ع:عِشق دی بھَاہ ہَڈاں دا بَالن عَاشِق بیھ سِکیندے ھو
گھت کے جان جِگر وچ آرا ویکھ کباب تَلیندے ھو
سر گردان پھِرن ہر ویلے خُون جِگر دا پِیندے ھو
ہوئے ہزاراں عاشِق باھوؒ پَر عِشق نصیب کہیندے ھو
Fire of ishq burns with bones aashiq acquires warmth from it Hoo
They cut their soul with saw and see how they make kebab of it Hoo
They suck their hearts blood remain perplexed all the while in longing pain Hoo
Among thousand ashiq’s Bahoo ishq is destiny in which some remain Hoo
Ishq di bhaa ha’Daa’N da balan aashiq baih sekainday Hoo
Ghat kay jan jigar wich aara wekh kabab talainday Hoo
Sar girdan phiran har welay khoon jigar da peenday Hoo
Hoye hazara’N aashiq Bahoo par ishq naseeb kahainday Hoo
تشریح :
ہردمی جان و جگر سوزد آہ! آہ! |
|
بعد ازاں لائق شوی سِرّ راز راہ |
1:’’آہ! توُ اُس راہِ راز پر چلنے کے لائق تب ہوگا کہ جب تُواپنی جان و جگر کو ہر وقت عشق ِ اِلٰہی کی آگ میں جلائے گا‘‘-(کلیدالتوحیدکلاں)
دراصل عشق کی ان کیفیات کی طرف ’’علم تصوف‘‘رہنمائی فرماتا ہے- جیسا کہ حضرت سُلطان باھوؒ ارشادفرماتے ہیں:
’’علمِ تصوف یعنی علمِ وحدانیت ِتوحید اور علمِ معرفت ِاِلٰہی پڑھ کر شرمندہ ہوتا ہے اورذکر ِخفیہ میں مشغول ہو کر اپنی جان کا گوشت کھاتا ہے اور خوفِ خدا میں رو رو کر اِتنی آہ و زاری کرتا ہے کہ ہڈیوں سے مغز نکل آتا ہے‘‘-(کلیدالتوحیدکلاں)
عاشقان را قُوْت و قُوّت جان کباب |
|
فقیر فی اللہ ہمچو عنقا بیحساب |
2: ’’عاشقوں کی قوت و غذا اپنی جان کو کباب بنائے رکھنا ہے اِس لئے فقیرفنا فی اللہ عنقا کی طرح اجر و ثواب اور حساب و کتاب سے پاک رہتاہے‘‘ -(نورالھدٰی)
’’پس مرشد بارگاہِ خداوندی سے جاری ہونے والے حکمِ قضا کی مثل ہے اور طالب آتش ِعشق میں جان کو کباب بنانے والے فرمانبردار عاشق کی مثل ہے‘‘-(عین الفقر)
’’اِس(بدکاری میں ملوث لوگوں ) کے برعکس اہل ِمعرفت وہ لوگ ہیں جنہوں نے وحدت ِحق کو پایا اور اُس میں اپنی جان کو کباب بنایا‘‘-(عین الفقر)
طالب صادق کی یہ کیفیت کب بنتی ہے ؟ اس کی وضاحت فرماتے ہوئے آپؒ لکھتے ہیں : ’’ تصورِ اسم اللہ ذات سے رات دن جان کباب بنی رہتی ہے، بے حجاب فی اللہ حضوری نصیب ہوتی ہے، مجلس ِمحمدی (ﷺ)کی دائم حضوری میں مشرفِ نوربمدِّنظر اللہ منظورہونے کی توفیق ملتی ہے‘‘(امیرالکونین) -مزید ارشادفرماتے ہیں :’’جو شخص ہمیشہ مشقِ تصورِ اسم اللہ ذات کرتا ہے وہ گویا خونِ جگر پیتا ہے اور روز بروز لاغر ہوتا جاتا ہے- اُس کی آنکھوں سے خون بہتا ہے اور جان کباب کی طرح جلتی رہتی ہے ‘‘-(کلیدالتوحیدکلاں)
ہر کہ می بیند بود دائم خموش |
|
غرق فی التّوحید خون از جگر نوش |
3:’’ جو اللہ تعالیٰ کو دیکھ لیتاہے وہ غرق فی التوحید ہوجاتاہے اور ہر دم خاموش رہ کر خونِ جگر پیتا رہتاہے‘‘ -(نورالھدٰی)
خون جگر کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے آپؒ ارشادفرماتے ہیں:’’عاشقوں کی قُوت و زندگی کا دارومدار اِسی خونِ جگر کے پینے پر ہے- تمہیں بھی ہمیشہ خونِ جگر پینا ہے-جو شخص ہمیشہ خونِ جگر پیتاہے وہ عاشق فقیر ہوجاتاہے،اُسے خلوت وریاضت وچالیس روزہ چلے کی حاجت نہیں رہتی‘‘-(نورالھدٰی)
خون جگر کون خوش نصیب پیتے ہیں؟ اس کے متعلق آپؒ ارشاد فرماتے ہیں :’’صاحب ِراز ہمیشہ تصورِ اِسمِ اللہ ذات میں غرق رہنے والا اہل ِنظر عارف باللہ ہوتا ہے جو اپنے وجود سے خونِ جگر پیتا رہتا ہے -اِس ریاضت سے بڑھ کر سخت اور بہتر ریاضت اور کوئی نہیں ہے‘‘-(کلیدالتوحیدکلاں)
4: ’’ہزاراں ہزار وبے حد و بیشمار لو گ فقر کے نام سے واقف ہوئے لیکن ہزاروں میں سے کوئی ایک ہی فقر کے کمال تک پہنچا، فقر کو حاصل کیا ، فقر کو دیکھا اور فقر سے لذت اندوز ہوا‘‘-(نورالھدٰی)
مزید ارشادفرمایا : ’’ اکثر لوگ فقر کے صرف نا م تک ہی پہنچے ہیں،بعض فقر کے اِلہام اور بعض فقر کی اِقتدا تک پہنچے اور بعض نے فقرکا لبادہ اوڑھ کر دنیوی عزو جاہ میں ترقی کی اور لوگوں کو طالب مریدبنایااور اپنے روضے اور خانقاہیں بنوائیں-ہزاراں ہزار میں سے کوئی ایک آدھ سالک ہی امداد رِسول اﷲ(ﷺ) سے فقر کے کمال تک پہنچا‘‘-(کلیدالتوحیدکلاں)
اللہ رب العزت کی عطا میں کوئی شک نہیں لیکن کچھ لوگ بظاہر لباس ِفقر اوڑھ لیتے ہیں لیکن اُن کے دلوں میں صداقت نہیں ہوتی -جیساکہ آپؒ ارشادفرماتے ہیں:
’’سن!بہت سے لوگ بظاہر لبا سِ فقر میں نظر آتے ہیں لیکن بباطن خوار ہوتے ہیں- ہزاروں میں سے کوئی ایک آدھ ہی صاحب ِفقر ہو کر اللہ تعالیٰ کے عشق و محبت کے گلشن ِبہار کے مزے لوٹتاہے - فقیر مشکل کشا و عین نما کو کہتے ہیں‘‘-(نورالھدٰی)