کلمہ طیب تعلیمات صوفیا کی روشنی میں : قسط 2

کلمہ طیب تعلیمات صوفیا کی روشنی میں : قسط 2

کلمہ طیب تعلیمات صوفیا کی روشنی میں : قسط 2

مصنف: لئیق احمد جنوری 2022

افضل الذکر کلمہ طیبہ کا بیان:

قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کی رو سے تمام اذکار میں سب سے زیادہ فضیلت کلمہ طیبہ کو حاصل ہے اور تمام اصفیا اور اتقیا اپنے اپنے دور میں کلمہ طیبہ کی کثرت اور فضیلت و برکات کا پرچار کرتے رہے اور عوام الناس کو اس کی تلقین فرماتے رہے- کلمہ طیبہ خالق کائنات کی طرف سے گنجینہ عظیم ہے جس کی کنہ تک رسائی کیلئے باطنی طور پر بھی اس کو تسلیم کرنا از حد ضروری ہے تاکہ اس کے حاضرات سے مقامات و مراتب سے آگاہی ممکن ہو-

’’حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:تمام فرائض میں سے پہلا فرض ذکر الله ہے یعنی کلمہ طیب’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ‘‘ کا ذکر ہے‘‘-[1]

’’حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:’’سب سے افضل ذکرکلمہ طیب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ‘‘ کا ذکر ہے‘‘- فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ”اپنے رب کا ذکر کرو عاجزی سے اور خفیہ طریقے سے‘‘- ذاکر جب تصدیق دل کے ساتھ زبان ہلاتا ہے اور’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ‘‘کا ذکر کرتا ہے تو ذکر پر اقرار وتصدیق کے دونوں گواہ قائم ہو جاتے ہیں‘‘-[2]

صوفیائے کرام کی محافل میں سب سے زیادہ فوقیت ذکر اور با لخصوص دین کی اساس کلمہ طیبہ کو حاصل ہے-حضور سلطان باھوؒ اپنی تصنیف میں فرماتے ہیں:

’’ذکر کا تعلق کثرت سے نہیں ہے-ذکرِ توحید چابی ہے جو دل کے قفل میں لگتی ہے تو ہر ذکر و ہر مرتبہ تفکّر و توجہ کھل جاتا ہے اور اسم الله ذات و آیاتِ قرآن و ننانوے اسمائے حسنیٰ و اسمِ مُحَمَّدٌ (ﷺ) کلمہ طیّبات ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ‘‘ کی حاضرات و برکت سے ہر حال و ہر مشاہدہ کھل جاتا ہے‘‘-[3]

مزید آپؒ شانِ کلمہ طیبہ یوں بیان فرماتےہیں:

’’مجلسِ محمدی (ﷺ) سے طالب اللہ کو سات مقامات میسر آتے ہیں (1)مقامِ ازل (2)مقامِ ابد(3) مقامِ دنیا اور مقامِ دنیا میں بھی چار مقامات میسر آتے ہیں یعنی (1) حرمِ مدینہ میں روضہ رسول اللہ (ﷺ) میں مجلسِ محمدی (ﷺ) کی حضوری (2)حرمِ کعبہ اللہ میں مجلس محمدی (ﷺ)  کی حضوری دو مقامات بالائے آسمان ہیں یعنی(1) عرشِ اکبر پر مجلس محمدی (ﷺ) کی حضوری (2)توحیدِ مطلق کے دریائے ژرف پر مجلسِ محمدی (ﷺ) کی حضوری، وہ دریائے ژرف کہ جس کی ہر موج معرفتِ الٰہی کے نور کی بے مثل موج ہے-ان مقامات کے علاوہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک مجلس لامکان میں بھی ہوتی ہے-جس کی مثال نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی اسے بیان کیا جاسکتا ہے-مذکورہ بالا ہر مقام کی مجلس میں کلمہ طیب’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ‘‘ کا ذکر ہوتا رہتا ہے‘‘-[4]

فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’ انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا ‘‘-

انسان کو علوم کے تمام رموز کلمہ طیبہ سے حاصل ہوتے ہیں بلکہ یہ تمام علوم کلمہ طیبہ کی شرح ہیں-

حضور نبی کریم (ﷺ) نے کلمہ طیبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ‘‘  کو افضل ذکر فرمایا ہےاور جو شخص صبح کی نماز کے بعد کلمہ طیبہ کو با آواز بلند جذبہ و خلوص کے ساتھ پڑھتا ہے اس پر آتش دوزخ حرام ہو جاتی ہے-حضور اکرم (ﷺ) کا ارشاد گرامی ہے،جو کوئی کلمہ پڑھتا ہےبالخصوص بہشت اس کی جزا ہے-

نیز آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ کلمہ طیبہ کے چوبیس حروف ہیں اور شب و روز کی ساعتیں بھی چوبیس ہیں-جب بندہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘  کہتا ہے تو ہر حرف کے بدلے ایک ساعت کے گناہ مٹ جاتے ہیں-جس طرح کہ آگ خشک لکڑی کو جلا دیتی ہے-نیز آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کلمہ طیبہ میرا قلعہ ہے اور جو کوئی میرے قلعے میں آجاتا ہے،وہ میرے عذاب سے بے خوف ہو جاتا ہے،نیز آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ جو شخص اپنی ایک نشست میں کلمہ طیبہ 40 بار پڑھتا ہے اس کے 70 برس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں-کلمہ طیبہ پر تمام علوم کی ابتداء ہے اور اسی کلمہ طیبہ پر سب علوم کی انتہاء ہےاور اسی پر دین و ایمان کی ابتداء اور انتہا ہے اور دیگر تمام کتابیں فقر کے نزدیک اسی کلمہ طیبہ کی شرح ہیں-[5]

حضور سلطان باھوؒ اپنے روحانی پیشوا پیران پیر حضور غوث الاعظم دستگیر شیخ عبد القادر جیلانیؓ کی تعلیمات میں شان کلمہ طیبہ اور اُس کے مقامات عظیم کا تذکرہ اپنی تصنیف ’’کلید التوحید‘‘میں یوں فرماتے ہیں :

’’جان لے کہ پیر دستگیرؓ کے طالب مریدوں میں سے سب سے ناقص و کمتر و نچلے درجے کے طالب کا مرتبہ غوث و قطب کے مراتب سے بہتر و برتروفائق تر ہے کیونکہ آپ اپنے با اخلاص طالبوں اور مریدوں کو ظاہری و باطنی قوت و تصور و تصرف و حاضراتِ اسم اللہ ذات سے یا جذبِ ذکر سے کلمہ طیبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کی ضرب سے وحدانیتِ لازوال کے میدان میں لے آتے ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کی نظر میں منظور کروا کر مجلس محمدی (ﷺ) کی حضوری میں پہنچا دیتے ہیں -حضرت پیر دستگیرؓ کے طالبوں اور مریدوں کو مرتے وقت مراتب حضوری نصیب ہو جاتی ہے اور وہ قوتِ حضوری کی بدولت کلمہ طیبہ  ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘   پڑھ لیتے ہیں اور ان کے وجود میں اسم اللہ کا ذکر جاری ہو کر غالب آجاتا ہے اور ان کے وجود میں محبت الٰہی بھر جاتی ہے‘‘-[6]

حضور سلطان باھوؒ کی تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ دین میں تمام تر عبادات کا مقصود لقائے حق اور معرفتِ حق تعالیٰ ہے- کلمہ طیبہ کا امر الٰہی اور عشقِ حقیقی سے منضبط ہونا تعلیمات محمدی (ﷺ) میں طریق تربیت کا خاصا رہا ہے -

’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘  ذکر امر الٰہی ہے جس کا تعلق روح سے ہے-علم ادب ہے جس کا تعلق نفس مطمئنہ سے ہے-الغرض! اصحابِ رسول اللہ (ﷺ) کے پاس ظاہری علم نہ تھا ذکر اللہ کی تاثیر،کلمہ طیب’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘  کی محبت اور قلبی،روحی،سری،جیسے ذکرِ خفیہ سے انہیں علمِ لدنی اور علمِ تفسیرِ کا روشن اور پر تاثیر فیض حاصل تھا-وہ اپنی ہر گفتگو میں پہلے کلمہ طیب یا اللہ تعالیٰ کا نام لیتے تھے اور اس کے بعد کوئی دوسری بات کرتے تھے-[7]

قرآن و حدیث کے مطالعہ سے اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ ذکرِ قلبی کی فضیلت بدرجہ ہا ذکرِ زبانی سے زیادہ ہے اور ذاکر جو قلبی ذکرمیں ہمیشہ سانسوں کو مقید رکھتا ہے اس کے لیے حضور سلطان باھوؒ فرماتے ہیں کہ :

’’ذاکر وہ ہے جسے مشاہدہ حضوری حاصل ہو، جسے مشاہدہ حضوری حاصل نہیں اُسے ذاکر نہیں کہا جا سکتا-مقلد اہلِ رجعت خود پسند و مغرور ہوتے ہیں-ذکر غرق کا نام ہے اور غرق اُس علم کے مطالعہ کو کہتےہیں جو لوحِ ضمیر کے دفاترِ وحدانیت کے اوراق پر درج ہے-یہ وارداتِ غیبی و فتوحاتِ لاریبی کا وہ علم ہے جو تصورِ اسم اللہ ذات سے کھلتا ہے اور کلمہ طیب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘  سے دکھائی دیتا ہے‘‘-[8]

مزید فرمان مبارک ہے:

’’ذاکر کلمہ طیب چار چیزوں کا محتاج ہوتا ہے (1)تصدیق قلب کے جسے تصدیقِ قلب حاصل نہیں وہ منافق ہے-(2)حرمت و پاکیزگی کے جسے کلمہ طیب پڑھنے سے حرمت و پاکیزگی حاصل نہیں وہ فاسق ہے-(3) اخلاص و جمعیت کے جسے کلمہ طیب پڑھتے وقت لذت و حلاوت و جمعیت و اخلاص حاصل نہیں ہو ریا کار ہے اور (4) تعظیم کے جس کے دل میں کلمہ طیب کی تعظیم نہیں وہ بدعتی ہے ‘‘-[9]

’’ذکر کا پہلا گواہ (نشانی) یہ ہے کہ ذکر لازوال میں مرنے کے بعد قلب ذکرِ الٰہی سے جنبش کرے اور ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘  (ﷺ) کا ذکر کرے‘‘- [10]

تصدیق با لقلب عین شرط :

صوفیائے کرام طالب مولیٰ کو ہمیشہ دل سے تصدیق کی تلقین کرتے ہیں-عمومی طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان زبان سے تواس کلمہ کو ادا کرتے ہیں مگر اس کے معانی و مفاہیم اور شروط سے ناواقف ہیں اور اس کے تقاضے کی ادائیگی کی طرف متوجہ نہیں ہوتے،اسی لئےہماری زندگیوں میں کلمہ طیبہ کے اثرات و برکات دکھائی نہیں دیتے- حضور سلطان باھوؒ کی تعلیمات تصدیق با لقلب کی حامل ہیں-آپؒ فرماتے ہیں:

’’چار چیزیں ایمان و رحمت کی بنیاد ہیں: ( 1 ) ایمان ( 2 ) صدق ( 3 ) تصدیق یقین اور ( 4) ذکرالله ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘  -جس اہل ایمان کو یہ چار چیزیں نصیب ہو جائیں اس کی عاقبت سنور جاتی ہے اور اس کا خاتمہ بالخیر ہوتا ہے‘‘-[11]

’’وہ رات دن تصدیق قلبی کے ساتھ کلمہ طیبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘  پڑھتا رہتا ہے اس لیے ہر وقت اس کے اردگرد کلمہ طیب کا حصار قائم رہتا ہے -جو شخص اس مرتبے پر پہنچ جاتا ہے بے شک وہ صاحب تصدیق دل مومن مسلمان ہو جاتا ہے ‘‘-[12]

روحانی طہارت سے متعلق آپ کا فرمان مبارک ہے

’’مصنف کہتا ہے: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ پڑھ لینے سے عصمتِ کلمہ طیّب کی بدولت آدمی کی جان و مال و تن سب پاک ہو جاتے ہیں‘‘-[13]

’’جو شخص اپنے نفس کو پہچان لیتا ہے بے شک وہ اپنے رب کو پہچان لیتا ہے-کبھی وہ نوری صورت شوق و فکر کے ساتھ کلمہ طیب: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کے ذکر میں مشغول رہتی ہے اور کبھی ورد و وظائف اور تلاوتِ قرآن میں محو رہتی ہے‘‘-[14]

تصرفات کلمہ طیبہ:

صوفیاء کرام تعلق باللہ اور تعلق بالرسول (ﷺ) کا درس دیتے ہیں جس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا، معرفت الٰہی اور عشقِ حقیقی ہے-

حضور سلطان العارفین برہان الواصلین حضرت سخی سلطان باھُوؒ کی تعلیمات اللہ تعالیٰ کے قرب کی طرف دعوت دیتی ہیں-آپؒ کی تصانیف کلمہ طیبہ کے تصرفات کو بیان کرتے ہوئے طالب کا تذکرہ اور اُن کے مراتب بیان فرماتے ہیں:

’’سن! معرفت توحید اور مشاہدۂ قرب حضوری یہ ہے کہ جب طالب اللہ اسم اللہ ذات اور كلمہ طيب  ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کواپنے تصور وتصرف میں لاتا ہے تو اسم اللہ ذات اور کلمہ طیبات کے ہر ہر حرف سے نور کی تجلیات پھوٹتی ہیں جواہل تصور کو لا مکان میں قائم ہونے والی مجلس محمدی (ﷺ) میں پہنچا دیتی ہیں جہاں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے دریائے وحدت الٰہی موجزن رہتا ہے جس میں طرح طرح کی موجیں وحدة وحدة وحدة کے نعرے لگاتی رہتی ہیں - جو آدمی در یائے تو حید پر پہنچ کر نور الٰہی کا مشاہدہ کر لیتا ہے وہ عارف باللہ ہو جا تا ہے‘‘-[15]

حضور سلطان باھوؒ معرفت الٰہی کا درس اور کلمہ طیبہ کی قدر و منزلت کو اپنی تعلیمات میں یوں بیان فرماتے ہیں:

’’ایمان، جمعیت، معرفت الٰہی، تصدیق اور ذکرِ کلمہ طیب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ سب نور ہے جس کا مقام دل ہے- جب اس مجموعی نور کا سورج دل کی نگری میں جگمگاتا ہے تو غنچۂ دل کھل اٹھتا ہوتا ہے اور دل کا پھول خوشبو و فرحت بکھیرنے لگتا ہے اور زبان پر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘  کا سچا اِقرار جاری ہو جاتا ہے ‘‘-[16]

طالبان حق کے مشرف با دیدار ہونے کیلئے از حد ضروری ہے کہ وہ کلمہ طیبہ کی کنہ کو جان لے -جیسا کہ آپ کلید التوحید میں فرماتے ہیں کہ :

’’صلحِ کل تو دونوں جہان کے اٹھارہ ہزار عالم کی چابی ہے اور وہ چابی کلمہ طیب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ ہے- آیات قرآن و احادیث کے عین مطابق حاضرات اسم اللہ ذات کی مدد سے کلمہ طیب کی یہ چابی جب کسی کے ہاتھ میں آتی ہے تو شریعت محمدی (ﷺ) کی برکت سے دونوں جہان اس کے اختیار میں آ جاتے ہیں کیونکہ صلحِ کل رفیقِ الٰہی، غرق فنا فی اللہ اور صاحبِ توفیق ہوتا ہے - یہ اہل بدعت زندیق لوگ صلحِ کل نہیں ہوتے‘‘- [17]

حضور سلطان باھوؒ نے اپنی تعلیمات میں جن عنایات کی طرف اشارہ کیا ان میں کلمہ طیبہ کو صراحتاً متعدد بار پیش کیا -فرماتے ہیں:

