ایک علمِ ظاہر کہ جس کا تعلق عباداتِ ظاہر سے ہے اور دوسرا علمِ باطن کہ جس کا تعلق معرفت ِتوحید اور نورِ ذات کے مشاہدہ سے ہے- چنانچہ فرمایا گیاہے:’’علم کی دو قسمیں ہیں، ایک علمِ معاملہ ہے اور دوسرا علمِ مکاشفہ‘‘-
یہ دائرہ ہر مشکل کے لئے مشکل کشا ہے - جو کوئی ایسی توجہ حاصل کرلیتاہے اُس پر بلا تعجب عرش سے تحت الثریٰ تک ہر زیر و زبر منکشف ہوجاتی ہے-یہ راہ پڑھنے پڑھانے سے ہاتھ نہیں آتی کہ یہ مرتبۂ فقر ہے، جس آدمی کو یہ مرتبہ حاصل ہوجاتاہے وہ ہر ملک و ولایت پر غالب آکر صاحب ِبست و کشاد وصاحب ِاختیار امیر و مالک الملکی فقیر بن جاتاہے- وہ جسے چاہے ملک کی بادشاہی بخش دے اور جسے چاہے معزول کرکے ملک بدر کردے- ایسے معاملات فقیرِ اہل ِذات کی مرضی پر منحصر ہوتے ہیں جیسا کہ فقیرِ باھُو فنا فی ھُو ہے- ایسے فقیرسے ڈرتے رہو کہ ہر قسم کے خزائن ِدولت کا تصرف اُس کے ہاتھ میں ہوتاہے- یقین جانیے کہ اِس مقامِ تاج الانبیا ءکا نقش یہ ہے:-
اگر کوئی عمر بھر یا صرف ایک بار اِس نقش ِاسم اللہ ذات کو تفکر و تصور کے ذریعے اپنے وجود پر لکھنے کی مشق کرے تو قیامت تک اسم اللہ ذات اُس کے ساتوں اندام سے جدا نہیں ہوگا اور اُس پر وہ تاثیر کرے گا کہ اُس کے لئے حیات و موت برابر ہوجائیں گی- جو کوئی اِس نقش کو دماغ کی چوٹی پر لکھے گا اُس پر اسرار ِمحبت، مشاہدۂ حضوری اور مراقبۂ معراج و ملاقات کھل جائے گا- یہ عمل سینے پر کرناہے-اسم اللہ ذات کے اِس نقش سے تزکیۂ نفس تصفیۂ قلب، تجلیۂ روح اور تجلیۂ سرّ حاصل ہوتاہے اور یقیناً عارف اِس سے واقف ہیں-وہ نقش یہ ہے:-