برصغیر پاک و ہند میں دینِ اسلام کی روشنی صوفیائے کاملین کی بدولت پھیلی-جنہوں نے اسلام کے پیغام کو محبت کے غلاف میں لپیٹ کر مخلوق خدا تک پہنچایا-ان کی نگاہ ِکاملہ سے ہزاروں قلوب معطر ومطہر ہوئے - جید صوفیاء کا مسکن یہ خطۂ ارض رہا ہے-جہاں انہوں نے نگاہ سے مخلوق کے دلوں کو طہارت بخشی وہیں ان کا کلام بھی ہدایت اور رہنمائی کا وسیلہ بنا-انہی ہستیوں میں ایک نورِ آفتاب انیسویں صدی کے آغاز میں ضلع جھنگ کے موضع حسوالی سے طلوع ہوا جن کا اسم ِ گرامی سلطان سید محمد بہادر علی شاہ صاحب المشہدی الکاظمی تھا- آپ کے اجداد ہجرت کر کے اس علاقہ میں آئے اس وقت یہاں غیر مسلم کثیر تعداد میں آباد تھے انہوں نے دعوت و تبلیغ کے منصب کو سنبھالا اور لوگوں کو دائرۂ اسلام میں داخل کیا- آپؒ کو فقر کی گُھٹی حضور سلطان العارفین ؒ کی بارگاہ سے حاصل ہوئی- اس چاشنی میں آپ نے اپنی زندگی دین حق کی سربلندی اور مرشد کریم کی غلامی کیلئے وقف کر دی- آپ نے اپنی نگاہ فقر سے قلوب و اذہان مطہر کئے -
جیسے سلطان محمد بہادر علی شاہ ؒ کی ذات علم و عرفان کا مظہر ہے ویسے ہی آپ کا عارفانہ کلام طالبان حق کیلئے رہنمائی کا ذریعہ ہے- آپؒ نے طالب مولیٰ کیلئے وہ رہنما اصول مرتب فرمائے جن کو اپناتے ہوئے وہ سلک سلوک کی تمام منزلیں بطریق ِ احسن طے کر سکتا ہے- آپؒ کے کلام کا خلاصہ مرشد کامل کی ذات ہے یعنی بارگاہِ الٰہی اور بارگاہِ مصطفےٰ کریم (ﷺ) تک پہنچنا غلامئ مرشد کے بغیر ناممکن ہے-ایک طالب حق کو مرشد کی خدمت میں کس طرح حاضر ہونا چاہیے اور کس انداز سے عرض گزاری و التجا پیش کرنی چاہیے، یہ ہمارے موضوع کابنیادی حصہ ہے- حُضور پِیر سید بہادر علی شاہ صاحبؒ کے کلام کا بیشتر حصہ مناجات کے رنگ میں رنگا ہوا ہے- مناجات میں بنیادی طور پہ ایک سالک و طالب راہِ صدق و صفا کی طلب کیلئے اپنے شیخِ کامل کی بارگاہ میں روحانی و باطنی طور پہ آرزوؤں اور خواہشوں کا اظہار کرتا ہے جن کا مقصد روحانی مسائل و بیماریوں کا حل ہوتا ہے جو باطنی طور پہ وسیلۂ شیخ کامل سے نصیب ہوتا ہے - حُضور پِیر صاحب ؒ اپنے کلام میں جہاں ذاتی طور پہ اپنے مرشدِ گرامی کی بارگاہِ مقدسہ میں محبت و عقیدت اور آرزوؤں کا بے مثال نذرانہ پیش کرتے نظر آتے ہیں وہیں آپؒ سالکینِ راہِ فقر کو یہ درس بھی دیتے نظر آتے ہیں کہ بارگاہِ مرشد میں طلب اور خواہشِ باطنی کا اظہار کیسے اور کس انداز میں کیا جاتا ہے -
پیرانِ پیر غوث الاعظم سیدنا شیخ عبد القادر الجیلانی ؒ کی بارگاہِ اقدس میں پیش کی گئی مناجات اپنے اندر بھرپور تخلیقی وفور و روحانی شعور رکھتی ہیں - یہ مناجات مختصر بحر میں ہیں لیکن فنی حوالہ سے بہت مترنم اور رواں مصرعوں سے لیس ہیں -ہمہ سلاسلِ تصوف میں حضور غوث الاعظم ؒ کی شخصیت ایک منفرد مقام کی حامل ہے -کیونکہ ولایت کا ہر دَر اور مقام باطنی طور پہ حضور غوث الاعظم ؒ کی اجازت سے کُھلتا ہے- لہٰذا دنیا کے ہر خطہ میں بسنے والے صوفیائے عظام نے بارگاہِ حضور غوث الاعظمؒ میں مناجات کے نذرانے پیش کئے ہیں-حضرت پیر سید بہادر علی شاہ صاحبؒ کا انداز کس طرح مختلف ہے اس کی چند شعری مثالیں ملاحظہ ہوں :
تینوں چُنیا رسول اللہ |
حضور غوث الثقلین ؒ کی بارگاہ میں حضور پیر صاحب ؒ کا یہ اندازِ عقیدت پنجابی زبان و ادب کی ایک نمایاں مثال ہے آپؒ کے نزدیک حضرت غوث الاعظمؒ کا کمال اور جمال ہر جگہ و خطہ کے اہل التصوف پہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کیونکہ آپ شان و کمالاتِ باطنی میں سردارِ اولیاء ہیں-حضور پیر صاحبؒ فرماتے ہیں:
حُسن تیرے دی وا گُھلی |
حضرت پیر سید بہادر علی شاہ صاحبؒ ہجر کے صدماتِ باطنی سے دوچار ہیں اور وصالِ شیخِ اکمل حضرت غوث الثقلین ؒ کے خواہاں ہیں- لہٰذا عرض گزار ہیں کہ میرے حال پہ بھی رحم و کرم فرمائیں کیونکہ اب مزید ہجر کے صدمات کا برداشت کرنا مشکل ہو گیا ہے -
تُوں عبد القادر ہیں نُوری |
اسی طرح آپؒ نے سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو ؒ کی بارگاہ میں جو مناجات پیش کیں ہیں وہ فقر و عرفان کے خزائن و رموز کے بے مثال نگینے ہیں- آپؒ کی مناجات کا یہ حصہ خاصا معروف ہے اور یہ کلام بہت مترنم و رواں ہے جس میں موسیقیت و نغمگی بین السطور اپنی مکمل دلکشی کے ساتھ جلوہ گر ہے- مناجات در شانِ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو ؒ کے کل11بند ہیں اور ہر بند 6 سے 7مصرعوں پر مشتمل ہے -آپؒ کے کلام کا یہ حصہ بہت پُر تاثیر اور پُر مغز ہے - جب ایک عارفِ کامل اپنی باطنی کیفیاتِ عشق و معرفت رقت انگیز انداز میں رقم کرے تو وہ کیسے روح پر ور نہ ہوں گی- یقیناً یہ بعد میں آنے والے سالکین و عاشقانِ معرفت کیلئے بھی بیش بہا خزانہ ہے- آپؒ کا اپنے مرشد سے والہانہ محبت و عاجزی کا اظہار ان الفاظ میں ہوتا ہے:
باہجھ تساڈے مینوں سوہناں ہرگز آس نہ کائی |
حضرت پیر سید بہادر علی شاہ صاحب ؒ اپنے مناجاتی کلام میں تصورِ اسمِ اعظم پہ بھی گفتگو فرماتے ہیں- کیونکہ یہ قلبی ذکر انسان کی روحانی بیداری کیلئے بہت ضروری ہے جس کا حُکم اللہ رب العزت نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا اور احادیثِ مبارکہ میں بھی قلبی ذکر کا حُکم مبارک موجود ہے- حضرت پیر سید بہادر علی شاہ صاحب ؒ نے بھی حکمِ قرآنی و احادیثِ نبوی (ﷺ) کی روشنی میں ذکر باطنی پہ کلام تحریر کیا ہے-جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں:
ورد بنائیم روز شبینہ نام حضور انور دا |
اسی کلام میں آگے چل کر آپؒ سفرِ طریقت کے بارے میں طالبانِ مولیٰ کی راہنمائی اس انداز میں فرماتے ہیں کہ طریقت کے سفر پہ چلنے والے طالبانِ حق کیلئے ضروری ہے کہ وہ حق الیقین کے درجے پر فائز ہوں کیونکہ حق الیقین کے بغیر راہِ طریقت کا سفر مکمل نہیں ہو سکتا- یقین کا کامل ہونا سفرِ طریقت میں درحقیقت ایک مشعلِ راہ کا کام کرتا ہے - وجود سے غرور و تکبر جیسی صفات کا ختم کرنا سفرِ طریقت کی کامیابی میں سے ایک اہم زینہ ہے جس کے بعد طالب مقاماتِ تصوف میں درجہ بدرجہ کامیابیاں سمیٹتا ہے اور بالآخر اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ جاتا ہے-حضور پیر صاحبؒ فرماتے ہیں:
حق یقین تے عین یقین ہے اے سامان ضروری |
کلام حضور پیر سید بہادر علی شاہ صاحب کا ایک طویل حصہ حضرت سخی سلطان سید محمد عبد اللہ شاہؒ کی مدح میں ہے جس کے کل10بند ہیں - اس حصہ کی مناجات بھی مکمل طور پر عارفانہ رنگ میں ہیں- فقر و عرفان اور تصورِ شیخ کے ساتھ ساتھ ہجر و فراق کی کیفیات بدرجہ اتم موجود ہیں- آپؒ کے اندازِ بیان میں سوزِ قلبی بھی ہے اور رفعتِ تخیل بھی- اگر دیکھا جائے تو انسان خطا کا پتلا ہے- دنیائے ہست و بود میں خطائیں نسلِ آدم سے ہر گام سرزد ہوتی رہی ہیں- اگر کارگاہِ تصوف میں روحانی اقدار کے پیشِ نظر دیکھا جائے تو طالب و سالک کو باطن میں بہت سارے مسائل کا سامنا رہتا ہے جن کے حل کیلئے طالب اپنے مرشدِ کامل کی بارگاہ میں باطنی طور پہ ملتمس ہو کر اپنے معمولاتِ باطنی و مسائل کے حل کیلئے دعا و دلیل کرتا ہے اور اس صدق و یقینِ کامل کے ساتھ بارگاہِ مرشد میں حاضری دیتا ہے کہ میری آرزوؤں کو ضرور حقیقت کا عملی جامہ پہنایا جائے گا- مزید آپؒ کے کلام میں اس جانب بھی اشارہ ملتا ہے کہ جب طالبِ صادق کا اپنے شیخ سے ظاہری و باطنی رابطہ مضبوط ہوتا ہے تو وہ جملہ مسائلِ باطنی سے آزاد رہتا ہے- کیونکہ نگاہِ شیخ کامل سے طالب کے امراضِ باطنی کا حل وقتاً فوقتاً ملتا رہتا ہے لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ طالب اپنے دعوی و دلیل میں سچا ہو اور اپنے شیخ کی فرمانبرداری بجا لائے کیونکہ طالبانِ حق کا ازل سے یہی شیوہ و وطیرہ رہا ہے- حضرت پیر سید بہادر علی شاہ صاحب ؒ اپنے مرشد کی بارگاہ میں جس انداز سے درخواست گزار ہیں اُس کی ایک جھلک درج ذیل اشعار میں دیکھی جاسکتی ہے-
کیا پرواہ اُس نوں جس دا توں ہوویں پیر مکمل ہادی |
حضرت سخی سلطان محمد عبد الغفور شاہؒ کی شان میں لکھی گئی مناجات مختصر بحر میں ہیں جن میں فلسفہ خودی بڑے منفرد انداز میں واضح کیا گیا ہے -اس کا آغاز ہی فلسفیانہ انداز میں کیا گیا ہے اور مکمل طور پہ دعوتِ فکر ہے - یہ کلام فلسفۂ خودی کی گرہیں کھولنے،سلجھانے اور سمجھنے میں معاون ہے - انسان کی غیر ضروری خواہشیں ہی انسان کیلئے مسائل کا انبار کھڑا کرتی ہیں- جب انسان اپنے آپ کو انا و نفسانیت کی کسوٹی پر پرکھنے لگتا ہے تو گویا وہ اپنی انا کو تسکین پہنچا رہا ہوتا ہے- جبکہ صوفیائے کاملین کی تعلیمات میں سب سے پہلا درس ہی عاجزی کا دیا جاتا ہے - کیونکہ اگر وجود میں عاجزی ہو تو یہ صفت مالکِ کائنات کو بے حد پسند ہے ورنہ کبر و غرور بھلا کہاں خالقِ کائنات کو پسند آ سکتا ہے- کیونکہ شانِ سروری فقط ربِ کائنات کو جچتی ہے- مخلوق کیلئے کرم اور مہربانی کے دریچے عاجزی کی سیڑھیوں پہ چڑھ کر کھلتے ہیں - حضرت پیر سید بہادر علی شاہ صاحب ؒ نے اسی فکر کو اجاگر کیا ہے -آپؒ کے کلام کا یہ دلکش فلسفیانہ انداز ملاحظہ ہو:
واہ پیر محمد رمز بتائی |
اچھا شعر عطائے خداوندی ہے- مولانا الطاف حسین حالی نے مقدمہ شعر و شاعری میں شعر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے جان ملٹن کی تعریفِ شعر کا حوالہ دیا ہے کہ ’’سادہ ہو، جوش سے بھرا ہوا ہو اور اصلیت پر مبنی ہو ‘‘- سو اس تعریف کی روشنی میں آپ کے کلام میں یہ تینوں خوبیاں موجود ہیں- مزید اس ضمن میں کلامِ حضور پیر سید بہادر علی شاہ صاحبؒ کے کلام کا اجمالی جائزہ لیا جائے تو آپؒ کا کلام فنی محاسن سے مزین ہے اور مستزاد یہ کہ صنائع بدائع آپؒ کے کلام کو چار چاند لگا دیتے ہیں- تشبیہات و استعارات اور تلمیحات کا نمایاں استعمال بھی کلامِ پیر سید محمد بہادر علی شاہ صاحبؒ میں ملتا ہے -
حضرت پیر سید محمد بہادر علی شاہ صاحب ؒ کا کلام اپنے عہد کے لحاظ سے بہت نمایاں و انفرادی پہلو لئے ہوئے ہے - آپؒ نے جس طرح لفظوں کے در و بست اور مترنم بحور کا انتخاب کیا ہے وہ دل موہ لینے والا ہے-آپؒ کے کلام میں بین السطور فقر و عرفان کے عمیق اور منفرد راز و نیاز موجود ہیں جن تک رسائی کیلئے گہرے روحانی و فکری مشاہدہ کی ضرورت ہے-مزیدآپؒ کا کلام پنجابی زبان و ادب کی صوفیانہ روایت میں ایک عمدہ و نمایاں اضافہ ہے-پاکستان کے تعلیمی اداروں بالخصوص جامعات کو چاہئے کہ ایسے صوفیائے کاملین کے کلام پہ علمی و تحقیقی مقالہ جات لکھوائیں تاکہ امن و آشتی سے لبریز ایسے کلام کو عوام الناس تک پہنچایا جاسکے-
٭٭٭