حضرت سلطان باھوؒ اور حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ کے افکار میں بدرجہ اُتم مماثلت موجود ہے-ان کی تعلیمات ماخذات سے لے کر اقوال اور افکار تک میں مماثلت موجود ہے- جہاں پر شریعت ِ محمدی(ﷺ) کے ظاہری امور میں ان دونوں کے افکار یکساں ہیں- وہاں پر تصوف جیسے عمیق موضوعات میں بھی ان دونوں کے ہاں مشترک نظریات دیکھنے کو ملتے ہیں-راہِ تصوف میں ظاہری عقل سے ماورا ہو کر عشق کی چشم سے کائنات اور مابعد کائنات کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور عشق کا تعلق عقلِ ظاہری سے نہیں بلکہ قلب سے ہے-
دل ِ بینا بھی کر خدا سے طلب |
حیات النبی(ﷺ) ایک اہم موضوع ہے-جو ہر عہد کے علماء اور عرفاء کے ہاں زیر بحث دیکھائی دیتا ہے-فرق صرف اتنا ہے کہ جس نے فقط عقل ظاہری سے سوچا اور چشم ظاہر سے دیکھا اس نے ( نعوذباللہ) آقائے دو عالم (ﷺ) کو اپنے جیسا قرار دیا اور جس نے عشق کی نگاہ سے دیکھا وہ حقیقتِ محمدی(ﷺ) تک رسائی حاصل کر گیا-حیات النبی (ﷺ) پر قرآن حکیم،احادیث مبارکہ اکابرین اور عارفین کے فرمودات اور استدلال سے بے شمار حوالے موجود ہیں-قرآن حکیم میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے واضح فرما دیا:
’’اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ ‘‘[1]
’’حضور نبی مکرم(ﷺ)مومنوں کیلیے ان کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہیں‘‘-
درحقیقت تو آپ(ﷺ) اس جہان کی جان ہیں-جان ہے تو جہان ہے-امام احمد رضا خان بریلویؒ کیا خوب فرما گئے:
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو |
آقا دو عالم (ﷺ) کی ذاتِ قدسیہ بمطابق لسان القرآن مومنوں کی جان سے قریب تر ہیں-اگر حیات ہیں تو ہی قریب ہیں-ورنہ قرب کیسے ممکن ہے؟ اسی طرح ایک اور آیت مبارکہ سے آپ(ﷺ) کی حیات مبارکہ ثابت ہے-اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ النساء میں فرمایا:
’’وَ لَوْ اَنَّہُمْ اِذْ ظَّلَمُوْا اَنْفُسَہُمْ جَآءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا‘‘[2]
’’اور اگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کر کے(آپ(ﷺ) تیرے پاس آئیں -پس اللہ سے مغفرت طلب کریں اور رسول اللہ(ﷺ) بھی ان کی شفاعت فرمادیں تو یقینا وہ اللہ کو بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا پائیں گے‘‘-
یہاں پر بھی استدلال یہ ہے کہ شفاعت اسی وقت ممکن ہے-جب آپ(ﷺ)کی حیات مبارکہ کو تسلیم کیا جائے-امام ابو یعلی ٰنے اپنی مسند میں حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ایک حدیث کو بیان کیا:
’’انبیاء ؑ اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نمازیں ادا کرتے ہیں‘‘-[3]
اگر تمام انبیاء اپنی اپنی قبور میں حیات ہیں تو آپ (ﷺ) کو تو تمام انبیاء ؑ پر سبقت اور فضیلت حاصل ہے-اب ذرا ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں اور یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ سلطان العارفین اور علامہ محمد اقبالؒ کی تعلیمات میں حیات النبی(ﷺ) کے بارے کیا نظریہ موجود ہے-
حضرت سلطان باھوؒ اپنی تصنیف ’’عین الفقر‘‘ میں رقمطراز ہیں :
’’سن !اگر کوئی حضور اکرم (ﷺ) کی حیات کو مردہ سمجھ بیٹھے تو اس کاایمان سلب ہو جاتا ہے‘‘- [4]
آپؒ کو عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) میں اس قدر کمال حاصل تھا کہ آپؒ کو آقائے دو عالم (ﷺ) نے خود باطنی طور پر دستِ بیعت فرمایا -
آپؒ نے رسالہ روحی شریف میں فرماتے ہیں :
دست بیعت کردا مارا مصطفےٰ |
’’مجھے حضرت محمد (ﷺ) نے دستِ بیعت فرمایا اور انہوں نے مجھے اپنا (نوری حضوری ) فرزند قرار دیا ‘‘-
آپؒ بار بار اپنی کتب میں اس بات کو دہراتے ہیں کہ مجھے مجلسِ مصطفےٰ (ﷺ) میں خاص مقام حاصل ہے کہ میں ہمہ وقت مجلسِ محمدی (ﷺ) میں رہتا ہوں -
’’اے باھو ! نبی کا غلام ہوں اور ہر دم ان کی مجلس میں حاضر رہتا ہوں اور ایک دم کے لیے کبھی ان سے جدا نہیں ہوتا‘‘-[6]
دوسری طرف حکیم الاوقت بھی حیاتِ النبی(ﷺ) کے بارے میں یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ آپ(ﷺ)کی ذاتِ قدسیہ کی موجودگی اور حیاتِ مبارکہ بر حق ہے- اس ضمن میں علامہ اقبال ؒ خان نیاز الدین خان کو 14 جنوری 1922 ء کے ایک خط میں کچھ یوں لکھتے ہیں:
’’میرا عقیدہ ہے کہ نبی (ﷺ) زندہ ہیں اور اس زمانے کے لوگ بھی ان کی صحبت سے اس طرح مستفیض ہو سکتے ہیں جس طرح صحابہ کرام ہوا کرتے تھے-لیکن اس زمانے میں اس طرح کے عقائد کا اظہار اکثر دما غوں کو نا گوار گزرا ہو گا اس واسطے خاموش رہتا ہوں ‘‘-[7]
آپ(ﷺ) کی موجودگی کے فیضان سے ہی اس کائنات میں رنگا رنگی اور حیات رواں دواں ہیں-بلکہ یہ تو اقبال کے نزدیک آپ (ﷺ)کے نام مبارک کی برکت ہے کہ اس کائنات کی نبض چل رہی ہے-
خیمہ افلاک کا ایستادہ اسی نام سے ہے |
اس کائنات کی تخلیق کا اصل موجب بھی آپ (ﷺ) کی ذات قدسیہ ہے اور اس کائنات کی حیات بھی آپ (ﷺ) کے فیضان سے ہے-اس کی بڑی دلیل واقعہ معراج ہے کہ سرکارِ دو عالم(ﷺ) کے قدم مبارک جب اس زمین سے اُٹھتے ہیں تو پانی کا بہنا اور کنڈی کا ہلنا تھم جاتا ہے - جب آپ (ﷺ) واپس تشریف لاتے ہیں آپ(ﷺ) کے قدمین مبارک سر زمین پر لگتے ہیں تو پانی چلنا شروع ہوتا ہے اور کنڈی ہلتی ہے -اقبال بھی اسی عقیدہ کے حامل ہیں -فارسی کلام میں لکھتے ہیں:
ہر کجا ہنگامۂ عالم بود |
’’جہاں کہیں ہنگامۂ عالم ہے وہاں رحمتہ اللعالمین (ﷺ) بھی ہیں‘‘-[9]
یہاں تک ہی نہیں بلکہ اقبال ؒ تو سرکارِ دو عالم (ﷺ) کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ سے تو میں چھپا کہ کہتا ہوں لیکن آپ (ﷺ) سے برملا عرض کرتا ہوں: یا رسول اللہ (ﷺ)! وہ میرے لیے پنہاں اور آپ(ﷺ) ظاہر ہیں ‘‘-[10]
حضرت سلطان باھو ؒ اور علامہ اقبال ؒ زیارت ِ مصطفےٰ کریم (ﷺ) کو ہی خدا سے معرفت حاصل کرنے کا وسیلہ قرار دیتے ہیں -
حضرت سلطان باھو ؒ اپنی کتاب ’’نور الہدیٰ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’خدا کو محمد (ﷺ) سے جدا نہ کر کہ تو نے محمد (ﷺ) کی زیارت کر لی تو خدا کو پائے گا ‘‘-[11]
اسی تناظر میں علامہ محمد اقبال ؒ رقمطراز ہیں:
’’آپ(ﷺ) کے عشق سے دل قوت پاتا ہے اور خاکی انسان کا رتبہ ثریا جتنا بلند ہو جاتا ہے‘‘-[12]
سلطان العارفین اپنی کتب میں مختلف جگہوں پر فقط فضائل اسمِ محمد (ﷺ) کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’تصور اسم محمدی (ﷺ) سے مجلس محمدی منکشف ہوتی ہے اور حضرت محمد (ﷺ) اپنے دیدار پر انوار سے مشرف فرماتے ہیں‘‘-[13]
حضرت سلطان باھوؒ کے اس فرمان سے واضح ہو رہا ہے کہ آپؒ کا حیات النبی (ﷺ)کے بارے میں راسخ عقیدہ ہے- اگر حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات حیات ہے تب ہی آپ(ﷺ) اپنی زیارت اور دیدار سے مشرف فرماتے ہیں-
ایک اور جگہ پر لکھتے ہیں :
’’جو آدمی حضور(ﷺ) کے مکھڑے پر فدا ہو گیا وہ مراتب اولیا پر پہنچ گیا‘‘-[14]
لیکن یہ عقیدہ اسی کو حاصل ہوتا ہے جس کو عشقِ مصطفےٰ کریم (ﷺ)نصیب ہوکیونکہ عقل یہاں محو تماشائے لب بام ہے ابھی-یہ عقل کے بس کا کھیل نہیں -یہی وجہ ہے کہ ابلیس فرزندِ اسلام کے دلوں سے عشقِ رسول (ﷺ) اور محبت ِ رسول (ﷺ) ختم کرنا چاہتا ہے-جیسا کہ اقبال نے اس فکر سے آگاہ فرمایا -
وہ فاقہ کش کی موت سے ڈرتا نہیں ذرا |
مندرجہ بالا حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ سلطان العارفین اور علامہ اقبال ؒ کے عقیدہ حیات النبی (ﷺ) میں مماثلت موجود ہے اور دونوں حیات النبی (ﷺ) کے بارے پر نظریہ اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ آپ(ﷺ) کی ذات ہی اس جہان کی جان ہے -
آپ(ﷺ) کی ذات کی برکت سے اس کائنات میں رنگا رنگی اور چہل پہل ہے -بس اس کو سمجھنے کے لیے عشق کی ضرورت ہے - بصورتِ دیگر ہم پر صادق آتا ہے کہ بزبانِ اقبال:
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے |
٭٭٭
[1](الاحزاب:6)
[2](النساء:64)
[3](الخصائص الکبریٰ)
[4](عین الفقر)
[5](رسالہ روحی شریف)
[6](کلید التوحید کلاں)
[7](اقبال نامہ)
[8](بانگِ درا)
[9](جاوید نامہ)
[10](پیامِ مشرق)
[11](نورالہدیٰ)
[12](اسرارِ خودی)
[13](نورالہدیٰ)
[14](محک الفقر کلاں)
[15](ضربِ کلیم)
[16](بالِ جبریل)