نقل ہے کہ درویش پانچ قسم کے ہوتے ہیں:(۱)صاحب ِکشف القلوب جو ہر دل کی خبر رکھتے ہیں،(۲)صاحب ِکشف القبور جو دونوں جہان کی خبر رکھتے ہیں، (۳) اوتاد (۴) قطب جو ہر سات زمین و سات آسمان کی خبر رکھتے ہیں اور (۵) غوث جو عرش اور عرش سے بالا ستر ہزار حجابات کی خبر رکھتے ہیں- چھ اوتاد کے برابر ایک قطب کا مرتبہ ہے اور چھ قطب کے برابر ایک غوث کا مرتبہ ہے- ایک روایت میں آیا ہے کہ ہر رات غوث کے 360 ہزار جسم پیدا ہوجاتے ہیں اور وہ ہر جسم کے ساتھ سجدہ کرتاہے- قطب نصف پیر ہوتاہے جبکہ غوث پورا پیر ہوتاہے- اگر کوئی دوسرا آدمی پیری کا دعویٰ کرے تو روزِ قیامت شرمسار ہوگا-اگر کسی کا نفس سر کش ہو کر ہوا و ہوس میں مبتلا ہوجائے اور وہ ابلیس کی موافقت اختیار کر لے یا اگر کوئی مفلس ہوجائے اور اُس کا دل ظاہرمیں غنی ہو نہ باطن میں مجلس ِمحمدی (ﷺ) کی حضوری اُسے نصیب ہو اور فقر و فاقہ سے تنگ آکر وہ گدا گری شروع کر دے اور فقرِاضطراری کا شکار ہو کر فقرِ مکبّ (منہ کے بل گرانے والا فقر) اختیار کرلے یا اگر کوئی طالب شکستہ دل ہوجائے اور فقیرِ کامل و مرشد ِمکمل سے جا کر کہے کہ تُوواصل باللہ مرشد نہیں ہے ، تجھ سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکتا یا اگر کوئی ہمیشہ بیمار رہے اور شدتِ مرض اُسے بے قرار کردے اور اُسے نیند بالکل نہ آئے، ہر وقت بیدار رہے اور ہرطبیب و حکیم اُس کی نبض دیکھ کر کہے کہ یہ لا دوا مریض ہے، یہ ہر گز تندرست نہیں ہوسکتا یا اگر کوئی دعوت پڑھتے ہوئے رجعت کھا کر دیوانہ ہوجائے اور مردہ و افسردہ دکھائی دے یا اگر کسی فقیرپر راہِ سلک سلوک بند ہوجائے اور وہ مقامِ علیین سے گر کر مقامِ سجین میں آجائے یا اگر کوئی شخص کسی کی دشمنی میں گرفتا ر ہو کر اخلاص کھو بیٹھے اور کوئی سبیل نہ نکلے یااگر کسی طالب کا مرشد اُس سے ناراض ہو جائے اور اُس کا روشن ضمیر دل مردہ ہوجائے، نقد وقت ِحال ہارکربے حال ہو جائے،معرفت ِالٰہی سے محروم ہوجائے اور دیوانہ ہوکر زوال پذیر ہوجائے یا کسی کی دعوت رواں نہ ہو اور وہ حالت ِقبض و بسط و سکر و صحو سے نہ نکل سکے یا کوئی خواب یا مراقبہ میں کفار اور مجلس ِاہل ِبدعت دیکھے یا کوئی ہر وقت نیند میں ڈوبا رہے اوروہ بیداری و زندہ دلی کھو بیٹھے یا اگر کوئی فسق و فجور، ظلم و ستم اور شراب نوشی سے نجات نہ پاسکے تو اِن سب امراض کا علاج حاضراتِ تصورِ اسمِ اللہ ذات اورحاضراتِ تصورِ کلمہ طیبات ’’ لَآ اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ہے، طریق ِتحقیق سے ہر ایک معا ملہ کو اسمِ اللہ ذات کی برکت اور دعوتِ اہل ِقبور سے سمجھا بھی جاسکتاہے اور اُس کا علاج بھی کیا جاسکتاہے- جو کوئی اِس طریق کوسمجھ لیتاہے وہ اپنا ہر مطلب مطالب اور مرتبہ حاصل کرلیتاہے- حکمت کا یہ خزانہ عوام کی نظروں سے مخفی و پوشیدہ ہے کہ دین و دنیا پر مکمل تصرف کا یہ ایک خاص خزانہ ہے-تصور ِاسمِ اللہ ذات کی راہ وحدانیت کی راہ ہے- عطائے الٰہی کی اِس راہ کا تعلق ریاضت سے نہیں بلکہ راز سے ہے- اللہ تعالیٰ کا یہ فیض و فضل بامشاہدہ اور بے مجاہدہ ہے- اللہ تعالیٰ کے فضل کا یہ خزانہ رنج و ریاضت سے ہاتھ نہیں آتا-
(جاری ہے)