شمس العارفین

شمس العارفین

شمس العارفین

(قسط:23)

 پھر لوگ اُس کا جنازہ اُٹھالیتے ہیں اور قبرتک پہنچنے سے پہلے فرشتوں سے اُس کے ستر ہزار سوال جواب ہوتے ہیں جو سب کے سب بے کام و بے زبان ہوتے ہیں - اِس کے بعد اُسے لحد ِقبر میں اُتار دیا جاتا ہے جو زمین و آسمان سے زیادہ وسیع ہوتی ہے- یہاں اُسے منکر و نکیر فرشتے اُٹھا کر بٹھا دیتے ہیں اور اُس سے سوال کرتے ہیں، اُن کے سوال جواب سے جب اُس کی خلاصی ہو جاتی ہے تو منکر نکیر اُسے کہتے ہیں:’’اب تم سوجاؤ جیسے کہ ایک دلہن سوتی ہے‘‘- پھر ایک رومان نامی فرشتہ آتاہے، اُسے خوابِ عروس سے جگاتاہے اور اپنی انگلی کو قلم، لعابِ دہن کو سیاہی، منہ کو دوات اور کفن کو کاغذ بنا کر اُس پر اُس کے نیک و بد اعمال لکھتاہے اور اُس پر اُس کے دستخط کرواتا ہے اور تعویذ کی طرح اُس کے گلے میں ڈال کر غائب ہوجاتاہے اور پھر اُسے قبر میں پڑے پڑے ہزاروں سال بلکہ بے شمار زمانے گزر جاتے ہیں - اِس کے بعد اُس کے کانوں میں صورِاسرافیل کی آواز آتی ہے اور اٹھارہ ہزار عالم کی جملہ مردہ مخلوق گھاس و نباتات کی طرح زمین سے نکل پڑتی ہے اور حساب گاہِ قیامت میں  جمع ہوجاتی ہے،ہر ایک کا اعمال نامہ اُس کے ہاتھ میں دے دیا جاتاہے، پھر اُس کے اعمال تولے جاتے ہیں، پھر وہ پل صراط سے گزر تا ہے اور فرمانِ حق تعالیٰ سنتاہے:’’پس میرے مقرب بندوں میں شامل ہوجااور میری جنت ِقرب میں داخل ہوجا‘‘-لہٰذا وہ جنت میں داخل ہوجاتاہے اور کلمہ طیب  ’’لَآاِلٰہَ  اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ پڑھتے ہوئے حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے دست ِمبارک سے شراباً طہوراپیتاہے- پھر وہ متوجہ بحق ہوکر 500سال رکوع میں اور 500 سال سجدے میں گزارتاہے- رکوع و سجود کے بعد حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں پہنچتاہے اور صحابۂ کرام(رضی اللہ عنھم) سے پچھلی صف میں بیٹھ کر دیدارِ پروردگار سے مشرف ومعزز ہوتاہے- اِس طرح جب وہ دیدار و لقائے ربّ العالمین کے اشرف ترین مرتبے پر پہنچ جاتاہے اور طریق ِتحقیق سے دیدارِ الٰہی کرکے ہوش میں آتاہے تو اُس بے مثل و بے مثال غیر مخلو ق ذات کی کوئی مثال نہیں دے سکتا کہ اُس کی مثل کوئی چیز ہے ہی نہیں- پھر وہ ہر وقت باطن میں لذتِ دیدارِ پروردگار کی طرف متوجہ رہتاہے اور کسی وقت بھی دیدار و مشاہدۂ تجلیات سے فارغ نہیں ہوتا-گوبظاہر وہ عام لوگوں سے ہم کلام رہتاہے لیکن بباطن وہ ہر وقت صاحب ِ حضور ہوتاہے- یہی وہ ’’ مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْ تُوْا ‘‘ کا انتہائی مرتبہ ہے جو   ’’ اِذَا تَمَّ الْفَقْرُفَھُوَ اللّٰہُ ‘‘کے کامل ترین مرتبے کے حامل عارفانِ باللہ کو حاصل ہوتاہے-  یہ مرتبہ آیات ِکلامِ الٰہی اور شریعت ِمحمد رسول اللہ (ﷺ) کی برکت سے حاصل ہوتاہے-حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:’’جس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا بے شک اُس کی زبان گونگی ہوگئی -‘‘ فرمانِ حق تعالیٰ ہے -:’’ جو یہاں اندھا رہ گیا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا‘‘-یہ مراتب علما ٔکو حاصل ہوتے ہیں ، وہ  باعمل و طالب ِفقر علما ٔکہ جنہوں نے کسی مرشد ِکامل کے ہاتھ پر بیعت کر رکھی ہو-

فرد:’’ خبردار! صاف دل فقرأ کی ہنسی مت اُڑا کہ یہ توآئینے ہیں، اِن پر ہنسنے والے خود اپنی ہی ہنسی اڑاتے ہیں‘‘-

(جاری ہے)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر