اسمِ اللہ ذات کا مراقبہ صاحب ِمراقبہ کو لاھو ت لامکان میں پہنچا کر مشاہدۂ حضوربخشتا ہے- مراقبے کی قدر و قیمت وہ نادان اہل ِ ذکر فکر نہیں جانتا جو حبس ِدم کرکے حیوانوں کی طرح پریشان رہتاہے- مراقبہ تو موت جیسی کیفیت ہے- جو کوئی اسمِ اللہ ذات کی توجہ و تصور سے مراقبہ اختیار کرتاہے اُس پر احوالِ موت و جان کنی کا مشاہدہ و معائنہ کھل جاتاہے اور وہ حقیقت ِقبر، سوالاتِ منکر و نکیر اور حساب گاہِ قیامت کو دیکھ لیتاہے اور پل صراط سے گزر کر بہشت میں داخل ہوجاتاہے جہاں وہ تماشائے حور و قصور اور انوارِ دیدار ِپروردگار سے مشرف ہوتا ہے- یہ ہے مرتبہ صاحب ِ حق الیقین و صاحب ِ وصال اہل ِمراقبہ کا-
بیت:’’ اگر مَیں احوالِ مراقبہ کی تفصیل بیان کردوں تو ہر کوئی اہل ِعبرت ہو کر عارف باللہ ہوجائے‘‘-
مراقبہ جو ہرِ ایمان ہے جس کا تعلق حضوری ٔقربِ سبحان سے ہے- جان لے کہ مراقبہ کا تعلق چار چیزوں سے ہے اور وہ چار ’’ م ‘‘ ہیں- پہلا مراقبہ مِ محبت کا مراقبہ ہے، اِس سے اسرارِ پروردگارکا مشاہدہ کھلتاہے اور اِس کا ذریعہ تصورِ اسمِ’’اَللّٰہُ ‘‘ہے- دوسرا مراقبہ مِ معرفت کا مراقبہ ہے، اِس سے توحید ِنورِ الٰہی نمودار ہوتی ہے،اِس کا ذریعہ تصورِ اسمِ’’لِلّٰہِ ‘‘ہے-تیسرا مراقبہ مِ معراج کا مراقبہ ہے، اِس سے دل میں ذوق بخش اور فرحت انگیر ذکر جاری ہوتاہے اور وجود کے ہرایک بال کی زبان پر ’’یَااَللّٰہُ، یَااَللّٰہُ‘‘ کا وِرد جاری ہوتاہے، اِس کا ذریعہ تصورِ اسمِ’’ لَہٗ ‘‘ ہے- چوتھا مراقبہ مِ مجموع العلوم کا مراقبہ ہے جس سے وجود کے ساتوں اندام سر سے قدم تک مشاہدۂ نورِ نوادر میں غرق ہوجاتے ہیں اور صاحب ِمراقبہ نفس و شیطان پر غالب و قادر ہوجاتاہے اور جب تک تمام انبیا ٔو اؤلیا ٔاللہ سے مجلس و ملاقات نہیں کرلیتا مراقبہ سے باہر نہیں آتا- اگرچہ بباطن وہ 70سال مراقبہ میں گزارتاہے لیکن بظاہر وہ عوام کی نظر میں صرف ایک پل یا ایک کلمہ کی گفتگو کے برابر آنکھوں کو بند کرتاہے- یہ وہ انتہائی کامل مراقبہ ہے کہ جس میں صاحب ِمراقبہ کے ساتوں اندام مراقبہ میں غرق رہتے ہیں بلکہ دورانِ مراقبہ صاحب ِ مراقبہ کے ہر اندام سے ستر ہزار نوری صورتیں نمودار ہوتی ہیں جو سب کی سب ذکر اللہ میں محو ہوتی ہیں- جب وہ مراقبہ سے باہر آتاہے تو یہ سب نوری صورتیں واپس اُس کے وجودمیں غائب ہوجاتی ہیں- بعض لوگ اہل ِمراقبہ کے اِس مراقبے کو جان لیتے ہیں اور بعض نہیں جانتے- اِس مراقبے کا ذریعہ تصورِ اسمِ ’’ھُوْ‘‘ ہے- تصورِ اسمِ ’’ھُوْ‘‘ سے چار انتہائی ذکر کھلتے ہیں جنہیں محض حضورِغرقِ نور کہتے ہیں- پہلاذکر ذکر ِحامل ہے جو مرشد ِکامل سے حاصل ہوتاہے- دوسراذکر ذکر ِسلطانی ہے کہ جس سے بند ہ ہوائے نفس کے غلبہ سے باہر نکل کر لاھوت لامکان میں پہنچ جاتاہے- تیسرا ذکر ذکر ِ قربانی ہے کہ جس سے ذاکر خطراتِ شیطانی سے محفوظ ہوجاتاہے- چوتھا ذکر ذکر ِخفی ہے جس سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس کی دائمی حضوری نصیب ہوتی ہے-(جاری ہے)