ع:عِشق اسانوں لِسیاں جاتا بیٹھا مَار پتھلا ھو
وچہ جِگر دے سَنھ چَا لائیس کِیتس کم اَولّا ھو
جَاں اَندر وَڑ جھَاتی پائی ڈِٹھا یَار اِکلّا ھو
باجھوں مِلیاں مُرشد کامِل باھوؒ ہوندی نہیں تَسلّا ھو
Ishq seen us vulnerable and sits within firmly within me Hoo
It burgled my heart and my task faces snag Hoo
When I glanced inside, beloved alone Hoo
Without unity with kamil murshid Bahoo could not attain comfort Hoo
Ishq asanoo’N lissya jata betha maar pathalla Hoo
Wich jigr day san’H cha layais kitus kam awalla Hoo
Ja’N andar wa’R jhaati pai ‘Dittha yaar ikalla Hoo
Bajhoo’N milya’N murshid kamil Bahoo hondi nahin tasalla Hoo
تشریح:
فقر اوّل آخر او شد تم ختم |
|
کشتہ نفس و درد سوزش تنم |
1-’’ فقر کی ابتدا و انتہا مجھ پر ختم ہو چکی ہے اور سوزِ عشق سے میرے وجود میں نفس جل کر راکھ ہو چکا ہے‘‘- (اسرارالقادری)
بیت مبارک کے اس مصرع سے بظا ہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرمایا جارہا ہے کہ عشق نے مجھے کمزور جان کر قبضہ کرلیا ہے،لیکن حقیقت کی نظر سے دیکھیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ عشق وفقر محمدی (ﷺ) وجود میں آتے ہی تب ہیں جب وجود سے غیراللہ ختم ہوجاتا ہے-اس لیے اللہ پا ک جس پہ نظر ِ رحمت فرماتا ہے اس کو جان و مال سے دست بردار فرما دیتا ہے جیساکہ اللہ رب العزت نے ارشادفرمایا :
’’اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ‘‘ ’’بےشک اللہ نے مسلمانوں سے ان کے مال اور جان خریدلیے ہیں‘‘-(التوبہ:111)
عاشق صادق ہوتا ہی وہی ہے جو اللہ رب العزت کی بارگاہِ اقدس میں سب کچھ پیش کر دیتا ہے -اس لیے سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھوؒ ایسے طالب اللہ کی تعریف فرماتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں:
’’صدآفرین ہے اُس مرد پر جو اِن تمام چیزوں سے دست بردار ہو جاتا ہے -مرد وہ ہے جو حُبّ ِدُنیا کی میخ مٹی میں گاڑھتا ہے نہ کہ دل میں‘‘-(محک الفقرکلاں)
2:’’تصور ِحضور اور تصرفِ مغفور کا نور میرے ساتوں اندام میں اِس طرح سما گیا ہے جس طرح کہ دودھ میں پانی- اگر مَیں نور حضور کو چھوڑوں بھی تو وہ مجھے نہیں چھوڑتا- اگر میں تجلیاتِ انوارِ دیدار کی سوزش و گرمی سے عاجز ہو کر اُن سے گریز کروں اور ہوائے نفس کی طرف متوجہ ہو نے کی کوشش کروں تو نورِ حضور مجھ پر غالب آجاتاہے اور وہ مجھے ایسا نہیں کرنے دیتا‘‘-(امیرالکونین)
عشق جب طالب اللہ کے وجود میں بسیرا کرتا ہے تو وہ تمام چیزوں سے دست بردار ہوجاتا ہے جیساکہ آپؒ ارشادفرماتے ہیں:’’عاشق جان فداکرکے اپنے اختیارات سے دست بردار رہتاہے‘‘(نور الھدٰی)-جب عشق مصطفٰے(ﷺ) طالب کے وجود میں سرایت کر تا ہے تو اس وقت بظاہر وجود تو طالب کا اپناہوتاہے لیکن درحقیقت اس کی اپنی چاہت ومرضی ختم ہو جاتی ہے ،طالب اللہ کی اس عجیب کیفیت کو بیان کرتے ہوئےآپؒ ارشادفرماتے ہیں:’’صبر کر صبر! کہ صبر کے سوا اورکوئی چارہ نہیں، اگر تُو تسلیم ورضا اختیار نہ کرے گا تو کیا کرلے گا؟‘‘ (۲) ’’ جس کے گریباں پہ تیرے عشق نے پنجہ ڈالا، غمِ عشق نے اُس کی روح و رگِ جان پکڑلی‘‘-(کلیدالتوحیدکلاں)
3: ’’ میرے وجود میں ناف سے سر تک انوارِحق کی جلوہ آرائی ہے اِس لئے مَیں جدھر بھی دیکھتا ہوں دیدارِ حق ہی پاتا ہوں‘‘(امیرالکونین) -طالب اللہ ،جب مُرشد کامل کی زیرِ نگرانی اسم اللہ ذات اور دیگر اذکار پہ عمل کرتا ہے تو اُسے اپنے اندرسے اپنے مالک حقیقی کے جلوے نظر آتے ہیں- جیساکہ آپؒ ارشادفرماتے ہیں:’’جب طالب اللہ تصور سے اسم اللہ ذات کا نقش دل پر جماتاہے اور اسم اللہ ذات اس کے دل میں سکون و قرار پکڑ لیتاہے اور باطن میں اسم اللہ ذات صحیح طور پر دکھائی دینے لگتاہے تو اس کے دل میں نور معرفت الٰہی کی تجلیات کا ظہور اس طرح ہوتاہے جس طرح کہ صبح صادق کے وقت نور آفتاب کا ظہور ہوتاہے اور دل سے شب کاذب نفسانی و شیطانی کی ظلمت و سیاہی و تاریکی مٹ جاتی ہے‘‘(شمس العارفین)-اس لیے آپؒ طالب اللہ کو نصیحت کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں:’’اپنے دل کو طلب ِالٰہی کے سوا ہر طلب سے پاک کر کے عشق ِوحدت ِ حق کے نُور سے روشن کر لے-(جب تُو ایسا کرے گا تو)اے جانِ من! تیرا تن مر جائے گا لیکن دل زندہ ہو جائے گا اور تُو سراپا تجلی بن جائے گا‘‘-(عین الفقر)
4: ’’جس شخص کا مرشد نہیں وہ ہوائے نفس کا قیدی ہے - مرشد حضور نبی رحمت(ﷺ) کی بارگاہ میں پہنچا تا ہے‘‘-(کلیدالتوحیدکلاں)
مزیدا رشادفرمایا :"کسی مرد کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دے تاکہ تُو بھی مرد ہو جائے کہ مردوں کے سوا رہبری کسی اور کے بس کی بات نہیں‘‘-(عین الفقر)
ایک اورمقام پہ آپؒ مرشد کامل کی شان بیان کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں :
’’ مرد مرشد طالب اللہ کے لئے مراد بخش ہوتا ہے اور اُسے محبت ِالٰہی عطا کرتا ہے - نگاہِ مرشد سے طالب اللہ کے وجود میں ایسا نور بھر تا ہے کہ اُس کی تاثیر سے ماسویٰ اللہ ہر خواہش اُس کے وجود سے نکل جاتی ہے اور باطن میں یک دم مشاہدۂ حقیقی اور لذتِ تحقیقی اُس پر کھل جاتی ہے ، اُس کے سامنے سے حجاب اُٹھ جاتا ہے اور اُس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ باقی نہیں رہتا اور اُسے دائمی استغراق حاصل ہوجاتا ہے - یہ ہے مرشد ِکامل کی نگاہِ کمال ‘‘-(مجالسۃ النبی(ﷺ) خورد)
اس لیے ہرمسلمان بالخصوص ہر طالب سالک کو یہ بات ذہن نشین کرنی چا ہیے کہ اس راہ میں تمام مراحل مرشد کامل کی نگرانی کے بغیر نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہیں -اس لیے آپؒ طالب اللہ کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’ طالب ! باطن کی راہ میں خدا اور اُس کے رسول(ﷺ) کی مدد اور مرشد ِکامل کی رفاقت حاصل کر کے دین میں قوی ہو جا ورنہ شیطان بہت قوی ہے ‘‘-(محک الفقرکلاں)