نقل اللہ تعالیٰ کی اِس بخشش کا تعلق محنت سے نہیں بلکہ معرفت و محبت سے ہے- رحمت الٰہی کی اِس راہ کا تعلق ذکر مذکور سے نہیں بلکہ قربِ حضور سے ہے-لطف ِالٰہی کی یہ راہ تفکر سے نہیں بلکہ فنائے نفس سے ہاتھ آتی ہے- شرفِ اؤلیا ٔاللہ کی اِس راہ کا تعلق طلب ِ دنیائے مردار سے نہیں بلکہ استغراقِ فی اللہ توحید و دیدار سے ہے- یہ راہ دعوت (دعا) کی راہ نہیں بلکہ مجلس ِمحمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دائمی حضوری کی راہ ہے- یہ راہ رجعت کی نہیں بلکہ جمعیت کی راہ ہے-یہ جملہ مقاماتِ ذات اُس وقت کھلتے ہیں جب نفس کی مخالفت میں تفکر کی انگلی سے ناف اور قلب سے سرو دماغ تک ستر مرتبہ اسمِ اللہ ذات لکھنے کی مشق کی جائے- اِس طرح مشق ِوجودیہ کرنے سے کل وجزکی ہر چیز نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے روشن ہوجاتی ہے کہ جملہ مقصودِ جمعیت و معرفت و توحید ِ الٰہی تصور ِاسمِ اللہ ذات میں پنہاں ہے- اسمِ’’ اَللّٰہُ‘‘کے چار حروف ہیں جن کے تصور سے وجود میں چار دریا جاری ہوجاتے ہیں - ایک دریائے توکل،دوسرا دریائے ترک، تیسرا دریائے توحید اور چوتھا دریائے معرفت- جو کوئی اِن چار دریائوں میں غوطے کھالیتاہے عارف باللہ فقیر ہوجاتاہے-ایسے مرتبے کا صاحب ِقوت و صاحب ِضرب و صاحب ِقدرت اور نورالہدیٰ ذاکر صرف عارف قادری ہی ہوتاہے-
ابیات-:(۱)’’ جس کے وجود میں تصورِ اسمِ اللہ ذات کی تاثیر آجاتی ہے وہ دونوں جہان کا امیر ہوجاتاہے-‘‘ (۲) ’’ تصورِ اسمِ اللہ ذات کا نور آفتاب سے زیادہ روشن ہے، اُس کی موجودگی میں کسی قسم کا حجاب باقی نہیں رہتا-‘‘
تصور ِاسمِ اللہ ذات کے غلبے سے نفس مغلوب ہوکر فرمانبردار و تابع غلام بن جاتاہے اور صاحب ِتصور سے ہم سخن و ہم کلام ہوتاہے، نفس کی شناخت تصور و توجہ ہی سے ممکن ہے کہ تصورِ اسمِ اللہ ذات سے نفس فنا ہوجاتاہے-حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے-:’’ جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا، بے شک اُس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا ، یعنی جس نے اپنے نفس کو فنا سے پہچانا، بے شک اُس نے اپنے ربّ کو بقا سے پہچانا-‘‘تصور ِاسمِ اللہ ذات کے غلبے سے قلب کو قربِ الٰہی کی قوت و قدرت حاصل ہوتی ہے اور روح کو نورِ ذاتِ الٰہی کی لذت نصیب ہوتی ہے اور روح قید ِنفس سے آزاد ہو جاتی ہے۔
تصور ِاسمِ اللہ ذات کے غلبے سے سرّ کو گوناں گوں انوارِ ربانی اور اسرارِ پروردگار کا مشاہدہ حاصل ہوتاہے-تصورِ اسمِ اللہ ذات کے غلبے سے صاحب ِ تصورلایحتاج و بے نیاز صاحب ِراز فقیر بن جاتاہے- تصورِ اسمِ اللہ ذات، تصور ِاسمِ محمد سرور ِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور تصور ِکلمہ طیب سے صاحب ِتصور کو ابتدا ہی میں دو علوم حاصل ہوجاتے ہیں-
(جاری ہے)