مذہبی اجارہ داری ، دین کے نام پر اقتدار ، مال ودولت اور اسبابِ دُنیا کے حصول کے لیے قرآنِ مجید کی ورق گردانی نہیں کرتے - حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرہ، فرماتے ہیں کہ:-’’ فقیہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور اُس کی ممنوعہ چیزوں سے پرہیز کرے کیونکہ جب وہ اللہ سے نہیں ڈرے گا تو قرآن و حدیث کی تاویلات میں اُلجھ جائے گا اور حرام و مُشتبہ چیزوں سے پرہیز نہیں کرے گا اور کاروبارِ دُنیا میں غرق ہو کر معصیت و گناہ کی دلدل میں دھنستا چلا جائے گا‘‘- ﴿محک الفقر:۷۸۴﴾
بلاشبہ اِسم اعظم اِسم اللہ ذات قرآنِ مجید میں موجود ہے لیکن یہ مرشد کی نگاہِ کرم کے بغیر بندے کے دل میں قرار نہیں پکڑتا- قرآنِ مجید اور دیگر تمام اِلہامی کتابیں اِسم اللہ ذات کی تفسیر و شرح ہیں- اِس لیے اَکابر صوفیائ نے اِسم اللہ ذات کو علم کا نکتہ قرار دیا اور علوم کی کثرت کو اِس کی عملی تفسیر گردانا- اِسم اللہ ذات کا عامل قربِ الٰہی کا حافظ ہوتا ہے- اِس اَمر کو سمجھنے کے لیے آپ قدس اللہ سرہ، کے اُن فرامین پہ غور کرنا پڑے گا جن میں آپ قدس اللہ سرہ، نے اِسم اللہ ذات اور دیگر اِلہامی علوم کا باہمی تعلُق بیان فرمایا:- اِنتہائے فقیر اللہ بس ما سویٰ اللہ ہوس ہے - وہ اِسی کو بس﴿ب ،س﴾ سمجھتا ہے اِس لئے ب س ہی پر اکتفا کرتاہے کہ سارا قرآن ’’ ب س ‘‘ کے اندر ہے کیونکہ ابتدائے قرآن ’’ ب‘‘ ہے یعنی ﴿ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ﴾اور انتہائے قرآن ’’ س ‘‘ہے یعنی﴿ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ﴾ اگر تُو قرآن کے سارے علم ’’ ب ‘‘ اور ’’س ‘‘کو جمع کر لے تو ’’بس ‘‘ بن جاتا ہے اور یہی تیرے لئے بس﴿ کافی﴾ ہے- ﴿محک الفقر:۹۵۶﴾ پہلاگنجِ الٰہی قرآن ہے جس میں بادشاہ خزانہ اسمِ اعظم ہے - جو آدمی قر آن سے اسمِ اعظم تلاش کر لیتا ہے وہ دونوں جہان کا بادشاہ بن جاتا ہے- جو آدمی قرآن سے اسمِ اعظم تلاش نہ کر سکا اُسے عالم فاضل نہیں کہا جا سکتا کہ وہ محض رسمی رواجی علم میں مشغول ہو کر مردہ دل و معدوم رہا- ﴿محک الفقر:۱۶۴﴾ قرآن مجید میں چار ہزار مرتبہ اسم اَللّٰہُ آیا ہے جس کی برکت سے سارا قرآن ہی اسم اَللّٰہُ کامظہر ہے - مرشد ِکامل وہ ہے جو اسم اَللّٰہُ اور اسم مُحَمَّدٌکی راہ جانتا ہو اور اِس کے علاوہ کچھ نہ جانے اور طالب ِ صادق وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی مقدس اور پاک ذا ت کی طلب کے علاوہ اور کوئی طلب نہ رکھتا ہو- ﴿عین الفقر :۱۰۱﴾ اسم اَللّٰہُ ذات کی شان یہ ہے کہ اگر کوئی شخص تمام عمر نماز روزہ حج زکوٰۃ اور تلاوت ِ قرآن جیسی جملہ عبادات میں مصروف رہا اور اہل ِ فضیلت بن کر عالم و معلم بنا رہا لیکن اسم اَللّٰہ ذات اور اسم مُحَمَّدٌ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہٰ وسلم سے بے خبر رہا اور اِن دونوں اسمائے پاک کے ذکرمیں مشغول نہیں رہا تو کوئی فائدہ نہیں، اُس کی ساری عمر کی عبادت ضائع و برباد ہو گئی- ﴿عین الفقر:۷۰۱﴾
﴿۲﴾ جب اسم اَللّٰہُ ذات فقیر کے سینہ میں پختہ ہوجاتا ہے تو اُس کے قلب ورُوح میں محبتِ الٰہی جاگزین ہوجاتی ہے اور محبت ہر سانس کے ساتھ پکارتی ہے کہ محب اور محبوب کا سامنا ہو- محبتِ الٰہی کی بدولت بندے اور مولیٰ﴿ ذاتِ مقدسہ ﴾ کے مابین حائل حجابات مٹ جاتے ہیں-
﴿۳﴾ محبتِ الٰہی فقیر کے سر پہ اشرف المخلوقات کا تاج رکھ دیتی ہے- یہی اعزاز اُسے تمام اٹھارہ ہزارعالم کی تخلیقات پہ فضیلت عطا کرتا ہے- یہ حقیقت ہے کہ جنت ودوزخ بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور تخلیق کے لحاظ سے حادث ہیں- اس لیے طالب مولیٰ حادث کی طلب نہیں کرتا بلکہ خالق کا گرویدہ ہوتا ہے- اِس بنا پہ یہ کہنا قرینِ اِنصاف ہے کہ مرتبہ ٔ﴿ احسن تقویم ﴾پہ فائز فقیر کی باقی مخلوق کی طرح جنت و دوزخ پہ بھی برتری مُسلّم ہے-
﴿۴﴾ فقیر دُنیَوی واُخروی نعمتوں کی جانب آنکھ اُٹھاکر بھی نہیں دیکھتا وہ تو صرف دریائے وحدتِ حق کا متلاشی ہوتا ہے کہ جہاں سے وہ محبتِ الٰہی کے جام بھر بھر کر پینے کی اپنی ازلی طلب پوری کرسکے- بلاشبہ ایسے فقرائ کاملین انسانیت کا شرف و سرمایہ ہیں او ر مئے کدۂ عرفانِ ذات کے ساقی کا منصب ہمیشہ اِنہی کے سپرد کیاجاتاہے-