ابیات باھوؒ : عاشق شوہدے دِل کھڑایا آپ وی نالے کھَڑیا ھو

ابیات باھوؒ : عاشق شوہدے دِل کھڑایا آپ وی نالے کھَڑیا ھو

ابیات باھوؒ : عاشق شوہدے دِل کھڑایا آپ وی نالے کھَڑیا ھو

مصنف: Translated By M.A Khan مئی 2022

عاشق شوہدے دِل کھڑایا آپ وی نالے کھَڑیا ھو
کھَڑیا کھَڑیا وَلیا ناہِیں سَنگ محبوباں دے رَلیا ھو
عَقل فِکر دیاں سب بھُل گیا جَد عِشقے نال جا مِلیا ھو
مَیں قُربان تنہاں تُوں باھوؒ جنہاں عِشق جَوانی چَڑھیا ھو

Poor aashiq has lost his heart and himself had also lost Hoo

By being lost, never returned, with beloved has united at last Hoo

All issues of intellect and thoughts forgotten when in unity with ishq Hoo

I sacrifice upon you Bahoo adolescence reached whose ishq Hoo

Aashiq shohday dil Kha’Raya Aap vi naalay Kha’Rya Hoo

Kha’Rya Kha’Rya waliya nahei’N sang mehbooba’N day raliya Hoo

Aql fikr diya’N sabh bhul gya jad ishqay naal ja milya Hoo

Main qurban tinhaa’N too’N Bahoo jinha ishq jawani Cha’Rya Hoo

تشریح: 

دم مزن گر عاشقی سر پیش نہ

 

سر ز گردن شد جدا این راہ بہ

’’اگر تُو عاشق ِحق ہے تو دم نہ مار اور اپنا سر پیش کردے ، اِس راہ میں اگر سر گردن سے جدا ہو جائے تو بہت اچھاہے‘‘-(امیر الکونین)

کیونکہ ’’سر کو فدا عاشق کرتا ہے‘‘ ( کلیدالتوحیدکلاں)- اس لیے  کہ حضور نبی رحمت (ﷺ)کا فرمان مبارک ہے:’’عشق ایک آگ ہے جو محبوب کے سوا ہر چیز کو جلا دیتی ہے‘‘-مؤمنین کی انہیں صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ ربُ العزت نے ارشادفرمایا:

’’بے شک اللہ عزوجل  نے مسلمانوں سے ان کے مال اور جان خریدلیے ہیں اس بدلے پر کہ ان کے لیے جنت ہے‘‘-(التوبہ:111)

2:’’اگر کوئی جان نثار عاشق ہے تو لقائے حق کا رُخ کرتا ہے‘‘ اور ’’قُرب ِحق کا احساس اُسے( اللہ عزوجل کے طالب   کو) بے قرار رکھتا ہے کہ دل مشتاقِ نظارہ ہوتا ہے‘‘(عقلِ بیدار)-’’جس طرح ذرّہ آفتاب کے مدّ ِنظر ہو کر بے قرار رہتا ہے اُسی طرح عارفانِ اِلٰہی بھی’’ اَللّٰہُ ‘‘ کے مدّ ِ نظر ہو کر خَلق سے فرار اختیار کرتے ہیں(محک الفقر(کلاں)‘‘-  کیونکہ  اشتیاق کے مارے چار چیزوں کو قرار نہیں،(1)ہوا کو،(2)سورج کو،(3) چاند کو اور(4)عاشق کو(عین الفقر)-جب تک عاشق کو وصال ِحق حاصل نہ ہوجائے وہ بے قرار بے چین رہتا ہے اور وہ ایسی سنگت اور رفاقت کا متلاشی رہتا ہے جنہیں اللہ عزوجل نے اپناقربِ خاص سے نوازا ہوتا ہے - جیساکہ سلطان العارفین حضرت سُلطان باھوؒ اپنے متعلق ارشادفرماتے ہیں:

’’مَیں نے یہ مراتب حضور  نبی رحمت(ﷺ)  کی رفاقت، آپ(ﷺ)  کے یاروں کی رفاقت اور پنج تن پاک کی رفاقت سے حاصل کئے ہیں‘‘- (امیرالکونین)

’’عشق راہِ فقر ہے نہ کہ راہِ دانش و پند ، دانشمند وہ ہے جو عشق میں کامل ہو‘‘-(عین الفقر)

یہ بات ذہن نشین رہے کہ آپؒ کئی مقامات پہ’’دانا بن اور یاد رکھ ‘‘ جیسے الفاظ مبارکہ فرماکر عقل وشعور کو بروکار لانے کی تلقین فرمائی اور آپؒ نے کہیں بھی مطلق وعقل وشعور کی نفی نہیں فرمائی بلکہ اُس عقل و فکر کی مذمت فرمائی ہےجو دنیاوی  نفع ونقصان کے چکر میں پڑھ کر اللہ عزوجل کی راہ مبارک میں رکاوٹ بنتی ہے جیساکہ آپؒ ارشادفرماتے ہیں :

’’حیف و افسوس ہے تیری عقل و دانائی پر کہ جس نے تیری حق بین نگاہ کو اندھا کر رکھا ہے‘‘- مزیدفرماتے ہیں :’’دیدارِ الٰہی سے مشرف ہونا اور واصل باللہ ہوناکون سے علم اور کون سی چیز سے ممکن ہے؟وہ محض سیرِ فی اللہ اور مشاہدۂ نور حضور و قرب کا علم ہے جو دانش ِعقل و تمیز سے بالا تر ہے-معرفت ِالٰہیہ کا یہ علم و ہ شخص پڑھ سکتاہے جو ا ِس کا سبق اسم  ’’اَللّٰہُ‘‘ سے پڑھتا ہے اور وہ ہمارا جان سے پیارا  بھائی ہے‘‘-(نورالھدٰی )

4: ’’ اِلٰہی ! مجھے سوزِ عشق عطا فرما کہ یہ تیرا عمدہ اِنعام ہے ، اگر کوئی اِس سے ڈرتا ہے تو یہ مجھے عطا فرما دے ‘‘-(محک الفقرکلاں)

جس طرح اللہ پا ک کا ئنات میں یہ اصول کارفرماہے کہ ہرچیز درجہ بدرجہ پروان چڑھتی ہے ،اسی طرح عشق بھی درجہ بدرجہ اپنے کمال کو پہنچتا ہے جیسا کہ آپؒ عشق و اہل عشق کی تعریف وتوصیف بیان کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں :

’’محبت ِالٰہی کا ایک ذرّہ جملہ عبادات ِ حج و جنگ و زکوٰۃ و نماز و روزہ و نوافل اور تمام جن و اِنس و دیو و پری و فرشتہ و ملائک کی مجموعی عبادت سے افضل ہے بشرطیکہ محبت و اخلاص کی اِس راہ میں فقیر صادق و ثابت قدم اور راسخ الاعتقاد ہو کیونکہ فقرائے کامل اپنے معاملات کو عشق و محبت کے کمال تک پہنچاتے ہیں جن سے اُن کا سینہ تجلی ٔانوار سے مالا مال رہتا ہے کہ صاحب ِعشق و محبت کے دل پر ہر دم لاکھوں اسرار نازل ہوتے ہیں‘‘-(عین الفقر)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر