اللہ تبارک وتعالیٰ نے عالمِ انسانیت کیلئےاسلام کو بطور دین پسند فرمایا ہے اور اسے سراپا سلامتی ہی سلامتی بنایا ہے-لفظ ”اسلام“ مصادرِ سَلَمَ اور سَلِمَ سے ماخوذ ہے-اسلام کی متاع اور اساس توحیدِ الٰہی اور رسالتِ محمدی (ﷺ) پر ہے جس کے اقرار و تسلیم کے بعد انسان دائرۂ اسلام میں داخل ہوتا ہے اور سلامتی، بقا اور احترامِ آدمیت اور اکرامِ انسانیت سے رو شناس ہوتا ہے- جب بندہ ان کلمات (کلمہ طیبہ) کو لباس بنا کر اوڑھ لیتا ہے تو وہ سراپا امن میں آجاتا ہے-نیز دینِ اسلام میں کلمہ طیب بنیادی حیثیت رکھتا ہے-ارکانِ اسلام میں اول درجہ کلمہ طیب کو ہی حاصل ہے اور یہی دینِ متین کا صدر دروازہ ہے- یہی کلمہ مسلم اُمہ کو آپسی محبت اور اُخوت کا درس دیتا ہے اور یہی کلمہ انسانیت کی فلاح و بہبود کا بھی سبق دیتا ہے اور محسنِ انسانیت حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کی رسالت کا عقیدہ انسان کو جہاں کامل ایمان سے سرفراز فرماتا ہے وہیں زندگی کے ہر پہلو میں احسان کے طریقے بھی میسر کرتاہے- کلمہ طیبہ کے دونوں جزو کو قرآن مجید میں جابجا بیان فرمایا گیا ہے- سورہ ابراہیم میں کلمہ پاک کی تعریف اللہ تبارک و تعالیٰ نے کچھ اس انداز میں بیان فرمائی ہے:
’’اَلَمْ تَرَکَیْفَ ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُہَا فِیْ السَّمَآءِ تُؤْتِیْ اُکُلَہَا کُلَّ حِیْنٍۭ بِاِذْنِ رَبِّہَا ط وَ یَضْرِبُ اللہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ وَمَثَلُ کَلِمَۃٍ خَبِیْثَۃٍ کَشَجَرَۃٍ خَبِیْثَۃِ جْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَہَا مِنْ قَرَارٍ یُثَبِّتُ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِ وَ یُضِلُّ اللہُ الظّٰلِمِیْنَ لا وَ یَفْعَلُ اللہُ مَا یَشَآءُ‘‘[1]
’’کیا تم نے نہ دیکھا اللہ نے کیسی مثال بیان فرمائی پاکیزہ بات کی جیسے پاکیزہ درخت جس کی جڑ قائم اور شاخیں آسمان میں-ہر وقت اپناپھل دیتا ہے اپنے رب کے حکم سے اور اللہ لوگوں کیلئے مثالیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں وہ سمجھیں اور گندی بات کی مثال جیسے ایک گندہ پیڑ کہ زمین کے اوپر سے کاٹ دیا گیا اب اسے کوئی قیام نہیں- اللہ ثابت رکھتا ہے ایمان والوں کو حق بات پر دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اور اللہ ظالموں کو گمراہ کرتا ہے اور اللہ جو چاہے کرے‘‘-
یوں تو قرآن مجید میں کلمہ طیب مکمل کسی بھی جگہ نہیں آیا لیکن کہیں ذکرِ توحید ’’لَاإِلَهَ إِلَّااللّهُ‘‘[2]آیا تو کہیں ذکرِ رسالت مُحَمَّدٌرَّسُولُ اللهِ[3] آیا -بعد ازیں ان دونوں کلمات کو یکجا کرکے اسے دینِ اسلام میں داخلے کا دروازہ بنادیا گیا-ان کلما ت کی احادیثِ مبارکہ میں بہت فضیلت بیان کی گئی ہے -جبکہ علماء ومشائخ نے بھی ہر دور میں اس کی فضیلت پر اپنے قلم کو برکت دی ہے-
توحید کا اقرارکرکے انسان معبودِ حقیقی کی رحمت کے سائے تلے آجاتا ہےاور جو اس کا انکار کرتے ہیں ان کے وجود سے رحمت، برکت اور مالکِ حقیقی کی شفقت اٹھ جاتی ہےاور درحقیقت یہ دل کا اندھا پن اور جہالت کے باعث ہوتا ہے-امام بیہقیؒ (المتوفى:458) حدیث پاک نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
”أَنْزَلَ اللهُ تَعَالٰی فِي كِتَابِهٖ فَذَكَرَ قَوْمًا اسْتَكْبَرُوا فَقَالَ: إِنَّهُمْ كَانُوْا إِذَا قِيْلَ لَهُمْ لا إِلَهَ إِلاَّ اللهُ يَسْتَكْبِرُونَ، وَقَالَ تَعَالَى: إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنْزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا، وَهِيَ لا إِلَهَ إِلاَّ اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ اسْتَكْبَرَ عَنْهَا الْمُشْرِكُونَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ يَوْمَ كَاتَبَهُمْ رَسُولُ اللهِ (ﷺ) فِي قَضِيَّةِ الْمُدَّةِ“[4]
”اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں آیات نازل کیں جن میں ایک سرکش قوم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: یہ وہ لوگ تھے کہ جب ان سے کہا جاتا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود حقیقی نہیں تو یہ سرکشی کرنے لگتے -اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا: جب کافروں نے اپنے دلوں میں جاہلیت والی ہٹ دھرمی پیدا کرلی تو اللہ نے اپنے رسول اور مؤمنوں پر سکون نازل کیا اور انہیں تقوٰی کے کلمہ کا پابند کیا جو اس کے سب سے زیادہ حقدار اور لائق تھے اور یہ کلمہ ”لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ“ ہے جس سے مشرکین نے حدیبیہ کے دن سرکشی کی جب آقا کریم (ﷺ) نے مدت کے سلسلے میں ان سے معاہدہ کیا“ -
اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور حضور نبی کریم (ﷺ) کی رسالت کے اقرار کے بعد ہی انسان اسلام میں داخل ہوتا ہے اور اس کی عبادات کا اسے صلہ ملتا ہے-حضور نبی کریم (ﷺ) جب کسی غیر مسلم کی جانب دعوت ِ دین بھجواتے تو وحدانیت ِ الٰہی اور رسالتِ محمدی(ﷺ) کا اقرار مقدم قرار پاتا-حدیثِ مبارکہ ہے:
’’ جب رسول اللہ (ﷺ) نے معاذ بن جبلؓ کو یمن بھیجا تو ان سے فرمایا کہ:
’’لَهُ إِنَّکَ تَقْدَمُ عَلَی قَوْمٍ مِنْ أَهْلِ الْکِتَابِ فَلْيَکُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَی أَنْ يُوَحِّدُوا اللهَ تَعَالَی فَإِذَا عَرَفُوا ذَلِکَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي يَوْمِهِمْ وَ لَيْلَتِهِمْ فَإِذَا صَلَّوْا فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ زَکَاةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ غَنِيِّهِمْ فَتُرَدُّ عَلَی فَقِيْرِهِمْ فَإِذَا أَقَرُّوا بِذَلِکَ فَخُذْ مِنْهُمْ وَتَوَقَّ کَرَائِمَ أَمْوَالِ النَّاسِ‘‘[5]
’’ تم اہل کتاب میں سے ایک قوم کے پاس جا رہے ہو- اس لیے سب سے پہلے انہیں اس کی دعوت دینا کہ وہ اللہ کو ایک مانیں (اور میری رسالت کو مانیں) جب وہ اسے سمجھ لیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ نے ایک دن اور رات میں ان پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں- جب وہ نماز پڑھنے لگیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان پر ان کے مالوں میں زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے امیروں سے لی جائے گی اور ان کے غریبوں کو لوٹا دی جائے گی- جب وہ اس کا بھی اقرار کرلیں تو ان سے زکوٰۃ لینا اور لوگوں کے عمدہ مال لینے سے پرہیز کرنا‘‘-
کلمہ پاک کا خلوصِ دل سے اقرار و تسلیم مسلمان کو آتشِ دوزخ سے بھی بچائے گا-حدیث پاک میں آیا ہے:
’’رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا :
’’ يَخْرُجُ مِنْ النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَ فِي قَلْبِهِ وَزْنُ شَعِيرَةٍ مِنْ خَيْرٍ وَيَخْرُجُ مِنْ النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَفِي قَلْبِهِ وَزْنُ بُرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ وَيَخْرُجُ مِنْ النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَفِي قَلْبِهِ وَزْنُ ذَرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ قَالَ أَبُو عَبْد اللهِ قَالَ أَبَانُ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ حَدَّثَنَا أَنَسٌ عَنْ النَّبِيِّ (ﷺ) مِنْ إِيمَانٍ مَکَانَ مِنْ خَيْر‘‘[6]
’’جس شخص نے لا إله إلا الله کہہ لیا اور اس کے دل میں جو برابر بھی (ایمان) ہے تو وہ (ایک نہ ایک دن) دوزخ سے ضرور نکلے گا اور دوزخ سے وہ شخص (بھی) ضرور نکلے گا جس نے کلمہ پڑھا اور اس کے دل میں گیہوں کے دانہ برابر خیر ہے اور دوزخ سے وہ (بھی) نکلے گا جس نے کلمہ پڑھا اور اس کے دل میں اک ذرہ برابر بھی خیر ہے- ابوعبداللہ (امام بخاریؒ فرماتے ہیں کہ ابان نے بروایت قتادہ بواسطہ انسؓ رسول (ﷺ) سے خير کی جگہ ايمان کا لفظ نقل کیا ہے‘‘-
کلمہ پاک کے ذکر کو تمام اذکار پر فضیلت حاصل ہے اور اسے افضل الذکر کہا جاتا ہے-حدیثِ مبارکہ ہے:
’’ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے فرمایا:
’’الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَ سَبْعُونَ أَوْ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْأَذَى عَنْ الطَّرِيقِ وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنْ الْإِيمَانِ‘‘[7]
’’ایمان کی ستر سے کچھ زیادہ یا ساٹھ سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں- ان سب میں افضل لا الہ الا اللہ کہنا ہے او ران سب میں ادنیٰ یہ ہے راستے میں تکلیف دہ چیز کا ہٹانا ہےاور حیا ایمان کی ایک شاخ ہے‘‘-
تمام اصفیاء واتقیاء نے اپنے اپنے دور میں عوام الناس کو کلمہ پاک سے محبت اور اس کا کثرت کے ساتھ ذکر کرنے کی تلقین فرمائی ہےاور اس کی فضیلت و برکات کا بھی پرچار کیا ہے- سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس اللہ سرہٗ اپنی تصنیف لطیف ’’سرالاسرار‘‘میں فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے ذکر کرنے والوں کی رہنمائی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ہَدٰىکُم ‘‘[8]
”اور اس کا ذکر کرو جیسے اس نے تمہیں ہدایت فرمائی‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ کا اس طرح ذکر کرو جس طرح اس نے تمہارے ذکر کے مراتب کی طرف تمہاری رہنمائی فرمائی- حضور نبی کریم (ﷺ)کا ارشاد گرامی ہے:
’’افضل ما اقول انا وما قاله البنيون من قبلي لا اله الاالله‘‘
’’بہترین کلمہ وہ ہے جس کا ورد میں کرتا ہوں اور مجھ سے پہلے انبیاء علیہ السلام کرتے رہے ہیں، وہ کلمہ لا الہ الا اللہ ہے‘‘
’’ذکر کے ہر مقام کا ایک خاص مرتبہ ہے خواہ ذکر بالجہر ہو یاخفی- پہلا مرتبہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی زبانی ذکر کی طرف رہنمائی کی ہے- پھر ذکر نفس ہے پھر ذکر قلب، ذکر روح، ذکر سر ذکر خفی اور آخر میں ذکر اخفی الخفی کا مرتبہ ہے‘‘-[9]
افضل الذکر والی حدیث پاک کے متعلق حجۃ الاسلام امام غزالیؒ اپنی تصنیف ’’مکاشفۃ القلوب‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا ہے- سب سے افضل کلام وہی ہے جو میں نے اور مجھ سے پیشتر تمام نبیوں نے کیا ہے اور وہ ہے:
’’ لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ‘‘
’’نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ تعالیٰ کے وہ اکیلا ہے اور اس کا ساتھی کوئی نہیں‘‘-[10]
کلمہ پاک کے حروف کے متعلق مغلیہ دور کے معروف عالم دین قطب الدین احمد المعروف شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اپنی کتاب ’’انفاس العارفین‘‘ میں بیان فرماتے ہیں:
’’والد ماجد فرمایا کرتے ہیں کہ ایک دن عصر کے وقت میں مراقبے میں تھا کہ غَیبت کی کیفیت طاری ہوگئی- میرے لیے اس وقت کو 40 ہزار برس کے برابر وسیع کردیا گیا اور میں اس مدت میں آغاز آفرینش سے روز قیامت تک پیدا ہونے والی مخلوق کے احوال و آثار کو مجھ پر ظاہر کر دیا گیا-رقم الحروف (شاہ ولی اللہ) کا گمان ہے کہ آپ نے یہ کلمات بیان کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کے حروف کا فاصلہ اتنے ہزار برس کا ہے‘‘- واللہ اعلم [11]
توحید کا فلسفہ اپنے اندر کل عقائد کاجاذب ہے-اس کی فہم حاصل ہونے کے بعد اقرار احدیت کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا-حضرت ابو الحسن علی بن عثمان ہجویری المعروف بہ داتا گنج بخشؒ اپنی مایہ ناز تصنیف ’’کشف المحجوب‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’حضرت شبلیؒ نے فرمایا: توحید جمال احدیت اور موحد کے درمیان پردہ ہوتی ہے- کیونکہ توحید کو فعل بندہ کہیں تو فعل بندہ مشاہدہ حق کی علت نہیں ہوسکتا اور عین مشاہدہ میں جو چیز علت مشاہدہ نہ ہو وہ حجاب ہے- بندہ اپنے کل اوصاف کے ساتھ غیر اللہ ہوتا ہے کیونکہ جب بندے کی کسی صفت کو جز و حق سمجھا جائے تو لامحالہ خود بندے کو بھی حق سمجھنا پڑے گا- اس صورت میں موحد، توحید اور احد تینوں ایک دوسرے کی علت ہو جائیں گے اور یہ بالکل نصاریٰ کا عقیدہ تین میں تیسرا ہو کر رہ جائے گا- جو صفت طالب کے لئے راہ توحید میں مانع فنا ہو وہ صفت حجاب ہے اور طالب موحد نہیں- جب یہ ثابت ہے کہ ذات حق کے سوا ہر چیز باطل ہے- خود طالب ذات حق کے سوا ہے- اس لیے اس کی جملہ صفات مشاہدہ جمال حق میں باطل ہیں- لا الہ الااللہ کی یہی تفسیر ہے‘‘-[12]
فضائلِ کلمہ طیبہ تعلیماتِ سلطان باھوؒ کی روشنی میں (تصنیفات و ابیات)
حضرت سلطان باھو قدس سرہ العزیز کے منہجِ تصوف میں جو ذکر اذکار مروج ہیں اُن میں تصور اسم اللہ ذات(اسم اعظم) اورکلمہ طیب لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے ذکر کو انفرادیت و فضیلت حاصل ہےاور آپ قدس سرہ العزیز کی تمام تر تصانیف جو منظر عام پرموجود ہیں ،اُن میں تقریباً ہر تصنیفات میں کلمہ طیب کے فضائل و اذکار کو بارہا مرتبہ بیان فرمایا گیاہے- آپ کے ہاں کلمہ طیب کی فقط روایتی فضیلت ہی بیان نہیں کی گئی ہے بلکہ باقاعدہ کلمہ طیبہ پر فلسفیانہ مباحث موجود ہیں جو تصوف اور تفسیر کے میدان میں انفرادی حیثیت کی حامل ہیں-
پہلا بنائے اسلام(ایمان مطلق):
اسلام کے پانچ ارکان ہیں جن پر دین متین کی پوری عمارت استوار ہے-ان ارکان میں سب سے پہلا اور اہم ترین کلمہ طیب ہے جس کے اقرار و تسلیم سے بندہ اس عمارت میں داخل ہوتا ہے-حضور سلطان العارفین قدس اللہ سرہٗ فرماتے ہیں:
’’آدمی پانچ بنائے اسلام سے مسلمان ہوتا ہے جو دس طریق پر ہیں،پانچ کاتعلق ظاہر سے ہے اور پانچ کاتعلق باطن سے ہے- پہلا بنائے اسلام کلمہ طیب لا إلہ الااللہ محمد رسول اللہ ہے جس کا ظاہرز بانی اقرار ہے اور باطن تصد یق قلب ہے‘‘-[13]
کلمہ پاک کافقط زبانی اقرارکافی نہیں ہے بلکہ سچے دل سے اس عقیدہ کو تسلیم کرنا فرض ہے-بزبانِ حضرت سلطان باھوؒ:
’’کلمہ طیب لا إله الا الله محمد رسول الله كاتعلق إقرار زبان اور تصدیق قلب سے ہے اور اسی کو ایمان مطلق کہتے ہیں- کلمہ طیب کے 24 پاک و طیب حروف ہیں جن پر کوئی نقطہ نہیں ہے یعنی ان پر دروغ وستم و نفاق وتکبر و ہوا وطمع و رشوت وبغض وعجب وحسد و حرص و بخل و غیبت وغیرہ کا کوئی نقطہ نہیں ہے- اگر کوئی آدمی ان نا شائستہ نقاط کو دل میں رکھ کر یہ کلمہ مجید پڑھتا ہے اور اس کا ذکر اپنی زبان سے کرتا ہے تو اس کے معنی بدل جاتے ہیں اور اس سے زبان ہرگز پاک نہیں ہوتی اور نہ ہی دل صفائی پکڑتا ہے‘‘-[14]
وقتِ نزاع میں ذکر کلمہ طیب کی تاکید:
قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر کو فرض فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ ہر وقت ہر حال میں اللہ کا ذکر کرنا ہے- خواہ وہ رنج و الم کا عالم ہو، خوشیاں ہوں ، تسکین و صحت ہو، بیماری ہو یہاں تک کہ نزاع کی کیفیت ہو-حضرت سلطان باھو قدس اللہ سرہٗ فرماتے ہیں:
’’زندگی کی انتہا پر جان کنی کے وقت بھی ذکر اللہ کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اُس وقت یا تو کلمہ طیب’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہِ‘‘ پڑھا جائے یا اللہ کا نام لیا جائے یا کلمہ شہادت پڑھا جائے اور یہ سب ذکر اللہ ہے‘‘-[15]
نفی اثبات کے ذکرکی تلقین(فلسفہ موت):
جب طالب اللہ کسی کامل مرشد کی بارگاہ میں پہنچتا ہے تو وہ مردِ خود آگاہ طالب کو مست الست کرنے اور حال سے باخبر کرنے کیلئے اس کے وجود پر کلمہ طیب کے ذکر کو کھول دیتا ہے اور طالب جہر و سر کی حالت میں کلمہ پاک کا ذکر کرتاہے-آپ قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’مرشد کامل چاہتا ہے کہ طالب کو توجہ بہ توجہ ہر مقام طے کرادے- اس کے لئے پہلے وہ طالب کی صورت کو توجہ سے تصور و تصرف میں لاکر لا الہ کی نفی میں فنا کر تا ہے - جب لا الہ کی نفی میں طالب کی صورت نفس فنا ہو جاتی ہے تو وہ صورت طالب کو اپنے تصور وتصرف میں لے آ تا ہے اور اسے اثبات الا اللہ میں غرق کر کے اس کے قلب و روح کو زندہ کر دیتا ہے جس سے طالب کے باطنی حواس خمسہ کا پردہ ہٹ جا تا ہے ، اس کے اوصاف ذمیمہ زائل ہو جاتے ہیں اور کوئی چیز اس کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں رہتی اور وہ ہر وقت مشاہدۂ معرفت اللہ میں غرق رہتا ہے‘‘-[16]
ایک اور مقام پر آپ قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’جان لے کے فقیر طالب اللہ کو پہلے ہی روز کلمہ طیب لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰهِ کے حاضرات کا سبق دیتا ہے جس سے طالب فنا و بقا کے مراتب سے گزر کر مراتبِ فقر پر پہنچ جاتا ہے اور روشن ضمیر ہو کر نفس پر امیر ہو جاتا ہے‘‘-[17]
دینِ اسلام محبت کا درس دیتا ہے-اسلام کی اکملیت پر ایمان نصیب ہوتا ہے اور بندہ عشق کے میدان میں قدم رکھتا ہے اور ایمان کی تکمیل کے بعد فقر نصیب ہوتا ہے جس پر حضور رسالتِ مآب (ﷺ) نے فخر فرمایا ہے اور بندہ معرفتِ الٰہی کے نور سے منور ہوجاتا ہے-نفس کو فنائیت ملتی ہے اور روح کو بقا مل جاتی ہے-یہ مقامات و مراتب طالبِ حق کو مرشدِ کامل کی بارگاہ سے ہی عطا ہوتے ہیں-اس متعلق حضرت سلطان صاحب قدس اللہ سرہٗ فرماتے ہیں:
’’یہ ’’اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰهُ- مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا‘‘ کے مراتب ہیں جنہیں مرشدِ جامع تصّورِ اسمِ اللہ ذات اور کلمہ طیبات ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ‘‘کی حاضرات سے کھول کر دکھا دیتا ہے‘‘-[18]
حضرت سلطان صاحب کے ہاں مرشد کا معیار ہی یہ ہے کہ وہ طالب کو چلہ کشی اور ریاضتوں میں مشغول کئے بغیر ہی حق تک ’’یک دم برم‘‘ کردے-اس کے ظاہر و باطن سے گرد و غبار ہٹا کر فراق کے پردوں کو چاک کردے اور طالب کو خالق کا قرب دِلادے-ان سب کیلئے مرشد کامل طالب کو تصور اسم اللہ ذات اور ذکرکلمہ پاک کی تلقین فرماتا ہے-جیسا کہ آپ قدس اللہ سرہٗ فرماتے ہیں:
’’مرشدِ کامل صاحبِ ذوق طالب اللہ کو شروع ہی میں مشاہدۂ دل کے مرتبے پر پہنچا دیتا ہے اور مرشدِ ناقص اُسے رات دن چلہ و ریاضت میں مشغول رکھتا ہے-یہ مرشدِ کامل ہی کی شان ہے کہ وہ تصّورِ اسم اللہ ذات سے میدانِ دل کھول کر طالب اللہ کو دکھا دیتا ہے-ایسی فتوحات کی چابی کلمہ طیب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ ‘‘ہے‘‘-[19]
تمام علوم کلمہ پاک میں موجود ہیں:
علم و آگہی، مشاہدات اور حقیقت کے تمام تر اسرار و رموز کلمہ پاک کی زد میں ہیں -کلمہ کا فلسفہ ازل اور ابد کی تمام گُھتی کو سلجھانے کیلئے کافی ہے -توحید ہی انسان کو انسان بناتی ہے اور اسے دوسرے مخلوقات سے منفرد درجہ دیتی ہے اور رسالت انسان کو سلیقہ زندگی اور بندگی کا علم دیتی ہے-حضرت سلطان باھو اپنی تصنیف لطیف ’’امیر الکونین‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’پس معلوم ہوا کہ دونوں جہان علم کی قید میں ہیں، علم کلمہ طیب لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کی قید میں ہے اور کلمہ طیب اسم اللہ ذات کی قید میں ہے - جو بھی کلمہ طیبہ کو تصدیقِ دل کے ساتھ پڑھتا ہے اور اس کی حقیقت کو جانتا ہے اُس سے کوئی علم مخفی و پوشیدہ نہیں رہتا‘‘-[20]
مطالب کے حصول کا ذریعہ:
اللہ کو یاد کرنے کے بیش بہا طریقے ہیں مگر حدیث پاک میں افضل الذکر کلمہ طیبہ کو فرمایا گیا ہے ؛اور اذکار کا حصول وصال ہوتا ہے تاکہ طالب واصلِ حق ہوکر واصل بن جائے اور اس کو تمام مطالب و مفاہیم کا ادراک ہوجائے-جب باطن پاک ہوجائے اور معیتِ خداوندی سے سالک ہمکنار ہوجائے تو پیچھے کوئی حاجت باقی نہیں رہتی-آپ قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’حاضراتِ تصّورِ کلمہ طیبّات ’’لَآ اِلَہٰ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ‘‘سے طالب پر ذکرِ پاکی غیبی کھل جاتا ہے جو اُسے دونوں جہان میں بہرہ مند کر کے ہر مطلب سے ہمکنار کرتا ہے‘‘-[21]
استغراقِ فنافی اللہ اور کلمہ شریف:
حضرت سلطان باھو ؒ فرماتے ہیں کہ بندہ اپنے مالک کے قرب و وصال سے ہمکنار جس ریاضت کے ذریعے ہوپاتا ہے وہ سراسر شریعتِ مطہرہ کے دائرہ کے اندر ہی ممکن ہے جس میں رہ کر وہ اسم اعظم کا ذکر کرتا ہے، اسم اللہ ذات کا تصور پکاتا ہے اور کلمہ طیب کا ورد، وظیفہ، ذکر کرتا رہتا ہے-ان کی برکات اور تاثیر سےرضائے الٰہی کی ان کی طلب بڑھتی رہتی ہے اور خاص ہوجاتی ہے-اس بارے میں حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
’’برکتِ اسمِ اعظم و تاثیر کلمہ طیبّ اور غلباتِ تصورِ اسم الله ذات کی مدد سے جب کسی طالب الله پر استغراقِ فنا فی الله کا اِنعام کھولتا ہے تو اُس پر جمعیتِ قربِ الٰہی کامل ہو جاتی ہے-اہلِ راز کی ریاضت باجماعت نمازِ پنجگانہ ہے-بانماز راز برحق ہے اور بے شریعت و بے نماز راز باطل ہے-صاحبِ راز ہمیشہ تصورِ اسمِ الله ذات میں غرق رہنے والا اہلِ نظر عارف باللہ ہوتا ہے جو اپنے وجود سے خونِ جگر پیتا ہے-اِس ریاضت سے بڑھ کر سخت اور بہتر ریاضت اور کوئی نہیں ہے-ریاضت بھی دو قسم کی ہوتی ہے-(1)ریاضتِ عام:بعض لوگوں کی ریاضت ریا پر مبنی ہوتی ہے-جوسراسر تسکینِ ہوائے نفس، رجوعاتِ خلق اور ننگ و ناموس کی خاطر کی جاتی ہے-(2) ریاضتِ خاص جو ظاہر و باطن میں محض رضائےالٰہی کی خاطر کی جاتی ہے-یہ رازِ توحید کی ریاضت ہے جس کی چابی کلمہ طیّب ’’لَآ اِلَہٖ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ ہے‘‘-[22]
(جاری ہے)
[1](ابراہیم: 24-27)
[2](سورہ محمد(ﷺ):19)
[3](الفتح:29)
[4](کتاب الاسماء والصفات للبیہقی، رقم الحدیث:195)
[5]( صحیح البخاری، رقم الحدیث: 7372)
[6](صحیح البخاری،رقم الحدیث : 44)
[7](صحیح مسلم،کتاب الایمان)
[8](البقرہ:198)
[9]( سرالاسرار، ص:117)
[10](مکاشفتہ القلوب ، ص :382)
[11](انفاس العارفین ، ص :107)
[12](کشف المحجوب ، ص :370)
[13](محک الفقر کلاں،ص:72-73)
[14](محک الفقر کلاں،ص:134)
[15]( عین الفقر،ص:258-259)
[16](اسرار القادری،ص:68-69)
[17]( امیر الکونین ،ص:64-65)
[18](شمس العارفین ،ص:90-91)
[19](شمس العارفین:ص،78-79)
[20](امیر الکونین،ص: 144-145)
[21](شمس العارفین،ص:65-66)
[22](کلید التوحیدکلاں،ص:22-23)