ک:کُل قَبیل کَوِیْسُر کہندے کارن دُر بَحر دے ھو
شَش زمین تے شَش فلک تے شش پانی تے تَردے ھو
چھیاں حَرفاں وچ سُخن اٹھاراں دو دو معنی دَھردے ھو
مُرشد ہادی صحی کر سمجھایا باھوؒ اس پہلے حرف سَطر دے ھو
All tribes sing success for acquiring pearl from ocean Hoo
Six earths, six space and six are floating in water Hoo
Within six letters, are eighteen words, each word has dual meanings Hoo
Murshid guide perfectly explained Bahoo first letter of the line Hoo
Qul qabeel kawisar kehanday karan dur bahar day Hoo
Shish zameen tay shish falak pani tay tar day Hoo
Chupya’N ‘Harfa’N wich su’Khan a’Thara’N do do maeni dhar day Hoo
Murshid hadi ‘Sahi kar smjhaya Bahoo is pehlay ‘Harf satar day Hoo
1-2: اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
تُسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّبْعُ وَ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْهِنَّطوَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَ لٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْط |
|
’’اس کی پاکی بولتے ہیں ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہیں اور کوئی چیز نہیں جو اسے سراہتی ہوئی اس کی پاکی نہ بولے ہاں تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے‘‘-(بنی اسرائیل:44) |
اس مقام پہ سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھؒو نے اسی چیز کی طرف اشارہ فرما یا ہے کہ تمام مخلوقات (اٹھارہ ہزار عالَم ) سمندر(بحرِ معرفت ) کے موتی (عشق) کے حصول کی خاطر نغمہ فراق الاپتی (یعنی اس کی تسبیح بیان کرتی )ہیں اور اس سے اگلے مصرع میں آپؒ اس ٹھارہ ہزار عالَم کی تقسیم فرماتے ہوئے ارشادفرمایا کہ اس (اٹھارہ ہزار مخلوقات)کا ایک تہائی زمین پر،ایک تہائی آسمانوں پراور ایک تہائی پانی میں بس رہاہے-آپؒ نے اپنی نثری تعلیمات میں بھی اس چیز کی وضاحت فرماتے ہوئے ارشادفرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی و کبریائی اُس کے تمام اسمائے پاک کے ساتھ جو اٹھارہ ہزار عالم کی کل مخلوقات ِجن و اِنس و وحوش و طیور کو رزق دینے والا ہے ‘‘(اسرارالقادری)-ان اٹھارہ ہزار عالَم کاعلم کہاں پایاجاتا ہے ؟اس کی وضاحت فرماتے ہوئے آپؒ نے ارشادفرمایا:’’الغرض جملہ علومِ قرآن، جملہ علومِ حیُّ قیوم نص وحدیث اور وہ تمام علوم جو لوحِ محفوظ اور عرش و کرسی پر مرقوم ہیں اور ماہ سے ماہی تک ملک ِخدا وندی کے جملہ غیبی علوم واسرارِ پروردگار اور تمام حکم احکام اور امورِ ظاہری و باطنی،نفسی و قلبی،روحی و سرّی اور اٹھارہ ہزار عالم کی مخلوقات کے درمیان جاری تمام حکمتیں اور توریٰت و زبور و انجیل وفرقان کے تمام علوم اور چاروں اسمِ اعظم اسمِ اللہ ذات کی طے میں پائے جاتے ہیں‘‘-(نُورالھدٰی)
ان اٹھارہ ہزار مخلوقات کا مشاہدہ کیسے حاصل کیاجائے؟اس کے متعلق آپ (رح)ارشادفرماتے ہیں :’’اسمِ ’’اَللّٰہُ ‘‘ آئینے کی مثل ہے تُو اِس میں کونین کے اٹھارہ ہزار عالم کا تماشا دیکھ ، اِس میں ہر آئینے اور ہر مقام کی تحقیق کر - معائنۂ اسمِ اللہ ذات وہ راہ ہے کہ جس میں صاحب ِکمال مرشد ِکامل مکمل طالب اللہ کو وصالِ لازوال بخشتا ہے ‘‘-(محک الفقرکلاں)
مزید ارشادفرمایا :’’یاد رکھ کہ دونوں جہان کی کل مخلوق،نو فلک و سات طبقات ِ زمین،تمام چھوٹے بڑے علوی وسفلی مقامات،ظاہر وباطن میں قدرتِ الٰہی کا سارا علم اور اٹھارہ ہزار عالم کا تمام کلی و جزوی علم اسمِ اَللّٰہُ کی طے میں پایاجاتاہے اوراسمِ ’’اَللّٰہُ‘‘قلب کی طے میں ہے-جب مرشد ِکامل ولی اللہ کی نظر سے طالب اللہ کے دل پر اسم اَللّٰہُ نقش ہو جاتاہے تو اُس کا دل ذکرِ اَللّٰہُ سے زبان کھول لیتا ہے اور وہ زور زور سے دِل پراَللّٰہُ، اَللّٰہُ کی ضر ب لگا تا ہے اور طالب ِ اللہ خروشِ اسمِ اَللّٰہُ سے بے ہوش ہو کر اپنے آپ سے بیگانہ ہو جاتاہے،اُس کے سا منے سے خناس و خرطوم جیسے تمام شیطانی ونفسانی حجاباتِ ظلمانی پارہ پارہ ہو جاتے ہیں اور وہ مشاہدۂ حقیقی سے فیضیا ب ہو کر اصلی راہِ محمدی (ﷺ) پر گامزن ہو جاتا ہے‘‘-(محک الفقرکلاں)
یہ ایک حقیقت ہے کہ بندہ مومن کو اللہ پاک سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی کامل غلامی کے طفیل اٹھارہ ہزار عالَم کی شاہی اور تصرف عطافرماتا ہے جیسا کہ آپؒ ارشاد فرماتے ہیں:’’فقیر وہ ہے جو آنکھیں بند کرے تو کونین کے اٹھارہ ہزار عالم کا مشاہدہ کرے‘‘(عین الفقر)- مزیدارشادفرمایا:’’فقیر کہتے ہی اُس باکمال صاحب ِتحصیل عالم کو ہیں جس کے علم کی قید میں اَٹھارہ ہزار عالم کی ہر چیز ہو اور وہ صفاتِ کریمانہ کا مالک ہو‘‘-(کلیدالتوحیدکلاں)
3-4: چھ حرفوں میں اٹھاراں سُخن ہیں ان میں سے ہر حرف (ظاہر وباطن ) دو دو معنی رکھتا ہے - یعنی اس اٹھارہ ہزار عالَم کی مخلوقات کی تسبیح چھ اسماء مبارکہ’’ اللہ ،للہ ،لہ،ھو، محمد(ﷺ)،فقر ‘‘ہیں جن کے حروف تہجی کی تعداد اٹھارہ بنتی ہے اور ان میں ہراسم مبارک سے دو (ظاہر وباطن) کے علوم منکشف ہوتے ہیں-آپؒ ارشادفرماتے ہیں کہ علوم ظاہرو باطن کے جملہ علوم میرے مرشد کامل نے سطر کے پہلے حرف کے تصور سے ہی جملہ علوم منکشف فرمادیے ہیں-و ہ پہلا حرف اسم اللہ ذات ہے اس کی وضاحت آپؒ اپنے ان الفاظ میں فرماتے ہیں:’’مرشد ِکامل وہ ہے جو اپنی توجہ سے اسمِ اللہ ذات کی طے کو کھول کر طالب اللہ کو عین بعین دکھا دے کیونکہ اسمِ اللہ ذات کے اندر نورِ الٰہی سمایا ہواہے جس تک رسائی کی توفیق محض اللہ تعالیٰ کی بخشش و عطاہی سے ممکن ہے اور تماشائے احوالِ ازل، تماشائے احوالِ ابد،تماشائے احوالِ دنیا، تماشائے احوالِ عقبیٰ و بہشت، خاص علمِ لامکان قدر قدرتِ عیان، شرفِ لقاء اور رازِاِ لٰہ َسب کچھ اسمِ اللہ ذات کی طے میں موجود ہے-مرشد ِمکمل اکمل وہ ہے جو طالب اللہ کو تصور و تصرف سے اسمِ اللہ ذات کی طے کھول کر دکھا دے -بے شک راستی کی راہ اسمِ اللہ ذات سےکھلتی ہے کیونکہ اسمِ اللہ ذات ایک لازوال حقیقت ہے- مرشد ِجامع جمعیت بخش وہ ہے جو طالب اللہ کو اسمِ اللہ ذات کی طے سے دین و دنیا کے خزانے اور معرفت ِ الٰہی کے خزانے کھول کر عطا کر دے- صاحب ِتوفیق مرشد ِنور الہدیٰ وہ ہے جو اسمِ اللہ ذات کی طے سے معرفت ِالٰہی کے خزانوں کی حقیقت کھول کر طالب اللہ کو دکھا دے‘‘ (نور الھدیٰ)- ا گر وہ( استادِ کامل مرشد ِمکمل سے) اِس قاعدے کا یک حرفی سبق ’’ اَللّٰہُ ‘‘ پڑھ لے تو اُس کی چشمِ باطن روشن ہو جاتی ہے اور وہ مراتب ِمعرفت ِالٰہی کے دائم مشاہدے میں غرق رہتا ہے - جو کوئی طریق ِتحقیق سے پہلے ہی روز اِس یک حرفی قاعدے کا سبق پڑھ لے اُس سے دنیا و آخرت کی کوئی چیز مخفی نہیں رہتی ‘‘(اسرارالقادری)- کیونکہ ’’ جس شخص کا دل حرف الف کے نور سے روشن ہوجاتاہے وہ صاف و شفاف ہوکر جام جہاں نما اور آئینہ سکندری بن جاتاہے جس میں صاحب دل اٹھارہ ہزار عالم کا تماشا دیکھتاہے اور مقام احدیت پر پہنچ جاتا ہے‘‘(شمس العارفین)- آپؒ اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں: ’’ اسم اللہ ذات سے مَیں نے اپنا نصیبہ حاصل کرلیا ہے ، وہ میرے لئے کافی ہے ‘‘(اسرارالقادری)-