’’جان لے کے کلمہ طیبہ کے چوبیس حروف ہیں اور دن رات کے چوبیس گھنٹے ہیں ان چوبیس گھنٹوں میں انسان چوبیس ہزار سانس لیتا ہے- جب کوئی فقیر حالت حضوری میں آکر حالتِ اخلاص کے ساتھ پڑھتا ہے ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ تو کلمہ طیب کا ہر حرف ہر گھنٹے کے گناہوں کو جلا کر اس طرح بھسم کر دیتا ہے جس طرح کے آگ خشک لکڑی کو- کلمہ طیبہ کے ہر حرف سے ہزار ہزار علوم منکشف ہوتے ہیں اور ہر علم سے ہزار ہزار مقبول اعمال منکشف ہوتے ہیں- ان مجموعی اعمال مقبول سے کلمہ طیب کا ذاکر عارف باللہ ہو کر مقربِ حق بن جاتا ہے اور تمام اسرارِ الٰہی اس پر منکشف ہو جاتے ہیں - مجھے تعجب ہوتا ہے ان احمق و بے شعور و مردہ دل و نفس پرست و مغرور و بے باطن لوگوں پر جو حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے حکم و اجازت اور رخصت و قوت کے بغیر محض تقلید کے طور پر تعلیم و تلقین کرتے پھرتے ہیں- یہی وجہ ہے کہ کلمہ طیب کا ذکر ان کے وجود میں تاثیر نہیں کرتا، نہ ان کا نفس خواہشِ گناہ سے باز آتا ہے اور  نہ ہی معرفت توحید کے احوال ان پر منکشف ہوتے ہیں- جب مرشد کامل طالب اللہ کو اصلِ ذکر و اساسِ ذکر یعنی توحید تک پہنچانا چاہتا ہے تو سب سے پہلے توجہ اور تصور اسم اللہ ذات کے ذریعے اسے صدفِ توحید یعنی دریائے سِرّ میں غوطہ دیتا ہے جس سے طالب اللہ کا وجود پاک ہو جاتا ہے اس کے بعد مرشد اسے کلمہ طیبہ کے ذکر کی اجازت دیتا ہے اور طالب اللہ پڑھتا ہے ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘- جب طالب اس ترتیب سے کلمہ پڑھتا ہے تو اس کے دل کی آنکھ کھل جاتی ہے اور وہ معرفت راز کے مقام پر پہنچ جاتا ہے اور مقاماتِ ذات و صفات اور طبقات زمین و آسمان کی کوئی چیز اس سے مخفی و پوشیدہ نہیں رہتی وگرنہ کلمہ طیب تو جلاد و منافق اور مردہ دل لوگ بھی پڑھتے ہیں لیکن وہ کلمہ طیب کی کنہ کو نہیں جانتے- کلمہ طیبہ شریعت مطہرہ کے حصار ہی میں صحیح تاثیر کرتا ہے- پابندئ شریعت کے بغیر ذکر کلمہ طیب سے الٹا رجعت و خرابی پیدا ہوتی ہے (کیونکہ اگر شریعتِ مطہرہ کی پابندی نہ ہو تو اوراد و وظائف الہام کی بجائے استدراج کی طرف لے جاتے ہیں) ‘‘-[18]

٭٭٭


[1](نورالھدیٰ:ص:376-377)

[2](کلید التوحید کلاں،ص: 288-289)

[3]( کلید التوحید کلاں،ص:154-155)

[4]( کلید التوحید کلاں،ص:117-116)

[5]( عین الفقر،ص:302-305)

[6](کلید التوحید کلاں،ص:188-191)

[7](کلید التوحید کلاں،ص:446-447)

[8](کلید التوحید کلاں،ص:132-133)

[9](کلید التوحید کلاں ،ص: 435-437)

[10](توفیقِ ہدایت،ص:60-61)

[11](کلید التوحید کلاں،ص:320-321)

[12](کلید التوحید کلاں، ص: 443-444)

[13](کلید التوحید کلاں ،ص: 434-435)

[14](کلید التوحید کلاں،ص:518-519)

[15](کلید التوحید کلاں،ص:270-271)

[16](کلید التوحید کلاں ،ص: 395-396)

[17](کلید التوحید کلاں ،ص: 418-419)

[18](کلید التوحید کلاں ،ص: 428-431)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر