تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ میں سانپ کا تمثیلی ذکر

 تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ میں سانپ کا تمثیلی ذکر

تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ میں سانپ کا تمثیلی ذکر

مصنف: لئیق احمد ستمبر 2022

اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کی رہنمائی کے لئے قرآن مجید میں جابجا قصص الانبیاء بیان فرمائے ہیں جبکہ سمجھانے کی غرض سے مختلف مثالیں اور قدرت کی کئی نشانیوں پر غور کرنے کا بھی حکم فرمایا ہے- ان قصوں اور نشانیوں کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قاری ان واقعات کی تفہیم و تدارک کے بعد اپنی اصلاح کرسکے اور ان عوامل کی ہئیت اور نفسیات کو سمجھ کر اپنے لئے سامانِ ہدایت کرسکے- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’ اِنَّ اللہَ لَا یَسْتَحْیٖٓ اَنْ یَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَۃً فَمَا فَوْقَہَا ط فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَیَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ ۚ وَاَمَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَیَقُوْلُوْنَ مَاذَآ اَرَادَ اللہُ بِہٰذَا مَثَلًا م یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا لا وَّ یَہْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا ط وَمَا یُضِلُّ بِہٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِیْنَ‘‘[1]

’’بے شک اللہ نہیں شرماتا اس بات سے کہ کوئی مثال بیان کرے مچھر کی یا اس چیز کی جو اس سے بڑھ کر ہے، سو جو لوگ مومن ہیں وہ اسے اپنے رب کی طرف سے صحیح جانتے ہیں اور جو کافر ہیں سو کہتے ہیں اللہ کا اس مثال سے کیا مطلب ہے، اللہ اس مثال سے بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو اس سے ہدایت کرتا ہے اوراس سے گمراہ تو بدکاروں ہی کو کیا کرتا ہے‘‘-

بزرگانِ دین کا بھی یہی وطیرہ رہا ہے کہ اگر انہیں کسی نکتہ کو بیان کرنا ہوتا تو وہ کسی واقعہ یا کسی شے کی مثال دے کر بات سمجھاتےیا کسی بات کو حکایت میں ڈھال کر انسان کی تربیت فرمایا کرتے تھے- تقریباً تمام مذاہب میں یہ تمثیلی انداز روا ہے -اسلام دینِ فطرت ہے اور انفرادی و اجتماعی نظامِ حیات پر ظاہری و باطنی معاملات کا کامل احاطہ کرتا ہے- اگر ہم بزرگانِ دین کی ریت اور سنن کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی باتوں میں جانوروں اور پرندوں کی مثالوں، مشابہتوں، علامتوں اور استعاروں کو زیرِ استعمال لاتے تھے تاکہ مقصود تک بات بآسانی پہنچا دی جائے - زیرِ غور مقالہ انہی طرز کے اقتباسات و حکایات پر مبنی ہے جس میں ”سانپ“ کی فطرت، عادت اور طور کو صوفیاء کرام نےبیان فرمایا ہے- مقالہ کے پہلے حصے میں چند صوفیاء کرام کی تعلیمات میں سے منتخب حکایات و واقعات کو بیان کیا گیا ہے جبکہ اگلے حصے میں سلطان العارفین حضرت سلطان باھو قدس سرہ العزیز کی تعلیمات میں ایسے اقتباسات کو جمع کیا گیا ہے جس میں آپ قدس سرہ العزیز نے سانپ کو بطور مثال لے کر مختلف نکات و احکامات وضع فرمائے ہیں-قارئین کے ذوق کے لئے یہ بات شامل کی گئی ہے کہ قرآن مجیدمیں پانچ سورہ مبارکہ کے اسماء جانوروں کے نام پر ہیں :

’’بقرہ (گائے)، فیل (ہاتھی)، نحل (شہد کی مکھی)، عنکبوت (مکڑی) اور نمل (چیونٹی) جبکہ قرآن مجید میں تین پرندوں، دو پانی کے جانوروں، نو حشرات، سات پالتو جانور اورچار جنگلی جانوروں کے نام بھی موجود ہیں- حضرت موسیٰؑ کے واقعہ میں سانپ (اژدہا) کا ذکر آیا ہے‘‘- [2]

سانپ کے متعلق چند معلومات:

دنیا کے تمام جانوروں میں سے سانپ کو کافی امتیاز حاصل ہے اور اس امتیاز کی وجہ اسکی طرزِ زندگی اور ہیبت ہے- قدیم ڈرائنگ اور صحیفوں میں سانپ کے متعلق حکایات و تمثیلات ملتی ہیں- سانپ دنیا کی تقریباً تمام ثقافتوں اور مذاہب میں کسی نا کسی علامت کے طور پر زیرِ بحث رہاہے- سانپ کی منفرد ظاہری شکل اسے دوسرے تمام رینگنے والے جانوروں سے ممتاز بناتی ہے- سانپ اپنی بیرونی جلد کے خراب اور خشک ہونے کے بعد اپنی کھال ہٹا لیتا ہے اور اس پرنئی کھال آجاتی ہے- مختلف مذاہب میں کئی روایات اور تمثیلات پائی جاتی ہیں جس میں سانپ کو خوف و ہراس کا استعارہ بنا کر پیش کیا گیا ہے، دھوکے باز کے طور پر پیش کیا گیا ہے جبکہ ان کی ڈرپوک اور چالاک فطرت کو بھی کئی زاویوں سے بیان کیا گیا ہے- سانپ کی تقریباً 3 ہزار اقسام موجود ہیں، جن میں 375 اقسام زہریلے سانپوں کی ہیں- ان زہریلے سانپوں میں سے 45 ایسی اقسام ہیں جن کے ایک بار ڈسنے سے ہی انسان کی موت ہو سکتی ہے- ہر سال اکیاسی ہزار سے ایک سو اڑتیس ہزار افراد سانپ کے ڈسنے سے وفات پاجاتے ہیں-[3] کچھ مذاہب میں سانپ کے زہریلے ہونے کی وجہ سےاسے پوجا جاتا ہے جبکہ چند مذاہب میں اس کی زہریلی ہئیت کی وجہ سے اسے مارنے کا حکم ہے-

صوفیاء کرام کی حکایات میں سانپ کا ذکر:

(اختصار کے پیشِ نظر یہاں صرف دو صوفیاء کرام کی تعلیمات میں سے مثالیں لی گئی ہیں)حضرت شیخ فرید الدین عطارؒنیشاپوری صوفی باصفا،ماہرِ ادویات، اعلیٰ پایہ کے فارسی شاعر،ادیب اور ماہرِ علومِ باطنیہ تھے- آپکی تصنیفات میں تذکرۃ الاولیاء، شرح القب و دیگر کتب شامل ہیں- اپنی مثنوی”منطق الطیر“کی وجہ سے آپؒ بالخصوص دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں- آپؒ کی یہ مثنوی متصوفانہ علوم کا پیش خیمہ ہے-پرندوں کے سفر کی اس طویل مثنوی میں آپؒ نے ایک مقام پر مور کو سانپ کی وجہ سے تنبیہ کی ہےجوکہ درج ذیل ہے:

”واہ واہ! اے آٹھ دروازوں والے باغ کے مور تم سات سر والے سانپ کے زخم سے جل چکے ہو اس سانپ کی صحبت تیر ے خون میں رچ بس گئی ہے جس نے تجھے بہشت عدن سے باہر پھینک دیا ہے تم کو سدرہ اور طوبیٰ تک جانے سے روک دیا گیا تم نے اپنی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے اپنے دل کو سیاہ کر ڈالا ہے جب تک اس سانپ کو ہلاک نہ کرو گے اس وقت تک تم ان دروازوں کے سمجھنے کے قابل نہیں ہو سکو گے جب تم اس خطرناک سانپ سے جان نجات حاصل کر لو گے تو پھر حضرت آدمؑ تجھے بہشت میں اپنے ساتھ رکھیں گے“- [4]

کہا جاتا ہے کہ:

 

 

’’مور اور سانپ ایک دوسرے کے جانی دشمن ہیں-مور کسی سانپ کو دیکھتے ہی بڑی چالاکی سے اس کے قریب جاتا ہے اور اس کے گرد چکر کاٹ کر اسے ڈسنے کا موقع فراہم کرتا ہے- پہلے پہل وہ اسے مارنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ اسے ستاتا اور تنگ کرتا ہے - کبھی کبھی سانپ کو چونچ بھی مارتا ہے جس سے وہ زخمی ہوکر بے بس ہوجاتا ہے- پھر مور اسے چونچ میں پکڑ لیتا ہے اور نگل جاتا ہے‘‘- [5]

علامہ ابنِ کثیرؒ نے قصص الانبیاء میں بیان فرمایا ہے کہ :

’’اہلِ کتاب کے ہاں حضرت آدمؑ کو جنت میں ممنوعہ پھل کھانے پر بضد کرنے والا جانور سانپ تھا‘‘-[6]

اس حوالے سے مشہور ہے کہ شیطان حضرت آدم کے دل میں وسوسہ ڈالنے کی خاطر جنت میں داخل ہونا چاہتا تھا جس پر اس نے سانپ اور مور سے مدد طلب کی اور سانپ نے مشورہ دیا کہ وہ سانپ بن جائے اور مور اسے اپنے منہ میں چھپا کر جنت میں لے جائے گا جہاں اس نے اپنی کارروائی سرانجام دی-اس کے بعد سانپ اور مور کو جنت سے بے دخل کردیا گیا- مورکے خوبصورت پیر بدصورت بنادئیے گئے اور سانپ کی ٹانگیں ختم کردی گئیں اور اس کے منہ کی خوشبو لے کر اسکی جگہ زہر دے دیا گیا-

سانپ کی بات مان کر مور نے حکم عدولی کی جسکی وجہ سےوہ جنت سے نکال دیا گیا- سانپ کو صوفیاءکرام نے انسان کے نفس کی طرح بیان فرمایا ہے جو اسے وساوس کی قید میں رکھتا ہے-اس کے شر کے باعث انسان نافرمانیوں اور گناہوں کے دلدل میں دھنس جاتا ہے اور اپنے مالک حقیقی کی ناراضی کے سوا کچھ نہیں پاتا جبکہ اپنا اصل مقام کھودیتا ہے- اگر انسان قربِ خداوندی کا طالب ہے تو ضروری ہے کہ سب سے پہلے وہ اس سانپ نما نفس کو قتل کرے جو اسے اسکے مالک سے غافل کرتا ہے-

شیخ فرید الدین عطارؒ کی طرح مولانا جلال الدین رومیؒ بھی فارسی کے معروف اوراہم ترین شعراء میں سے ایک ہیں-دنیا بھر میں رومیؒ کی وجہ شہرت انکی مثنوی مولوی معنوی ہےجوکہ تقریباً ڈھائی لاکھ اشعار پر مبنی ہے- عشق و وجدان سے لبریز مثنوی مولوی تصوف کی مایہ ناز تصانیف میں سے ایک سمجھی جاتی ہے- موضوع کی نسبت سے ذیل میں مولائے روم کے چند اشعار کا تذکرہ کیا گیاہے جس میں انہوں نے سانپ کا ذکر کیا ہے-


مار گیر‌ے رفت سوئے کہسار
تا بگیرد با فسونهاش ‌مار
گر گراں و گر شتابنده بود
آنکہ جویندست یابندہ بود
در طلب زن دائماّ تو هر دو دست
که طلب در راهِ نیکو رهبرست
لنگ و لوک و خفته شکل و بے ادب
سوئے او می غژو او را می‌ طلب[7]

 

 

’’ایک سپیرا ایک پہاڑ کی جانب گیا تاکہ وہ اپنے منتروں سے سانپ پکڑ لے-خواہ وہ سست ہو یا چست ہو،جو تلاش کرتا ہے وہ پا لیتا ہے-تو ہمیشہ جستجو میں دونوں ہاتھ مصروف رکھ،کیونکہ جستجو راستہ کے لیے بہتر رہنما ہے-(تو خواہ) لنگڑا اور لولا اور سوتی صورت اور بے ادب ہو، اسی کی طرف کھسک اور اسی کو طلب کر‘‘-

سپیرے کا کام ہی سانپ کو پکڑنا اور اسے اپنے قابو میں کرنا ہوتا ہے- خواہ اس عمل میں کتنی ہی محنت کیوں نہ درکار ہووہ محوِ جستجو رہتا ہے- انسان کے وجود میں نفس بھی اسی سانپ کی مثل ہے اور انسان سپیرے کی مثل ہے اسے چاہئے کہ تزکیے کے منتر سے نفس سانپ کو اپنے قابو میں کرے اور پھر اس کی نگہداشت بھی کرتا رہے-مشکلات سے گھبرائے نہ بلکہ محنت اور جدوجہد سے اس کو اپنے قبضہ قدرت میں لے آئے-اہل اللہ کے نزدیک انسان کے تین دشمن ہیں:دنیا، نفس اور شیطان- نفس کو جب تک دوست بنا کر اسے اپنے تابع نہ کرلیا جائے اور ہمہ وقت اسکی نگرانی نہ کی جائے تو عین ممکن ہے کہ وہ سانپ کی طرح انسان کو ڈس کر ہلاک کردے یعنی راہِ حق سے گمراہ کردے-واللہ اعلم-

گر بیابد آلت فرعون او
 که بامر او همی ‌رفت آب جو
آنگه او بنیاد فرعونی کند
 راه صد موسی و صد هارون زند
کر مکست آن اژدها از دست فقر
 پشه ‌ای گردد ز جاه و مال صقر
اژدها را دار در برف فراق
 هین مکش او را به خورشید عراق
تافسردہ می بود آن اژدھات
لقمہ ی اویی چو او یابد نجات[8]

’’اگر اسے(نفس کو) فرعون سی حاکمیت مل جائے جس کے حکم سے دریائے نیل کا پانی بہتا(رخ بدل دیا جاتا) تھا-پھر یہ فرعون کی طرح کام کرےگا اور سینکڑوں موسیٰ اور ہارون کو راستے سے ہٹا دے گا-وہ اژدھا غربت کے دباؤ میں ایک چھوٹے کیڑے کی مثل ہے مگر طاقت اور دولت مچھر کو بھی باز بنادے-اژدھاکو تنہائی کی برف میں رکھ (خواہشات سےدور)خبردار، اسے عراق کی دھوپ میں مت لے جانا- جب تک اژدہا منجمد رہے گا، (سواچھا ہے) جب تم اس کامنہ بھرتے ہوتب اسے رہائی ملتی ہے‘‘-

مندرجہ بالا اشعار میں مولانا رومیؒ نے انسان کو نفس کے بارے میں تنبیہ کی ہے کہ اگر اسے فرعون سے شاہی مل جائے تو یہ سینکڑوں موسیٰؑ اور ہارونؑ کے راستوں میں رکاوٹیں پیدا کرنے کھڑا ہوجائے- جب تک اسےمال و متاع، طاقت اور اقتدار کے نشے سے دور رکھا جائے یہ کمزور لاغر کیڑا بنا رہتا ہے لیکن جب اسکی خواہشات کی شکم ریزی کی جائے تو یہ کرمک شب تاب بن جاتا ہے اور اپنی اوقات بھول جاتا ہے، انسان کو چاہئے کہ وہ اپنا تزکیہ نفس کرتا رہے اور خواہشاتِ نفس کی نفی کرے تاکہ نفسِ رزیلہ انسان پر حاوی نہ آسکے اور وہ اپنے مالک سے غافل نہ ہوسکے-

مولانا جلال الدین رومیؒ کی مثنوی اس طرح کی مثالوں اور پیغامات سے بھری پڑی ہے- ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کا مطالعہ کیا جائے اور عالم باعمل بناجائے-

تعلیمات حضرت سلطان باھوؒ  میں سانپ کا تمثیلی ذکر:

صوفیاء کاملین کی تعلیمات کو پڑھتے ہوئے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بزرگان باطنی تجربوں کی گہرائیوں میں انتہا حد تک اُترے ہوئے ہیں- حضرت سلطان با ھو قدس سرہ العزیز کی تصانیف حکمت و عرفان کا بحر زخار ہیں - آپ قدس سرہ العزیز نے بھی دیگر اصفیاء کی طرح اپنی تعلیمات میں جابجا مثالوں اور مشابہوں کے ذریعے حضرت انسان کی رہنمائی فرمائی ہے- ذیل میں تعلیماتِ سلطانی میں سے سانپ کے متعلق تمثیل وتشبیہات پر مبنی اقتباسات کو پیش کیا گیا ہے-

1) نفس سانپ کی مثل ہے:

 

 

اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں اپنی معرفت و پہچان اور قرب و وصال کے حصول کے لئے بھیجا ہے اور اس کی آزمائش کی خاطر اس کے ہمراہ محبتِ دنیا، نفس اور شیطان کو بھی لگادیا ہے جو اسے راہِ خدا سے روکتے ہیں- حضرت سلطان باھو قدس سرہ العزیز نے اپنی تعلیمات میں نفس کو سانپ کی مثل فرمایا ہے- جس طرح سانپ کو منتر سے قابو کیا جاتا ہے اسی طرح نفس کو بھی ذکر اللہ سے قابو کیا جاسکتا ہے- آپ قدس سرہ العزیز ارشاد فرماتے ہیں:

’’نفس سانپ کی مثل ہے جو منتر سے ہی باہر آتا ہے اور منتر سے ہی قابو میں آتا ہے اور اُس کا منتر اُس کی مخالفت اور منصفانہ محاسبہ ہے- وہ آدمی احمق ہے جو یہ منتر پڑھے بغیر اُس پر ہاتھ ڈالتا ہے- اُس کا ڈسا ہوا کبھی نہیں بچتا کہ اُس کے اندر جان لیوا لازوال زہر بھرا ہوا ہے جس سے بندہ مر جاتا ہے‘‘- [9]

اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ انسان نفسانی خواہشات کا گلا گھونٹ کر صراطِ مستقیم پہ چلے- جیسا کہ آپ قدس سرہ العزیز نے فرمایا:

’’جان لے کہ خوشنودئ خدا نفس کے خلاف چلنے میں ہے- نفس کیا چیز ہے اور اُس کے خصائل کیا ہیں؟ نفس سانپ کی مثل ہے اور اُس کے خصائل کفار جیسے ہیں- پہلے اُس پر منتر پڑھا جائے اور پھر اُس پر ہاتھ ڈالا جائے تاکہ زیر ہوکر قابو میں آ جائے- سانپ سے پوچھا گیا کہ تُو سوراخ سے باہر کیونکر آتا ہے؟ تو سانپ نے جواب دیا کہ جب کوئی میرے دروازے پر اللہ کا نام لیتا ہے تو مجھ پر فرض ہو جاتا ہے کہ مَیں اللہ کے نام پر جان دے دوں- نفس سانپ کی مثل ہے، وجودِ آدمی سوراخ کی مثل ہے، ذکراللہ منتر کی مثال ہے اور نفس کافر کی یہ عادت و خصلت ہے کہ جب تک اُس پر کلمہ طیب”لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ“ کا منتر پڑھ کر اُسے شریعت کے حصار میں قید نہ کیا جائے یہ اسلام قبول نہیں کرتا اور نہ ہی مسلمان ہوتا ہے- اسلام حق ہے اور کفر باطل ہے‘‘- [10]

 اگر سانپ غار میں چھپا ہو اور باہر چھڑی ماری جائے تو سانپ پر کوئی اثر نہیں ہوتا اسی طرح نفس بھی آدمی کے وجود (غار) میں پنہاں ہے- اگر سانپ کو مارنا ہے تو غار میں حملہ کرنا ہوگا-ظاہری اعمال سے نفس نہیں مرتا- سلطان العارفین قدس سرہ العزیز نے نفسِ امارہ کو مارنے کا ہتھیار تصورِ اسم اللہ ذات بیان فرمایا ہے-جب اسم اللہ ذات کے ذکر و تصور سے نفس مرجاتا ہے تو قلب بیدار ہوجاتا ہے- آپ قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’مصنف کہتا ہے کہ آدمی کا وجود غار کی مثل ہے اور نفس سانپ کی مثل ہے جو اِس غار میں مستقل قیام رکھتا ہے- اگر کوئی شخص رات دن غار کے منہ پر ڈنڈے برساتا رہے تو اُس کے اندر بیٹھے ہوئے نفسِ امارہ سانپ کو اِس مار پیٹ سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا- لہٰذا ظاہری اعمالِ بندگی سے نفس کو کوئی دکھ نہیں پہنچتا- جب تک غار کے اندر جاکر تصورِ اسم اللہ ذات کی آگ سے نفس کو نہ جلایا جائے وہ ہرگز نہیں مرتا- باطنی ریاضت کی مثال دیتے ہوئے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے:”ہم چھوٹے جہاد سے لوٹ کر بڑے جہاد کی طرف آئے ہیں“ - [11]

2) نفس اور سانپ کا موازنہ:

حضرت سلطان باھو قدس سرہ العزیز نے اپنے فارسی ابیات میں مختلف مقامات پہ نفس اور سانپ کا موازنہ فرمایا ہے- سیاہ ناگ سانپوں کی زہریلی اور خطرناک اقسام میں سے ہے لیکن سیاہ ناگ سے زیادہ خطرناک وہ نفس ہے جو ہر وقت انسان کے ساتھ موجود ہے- سانپ ایک بار ڈس کر انسان کو موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے اس لئےآستین میں گھس آنے والا سیاہ ناگ اس نفس سے بہتر ہے جو انسان کو ہر لمحے بارگاہِ خداوندی سے گمراہ کرنے میں لگا رہتا ہے- اسی متعلق ذیل میں حضور سلطان صاحب کے فرامین پیش کئے گئے ہیں-

’’قطعہ:”تیرا واسطہ نفس کافر سے آن پڑا ہے، اُسے اپنے دام میں گرفتار کرلے کہ یہ ایک نادر شکار ہے- اگر ایک سیاہ ناگ تیری آستین میں گھس جائے تو یہ اُس نفس سے کہیں بہتر ہے جو تیرا ہم نشین بنا ہوا ہے“- [12]

ابیات: (1)”تجھے نفسِ کافر سے پالا پڑ گیا، اُسے زیر دام لے آ کہ وہ ایک نادر شکار ہے“- (2)”اگر تیری آستین میں سیاہ ناگ گھس آئے تو یہ اُس نفس سے کہیں بہتر ہے کہ جسے تُو نے اپنا ہم نشین بنا رکھا ہے“ - [13]

ابیات:(1)”تیرا واسطہ کافر نفس سے آن پڑا ہے اسے جال میں پھانس لے کہ یہ ایک نادر شکار ہے“-

 (2) ”اگر ایک سیاہ ناگ تیری آستین میں ہو تو وہ اُس نفس سے بہتر ہے جو تیرا ہم نشین ہے“ -[14]

3) باطنی ترقی بمثل سانپ کا جلد تبدیل کرنا:

اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت انسان کو دو اجسام کا مجموعہ بنایا ہے- جس طرح ظاہری وجود میں مختلف اعضاء ہیں اسی طرح باطنی وجود میں مختلف مقامات ہیں جیسےزیرناف میں نفس، دل میں قلب، سینہ میں روح،سر میں سرّ و دیگر مقامات- ان مقامات کو سالک اسم اللہ ذات کے ذکر اور توجہ مرشد کامل سے بیدار کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ترقی(قرب و وصال) پاتا رہتا ہے- حضرت سلطان باھو قدس سرہ العزیز نے اپنی تعلیمات میں اس باطنی ترقی کو سنپ کے جلد تبدیل کرنے سے تشبیہ دی ہے- جس طرح سانپ اپنی جلد کے اندر ہی دوسری جلد تیار کرتا رہتا ہے اور وقتِ مقررہ پر بیرونی کھول کو ہٹا کر نئی جلد کو سامنے لے آتا ہے اسی طرح سالک بھی تصور اسم اللہ ذات ، کلمہ پاک اور مرشد کامل کی توجہ سے بتدریج نفس و قلب و روح و سرّ کو زندہ کرتا ہے ، فنا و بقا کے مراتب طے کرتا ہے اور اسے دائمی مجلس محمدی(ﷺ) کی حضوری نصیب ہوتی ہے-اسی متعلق آپ قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں:

بیت:”اے باھُو! ہر جسم کے اندر ایک اور جسم پایا جاتا ہے اور ہر جسم ایک الگ راز، الگ حقیقت اور الگ آواز رکھتا ہے-“پس معلوم ہوا کہ عارفوں کے مراتب سانپ سے کم تر نہیں کہ سانپ اپنی جلد کے نیچے ایک اور جلد تیار کرتا ہے اور پھر اپنے جلد سے باہر نکل آتا ہے‘‘- [15]

اسی متعلق تفصیلاً ایک اور مقام پہ فرماتے ہیں:

’’جس طرح سانپ اپنی کینچلی سے باہر نکل آتا ہے اُسی طرح عارف باللہ کے ہر ایک جثّے سے بیک وقت نو (9) جثّے نکلتے ہیں، چار جثّے نفس کے یعنی جثّۂ نفسِ امارہ، جثّۂ نفسِ ملہمہ، جثّۂ نفسِ لوامہ، جثّۂ نفسِ مطمئنہ، تین جثّے قلب کے یعنی جثّۂ قلبِ سلیم، جثّۂ قلبِ منیب اور جثّۂ قلبِ شہید اور دو جثّے روح کے یعنی جثّۂ روحِ جمادی اور جثّۂ روحِ نباتاتی- جب یہ تمام جثّے اہلِ جثّہ سے ہم صحبت ہوتے ہیں تو ایک غیب الغیب جثّہ پیدا ہوتا ہے- جو برقِ نور سے پیدا ہونے والی تجلئ انوار کی طرح ہوتا ہے، اُس کا نام جثّۂ توفیق الٰہی ہے- یہ جثّہ حکم دیتا ہے اور جثّہ ہائے نفس جثّہ ہائے قلب سے بغل گیر ہوجاتے ہیں- جس سے قلب زندہ ہوجاتا ہے اور جثّہ ہائے نفس مرجاتے ہیں- پھر وہ حکم دیتا ہے اور جثّہ ہائے قلب جثّہ ہائے روح سے بغل گیر ہوجاتے ہیں جس سے قلب مر جاتا ہے اور روح زندہ ہو جاتی ہے- پھر وہ حکم دیتا ہے اور جثّہ ہائے روح سلطان الفقر توفیقِ الٰہی سے بغل گیر ہوجاتے ہیں جس سے روح مر جاتی ہے اور جثّۂ سرّ زندہ ہو جاتا ہے- اس مرتبہ پر سر سے پاؤں تک طالبِ اللہ کے ہفت اندام نور ہی نور ہوجاتے ہیں اور اسے دائمی حضوری حاصل ہوجاتی ہے- مرشد پر فرضِ عین ہے کہ وہ پہلے ہی روز طالبِ اللہ کو اِس مرتبے پر ضرور پہنچائے‘‘- [16]

اللہ تعالیٰ نے انسان کے دل کو بہت اہمیت دی ہے- دل کی بیداری اسی وقت ممکن ہے جب نفس کا تزکیہ کرکے اسے مار دیا جائے (تابع کرلیا جائے)- آپ قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’کیا تُو نہیں جانتا کہ اِنسان کا وجود طلسم کدہ ہے اور مندرجہ بالا چیزیں خزانۂ دل میں موجود ہیں لیکن کیا کیا جائے کہ دل ایک طلسم کدہ ہے اور جب تک طلسم کدۂ دل کو کھولا نہ جائے اُس کے اندر کے یہ مخفی خزانے ہاتھ نہیں آتے- دل کے اس طلسم کدے کو صرف مرشدِ کامل ہی کھول سکتا ہے لہٰذا مرشدِ کامل کو چاہیے کہ کلمہ طیب”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ“ کی چابی سے طالب کے وجود سے خزائن اللہ کو کھول کر تمام لعل و جواہر دکھادے یا پھر طلسم کدۂ وجود میں نفس کے شیر و سانپ کو تصورِ اسم اللہ ذات کی آگ سے جلا ڈالے اور طالب کے وجود سے تمام خزائن اللہ نکال لائے‘‘- [17]

4) خواب میں سانپ دیکھنا:

 صوفیاء کاملین نے جو طریق اپنائے اُنہیں انتہائی سہل انداز میں عوام الناس تک پُہنچایا- خواب ، مشاہدات ،کيفیات و مراقبات سالک کو طالب مولیٰ بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں- خوابوں کی تعبیر انسانی کیفیت اور خواب کے حال سے کی جاتی ہے-حضرت سلطان باھو قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص خواب میں سانپ دیکھتا ہے تو اسکامطلب یہ ہے کہ اسکا دل دنیا کی محبت سے زنگ آلود ہوا پڑا ہےاور یہ مقام طالبِ دنیا کا ہے-دنیا کے طالب کو اللہ تبارک و تعالیٰ پسند نہیں فرماتا- طالبوں کے خوابوں کی حقیقت کے متعلق آپ قدس سرہ العزیز رقمطراز ہیں:

’’درحقیقت خواب و مراقبہ دو قسم کا ہوتا ہے- ایک یہ کہ بعض لوگوں کا خواب و مراقبہ محض خام خیالی ہوتا ہے، یہ مردہ دل ناسوتی لوگوں کا خواب و مراقبہ ہے جس میں مختلف حیوانات مثلاً درندے پرندے، مور و سانپ، گائے گدھے اور اونٹ وغیرہ دیکھتے ہیں- پس معلوم ہوا کہ اُن کے دل حُبِّ دنیا کی ظلمت سے آلودہ ہیں اِس لئے معرفتِ ذاتِ الٰہی سے محروم ہیں- دوسرے یہ کہ بعض کا خواب و مراقبہ معرفت و وصالِ اِلٰہی پر مبنی ہوتا ہے، یہ اہلِ ذکر فکر صاحبِ تلاوت، صاحبِ وظائف، صاحبِ صوم و صلوٰۃ اور صاحبِ ذات غرق فنافی اللہ بقاباللہ حضرات کا خواب و مراقبہ ہے‘‘- [18]

بعین اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

’’طالبِ دنیا، طالبِ عقبیٰ اور طالب مولیٰ کے خوابوں کی حال حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی خواب میں حیوان و پرندے اور وحوش و سانپ و بچھو وغیرہ دیکھتا ہے تو سمجھو کہ اُس کے دل پر حُبِّ دنیا کی کدورت و سیاہی کا غلبہ ہے- اگر کوئی خواب میں باغ و بوستان ، بلند و بالا محلات، حور وقصور اور میوہ و درخت دیکھتا ہے تو سمجھ لو کہ اس کے دل میں طلبِ عقبیٰ کا غلبہ ہے- اور اگر کوئی خواب میں ذکرِ اَللہُ کا شغل کرتا ہے ، نماز پڑھتا ہے، خانہ کعبہ اور حرمِ مدینہ پاک کی زیارت کرتا ہے، سورج، چاند، دریا اور بادل دیکھتا ہے، انبیاء و اولیاء کا ہم مجلس ہوتا ہے یا ذوق شوق کے ساتھ نورِ”اَللہُ“ کی تجلیات کا مشاہدہ کرتا ہے تو یہ اِس بات کی علامت ہے کہ وہ طالبِ مولیٰ ہے لہٰذا اُس کے خواب عبادات و معاملات اور استغراقِ تصورِ اسمِ اللہ ذات کے متعلق ہوں گے اور اُن کی تعبیر بیانِ صحیح کے مطابق کی جائے گی- اِسی طرح حیوانوں، انسانوں، پریشانوں اور نادانوں کے خوابوں کی تعبیر بھی اُن کی عقل کے مطابق نقل کی جائے گی‘‘- [19]

5) طالبِ دنیا کا مال سانپ بن کر ڈسے گا:

دنیا میں موجود آسائشات اور عیش و عشرت نفس کو اپنی طرف راغب اور گرویدہ کرنے میں مصروف اور راہِ حق سے دوری پر معمور کرتے ہیں-آپ قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ مرنے کےبعد درمِ دنیا طالبِ دنیا کو سانپ کی طرح ڈستا ہے:

’’اہل دنیا کی تین علامات ہیں: (1) وہ حریص ہوتا ہے اور حرص آتشِ دوزخ کی مثل ہے (2) مال و دولت جو آتشِ دوزخ کی مثل ہے، اُسے جمع کرتا رہتا ہے مگر خرچ نہیں کرتا اور خود بے نصیب رہتا ہے لیکن بعد میں یہ مال دوسروں کے کام آتا ہے یا خاک میں مل جاتا ہے (3) مرنے کے بعد حسرت میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اُس وقت اُس کا جمع شدہ مال اُس کا دشمن بن جاتا ہے اور سانپ اور بچھو بن کر اُسے ڈستا رہتا ہے- مَیں اِس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ‘‘- [20]

6) اہلِ دعوت اور سانپ کا دم:

سانپ کی فطرت ڈسنا ہے اور زہریلے سانپوں کے زہر سے یکدم موت واقع ہوجاتی ہے- جو سالک دعوت پڑھنے میں عامل باعمل اور کامل ہوجائے تو وہ اپنے دم سے سانپ کی مثل دشمنانِ حق کے دم کو کشتہ کرکے انہیں مار سکتا ہے-اہلِ دعوت کو یہ تصرف ذکر اللہ سے حاصل ہوتا ہے- اہلِ دعوت کے دم کے متعلق حضور سلطان صاحب قدس سرہ العزیز بیان فرماتے ہیں:

’’کامل عامل دعوت دشمن کے دم کو دعوتِ دم سے اس طرح پکڑتا ہے کہ دشمن اسی دم ہی میں مرجاتا ہے- اس طرح کے اہلِ دعوت کا دم سانپ کے دم جیسی توفیق رکھتا ہے کہ جب وہ اپنے دم سے کسی کے دم کو پکڑتا ہے تو اس کے دم کو کشتہ کردیتا ہے جس سے وہ مر جاتا ہے- کامل قادری دمِ دوام کا محرم ہوتا ہے اس لئے وہ ایک ہی دم میں تمام جہان کو طے کر جاتا ہے- اُس کا دم سے دم کو پکڑنا ایسے ہے جیسے کسی حاکم کا تحریری حکم نامہ و اعلان ہو‘‘- [21]

8) علمائے سُو کا علم سانپ کی مثل ہے:

علم کا مقصود ذاتِ باری تعالیٰ کی خوشنودی اور قرب حاصل کرنا ہے- علم سے انسان میں شعور بیدار ہوتا ہے- اگر کوئی عالم علم کو دنیاوی جاہ اور لذاتِ نفس کی خاطر استعمال کرے تو وہ علم اسکے لئے سانپ کی مثل ہے جو زہر کے سوا کچھ نہیں دے سکتا-آپ قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’علم اگر روح پر وارد ہو تو یار ہے اور اگر نفس پر وارد ہو تو مار (سانپ) ہے کہ روح، علم، حلم، معرفتِ الٰہی، توکل ، توحید، توفیق، ترک اور محبتِ الٰہی ایک دوسرے سے متفق ہیں اِسی لئے روح و دل مولیٰ کی طرف متوجہ رہتے ہیں کہ موت کا کوئی اعتبار نہیں لہٰذا کل کا کام آج کرلیا جائے، ایسا نہ ہو کہ موت آکر جان لے جائے‘‘-[22]

ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:

’’جو عالم اپنے علم کو لذاتِ نفس کی حصول یابی کے لئے استعمال کرتا ہے وہ مار (سانپ) ہے جو آدمی علم کو قلب و روح کے تزکیہ و تصفیہ کے لئے استعمال کرتا ہے وہ باعمل و با ہوشیار عالم لائقِ دیدار ہے- ایسا ہی عالم باللہ، عالم فی اللہ و عالم ولی اللہ مراتبِ علم سے آگے بڑھ کر فقیر اولیائے اَللہُ کا خطاب پاتا ہے اور غرقِ توحید ہو کر حضرت بایزید (﷫) کے مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے‘‘- [23]

حرفِ آخر:

عام اور آسان فہم مثالوں کے ذریعے بات سمجھانا بزرگانِ دین کی سنت رہی ہے - زیرِ غور مقالہ میں صرف تین بزرگانِ دین کی تعلیمات میں سے چند مثالیں صرف سانپ کو پیشِ نظر رکھ کر جمع کی گئی ہیں- نیز اہلِ علم اس پر تحقیق و تالیف کر کے میدانِ علم میں ایک بہترین کتاب متعارف کروا سکتے ہیں-جبکہ قاری کے ذوق میں اضافے، مزید مطالعے کی طلب اور اصلاح و تربیت کیلئے یہ مقالہ مہمیز کا کام کرسکتا ہے- ان شاء اللہ!

٭٭٭



[1](البقرہ:26)

[2](الاعراف:107)

[3]https://www.who.int/news-room/fact-sheets/detail/snakebite envenoming#:~:text=Though%20the%20exact%20number%20of,are%20caused 20by%20snakebites%20annually

[4](شیخ فرید الدین محمد عطار نیشابوری، منطق الطیر، مور سے خطاب، ص:68)

[5])https://ubqari.org/article/ur/details/174(

[6](امام ابوالفدا ابن کثیرالدمشقی،قصص الانبیاء،آدم اور حوا دخول جنت سے خروج تک، ص:39)

[7](مثنوی مولانا روم، دفتر سوم، ص:107)

[8](مثنوی مولانا روم، دفتر سوم،شعر:1054-1058)               http://www.masnavi.net/1/10/eng/3/1054/

[9](عقلِ بیدار، ص:57 ، ایڈیشن: ششم)

[10](عین الفقر، ص: 129 ، باب چہارم: توفیقِ الٰہی سے نفس کی مخالفت و تسخیر ، ایڈیشن: 31)

[11](کلید التوحید کلاں، ص:309-311 ، ایڈیشن:3)

[12]( عین الفقر، ص: 147 ، باب چہارم، ایڈیشن: 31)

[13]( کلید التوحید کلاں، ص:527 ، ایڈیشن: سوئم)

[14]( مجالسۃ النبی خورد، ص:15 ، ایڈیشن: 17)

[15](کلید التوحید کلاں، ص:133 ، ایڈیشن: سوئم)

[16]( نور الہدٰی، ص: 151-152)

[17]( کلید التوحید کلاں، ص:313 ، ایڈیشن: سوئم)

[18]( کلید التوحید کلاں، ص:627 ، ایڈیشن: سوئم)

[19]( محک الفقر کلاں، ص: 401 ، ایڈیشن: چہارم)

[20]( عین الفقر، ص: 231 ، باب ششم، ایڈیشن: 31)

[21](عقلِ بیدار، ص:229 ، ایڈیشن: ششم)

[22]( محک الفقر کلاں، ص: 515 ، ایڈیشن: چہارم)

[23]( عقلِ بیدار، ص:53 ، ایڈیشن: ششم)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر