ع:عِشق سَمندر چَڑھ گیا فلک تے کت وَل جہاز کچیوے ھو
عَقل فِکر دی ڈونڈی نوں چَا پہلے پور بوڑِیوے ھو
کڑکن کپڑ پوون لہراں جَد وحدت وِچ وَڑیوے ھو
جِس مرنے تھیں خَلقت ڈردی باھوؒ عاشِق مرے تاں جیوے ھو
The ocean of ishq has reaches the sky where I could anchor ship Hoo
Interruptions of intellect and thoughts on the first occasion must dip Hoo
Tides are roaring fiercely when entered oneness Hoo
People are frightened from such death Bahoo when aaashiq dies then he lives Hoo
Ishq samandar cha’Rh gya falak tay kit wal jahaz kacheeway Hoo
Aql fikr di Don’Di nu’H cha pehlay por bo’Reeway Hoo
Ka’Rkan kap’R powan lehra’N jad wahdat wich wa’Reeway Hoo
Jis marny thi’N Khalqat Dardi Bahoo ashiq maray ta’N jeeway Hoo
تشریح
:’’فقرائے کامل اپنے معاملات کو عشق و محبت کے کمال تک پہنچاتے ہیں جن سے اُن کا سینہ تجلی ٔانوار سے مالا مال رہتا ہے کہ صاحب ِعشق و محبت کے دل پر ہر دم لاکھوں اسرار نازل ہوتے ہیں‘‘-(عین الفقر)
راہِ فقر میں عشق روحانیت کا استعارہ ہے اور اس کا مرکزومحور دل ہے اور عقل مادیت کا استعارہ ہے،عشق جب پروان چڑھتا ہے تو عالمِ لاھوت کا باسی بنتا ہے اور عقل جتنی بھی پرواز کرے وہ نفع ونقصان کے چکر اور عالم ناسوت سے آگے نہیں جاسکتی-جیسا کہ حضرت سُلطان باھوؒ ارشادفرماتے ہیں:
’’پس ہر مقام و ہر مرتبہ قلب ہی میں پایا جاتاہے اور قلب ہی سے کھلتاہے- خبردار! قلب گوشت کا وہ لوتھڑا نہیں ہے جو خونِ غلیظ سے بھرا رہتاہے، قلب وہ ہے جو نور ِاِلٰہی سے پُر رہتاہے، اُس کی حقیقت عقل و وہم و خیال سے ماورٰی ہے‘‘-(کلیدالتوحیدکلاں)
نیست آنجا علمِ دانش عقل و آز |
|
نیست آنجا ذکر و فکر و نی آواز |
2:’’ استغراقِ وحدتِ کبریا کی حالت میں علم ودانش اور عقل و چاہت کی حاجت باقی نہیں رہتی اور نہ ہی وہاں ذکر و فکر وآواز کی ضرورت باقی رہتی ہے‘‘ -(نورالھدٰی)
آپؒ ارشاد فرماتے ہیں:’’اے عالم! اپنا علم اِن جاہل بیل گدھوں کو سونپ دے اور خود عشق ِحق کے سوا ہر چیز سے دست بردار ہو جا‘‘-(عین الفقر)
آپؒ خود اپنے بارے میں ارشادفرماتے ہیں:
’’مَیں نے یہ مراتب آواز وصوت و عقل یا علم قال سے نہیں پائے بلکہ اللہ تعالیٰ کے قربِ لازوال سے پائے ہیں‘‘-(عین الفقر)
3:سیدی رسول اللہ (ﷺ) کا فرمان مبارک ہے:
’’بے شک اللہ تعالیٰ مومنوں کی آزمائش مصیبتوں سے کرتا ہے جس طرح کہ سونے کی آزمائش آگ سے کی جاتی ہے‘‘-(عقل بیدار)
را ہ عشق و راہ فقر میں آزمائش لازم ہے، جس سے طالب کے باطن کی جہاں پرکھ ہوتی ہے وہاں وہ آزمائش اس کے لیے اللہ پاک کے قرب ووصال کا باعث بنتی ہے-جیساکہ آپؒ فرماتے ہیں:
’’ بحر دل میں امواجِ حوادث ِ بادِ مخالف کے تھپیڑے کھا کھا کر عارفوں کے دل مضبوط ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ہر وقت باہوش رہتے ہیں -تصورِ اِسمِ اللہ ذات کے تصرف سے اُن کے دل توحید ِمطلق کے دریائے عمیق بن جاتے ہیں اِس لئے جب وہ بولتے ہیں تو اُن کی ہر بات معرفت ِ اِلٰہی کی موج ہوتی ہے بلکہ اُن کے دل میں ہر وقت معرفت ِ اِلٰہی کی موجیں اُٹھتی رہتی ہیں جس سے اُن کے دل کے احوال ہر دم بدلتے رہتے ہیں ‘‘- (محک الفقرکلاں)
مزید ارشادفرمایا :’’ عاشقوں کا دل درخت کے پتوں کی مثل ہوتا ہے جو عشق کی گرمی و حرارت اور بادِ خزاں کے تھپیڑے کھاکھا کر کبھی برہنہ اور کبھی پوشیدہ ہوتا رہتا ہے -اِس دل کی بہار وصالِ یار سے ہے ،بے یار بہار کس کام کی ‘‘؟ (محک الفقرکلاں)
4: ’’جان لے کہ عاشق مرگِ جان کا طالب ہوتاہے کہ اُسے لامکان میں پہنچنا ہوتا ہے(اور لامکان میں مر کر ہی پہنچا جا سکتا ہے) (عین الفقر)راہ ِفقر میں اپنی جان سے دست بردار ہوئے بغیر طالب کبھی بھی قرب و وصال کے مقامات تک نہیں پہنچ سکتا جیساکہ آپؒ ارشادفرماتے ہیں :’’جب تک طالب اللہ غرقِ وحدت ہو کر صاحب ِحضور نہیں ہو جاتا اور فرمانِ نبوی (ﷺ) کے مطابق جو مرنے سے پہلے مر نہیں جاتا اُس وقت تک وہ ہر مقام پر غمزدہ رہتا ہے اور درجات کے حصول کے لئے مزدوری کرتا رہتا ہے‘‘-(عین الفقر) مزید ارشادفرمایا :’’ جان لے کہ فقر ایک سمندر ہے جس میں مہلک زہر بھر اہوا ہے- جو آدمی اِس سمندر پر پہنچ کر زہر کا پیالہ پی لیتا ہے وہ مر کر شہید ہو جاتا ہے- یہاں وہ مرتا نہیں بلکہ مقامِ ’’مُوْتُوْا قَبَلَ اَنْ تَمُوْتُوْا‘‘ پر پہنچ کر خود کو سپرد ِ خدا کر دیتا ہے‘‘-(عین الفقر)