عِشق دی بازی ہر جا کھیڈی شاہ گَدا سُلطاناں ھو
عالِم فاضِل عَاقل دانا کردا چا حیراناں ھو
تنْبو کھوڑ لتھّا وِچ دِل دے چا جوڑیوس خلوت خاناں ھو
عِشق اَمیر فَقیر منیندے باھوؒ کیا جانی لوک بیگاناں ھو
The stake of ishq played by kings, paupers and sultans inclusions Hoo
Learned scholar, intellectuals and wise are in confusions Hoo
Tent is dug in heart and transformed it into seclusion Hoo
Rich and paupers believe in ishq Bahoo what would strangers know Hoo
Ishq di baazi har ja khe’Di shah gada sultana Hoo
Aalam fazil aaqil daana karda cha herana’N Hoo
Tamnboo khor latha wich dil day cha jo’Rais khalwat Khana’N Hoo
Ishq ameer faqeer manaindai’N Bahoo kiya jani lok begana’N Hoo
تشریح :
1-’’مراقبہ و فقر کی خاطر تو بادشاہانِ دنیا نے بادشاہی اور گھر بار چھوڑ دیئے اور غریبی و یتیمی اختیار کر لی اور اپنے نفس کے گھوڑے کو میدانِ توحید میں ڈال دیا، پھر وہ عشق و محبت اور شوقِ الٰہی سے دستبردار نہیں ہوئے اور آخرت کی بازی جیت گئے اور خود کو اللہ کے سپرد کر دیا- بظاہر وہ مر گئے لیکن بباطن نہیں مرے، وہ ایسے حاجی اہل اللہ ہیں کہ اُن کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہے‘‘- (عین الفقر)
مزید ارشادفرمایا :’’ حضرت ابراہیم بن ادھمؒ اور اُن جیسے چند اور بادشاہوں نے یکبارگی بادشاہی کو چھوڑاا ور معرفت ِقرب و فقرِ ہدایت کی انتہا تک جا پہنچے اور لوٹ کر بادشاہ و بادشاہی کا منہ تک نہ دیکھا‘‘-(عقل بیدار)
2:عالم ’’علم‘‘ کا استعارہ ہے اور فقیر ’’فقر،معرفت اور عشقِ الٰہی‘‘ کا استعارہ ہے -ظاہر ی عالم معاملات کو اپنے ظاہر ی علم کے تناظر میں دیکھتا ہے اور فقیر کے معاملات فقر،عشق اور علم ِ باطن سےپروان چڑھتے ہیں-اس لیے ظاہر بین ’’عشق‘‘کے معاملات دیکھ حیران اور ششدر رہ جاتے ہیں جیسا کہ آپؒ ارشادفرماتے ہیں:
’’علما ٔکا مرتبہ بلند و بالا ہے لیکن فقیر کہتا ہے کہ بے شک علما ٔ کا مرتبہ بلند و بالاہے مگر راہِ تصوف سے بے خبر ہے- عالم کی نظر لذّت ِدنیا پر لگی رہتی ہے اور فقیر کی نظر خوفِ روز ِقیامت پر ہوتی ہے- عالم کہتا ہے کہ عقبیٰ کتنی اچھی اور خوبصورت جائے بہشت ہے اور فقیر کہتا ہے کہ بجز دیدارِ الٰہی سب کچھ خوا ر و زشت ہے- عالم کہتا ہے فقیر کتنا احمق و مجنون و دیوانہ ہے اور فقیر کہتا ہے کہ عالم خدائے تعالیٰ سے بیگانہ ہے-عالم کہتا ہے کہ علم پڑھناخوب ہے منطق و معانی اور فقیر کہتا ہے کہ بجز یادِ حق محض تحصیل ِعلم عمر کی بربادی ہے اور نادانی‘‘-(عین الفقر)
اس لیے آپؒ ظاہری علماء کو تلقین فرماتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں :
3:عالمان را فرض شد تلقین طلب |
|
راہ نمایند خلق را از بہرِ ربّ |
’’ علما ٔ پر فرضِ عین ہے کہ وہ مرشد ِ کامل سے تلقین حاصل کریں،پھر رضائے اِلٰہی کی خاطر خَلق کی راہنمائی کریں‘‘ -( کلیدالتوحیدکلاں)
ہر کرا پنجۂ عشقِ تُو گریبان گیرد |
|
ہر کرا دستِ غمِ عشق رگِ جانگیرد |
’’ جس کے گریباں پہ تیرے عشق نے پنجہ ڈالا، غمِ عشق نے اُس کی روح و رگِ جان پکڑلی‘‘-( کلیدالتوحیدکلاں)
عشق کا مرکز چونکہ دل ہوتاہے جیساکہ آپؒ ایک اور مقام پہ ارشادفرماتے ہیں : ’’وچہ جِگر دے سَنھ چَا لائیس کِیتس کم اَولّا ھو‘‘عشق جب دل پہ قبضہ کرکے فتح کا جھنڈا لہراتا ہے تو پھر مفتوحہ علاقے میں اس کو خلوت خانہ بناتے ہوئے ا س میں’’ اَ لْعِشْقُ نُارٌ یَّحْرِقُ مَاسِوَی الْمَحْبُوْبِ‘‘ (عشق ایک آگ ہے جو محبوب کے سوا ہر چیز کو جلا دیتی ہے)کے تحت غیر اللہ کا تسلط برداشت نہیں کرتا-( کلیدالتوحیدکلاں)
4:ذرۂ دردِ خدا در دل ترا |
|
بہتر از ہرد و جہان حاصل ترا |
’’ اگر تیرے دل میں ذرہ بھر بھی عشق ِاِلٰہی پیدا ہو جائے تو وہ تیرےلیے دونوں جہان کی عبادت سے افضل ہوگا‘‘-( کلیدالتوحیدکلاں)
اس میں کوئی شک نہیں کہ عشق کی حقیقت کا کوئی انکاری نہیں ،ہر امیر، غریب عشق کی حقیقت کا معترف ہے- عشق کیا ہے؟جیساکہ آپؒ فرماتے ہیں سیّدنا غوث الاعظم پیر دستگیرؓ نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ اقدس میں عرض کی : ’’ خدا وندا ! عشق کیا چیز ہے ؟ ‘‘ جواب ملا : ’’ عشق وہ ہے جو ہر ماسویٰ اللہ کو جلا کر راکھ کر دے ‘‘ -(محک الفقرکلاں)
اس پورے بیت مبارک میں عشق کی اہمیت وفضلیت کے بارے میں ارشادفرمایا گیا-اب سوال پیداہوتا ہے کہ عشق کا حصول کیسے ممکن ہے ؟اس کے حصول کےبارے میں آپؒ نے مختلف اقوال رقم فرمائے -یہاں صر ف دوفرمان مبارک نقل کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں :
1: ’’ عشق کی چھت بہت بلند ہے، اُس پر پہنچنے کے لئے اسم اَللہُ ذات کی سیڑھی استعمال کر جو تجھے ہر منزل و ہر مقام بلکہ لامکان تک پہنچا دے‘‘- (عین الفقر)
2: جِس دِل اِسم اللہ دا چمکے عِشق بھی کردا ہلّے ھو