عِشق اَسانوں لِسیاں جَاتا لَتھّا مَل مُہاڑی ھو
نَاں سووے ناں سون دیوے جِیویں بَال رَہاڑی ھو
پوہ مَانہہ مَنگے خَربُوزے مَیں کِتھوں لَیساں واڑی ھو
عَقل فِکر دِیاں بھُل گیاں گَلاں باھوؒ جَد عِشق وَجائی تَاڑی ھو
Ishq has taken us weak landed in me by clinching to inners door Hoo
Like unrepentant child he would not sleep neither let me sleep any more Hoo
It wants melons how will I grow its crop in winters deep Hoo
When ishq clapped hands Bahoo intellectual thoughts are not to creep Hoo
Ishq asaano’N lissya jata latha mal muhari Hoo
Na’N soway na’N sowan deway jeway bal raha’Ri Hoo
Poh man’H mangy Kharbozay mai’N kitho’N laisa’N wa’Ri Hoo
Aql fikr diya’N bhul gayya’N galla’N Bahoo jad ishq wajai ta’Ri Hoo
تشریح:
این گوہرِ بو العجب کہ دل نامِ وی است |
|
ہر چند کہ شکستہ تر بہ قیمت بہتر |
1-’’یہ نادر موتی جسے دل کہتے ہیں شکستگی سے جتنا عاجز ہوتا ہے اُتنی ہی اُس کی قیمت بڑھتی ہے‘‘-(اسرار القادری)
مزید ارشادفرمایا :
چون زلفِ بتان شکستگی عادت کُن |
|
تاصید کنی ہزار دل در نفسی |
’’تُو زلفِ محبوب کی طرح شکستہ دلی کو اپنا شیوہ بنا لے تاکہ تُو بھی ہزار ہا دلوں کو اپنا دیوانہ بنا سکے‘‘-(اسرار القادری)
عشق کا یہ دستور ہے کہ و ہ ایسے دل میں بسیر اکرتاہےجو کمزور یعنی دنیا سے بیزار ہو اور جس کاتعلق اللہ عزوجل کے علاوہ ہرچیز سے ختم ہوچکا ہو-
2-3: اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ تاجدارِ کائنات سیدی رسول للہ (ﷺ) کی کیفیت مبارک کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتی ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کی لامحدود و بے انداز محبت کا درد اور آتش ِعشقِ توحید کی تپش آپ (ﷺ) کو ایک پل کیلیے بھی آسودہ نہیں رہنے دیتی تھی‘‘-(کلیدالتوحیدکلاں)
اس بیت مبارک کے ان دو مصرعوں میں طالب کو راہ عشق کو پیش آنے والے امتحانات اور اس کے دل پہ گزرنے والی کیفیات کا تذکر ہ ہے کہ عشق،طالب صادق کو اللہ عزوجل کی یاد میں جگائے رکھتاہے اور اپنی بات کو منوانے کے لیے اس کی ضد ایک بچے سے کم نہیں ہوتی جو اپنا مطالبہ پورا کیے بغیر نہیں رہتااور اس کے بعض اوقات مطالبات ظاہری عقل سے بھی ماورٰی ہوتے ہیں جیساکہ آپؒ اپنی تعلیمات میں ارشادفرماتے ہیں:
’’جان لے کہ عشق کی تعلیم مدرسے کے کسی بھی امام نے نہیں دی کیونکہ عشق ایک بارِ گراں ہے-عشق کی رِیت جہان بھر سے بیگانگی ہے‘‘- (عین الفقر)
عاشق صادق کی یہ کیفیت درحقیقت اس لیے ہوتی ہے کیونکہ وہ ہر قیمت پہ محبوب کے وصال کا طالب ہوتا ہے اور وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتا جیسا کہ آپؒ ارشاد فرماتے ہیں :’’عاشقوں کا دل درخت کے پتوں کی مثل ہوتا ہے جو عشق کی گرمی و حرارت اور بادِ خزاں کے تھپیڑے کھاکھا کر کبھی برہنہ اور کبھی پوشیدہ ہوتا رہتا ہے -اِس دل کی بہار وصالِ یار سے ہے ،بے یار بہار کس کام کی ‘‘؟(محک الفقر کلاں)
اللہ رب العزت اور محبوب کبریا (ﷺ) کے عشق سے لبریز دل کی انہیں کیفیات کو آپؒ ایک مقام پہ یوں بیان فرماتے ہیں:
’’یہ محبت ہی ہے جو دل کو آرام نہیں کرنے دیتی ورنہ کون ہے جو آسودگی نہیں چاہتا‘‘-(عین الفقر)
مزید ارشادفرمایا : ’’ اُن کے دل آتش ِعشق کی گرمی سے دیگ کی طرح کھولتے رہتےہیں، کبھی وہ پُرجوش ہوتے ہیں اور کبھی پُر سکون، وہ اپنے شب و روز اِسی طرح گزارتے ہیں‘‘ -(عین الفقر)
عقل و فکر کی رسد فی اللہ جمال |
|
معرفتِ دیدار را گویند وصال |
4 -’’سیر فی اﷲاور جمالِ اِلٰہی تک عقل و فکر کی رسائی کہاں ممکن ہے؟ معرفت ِ دیدار ہی وصالِ حق ہے‘‘ -(کلیدالتوحیدکلاں)
’’معیت ِ ذاتِ حق کا یہی وہ دائمی اِستغراق ہے جو عارفانِ حق تعالیٰ کا مقصودِ کلی ہے بلکہ اِس مقام پر تو توجہّ و تفکر و دلیل و عقل و وہم و خیال و مراقبہ اور ظاہری علم وغیرہ تمام حجابات ہیں‘‘-(محک الفقر کلاں)
مزید ارشادفرمایا:’’استغراقِ وحدتِ کبریا کی حالت میں علم ودانش اور عقل و چاہت کی حاجت باقی نہیں رہتی اور نہ ہی وہاں ذکر و فکر وآواز کی ضرورت باقی رہتی ہے‘‘-(نور الھدٰی)