انبیاءکرام (علیھم السلام) میں سے اکثر انبیاء کی حیاتِ طیبات میں سے سبق آموز واقعات کو اللہ تعالیٰ نے اپنی لاریب کتاب قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے تاکہ اہلِ ایمان اس سے سبق حاصل کرسکیں- قرآن مجید میں متعدد مقامات پہ حضرت عیسیٰؑ کا تذکرہ آیا ہے اور آقا کریم(ﷺ) نے بھی آپؑ کے بارے میں احادیث مبارکہ میں ارشادات فرمائے ہیں- آپ نے حضور نبی کریم(ﷺ) کی بعثت سے قبل آپ کی آمد کی نویدیں سنائیں اور آپؑ کو یہ شرف حاصل ہوگا کہ آپ حضور نبی اکرم (ﷺ)کی امت میں دوبارہ تشریف لائیں گے- کیونکہ آپ کو یہودیوں نے قتل کی سازش میں شہید کرنا چاہا تھا لیکن اللہ عزوجل نے آپ کو زندہ آسمانوں پہ اٹھالیا- جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:
’’وَّقَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيْحَ عِيْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللهِ ج وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ وَلٰـکِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ط وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْهِ لَفِيْ شَکٍّ مِّنْهُ ط مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ج وَمَا قَتَلُوْهُ یَقِیْنًۢا o بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ اِلَيْهِ ط وَکَانَ اللهُ عَزِيْزًا حَکِيْمًاo ‘‘[1]
’’اور اُن کے اس کہنے پر کہ ہم نے مسیح عیسٰی بن مریم اللہ کے رسول کو شہید کیا، اور ہے یہ کہ انہوں نے نہ اُسے قتل کیا اور نہ اُسے سولی دی بلکہ ان کے لئے اُس کی شبیہ کا ایک بنادیا گیا اور وہ جو اس کے بارے میں اختلاف کررہے ہیں ضرور اس کی طرف سے شبہہ میں پڑے ہوئے ہیں انہیں اس کی کچھ بھی خبر نہیں مگر یہی گمان کی پیروی اور بے شک انہوں نے اس کو قتل نہ کیا -بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھالیا اور اللہ غالب حکمت والا ہے‘‘-
حضرت عیسیٰؑ کا حلیہ مبارک اور آپؑ کی بعثت کے بارے میں حدیث مبارکہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ آقا کریم (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:
’’لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ يَعْنِي عِيسٰى، وَإِنَّهُ نَازِلٌ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَاعْرِفُوهُ رَجُلٌ مَرْبُوعٌ إِلَى الْحُمْرَةِ وَالْبَيَاضِ بَيْنَ مُمَصَّرَتَيْنِ كَاَنَّ رَأْسَهُ يَقْطُرُ، وَإِنْ لَمْ يُصِبْهُ بَلَلٌ، فَيُقَاتِلُ النَّاسَ عَلَى الْإِسْلَامِ فَيَدُقُّ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ وَيُهْلِكُ اللهُ فِي زَمَانِهِ الْمِلَلَ كُلَّهَا إِلَّا الْإِسْلَامَ وَيُهْلِكُ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ، فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ أَرْبَعِينَ سَنَةً ثُمَّ يُتَوَفَّى فَيُصَلِّي عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ ‘‘[2]
’’ میرے اور عیسیٰؑ کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے، اور وہ اترنے والے ہیں، جب تم انہیں دیکھو گے تو پہچان جاؤ گے کہ درمیانی قامت والے ہیں اور رنگ ان کا سرخ و سفید ہو گا، ہلکے زرد رنگ کے لباس میں ہوں گے، ایسے محسوس ہو گا جیسے ان کے سر سے پانی ٹپک رہا ہو، حالانکہ نمی ( پانی ) لگا نہیں ہو گا - ( انتہائی نظیف اور چمکدار رنگ کے ہوں گے) وہ لوگوں سے اسلام کے لیے قتال کریں گے، صلیب توڑ دیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ موقوف کر دیں گے- اللہ تعالیٰ ان کے زمانے میں اسلام کے علاوہ دیگر سب دینوں کو ختم کر دے گا - وہ مسیح دجال کو ہلاک کریں گے - حضرت عیسیٰؑ زمین میں چالیس سال رہیں گے، پھر ان کی وفات ہو گی اور مسلمان ان کا جنازہ پڑھیں گے ‘‘-
حضرت عیسیٰؑ کو بغیر والد کے پیدا کیا گیا جس پر لوگوں نے آپ کو خدا کا بیٹا کہنا شروع کردیا- اللہ تعالیٰ نے اس کی تردید فرمائی اور اپنی قدرت عظیم کی مثال تخلیق آدم سے دی- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ط خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ ‘‘[3]
’’عیسیٰ کی کہاوت اللہ کی نزدیک آدم کی طرح ہے، اسے مٹی سے بنایا پھر فرمایا ہوجا وہ فوراً ہوجاتا ہے‘‘-
آپؑ صاحبِ کتاب ہیں، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے:
’’وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَ قَفَّیْنَا مِنْۢ بَعْدِہٖ بِالرُّسُلِ ز وَ اٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ط اَفَکُلَّمَا جَآءَکُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَہْوٰٓی اَنْفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتُمْ ۚ فَفَرِیْقًا کَذَّبْتُمْ ز وَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ‘‘ [4]
’’اور بے شک ہم نے موسٰی کو کتاب عطا کی اور اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو کھلی نشانیاں عطا فرمائیں اور پاک روح سے اس کی مدد کی تو کیا جب تمہارے پاس کوئی رسول وہ لے کر آئے جو تمہارے نفس کی خواہش نہیں تکبر کرتے ہو تو ان میں ایک گروہ کو تم جھٹلاتے اور ایک گروہ کو شہید کرتے ہو‘‘-
حضور رسالت مآب (ﷺ) کی آمد کی خوشخبری حضرت عیسیٰ مسیحؑ نے بھی دی اور قرآن مجید نے واضح طور پہ اعلان فرمایا:
’’وَ اِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىۃِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاۡتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُہٗٓ اَحْمَدُ طفَلَمَّا جَآءَہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا ہٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ ‘‘[5]
’’اور یاد کرو جب عیسٰی بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے سے پہلی کتاب توریت کی تصدیق کرتا ہوا اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے پھر جب احمد ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے بولے یہ کُھلا جادو ہے‘‘-
حضرت عیسیٰؑ اور حضور نبی کریم (ﷺ)کے درمیان کوئی دوسرا نبی یا رسول مبعوث نہیں ہوا- جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود ارشاد فرمایا:
’’أَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَالْأَنْبِيَاءُ إِخْوَةٌ لِعَلَّاتٍ أُمَّهَاتُهُمْ شَتَّى وَدِينُهُمْ وَاحِدٌ‘‘[6]
”میں عیسیٰ بن مریمؑ سے اور لوگوں کی بہ نسبت زیادہ قریب ہوں، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور انبیاء (علیھم السلام) علاتی بھائیوں ( کی طرح ) ہیں- ان کے مسائل میں اگرچہ اختلاف ہے لیکن دین سب کا ایک ہی ہے“ -
صحیح بخاری کی ایک روایت میں آقا کریم(ﷺ)اور حضرت عیسیٰؑ کے درمیان کا وقفہ اس طرح بیان ہوا ہے:
’’فَتْرَةٌ بَيْنَ عِيسٰى وَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِمَا وَسَلَّمَ سِتُّ مِائَةَ سَنَةٍ‘‘[7]
’’عیسیٰؑ اور حضرت محمد (ﷺ) کے درمیان میں ’’فترة‘‘ کا زمانہ ( یعنی جس میں کوئی پیغمبر نہیں آیا ) چھ سو برس کا وقفہ گزرا ہے‘‘-
آپؑ کی بعثت ثانویہ بطور حضور نبی کریم (ﷺ) کے امتی کے ہوگی اور آپؑ حضورنبی کریم (ﷺ) کی شریعت کو عام کریں گے- آپ ؑ کے متعلق تاریخ میں کئی نامور علماء، فقہاء، عرفاء، و صوفیاء نے لکھا ہے- برصغیر پاک و ہند کے معروف صوفی بزرگ سلطان العارفین حضرت سلطان باھو قدس اللہ سرہ نے بھی اپنی تعلیمات میں جابجا آپؑ کا ذکر فرمایا ہے- جسے ذیل میں بیان کیا گیا ہے-
حضرت سلطان باھو قدس اللہ سرہ نے اپنی تصنیف لطیف میں حضرت عیسیٰ ؑ اور حضور نبی کریم (ﷺ) تک کے دورانیہ کا ذکر فرمایا ہے- آپؒ ارشاد فرماتے ہیں:
’’حضرت آدمؑ اور حضرت نوحؑ کے درمیان دو ہزار بائیسں (2022) سال کا زمانہ ہے، حضرت نوحؑ اور حضرت ابراہیمؑ کے درمیان گیارہ سو (1100) سال کا زمانہ ہے، حضرت ابراہیمؑ اور حضرت داؤدؑ کے درمیان پانچ سو ستر (570) سال کا زمانہ ہے، حضرت داؤدؑ اور حضرت موسیٰ ؑ کے پانچ سو (500) سال کا زمانہ ہے، حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ کے درمیان گیارہ سو ستاسی (1187) سال کا زمانہ ہے اور حضرت عیسیٰؑ اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے درمیان چھ سو (600) سال کا زمانہ ہے- اِس طرح آدمؑ سے لے کر خاتم النبین حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کی ولادتِ با سعادت تک پانچ ہزار نو سو اُناسی (5979) سال کا عرصہ ہے‘‘-
برکاتِ اسم اللہ ذات اور دمِ عیسیٰ علیہ السلام:
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں انعام یافتہ لوگوں کی راہ پہ چلنے کی تلقین فرمائی ہے- یہ انعام یافتہ لوگ انبیاء، صدیقین، شہداء و صالحین ہیں- یہ چاروں گروہ اللہ کے قرب یافتہ اور اولیاء ہیں- حضرت سلطان باھو قدس اللہ سرہ نے اپنی تعلیمات میں ولی کو اس طرح بھی بیان فرمایا ہے کہ یہ وہ عارف باللہ فنافی اللہ فقیر ہے جسے حضور نبی کریم (ﷺ) کی دائمی حضوری اور قرب نصیب رہتا ہے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو انبیاء (علیھم السلام) سی صفت رکھتے ہیں یعنی داعی الی اللہ ہیں، وہ اپنے عمل سے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی معرفت و وصال عطا کرتے ہیں اور انبیاء (علیھم السلام) نے ان کی ان صفات کے باعث حضور نبی کریم (ﷺ)کا اُمتی ہونے کی خواہش کا اظہار بھی فرمایا- اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ کو یہ خاص معجزہ عطا فرمایاتھا کہ وہ اللہ کے حکم سے مردہ کو زندہ کرتے تھے- ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ اذْکُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْکَ وَ عَلٰی وَالِدَتِکَ م اِذْ اَیَّدْتُّکَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ قف تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَہْدِ وَ کَہْلًا ط وَ اِذْ عَلَّمْتُکَ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ التَّوْرٰىۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ ۚ وَ اِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ کَہَیْئَۃِ الطَّیْرِ بِاِذْنِیْ فَتَنْفُخُ فِیْہَا فَتَکُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِیْ وَ تُبْرِیُٔ الْاَکْمَہَ وَ الْاَبْرَصَ بِاِذْنِیْج وَ اِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰی بِاِذْنِیْ ج وَ اِذْ کَفَفْتُ بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ عَنْکَ اِذْ جِئْتَہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْہُمْ اِنْ ہٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ‘‘[8]
’’جب اللہ فرمائے گا اے مریم کے بیٹے عیسٰی یاد کر میرا احسان اپنے اوپر اور اپنی ماں پر جب میں نے پاک روح سے تیری مدد کی تو لوگوں سے باتیں کرتا پالنے میں اور پکّی عمر کا ہو کراور جب میں نے تجھے سکھائی کتاب اور حکمت اور توریت اور انجیل اور جب تومٹی سے پرند کی سی مورت میرے حکم سے بناتا پھر اس میں پھونک مارتا تو وہ میرے حکم سے اُڑ نے لگتی اور تو مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو میرے حکم سے شفا دیتا اور جب تو مردوں کو میرے حکم سے زندہ نکالتااور جب میں نے بنی اسرائیل کو تجھ سے روکاجب تو ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر آیا تو ان میں کے کافر بولے کہ یہ تو نہیں مگر کھلا جادو‘‘-
اولیائے کاملین حضرت عیسیٰ ؑ کی طرح مردہ دل کی طرف نگاہ کر کے اسے زندگی عطا فرماتے ہیں اور قرآن مجید فرقان حمید کی بھی یہی شان ہے کہ جو شخص کامل خلوص و عقیدت سے اس کی جانب سے ہدایت طلب کرتا ہے اسے نفسانی خواہشات کی موت اور دل کی حیات نصیب ہوجاتی ہے- حضرت سلطان باھوقدس اللہ سرہ فرماتے ہیں:
’’حضرت عیسٰی ؑ کی طرح ”قُمْ بِاِذْنِ اللہِ“ کا مرتبہ بھی قرآن مجید اور اوْلیائے اَللہ کی قبر سے حاصل ہوتا ہے‘‘-[9]
ایک اور مقام پہ آپ ان کامل فقراء کا ذکر اس طرح فرماتے ہیں:
’’اہلِ معرفت عیسیٰؑ دم کے مالک ہوتے ہیں اِس لئے وہ ایک ہی دم میں مردے کو زندہ کر دیتے ہیں‘‘- [10]
حضرت عیسیٰ ؑ کو ”قُمْ بِاِذْنِ اللہِ“ کا معجزہ دیا گیا اور تمام تر انبیاء (علیھم السلام) کو بھی مختلف معجزات عطا ہوئے جس کے ذریعے وہ مشاہدات سے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت و حقانیت کا پیغام دیتے تھے- یہ تمام عطائے خداوندی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے پاک و طیب اسم مبارک ”اَللّٰهُ“ کی برکت و عظمت ہے- جیسا کہ حضرت سلطان باھوؒ بیان فرماتے ہیں:
’’یدِ بیضا، عصائے موسیٰ، صبرِ ایوبؑ، شوقِ جرجیںؑ، قربانیٔ خلیلؑ، دمِ عیسٰیؑ، خاتمِ سلیمانؑ، آئینۂ سکندری اور خُلقِ محمدی (ﷺ) اور جو کچھ کونین کے اندر ہے اِن سب کا ظہور برکتِ اسمِ ”اَللّٰهُ“ اور تجلیاتِ نورِ اَللّٰهُ سے ہے‘‘-[11]
حضرت سلطان باھو قدس اللہ سرہ نے اپنی تعلیمات میں جابجا حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام کے اس معجزے کا ذکر فرمایا ہےاور دمِ عیسیٰؑ کو مرشدِ کامل کی نشانی کے طور پر بھی بیان فرمایا ہے جو حضور رسالت مآب (ﷺ) کے اذن سے توجہ کرکے ناقص کو اخص کردیتا- آپ قدس اللہ سرہٗ فارسی ابیات میں ارشاد فرماتے ہیں:
طالبِ صادق شدہ عنقا کم |
’’طالبِ صادق عنقا کی طرح کم یاب ہوتا ہے- ”قُمْ بِاِذْنِ اللہِ“ کہہ کر مردے کو زندہ کرنے والا عیسیٰ صفت مرشد بھلا کہاں ملتا ہے ؟ مرد طالب کے لئے مرشد کوئی مرد ہی ہوسکتا ہے، یہ ہواوہوس کے پتلے بھلا مرشد کہاں ہوسکتے ہیں‘‘-[12]
صفتِ عیسیٰ ؑ حضور نبی کریم (ﷺ) کی امت کے اولیاء و صوفیاء کو حاصل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو نماز اور ذکر کا تحفہ عطا فرمایا ہے- ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَىٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِطاَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُ‘‘[13]
’’وہ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کی یاد سے چین پاتے ہیں سن لو اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے‘‘-
اسم اللہ ذات کا ذکر کرنے والا ذاکر جب کامل مرشد کی نگرانی میں شریعت مطہرہ کی پابندی کرتے ہوئے سانسوں کے ساتھ ذکر کرتا ہے تو اس کا ظاہر اور باطن پاک ہو جاتا ہے اور اسے حضور نبی کریم (ﷺ) کی مجلس کی دائمی حضوری نصیب ہوجاتی ہے- اس کا نفس مرجاتا ہے اور دل زندہ ہوجاتا ہے اور پھر وہ اپنے قلب میں سے پاک ذات کے انوار و تجلیات کا مشاہدہ کرتا ہے- مرشد اکمل زندہ دل ذاکر ہوتا ہے یعنی حضرت عیسیٰ روح اللہؑ کا وہ دم رکھتا ہے کہ جب وہ کسی مردہ دل ناقص کو دیکھتا ہے تو اسے بھی اسمِ جلیل، اسمِ اعظم، اسم اللہ کا بابرکت ذکر عطا کر کے دلِ مردہ کو زندہ کر دیتا ہے- جیسا کہ حضرت سلطان باھوؒارشاد فرماتے ہیں:
ذکر بموت است موت از معرفت |
’’ذکر موت افزا ہے وہ موت جس سے معرفتِ الٰہی حاصل ہوتی ہے اور ذاکر عیسٰیؑ صفت ہوکر مردوں کو زندہ کرتا ہے‘‘-
جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰؑ کو مردوں کو زندہ کرنے کامعجزہ عطا فرمایا تھا، اسی طرح حضرت سلطان باھوؒ مرشد کامل کے درجے کو عیسیٰ صفت اس بنا پہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مرشد کامل کو بھی یہ قدرت عطا کی ہے کہ وہ کسی مردہ دل پر نظر فرما کر اس کے دل کو زندگی عطا کر دے-
نورِ توحید اور حضرت عیسیٰ ؑ :
سلطان العارفین حضرت سلطان باھو قدس اللہ سرہ کی تعلیمات کا مغز توحیدِ ربانی ہے- آپ کی تعلیمات میں اس کا عکس ایک فقرے میں بھی جابجا ملتا ہے جو یہ ہے: اللہ بس، ماسوٰی اللہ ہوس- یعنی تجھے اللہ کافی ہے اور اس کے سوا سب کچھ ہوس ہے-یہ قرآن مجید کے پیغام کی ترجمانی ہے جس میں ارشاد ہوا ہے:
’’وَ لِلهِ مَا فِي السَّمٰوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ وَكَفٰى بِاللهِ وَكِيْلًا‘‘[15]
’’اوراللہ ہی کا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہےاور اللہ کا کارساز ہونا کافی ہے‘‘-
جو مسلمان اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پہ کامل ایمان لے آتا ہے اور حضور نبی کریم (ﷺ) کی مکمل اتباع کرتا ہے تو وہ عوام سے نکل کر خواص میں شامل ہوجاتا ہے- جیسا کہ حدیث پاک میں آیا ہے:
’’عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله (ﷺ): «إنَّ اللهَ قال: مَن عادى لي وليًّا فقد آذنتُه بالحرب، وما تقرَّب إليَّ عبدي بشيء أحب إليَّ مما افترضتُ عليه، وما يزال عبدي يتقرَّب إليَّ بالنوافل حتى أحبَّه، فإذا أحببتُه: كنتُ سمعَه الذي يسمع به، وبصرَه الذي يُبصر به، ويدَه التي يبطش بها، ورجلَه التي يمشي بها، وإن سألني لأعطينَّه ولئن استعاذني لأُعيذنَّه وما تردَّدتُ عن شيء أنا فاعلُه تردُّدي عن نفس المؤمن، يكره الموتَ و أنا أكره مساءتَه ‘‘[16]
’’حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے مرفوعاً روایت ہے کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس شخص نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی، میرا اس کے ساتھ اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن چیزوں سے مجھ سے قریب ہوتا ہے ان میں سب سے محبوب وہ چیزیں ہیں جو میں نے اس پر فرض قراردی ہیں اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو پھر (اس کے نتیجے میں) مَیں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے- اگر وہ مجھ سے کسی چیز کا سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور دیتا ہوں، اور اگر وہ کسی چیز سے میری پناہ چاہتا ہے تو میں اسے ضرور پناہ دیتا ہوں اور کسی چیز کے کرنے میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا تردد مومن کی روح قبض کرنے پر ہوتا ہے جو موت کو ناپسند کرتا ہے اور مجھے اسے غمگین کرنا نا پسند ہوتا ہے‘‘-
نورِ توحید کی برکت سے مومن کا وجود منور ہوجاتا ہے- سلطان العارفین حضرت سلطان باھو قدس اللہ سرہ نے حضرت عیسیٰ ؑ کی زبان مبارک سے قم باذن اللہ کا معجزہ ادا ہونا اسی نورِ توحید کے باعث قرار دیا ہے- آپ قدس اللہ سرہ اپنی مایہ ناز تصنیف لطیف ’’عین الفقر‘‘میں فرماتے ہیں:
”قُمْ بِاِذْنِ اللہِ“ عیسیٰ ؑ کا مرتبہ ہے حضرت عیسٰیؑ کی زبان نورِ توحید میں غرق تھی‘‘-[17]
صوفیائے کرام کی تعلیمات کے مطابق توحید کا یہ نور اسم اللہ ذات ہے- مومن کے قلب کے بارے میں حدیث پاک میں ارشاد ہوا ہے کہ ایمان والوں کے دل میں اللہ پاک کے نور کی سمائی ہوجاتی ہےجبکہ حدیث قدسی میں ارشاد ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان میں نہیں سماتا لیکن مومن کے دل میں اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات کی سمائی ہو جاتی ہے- حضرت سلطان باھوؒ نے دل کی پاکیزگی کے لئے اپنی تصنیفات میں بارہا ذکر اللہ، ذکر اسم اللہ ذات کی تلقین فرمائی ہے- اپنے پنجابی کلام میں ایک جگہ ارشاد فرماتے ہیں:
س: سینے وچ مقام ہے کیندا سانوں مرشد گل سمجھائی ھو |
سینے کے اسی راز کو آپ قدس سرہ العزیز صفتِ عیسیٰؑ بھی فرماتے ہیں- کیونکہ یہ سانس روح کے باعث ہے، روح امرِ ربی ہے، عیسیٰ ؑ روح اللہ ہیں اور اپنے دم سے مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے- آپؒ ارشاد فرماتے ہیں:
در سینهٔ من درسِ وحدت معرفت |
’’میرے سینے میں معرفتِ وحدت کا درس جاری ہے جو اِس درس کو سن لیتا ہے وہ عیسیٰ صفت مسیحا بن جاتا ہے‘‘-
طالب کو اس کے مطلوب تک رسائی کیلئے آپ قدس اللہ سرہ نے اپنا فیضان عام فرمایا ہے- جو شخص معرفتِ حق تعالیٰ حاصل کرلیتا ہے وہ اپنی سانسوں تک کو اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول و مستغرق کردیتا ہے- یہ سانسیں اسے جاوداں زندگانی عطا فرمادیتی ہیں- اس کا ربط اس کے خالق سے استوار ہوجاتا ہے اور وہ ثانئ خضر (یعنی حیاتِ جاودان پا جانے والا)و عیسیٰ صفت (یعنی مردہ دلوں کو زندہ کر دینے والا) ہو جاتا ہے- جیسا کہ آپ قدس اللہ سرہ ارشاد فرماتے ہیں؛
طالبا از من طلب حق معرفت |
’’اے طالب! مجھ سے معرفتِ حق حاصل کر تاکہ تو ثانئِ خضر (یعنی حیاتِ جاودان پا جانے والا)اور عیسیٰ صفت ہو (یعنی مردہ دلوں کو زندہ کر دینے والا) جائے‘‘-
حدیث پاک میں آیا ہے:
’’عَنْ عُبَادَة ابْن الصَامِت: قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ الله! أَخْبِرْنَا عَنْ نَّفْسِك؟ قَالَ: نَعَمْ أَنَا دَعْوَةُ إِبْرَاهِيم وَكَانَ آخِر مَنْ بَشَّرَ بِي عِيْسَى ابْن مَرْيَم - عَلَيْهِ الصَّلاَة وَالسَّلاَم ‘‘[20]
’’حضرت عبادہ بن صامت (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ کہا گیا: اے اللہ کے رسول(ﷺ) ! ہمیں اپنے بارے میں بتائیے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا: ٹھیک ہے- میں ابراہیم کی دعا ہوں، اور جس نے سب سے آخر میں میری بشارت دی وہ عیسیٰ بن مریم ہیں‘‘-
اگر حضور نبی کریم (ﷺ) کا امتی اپنی طلب میں مقامِ معرفت کو حاصل کرلے تو وہ عیسیٰ صفت ہوجاتا ہے کہ اچھے کی صحبت اچھا بنا دیتی ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ ؑ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے باعث ہی مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے- آپ قدس اللہ سرہ اسی متعلق ارشاد فرماتے ہیں:
طالبِ عیسیٰ بود عیسیٰ صفت |
’’طالبِ عیسیٰ علیہ السلام عیسیٰ صفت ہوتا ہے کہ اہلِ معرفت ہونے کی بدولت مردے کو زندہ کر سکتا ہے‘‘-
ذاکر عالم باعمل باطن صفا ہوتا ہے اور وہ اللہ کی عطا سے دعوتِ قبور پڑھ کر اہلِ قبر سے اپنی مراد لیتا ہے- یہ صفتِ عیسیٰؑ ہے جو خاتم الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کی امت کے اولیاء کو حاصل ہے- جیسا کہ حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
’’صاحبِ تصورِ اسمِ اللہ ذات کامل کو روحانیت پر تصرف حاصل ہوتا ہے اور وہ’’قُمْ بِاِذْنِ اللهِ‘‘( اُٹھ اللہ کے حکم سے) کہہ کر روحانی کو زندہ کر کے قبر سے باہر لے آتا ہے- اُس کا ایسا کرنا سنتِ انبیاءہے کہ حضرت عیسیٰ روح اللہؑ ایسا کیا کرتے تھے‘‘- [22]
عالمِ باطن عیسیٰ صفت:
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان مبارک ہے کہ علم دو قسم کا ہے- حضور نبی اکرم (ﷺ)اکثر یہ دعا فرماتے تھے :
’’اللهم انی اعوذبک من علم لا ينفع‘‘[23]
’’اے اللہ میں تجھ سے ایسے علم سے پناہ مانگتا ہوں جو فائدہ مند نہ ہو‘‘-
وہ علم جو علمِ نافع ہے اس کے متعلق حدیث پاک میں آیا ہے کہ:
’’جس نے علم سیکھا مگر اس سے اللہ کی رضا حاصل نہ کی نہ اسے سکھایا مگر دنیا سے عزت حاصل کرنے کے لئے وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا‘‘-[24]
علم کا مقصد قلب کی بیداری ہے تاکہ معرفتِ الٰہی حاصل کر کے معلوم تک رسائی حاصل کی جا سکے- اسی علم کو معرفتِ توحید کا علم بھی کہتے ہیں اور جیسے قبل بیان ہوچکا ہے کہ جو معرفتِ توحید کا علم حاصل کرلیتا ہے وہ عیسیٰ صفت ہوجاتا ہے- حضرت سلطان باھوؒ اپنے فارسی بیت میں ارشاد فرماتے ہیں:
علم توحید است باشد معرفت |
’’علم معرفتِ توحید ہے، اِس کا جاننے والاعیسٰیؑ صفت عارف ہوتا ہے‘‘-
حضور رسالت مآب (ﷺ) کے دورِ مبارک سے بعثتِ عیسیٰؑ تک علم کے پانچ طبقات حضرت سلطان باھو قدس اللہ سرہ نے بیان فرمائے ہیں - حضرت عیسیٰؑ حضور نبی پاک شہہ لولاک (ﷺ) کے اُمتی بن کر آئیں گے اور آپکا زمانہ علم و عمل والا زمانہ ہوگا۔ جیسا کہ حضرت سلطان باھو قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں:
’’یاد رہے کہ علم کے پانچ طبقات ہیں- ایک طبقہ عربی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃُ و السلام کے دور میں علم بھی زیادہ تھا اور عمل بھی زیادہ تھا- دوسرا طبقہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال کے بعد صحابۂ کرام(رضی اللہ عنھم) کا تھا کہ اُن میں علم زیادہ نہ تھا مگر عمل زیادہ تھا- تیسرا طبقہ صحابۂ کرام کے بعد کا ہے کہ اُن میں علم زیادہ تھا مگر عمل نہ تھا- چوتھا طبقہ ایسا ہے کہ اُن میں علم تھا نہ عمل- پانچواں طبقہ وہ ہے کہ جن میں حضرت عیسیٰ روح اللہ آسمانِ چہارم سے خانہ کعبہ میں نزول فرمائیں گے اور حضور علیہ الصلوٰۃُ والسلام کے علم پر عمل پیرا ہوں گے اور اُن کا علم و عمل بھی زیادہ ہوگا-[25]
دنیا پلیت اور سیدنا عیسیٰؑ کا مکالمہ:
حضر سلطان باھوؒ نے اپنی تعلیمات میں دنیا کی محبت اور اس کی چاہ میں زندگی صرف کرنے والوں پہ سخت ترین تنقید فرمائی ہے کیونکہ درمِ دنیا انسان کے وجود سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی محبت کوگھٹاتا ہے- آپ قدس اللہ سرہ ایک مقام پہ دنیا کی نسائی صورت میں حضرت عیسیٰؑ کا اس سے مکالمہ ارشاد فرماتے ہیں:
’’ایک روایت میں آیا ہے کہ ایک روز حضرت عیسیٰؑ نے دنیا کو ایک بیوہ عورت کی صورت میں اِس طرح دیکھا کہ اُس کی کمر جھکی ہوئی تھی مگرسر پر رنگین چادر تھی ، اور ایک ہاتھ پر مہندی رچی تھی دوسرا ہاتھ خون سے تر تھا -آپ نے اُس سے پوچھا :’’اے معلون! تیری کمر کیوں جھکی ہوئی ہے؟اُس نے جواب دیا:’’اے روح اللہ ! مَیں نے اپنے بیٹے کو قتل کر دیا ہے ، اُس کے غم میں کمر جھک گئی ہے‘‘-آپ نے پھر پوچھا:’’ تُو نے سر پہ رنگین چادر کیوں اوڑھ رکھی ہے؟‘‘ اُس نے جواب دیا : اِس سے نوجوانوں کے دل لبھاتی ہوں-آپ نے مزید پوچھا ؟ تیرے ہاتھ پر خون کیوں لگا ہے ؟کیا کیا ہے تو نے؟اُس نے جواب دیا‘‘-ابھی تھوڑی دیر پہلے مَیں نے اپنے خاوند کو قتل کر دیا ہے-آپ نے مزید پوچھا:یہ دوسرے ہاتھ پر مہندی کیوں رچا رکھی ہے ؟‘‘اُس نے جواب دیا:’’اب نیا شوہر کیا ہے‘‘ عیسیٰ ؑ متعجب ہوئے - وہ بولی: اے عیسیٰ ؑ ! اِس سے بھی عجیب تر بات یہ ہے کہ جب مَیں باپ کو قتل کرتی ہوں تو بیٹا میرا عاشق بن جاتا ہے اور جب بیٹے کو قتل کرتی ہوں تو باپ میرا عاشق بن جاتا ہے اور جب کسی کے بھائی کو قتل کرتی ہوں تو دوسرا بھائی میرا عاشق بن جاتا ہے -اے روح اللہ ! عجیب ترین بات یہ ہے کہ مَیں ہزارہا شوہر مارچکی ہوں مگر اُن کی موت سے کسی نے عبرت حاصل نہیں کی اور کوئی مجھ سے تُرش رو نہیں ہوا ، البتہ جو مرد ہے وہ مجھے نہیں چاہتا ، جو مجھے چاہتا ہے مَیں اُسے نہیں چاہتی ہے اور جو مجھے نہیں چاہتا، میں اُسے چاہتی ہوں-’’سن! دنیا متاعِ شیطان ہے جب کوئی درمِ دنیا کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے تو شیطان اُس سے کہتا ہے:’’یاد رکھ کہ تو نے اپنا دین و ایمان میرے حوالے کر دیا ہے کہ درمِ دنیا میری متاع ہے جو بھی میری متاع پہ ہاتھ ڈالتا ہے میرے دین میں آجاتا ہے اور معاصی میں گھر کر دین ِ محمدی (ﷺ) سے خارج ہو جاتا ہے‘‘-[26]
حضور سلطان صاحب قدس اللہ سرہ اپنے پنجابی کلام میں ایک جگہ ارشاد فرماتے ہیں:
دنیا گھر منافق دے یا گھر کافر دے سونْہدی ھُو |
دنیا صرف منافق یا کافر کے گھر میں وقت گزارتی ہے یعنی مومن کیلئے دنیا حدیث کی رو سے قید خانہ ہے سو اس کی محبت مومن کے دل میں نہیں بستی- دنیا سب کو اپنے نقش و نگار سے لوٹتی ہے اور اس کی بجلی سی چمک سر کے اوپر سے جھلکتی ہے- آخر میں آپ فرماتے ہیں کہ یہ دنیا حضرت عیسیٰؑ کی اس سونے کی اینٹ سی ہے جو بےگناہ راہیوں کو ذبح کردیتی ہے-
واقعہ یوں ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کے دور میں تین مسافروں کو راہ میں سونے کی اینٹ ملتی ہے، وہ تینوں اسے برابر تقسیم کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں- ان میں سے ایک بازار کھانا لینے جاتا ہے، خیال آتا ہے کہ کھانے میں زہر ملا کر ان دونوں کو ماردوں اور اینٹ مکمل طور پہ اپنے ملکیت میں لے لوں سو وہ کھانے میں زہر ملا دیتا ہے- وہ دونوں یہ خیال کرتے ہیں کہ اس کے آنے پہ اسے مار کر اینٹ کو وہ دونوں آپس میں بانٹ لیں گے- آخر میں جب وہ شخص کھانا لاتا ہے تو دونوں مسافر اسے قتل کردیتے ہیں اور زہر آلود کھانا کھا کر خود بھی مر جاتے ہیں- تینوں دنیا کے حصول کی چاہ میں مرجاتے ہیں مگر دنیا کسی کے ہاتھ نہیں آتی-
حرفِ آخر:
صوفی کا طریق یہ ہوتا ہے کہ وہ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کی تعلیمات کی روشنی میں عوام الناس کو اللہ اور اس کے رسول کریم(ﷺ)کی بارگاہ تک لے آئے- حضرت سلطان باھو قدس اللہ سرہ نے حضرت عیسیٰؑ کی مثال و تشبیہات دے کر قارئین کو مختلف اسباق سکھائے ہیں جسے اس مقالے میں جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے- اللہ تعالیٰ ہمیں اولیائے کاملین کی صحبت عطا فرمائے اور ان کی تعلیمات کو سمجھنے اور ان پہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے- آمین!
٭٭٭
[1](النساء: 157- 158)
[2]( سنن ابو داؤد، رقم الحدیث:4324)
[3](آل عمران:59)
[4](البقرہ:87)
[5](الصف:6)
[6](صحیح بخاری، رقم الحدیث: 3443)
[7](صحیح بخاری، رقم الحدیث: 3948)
[8](المائدہ:110)
[9](محک الفقر،ص:283)
[10](نورالھدٰی، ص:233)
[11](نور الھدٰی، ص:775)
[12](نور الھدٰی، ص: 337)
[13](الرعد:28)
[14]( نور الھدٰی، ص:378)
[15](النساء:132)
[16](صحیح بخاری، رقم الحدیث:6502)
[17]( عین الفقر، ص: 53)
[18](عقل بیدار، ص: 129)
[19]( نور الھدٰی، ص:27)
[20](السلسلۃ الصحیحہ، رقم الحدیث:3596)
[21]( نور الھدٰی، ص:167)
[22]( نور الہدی، ص: 575)
[23](سنن ابن ماجہ، کتاب العلم)
[24](سنن ابی داؤد، کتاب العلم)
[25](محک الفقر، ص:457)
[26](عین الفقر،ص:341)