حضرت سلطان باھُوایک صاحبِ عرفان و یقین بزرگ تھے - ان کی غزل کے درو بام ان کے اسی عارفانہ تجربے کی خوشبو سے معطر ہیں- اُن کی غزل کیا ہے؟ گنجینۂ معانی کاطلسم کدہ ہے ! جس میں روحانی تجلیات اور مشاہداتی اِدراک کے اتنے رنگ بکھرے ہوئے ہیں کہ ان کی تعبیر اُن کے فکری اور معنوی نظامِ کی صداقتِ احساس سے ہویدا ہے- تعبیر اور تفسیر کا یہ پیرایۂ اظہاراُن کے جمالیاتی طرزِ فکر کی نمود بھی ہے اور ان کے وجدانی جذبوں کی امین بھی- اُن کے ہاں کثرت کے آئینے میں وحدت کی جلوہ آرائی کے مناظراس وجودِ مطلق کی نمود سے منکشف ہوتے ہیں ، جو حسنِ خیال کا عرفانی تجربہ بھی ہے اور مکاشفاتی وظیفہ بھی -
فارسی غزل صدیوں سے اس تجربے کی خوشبو کا پیرہن اوڑھ کر کتنے ہی رنگوں میں خیال اور اس کی بوقلمونی کے دَر وا کرتی رہی ہے- سنائی، عطار، رومی، سعدی ،امیر خسرو اور حافظ کی غزل میں عشق کا علامتی منظر نامہ: وحدت الوجود کی جمالیاتی صداقت سے اظہار کی راہ پاتا رہا ہے- اِس مضمونِ تازہ کی تخلیق اُس بے رنگی کی اوٹ سے جلوہ گر ہوتی ہے، جو خیالِ حسن کی بنیاد بھی ہے اور حسنِ خیال کی اساس بھی- --- اور خیال کی اس رنگا رنگی سے غزل کے تخلیقی آفاق جگمگاتے رہے ہیں- غزلیہ تہذیب کی ہمہ رنگی: دینی تہذیب کی یک رنگی میں ڈھل کر ایک ایسے فکری نظام میں صورت پذیر ہوتی ہے کہ سارے رنگوں کا پیش منظر بے رنگی کی فضا میںمتشکل ہو جاتا ہے- یہ سفرر کتا نہیں، رک سکتا بھی نہیں، کیونکہ اس کا اظہار یہ تجرباتی لباس میں ملبوس ہو کرنت نئے پیکر اوڑھ لیتا ہے اور غزل ان جذبوں کے اظہار اور ان کی نمود کا خوبصورت بیانیہ بن کر روحانیات کے افق پر طلوع ہوتی ہے- --- اور جب غزل کا فکری اور جمالیاتی منظر نامہ صدیوں کاسفر کر کے بابا سلطان باھُو کے باطنی تجربے سے ہم آہنگ ہوتا ہے، تو اس کی طلسماتی اپیل ایک ایسے طرزِ احساس میں صورت پذیر ہو جاتی ہے،جو خیال اور خواب کی امتزاجی کیفیت کا عکاس ہے- اس تخلیقی تجربے کی سچائی ان کی غزل کے پیکر میںعرفان اور معرفت کے دیپ روشن کر دیتی ہے اور یوں ان کی غزل کا معنوی نظام: ر وحانی طرزِ احساس سے وجود پذیر ہوتا ہے- اس میں وحدت الوجودی تجر بے کی خوشبوتخلیقی ماحول کو اتنا متأثر کرتی ہے کہ رنگ اور روشنی کے سارے مناظر وجودِ واجب کی جلوہ گری سے اظہار کی راہ پاتے ہیں- ان کے دیوان کی پہلی غزل دیکھیے کہ کس طرح ان کے باطنی طرزِ احساس کی رنگا رنگی وحدت کے منظر نامے میں ڈھل جاتی ہے اوروہ فکر و آہنگ کی معنوی جمالیات کو وجودِ مطلق کے فکری تناظر میں اُجال لیتے ہیں:
یقیں دانم درین عالم کہ لا معبود الا ھُو
ولا موجود فی الکونین لا مقصود الا ھُو
’’مجھے یقین ہے کہ اس کائنات میںسوائے اُس ذات پاک کے کوئی معبود نہیں ہے،اور کائنات میں اس کے علاوہ کوئی حقیقی طور پر موجود ہی نہیں اور نہ اس کے سوا کوئی مقصود ہے‘‘-
چو تیغِ لا بدست آری بیا تنہا چہ غم خواری
مجو از غیرِ حق یاری کہ لا فتاح الا ھُو
’’تُو جب لا الٰہ کی تلوار ہاتھ میں رکھتا ہے تو اکیلے آجاتمہیں کیا فکر ہے، اللہ کے بغیر دوستی نہ تلاش کر کیونکہ اس کے علاوہ کوئی کارساز نہیں‘‘-
بہ لالالا ہمہ لا کن بگو اللّٰہ واللّٰہ جو
نظر خود سوی وحدت کن کہ لا مطلوب الا ھُو
’’تین مرتبہ لا الٰہ کی لا سے ہر چیز کی نفی کر، اللہ کو پکار اور اللہ کو تلاش کر، اپنی نظر اللہ کی وحدت پر رکھ کیونکہ اس کے علاوہ کوئی مطلوب ہی نہیں ہے‘‘-
ہوالاول ہوالآخر ظہور آمد تجلی او
بذاتِ خود ہویدا حق کہ فی الکونین الا ھُو
’’وہی اوّل ہے وہی آخر ہے جس کا جلوہ ظاہر ہوا ہے،حق اپنی ذات کے ساتھ خود ظاہر ہے کیونکہ اس کے علاوہ کائنات میں کوئی نہیں‘‘-
ہو الھُو ھُو ہو الحق ھُو ندانم غیر الا ھُو
ہو الھُو ھُو ہو الحق ھُو نخوانم غیر الا ھُو
’’وہی ھُو ھُو ہے وہی حق ھُو ہے، میں اس ھُو کے علاوہ کچھ نہیں جانتا، وہی ھُو ھُو ہے وہی حق ھُو ہے، میں اس ھُو کے علاوہ کچھ نہیں پڑھتا‘‘-
الا ای یارِ شوفانی مگو ثالث مگو ثانی
ہوالواحد ہوالمقصود ولا موجود الا ھُو
’’خبردار اے سالک!اللہ میں فنا ہوجا، اسے دو اور تین نہ کہہ،وہ ذات واحد ہے، وہی مقصود ہے ، اس کے سوا کوئی موجود نہیں ہے‘‘-
یکی گویم یکی جویم یکی دردل چو گل رویم
ہموں یک را بہ یک پویم نہ پویم غیر الا ھُو
’’میں ایک ہی کو پکارتا ہوں، ایک ہی کو ڈھونڈتا ہوں، ایک ہی کودل میں پھول کی طرح بساتا ہوں،اُسی ایک کو میں ایک ہی پاتا ہوں ، اُس کے علاوہ میں کسی کو نہیں پاتا‘‘-
بگرد عالم چو گردیدم ہوالحق ھُو پسندیدم
یکی خوانم یکی دیدم ندیدم غیر الا ھُو
’’میں نے پورے جہان کی سیر کی ،اِس میں اُسی حق ھُو کو ہی پسند کیا،مَیں نے ایک ہی پکارا ، ایک ہی دیکھا، اُس کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھا‘‘-
منم غم خوارِ خود ہستم بجز یاھُو نہ دردستم
دل و جانم بہ ھُو بستم نہ بستم غیر الا ھُو
’’مَیں اپنا خود غمخوار ہوں، یاھُو﴿اللہ﴾ کے سوا میرے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے ،مَیں نے دل وجان کو ھُو کے ساتھ وابستہ کرلیا ہے، اس کے علاوہ کسی سے وابستہ نہیں کیا‘‘-
یہ غزل حضرت سلطان باھُوکے تخلیقی عرفان کی ترجمان ہے -اس غزل سے ان کے کلام کی فکری معنویت کا مجموعی منظر نامہ متعین بھی ہو رہا ہے اور منکشف بھی - ان کی غزل کا جمالیاتی آہنگ اس صداقتِ احساس سے پھوٹتا ہے،جو ان کے داخلی تجربے اور مشاہدے کی غماز ہے-وحدت الوجودی تجربے کی فضا میں گندھی ہوئی غزل ان کے عرفان اور وجدان کی ترجمان بھی ہے اور ان کے گیان دھیان کی عکاس بھی- وہ اس معنوی تجربے کی جس سطح پر متمکن ہیں، وہ ان کے حسنِ خیال کی کوملتا سے مشکبار ہے - اس تجربے کی سچائی ان کے کلام کے بین السطور اس طرح بکھری ہوئی ہے کہ جیسے خوشبو کے آنگن میں رقص کرتی ہوئی مہکار ، یا جیسے رنگ کے تنوع میں گیت گاتے سُر، یا جیسے چنبے کی بوٹی کے اندر مشک مچاتے ہوئے نفی اور اثبات کے رنگ، یا پھر جیسے مرشدِ کامل کی کرامت کے طلوع ہوتے ہوئے منظر - ----- یہ اور ان جیسے متنوع رنگوں کے مناظر: وحدت کے پیکر میں ڈھل کر غزل کے جمالیاتی آہنگ کو ایک نیا تناظر فراہم کرتے ہیں، جس کی بدولت ان کی غزل وحدت الوجودی تجربے کی سچائی سے رنگ کشید کرتی ہے اور یوں ان کی غزل کا منظر نامہ :فکری اعتبار سے وسعت آشنا ہو جاتا ہے- اس طرح وحدت اپنی معنوی جمالیات میں اس قدر نمایاں ہو جاتی ہے کہ کثر ت کے پردوں میں بھی اس کی تجلیات کا منظر منکشف ہونے لگتاہے اور یوں ان کی غزل وفورِ جذبات کی طغیانی کے سامنے اپنے فنی اور تکنیکی اسالیب کو سنبھالنے سے قاصر رہتی ہے- ان میں کہیں قافیہ گم ہو کر رہ جاتا ہے اور کہیںشعر کا آہنگ: مروجہ اوزان و بحور کے مدار سے ہٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے، لیکن کہیں کہیں قافیے کی اس گمشدگی سے غزل کی غنائی اور مترنم فضا پر کچھ اثر نہیں پڑتا، بلکہ بعض مقامات پر تو اس طرح کی فنی آزادی اور اس کے نتیجے میں منکشف ہوتی ہوئی کیفیت غزل کی شعری جمالیات کو ایک اچھوتے اور نادر طرزِ احساس سے ہمکنار کر دیتی ہے- یہ اور اس طرح کے فنی رویے فکر کی تعبیر اور تفسیر کو اس کے بنیادی نظامِ سے دور نہیں جانے دیتے اور ا نھیں ایک ایسے معنوی مدار میں گردش کناں رکھتے ہیں ،جس کے جمالیاتی اسلوب کی گواہی واجب الوجود کی بے رنگی سے مل جاتی ہے- ایسے مناظر کی خوش آہنگی وفورِ جذبات کی سجل اور کومل فضا سے ہم آہنگ ہو کر نئے اور نادر تجربوں کی تصویر کشی کا خوش گوار فریضہ انجام دیتی ہے- ان کے چند شعر دیکھیے کہ جن میں واجب اور مطلق: وجودکی معنوی جمالیات - ---- ’میں ‘کے امکانی اور عارضی تناظر میں ڈھل کر خوشبو کے رنگوں کی تفہیم کا پیکر اوڑھ لیتی ہے:
از من ہزار من من و از من ہزار ہے ہے
ہے ہے ہزار از من از من ہزار ہے ہے
’’ہزار بار افسوس کہ مجھ میں ’میں میں ‘ یعنی تکبر کی ہزاروں صورتیں موجود ہیں،اسی افسوس میں، میں ﴿رو رو کر﴾ لاکھوں مرتبہ آہیں کھینچتا ہوں‘‘-
ہے ہے کہ من ندانم دائم منی برانم
زین کی کنی خلاصم ہے ہے ہزار ہے ہے
’’افسوس کہ میں ﴿تکبر کو نکالنے کا طریقہ﴾ نہیں جانتا﴿ اگر جانتا تو﴾ اپنے اندر سے ہمیشہ کے لیے نکال دیتا،تم مجھے اس ﴿تکبر﴾ سے کب چھٹکارا دلاؤ گے؟، ہائے ہزاروں بار افسوس ﴿یہ تکبر کب ختم ہوگا﴾‘‘-
ہے ہے کجا شریعت من غافلِ طریقت
دانم نہ آں حقیقت ہے ہے ہزار ہے ہے
’’ہائے افسوس کہ کہاں شریعت؟ میں تو طریقت سے بھی غافل ہوں ، ﴿اور﴾ اس حقیقت کو بھی نہیں جانتا ، ہزاروں بار افسوس‘‘-
دیدم من آنچہ دیدم خوردم من آنچہ خوردم
بر سینہ داغ بردم ہے ہے ہزار ہے ہے
’’میں نے دیکھا جو دیکھا، میں نے کھایا جو کچھ کھایا،﴿لیکن﴾ سینہ پر داغ ﴿جدائی﴾ ہے ، ہزاروں بار افسوس‘‘-
یاری کجا است یاری غمخوارِ آں نگارے
یاری بگو تو یاری ہے ہے ہزار ہے ہے
’’میرا محبوب کہاں ہے؟ وہ پرانا غمخوار دوست کہاں ہے؟تو﴿اس کی جدائی کا﴾ افسوس کر کے ﴿ہر دم ﴾ دوست دوست پکار‘‘-
حضرت سلطان باھُو کی غزل کا وحدت الوجودی آہنگ ان کے روحانی تجربات کی بلند مقامی کا نقیب بھی ہے اور غماز بھی - یہ عرفانی نظامِ فکر و عمل ان کے لیے محض نظری اور علمی مسئلہ نہیں ، بلکہ ان کے لیے وجدانی اور مکاشفاتی تجربہ بھی ہے- اس کا اظہار ان کی نثری کتابوں میں بھی جا بجا ملتا ہے- انھوں نے اس مسئلے کے مالہ وما علیہ کو بڑے خوش کن آہنگ میں مرتب کیا ہے، جس سے ان کی اس عرفانی معاملے سے دلبستگی کا اندازہ ہوتا ہے- اس مسئلے کی متنوع جہات ان کے نظم و نثر کے مجموعوں کی اوٹ سے منکشف ہوئی ہیں اور کتنی ہی جہات ہنوز ان کے عارفانہ کلام کے بین السطور مستور ہیں - اس مسئلے کے اظہاریے میں: یہ رنگ اور آہنگ ان کی بصیرت افروزی کی دلیل بھی ہے اور ان کی خوش خیالی کی تفسیر بھی-
اپنے کلام کے آئینے میں حضرت سلطا ن باھُو کے فکری اسلوب کی رنگا رنگی اپنی بہار دکھا رہی ہے- اہلِ راز اس مقامِ بلند کی توجیہہ اور تعبیر اپنے وجدانی تفکر کے تناظر میں انجام دیتے آئے ہیں -ان کے کلام کے غائر مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وجدانی مکاشفے کی تعبیر اور تفسیر ان کے تصورِ عشق کی تجلیات سے مستنیر ہے- مولانا روم کی طرح ان کے کلام کی بنیادی اکائی :عشق اور معاملاتِ عشق کی ہمہ گیری اور ہمہ رنگی سے فیضیاب ہے- ممکن الوجود کی زندگی اور اس کے اظہارات کے سارے رنگ اسی جذبے سے پھوٹتے ہیں اور جب یہ برگ و بار لاتے ہیں، تو ان کی خوش کلامی کا دائرۂ اثر پھیل کر کئی زمانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے- اس سے عرفانِ ذات کے سلسلہ در سلسلہ مراحل: انکسارِ وجود تک پھیل کر وجودِ ممکن کی معنویت کا انکشاف کرنے لگتے ہیں اور یوں خیال کا موسم: خواب کی جمالیاتی فضا میں ڈھل جاتا ہے- اس طرح عشق کی ہمہ گیریت پورے ماحول کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے- عشق کے اس جمال افروز تناظر میں: رنگ اور خوشبو کے بادل امڈ آتے ہیں اور دل کی سر زمین وجدان اور مکاشفے کی بدولت سر سبز وشاداب ہو جاتی ہے اور اس طرح کوئی بھی صوفی اپنے آئینۂ دل میں وجودِ واجب کی تجلیات کی کشید کرنے لگتا ہے - حضرت سلطان باھُو کے کلام میں اس تجربے کی خوشبو کے رنگ نکھر کر سامنے آتے ہیں- یہ چند شعر دیکھیے:
بہ بازی عشق می بازم سرِ بازار سر بازم
رہِ مرداں صفا سازم سرِ بازار سر بازم
’’میں عشق کا کھیل کھیلوں گا اور عین عشق کے بازار میں سر قربان کروں گا
میں عشق کے بازار میں قربان ہو کر عاشقوں کے لیے راستہ صاف کروں گا‘‘-
بجامِ عشق مئے خوردم ز ہستی خویش خود مُردم
سعادت گوی خود بردم سرِ بازار سر بازم
’’عشق کے جام سے شراب ﴿محبت﴾ پی کر اپنی ہستی سے نیستی ہو گیا ہوں، اور اپنی سعادت کی گیند حاصل کر لی، مَیں عین عشق کے بازار میں خود کو قربان کروں گا‘‘-
بہ مستی او چناں مستم ز عالم دستِ خود شُشتم
ز شوقِ جاں چناں مستم سرِ بازار سر بازم
’’مَیں اس محبوب کے عشق کی مستی میں ایسا مست ہوا کہ اس جہان کو بھول گیا،اس محبوب کے شوق میں ، مَیں ایسا مست ہوں کہ عین عشق کے بازار میں خود کو قربان کروں گا‘‘-
بہ بازی عشق می بازم دل و جاں را فدا سازم
بدم منصور می نازم یقیں خود را فدا سازم
’’مَیں عشق کا کھیل کھیلوں گا اور اپنے دل و جان کو قربان کروں گا،مجھے شاہ منصور پر فخر ہے ، یقینا مَیں بھی خود کو قربان کروں گا‘‘-
تعجب نیست ای یاراں اگر باشد کہ غمخواراں
شوند آگہہ ز جانبازاں چو من خود را فدا سازم
’’اے دوستو!اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ جب مَیں خود کو قربان کروں گا تو سب غمخوار قربان ہونے والوں سے آگاہ ہو جائیں گے ﴿اور وہ بھی بے خوف جان کی بازی لگائیں گے﴾ ‘‘-
بزلفِ یار دل بستم بہ بستن دل چناں مستم
دو عالم رفت از دستم بیا خود را فدا سازم
’’مَیں نے محبوب کی زلف سے دل وابستہ کر لیا ہے، اس وابستگی پر اس قدر بیخود ہوں کہ،دونوں جہان میرے ہاتھ سے چلے گئے ہیں، اب خود کو قربان کرتا ہوں‘‘-
ز دردِ دل چناں خستم ز جاں ہم دستِ خود شُستم
کنوں از دردِ دل گفتم کہ من خود را فدا سازم
’’دردِ دل سے اس قدر خستہ حال ہوگیا ہوں کہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہوں،اب دردِ دل سے کہتا ہوں کہ مَیں خود کو بھی فدا کرتا ہوں‘‘-
فدا سازم دگر باری سرِ خود را بہ دلداری
چہ خوش باشد نکو کاری کہ من خود را فدا سازم
’’مَیں اس دلدار کے بدلے اپنے سر کو دوسری بار پھر ﴿بلکہ بار بار﴾ قربان کروں گا،کیا ہی اچھی نیکی ہے کہ مَیں خود کو ﴿اس محبوب پر﴾ قربان کروں گا‘‘-
کلامِ حضرت سلطان باھُو میں وحدت الوجودی فکر کا ایک ایسا پہلو بھی سامنے آتا ہے، جو دوسرے صوفی شاعروں کے ہاں ذرا کم کم دکھائی دیتا ہے اور اگر کہیں اس رویے کے مظاہر نظر آتے بھی ہیں ، تو وہا ں اس کے بنیادی خطوط اپنی واضح اور نمایاںصورت میں منکشف نہیں ہوتے- یہ رویہ ’میں ‘ کے تناظر میں ممکن الوجود کی نئی معنوی تعبیر کا ایسا قرینہ فراہم کرتا ہے ، جو، ان کے کلام کے تناظر میں پہلی بار اپنی تمام ترفکری اور معنوی جہات کے ساتھ متشکل ہوا ہے- ’میں ‘ کی استعاراتی تعبیر جمالیاتی قدروں کی معنویت کو اس کے تہذیبی اور دینی مدار میں سر گرمِ کار رکھتی ہے اور ’میں ‘ - -----، یعنی ممکن الوجود کی فکری اڑان وحدت الوجود کے منظر نامے میں گم ہو کر بقا کی طرف محوِسفر رہتی ہے- اس طرح اس کا معنوی سفر :مجاز سے حقیقت کی جانب جاری رہتا ہے اور اس سے ممکن اور واجب کے مابین صداقتِ احساس کا منظر کھل اٹھتا ہے- اس سے ایک طرف ممکن کی فنا کا احساس اور اس کے گمان کے ممکن کی علامتی معنویت سامنے آ جاتی ہے اور دوسری طرف واجب کے ساتھ اس کی بقا کے فکریاتی احساس کی جمالیات اپنے مدار کے گرد ،گردش کرنے لگتی ہے- ان کے یہ شعر دیکھیے کہ کس طرح ممکن کا روحانی تجربہ اپنی ذات کی نفی سے ہوتا ہوا ،اثبات ِ ذات تک جا پہنچتا ہے اور اس سے عرفانِ وجود کی وہ لازوال دولت: تجرباتی سطح پر مشاہدے کی ’بکل مار‘ کر طلوع ہوتی ہے ، جس سے اس مسئلے کی بنیادی حقیقت منکشف ہونے لگتی ہے:
می نمائی خویش را صوفی منم
در دیارے عابد و زاہد منم
’’تو خود نمائی کرتا ہے کہ مَیں ہی صوفی ہوں،﴿اور﴾ میرے جیسا عابد و زاہد کہیں بھی نہیں‘‘-
چند باشی با چنیں خود بینی است
کی رہی زیں دلق و درویشی منم
’’تو کب تک یہ ریا کاری کرتا رہے گا؟تو کب اس ﴿تکبر﴾ سے چھٹکارا پائے گا کہ میں ہی بہت بڑا درویش ہوں؟
گر منی را سرِ دانی راہ نورد
بارِ دیگر تا نمی گوی منم
’’ اگر تو خودی کا راز جانتا ہے تو ﴿دشوار﴾ راستے کو طے کر،دوسری مرتبہ تو یہ نہیں کہے گا کہ میں ہوں‘‘-
تو چرا من من کنی گوی منم
آنکہ یک قطرہ منی گوی منم
’’تو کیوں ، مَیں ، مَیں ، کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مَیں ہوں؟تو ایک آب منی کا قطرہ ہے اور کہتا ہے کہ مَیں ہوں؟
یارِ من گفتن نمی شاید ترا
آنچہ شد چوں گفت ابلیسی منم
’’اے دوست! مَیں کہنا تجھے مناسب نہیں،ابلیس نے جب یہ کہا کہ مَیں ہوں تو اس کے ساتھ کیا ہوا؟
﴿ترجمہ فارسی اشعار: ایس ایچ قادری﴾
حضرت سلطان باھُوایک صاحبِ عرفان و یقین بزرگ تھے - ان کی غزل کے درو بام ان کے اسی عارفانہ تجربے کی خوشبو سے معطر ہیں- اُن کی غزل کیا ہے؟ گنجینۂ معانی کاطلسم کدہ ہے ! جس میں روحانی تجلیات اور مشاہداتی اِدراک کے اتنے رنگ بکھرے ہوئے ہیں کہ ان کی تعبیر اُن کے فکری اور معنوی نظامِ کی صداقتِ احساس سے ہویدا ہے- تعبیر اور تفسیر کا یہ پیرایۂ اظہاراُن کے جمالیاتی طرزِ فکر کی نمود بھی ہے اور ان کے وجدانی جذبوں کی امین بھی- اُن کے ہاں کثرت کے آئینے میں وحدت کی جلوہ آرائی کے مناظراس وجودِ مطلق کی نمود سے منکشف ہوتے ہیں ، جو حسنِ خیال کا عرفانی تجربہ بھی ہے اور مکاشفاتی وظیفہ بھی-
فارسی غزل صدیوں سے اس تجربے کی خوشبو کا پیرہن اوڑھ کر کتنے ہی رنگوں میں خیال اور اس کی بوقلمونی کے دَر وا کرتی رہی ہے- سنائی، عطار، رومی، سعدی ،امیر خسرو اور حافظ کی غزل میں عشق کا علامتی منظر نامہ: وحدت الوجود کی جمالیاتی صداقت سے اظہار کی راہ پاتا رہا ہے- اِس مضمونِ تازہ کی تخلیق اُس بے رنگی کی اوٹ سے جلوہ گر ہوتی ہے، جو خیالِ حسن کی بنیاد بھی ہے اور حسنِ خیال کی اساس بھی- --- اور خیال کی اس رنگا رنگی سے غزل کے تخلیقی آفاق جگمگاتے رہے ہیں- غزلیہ تہذیب کی ہمہ رنگی: دینی تہذیب کی یک رنگی میں ڈھل کر ایک ایسے فکری نظام میں صورت پذیر ہوتی ہے کہ سارے رنگوں کا پیش منظر بے رنگی کی فضا میںمتشکل ہو جاتا ہے- یہ سفرر کتا نہیں، رک سکتا بھی نہیں، کیونکہ اس کا اظہار یہ تجرباتی لباس میں ملبوس ہو کرنت نئے پیکر اوڑھ لیتا ہے اور غزل ان جذبوں کے اظہار اور ان کی نمود کا خوبصورت بیانیہ بن کر روحانیات کے افق پر طلوع ہوتی ہے- --- اور جب غزل کا فکری اور جمالیاتی منظر نامہ صدیوں کاسفر کر کے بابا سلطان باھُو کے باطنی تجربے سے ہم آہنگ ہوتا ہے، تو اس کی طلسماتی اپیل ایک ایسے طرزِ احساس میں صورت پذیر ہو جاتی ہے،جو خیال اور خواب کی امتزاجی کیفیت کا عکاس ہے- اس تخلیقی تجربے کی سچائی ان کی غزل کے پیکر میںعرفان اور معرفت کے دیپ روشن کر دیتی ہے اور یوں ان کی غزل کا معنوی نظام: ر وحانی طرزِ احساس سے وجود پذیر ہوتا ہے- اس میں وحدت الوجودی تجر بے کی خوشبوتخلیقی ماحول کو اتنا متأثر کرتی ہے کہ رنگ اور روشنی کے سارے مناظر وجودِ واجب کی جلوہ گری سے اظہار کی راہ پاتے ہیں- ان کے دیوان کی پہلی غزل دیکھیے کہ کس طرح ان کے باطنی طرزِ احساس کی رنگا رنگی وحدت کے منظر نامے میں ڈھل جاتی ہے اوروہ فکر و آہنگ کی معنوی جمالیات کو وجودِ مطلق کے فکری تناظر میں اُجال لیتے ہیں:
یقیں دانم درین عالم کہ لا معبود الا ھُو
ولا موجود فی الکونین لا مقصود الا ھُو
’’مجھے یقین ہے کہ اس کائنات میںسوائے اُس ذات پاک کے کوئی معبود نہیں ہے،اور کائنات میں اس کے علاوہ کوئی حقیقی طور پر موجود ہی نہیں اور نہ اس کے سوا کوئی مقصود ہے‘‘-
چو تیغِ لا بدست آری بیا تنہا چہ غم خواری
مجو از غیرِ حق یاری کہ لا فتاح الا ھُو
’’تُو جب لا الٰہ کی تلوار ہاتھ میں رکھتا ہے تو اکیلے آجاتمہیں کیا فکر ہے، اللہ کے بغیر دوستی نہ تلاش کر کیونکہ اس کے علاوہ کوئی کارساز نہیں‘‘-
بہ لالالا ہمہ لا کن بگو اللّٰہ واللّٰہ جو
نظر خود سوی وحدت کن کہ لا مطلوب الا ھُو
’’تین مرتبہ لا الٰہ کی لا سے ہر چیز کی نفی کر، اللہ کو پکار اور اللہ کو تلاش کر، اپنی نظر اللہ کی وحدت پر رکھ کیونکہ اس کے علاوہ کوئی مطلوب ہی نہیں ہے‘‘-
ہوالاول ہوالآخر ظہور آمد تجلی او
بذاتِ خود ہویدا حق کہ فی الکونین الا ھُو
’’وہی اوّل ہے وہی آخر ہے جس کا جلوہ ظاہر ہوا ہے،حق اپنی ذات کے ساتھ خود ظاہر ہے کیونکہ اس کے علاوہ کائنات میں کوئی نہیں‘‘-
ہو الھُو ھُو ہو الحق ھُو ندانم غیر الا ھُو
ہو الھُو ھُو ہو الحق ھُو نخوانم غیر الا ھُو
’’وہی ھُو ھُو ہے وہی حق ھُو ہے، میں اس ھُو کے علاوہ کچھ نہیں جانتا، وہی ھُو ھُو ہے وہی حق ھُو ہے، میں اس ھُو کے علاوہ کچھ نہیں پڑھتا‘‘-
الا ای یارِ شوفانی مگو ثالث مگو ثانی
ہوالواحد ہوالمقصود ولا موجود الا ھُو
’’خبردار اے سالک!اللہ میں فنا ہوجا، اسے دو اور تین نہ کہہ،وہ ذات واحد ہے، وہی مقصود ہے ، اس کے سوا کوئی موجود نہیں ہے‘‘-
یکی گویم یکی جویم یکی دردل چو گل رویم
ہموں یک را بہ یک پویم نہ پویم غیر الا ھُو