ع: عاشِق سوئی حقیقی جِہڑا قَتل معشوق دے منّے ھو
عِشق نہ چھوڑے مُکھ نہ موڑے توڑے سے تلواراں کھَنّے ھو
جِت وَل ویکھے راز ماہی دے لگے اوسے بنّے ھو
سچّا عِشق حسینؑ علیؑ دا باھوؒ سِر دیوے رَاز نہ بھنّے ھو
Actual aaashiq is such who acknowledges his killing by the beloved Hoo
Never abandons ishq neither he turns his face even if hundred swords kill him Hoo
Whichever direction he sees the secret of beloved he takes such direction Hoo
True ishq is of Hussain Ali )R.A( Bahoo who submits his head and secrets does not make known Hoo
Ashiq soi haqiqi jeh’Ra qatal mashooq dy mannay Hoo
Ishq nah cho’Ray much nah mo’Ray to’Ray sai talwara’N khannay Hoo
Jit wal wekhay raaz mahi day laggay oosay bannay Hoo
Sacha ishq Hussain Ali da Bahoo sar deway raaz na bhannay Hoo
تشریح:
1:می نترسند عارفان دائم |
|
لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃً لَّائِمِ |
’’عاشقانِ الٰہی ہر گز نہیں ڈرتے اور نہ ہی وہ کسی کی ملامت سے خوفزدہ ہوتے ہیں ‘‘ -(محک الفقرکلاں)
حقیقی عاشق وہی ہے جو اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کر اپنے تمام اُمور اپنے مالک ِ حقیقی کے سپر د کر دیتے ہیں-جیسا کہ سُلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ ارشادفرماتے ہیں:
’’اگر تُو عاشق ِحق ہے تو دم نہ مار اور اپنا سر پیش کر دے ، اِس راہ میں اگر سر گردن سے جدا ہو جائے تو بہت اچھاہے‘‘- (امیرالکونین)
مزید ارشادفرمایا
’’واصل باللہ عاشقانِ الٰہی اپنے تمام امور اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیتےہیں کہ وہ زندہ دم و ثابت قدم ہو کر خود کو وحدتِ حق میں غرق رکھتے ہیں‘‘-(محک الفقرکلاں)
آپؒ خود اپنے بارے میں ارشادفرماتے ہیں :
’’ مَیں اُس کے عشق کا پروانہ ہوں، اپنی جان سے بیگانہ ہوں-اگر آتش ِعشق مجھے جلائے تو مَیں دم کیوں ماروں؟‘‘(عین الفقر)
2: ’’ جس کے گریباں پہ تیرے عشق نے پنجہ ڈالا، غمِ عشق نے اُس کی روح و رگِ جان پکڑلی‘‘-مزید ارشادفرمایا :’’ذکر ِحامل ایسا ذکر ہے کہ جسے ذاکر اگر چھوڑ بھی دے تو یہ ذکر اُسے ہر گز نہیں چھوڑتا بلکہ بلا فکر جاری ہو کر اُس کے وجود پر اور زیادہ اَثرانداز ہوتا ہے اور اُسے اپنے قبضہ و تصرف میں رکھتا ہے‘‘-(کلید التوحیدکلاں)
آپؒ نے اپنی اس کیفیت کو بیان کرتے ہوئےارشادفرمایا:
’’اگر مَیں نور حضور کو چھوڑوں بھی تو وہ مجھے نہیں چھوڑتا- اگر میں تجلیاتِ انوارِ دیدار کی سوزش و گرمی سے عاجز ہو کر اُن سے گریز کروں اور ہوائے نفس کی طرف متوجہ ہونے کی کوشش کروں تو نورِ حضور مجھ پر غالب آجاتاہے اور وہ مجھے ایسا نہیں کرنے دیتا-بیت :’’ مَیں جس طرف بھی دیکھتا ہوں وہ مجھے اپنا دیدار کراتا ہے اور جس طرف بھی متوجہ ہوتا ہوں وہ میرے سامنے رہتا ہے‘‘-(امیر الکونین)
3:عاشق ہمیشہ اپنے محبوب کی رضااور خوشنودی کا متلاشی رہتاہے اور اس کے تمام اعمال و افعال کا مرکزو محور بھی اللہ عزوجل کی رضا اور خوشنودی رہتی ہے، جیسا کہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:’’( آپ (ﷺ)فرمادیجیے کہ بے شک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لئے ہے جو رب سارے جہان کا‘‘( الانعام:162)- اس لیے آپؒ ارشادفرماتے ہیں :’’ تُو جو کام بھی کرے رضائے الٰہی کی خاطر کر تاکہ تُو رازِ کُنْ کامحرم ہوسکے‘‘-(اسرارالقادری)
4: ’’ اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ‘‘میں کمال امامین ِ پاک حضرت امام حسن اور امام حسینؒ کو نصیب ہوا جو سید ی رسول اللہ (ﷺ) اور خاتونِ جنت اُم المومنین حضرت فاطمۃ الزہرہ ؒ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں‘‘-(محک الفقرکلاں)
یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اللہ عزوجل کا کوئی برگزیدہ بندہ ’’اہل بیت اطہار ‘‘ کی محبت میں صداقت کے بغیر اللہ عزوجل کی محبت کا دعوٰی کرسکے ،ا س لیے اللہ عزوجل کے ہر ولی نے اپنے قول وفعل سے نواسۂ رسول(ﷺ)سید الشہداء سیدنا حضرت امام حسینؒ کے ساتھ والہانہ محبت کا اظہار کیاہے،اسی محبت و عقیدت کا اظہار فرماتے ہوئے حضرت سخی سلطان باھوصاحبؒ ارشادفرماتے ہیں :
’’مَیں حضرت اِمام حسن اور امام حسین ؓ کی خاک ِپا ہوں اور مجھے حضور نبی رحمت(ﷺ) کے ہر صحابی کا ہم مجلس ہونے کا شرف حاصل ہے‘‘(عقل بیدار) –
اس لیے آپؒ تنبیہہ فرماتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں :
’’جو شخص آلِ نبی (ﷺ) و اولاد ِعلی وفاطمۃ الزہرہ ؓ کا منکر ہے وہ معرفت ِالٰہی سے محروم ہے‘‘-(نورالھدٰی)