ک:کلمیں دی کَل تَداں پیوسے جَداں کلمیں دِل نُوں پھَڑیا ھو
بے درداں نُوں خَبر نہ کوئی دردمنداں گَل مڑھیا ھو
کُفر ِاسلام دی کل تَداں پِیوسے جَداں بھن جگر وِچ وڑیا ھو
مَیں قُربان تِنہاں توں باھوؒ جِنہاں کلماں صحی کر پڑھیا ھو
Understood kalima when kalima taken over the heart Hoo
Unemotional are unaware, yet compassionates have placed around their neck from start Hoo
Kufr and Islam is understood when it broke into the heart Hoo
I sacrifice upon those Bahoo who perfectly read the kalima from start Hoo
Kalmay di kal tada’N piyosay jada’N kalmay dil no’N pha’Rya Hoo
Bay darda’N noo’N ‘Khabar nah koi dardmanda’N gall mu’Rhya Hoo
Kufr e islam di kal tada’N piyosay jada’N bhun jigar wich wa’Rya Hoo
Main qurban tinha’N too’N Bahoo jinha’N kalma’N sahi kar pa’Rhya Hoo
1- تمام احکام ِاسلامیہ کا اجراء زبانی قول واقرار سے ہوتاہے،لیکن یادر ہے اللہ رب العزت کی بارگاہِ اقدس میں قرب کیلئے تصدیق ِ قلبی اور باطن کی آباد کاری نہایت ضروری ہے،جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا :’’یہ دیہاتی لوگ آپ(ﷺ) سے کہتے ہیں کہ ہم اِیمان والے ہیں- اِن سے فرما دیں کہ تم اِیمان والے نہیں ہو ، البتہ یوں کہو کہ ہم ابھی زبانی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوئے ہیں،ابھی تک اِیمان تمہارے دلوں میں نہیں اُترا‘‘(الحجرات:14)-زبانی کلمہ اداکرنے سےایک مسلمان کو ثواب تو ملتا ہے لیکن حقیقی کامیابی تب ملتی ہے جب کلمہ طیّب کو دل سے ادا کیا جائے جیساکہ سلطان العارفین حضرت سُلطان باھو (رح) نے ارشادفرمایا :
’’پس کلمہ طیب کے اِقرار کا اِنحصار تصدیق ِ دل پر ہے اور تصدیق ِ دل کا اِنحصارتوفیق ِ روح پر ہے - جس طالب کو تصدیق و توفیق نصیب ہو جاتی ہے وہ ولایت ِ اؤلیاء میں حضرت رابعہ بصریؒ و حضرت با یزید بسطامیؒ کے مرتبے پر پہنچ جاتا ہے ورنہ محض زبانی کلمہ طیب پڑھنے والے یزید منافق تو بہت زیادہ ہیں- جو آدمی کلمہ طیب کی حقیقت جان کر اُس کی تصدیق کر لیتا ہے وہ صادقِ مطلق ہو جاتا ہے اور کلمہ طیب اُس کے وجود میں تاثیر کرتا ہے- پھر وہ کلمہ طیب پڑھنے میں تاخیر نہیں کرتا ، کلمہ اُس کا مُونس ِ جان بن جاتا ہے اور اُس کے اِیمان کو سلامت رکھتا ہے‘‘-(محک الفقر کلاں)
2-’’فقیری ایک پُردرد کشالہ ہے نہ کہ اماں و خالہ کے گھر کا حلوہ و چرب نوالہ، بلکہ رات دن سوزِ عشق میں جلنا ہے‘‘(عین الفقر)- ایک اور مقام پہ ارشاد فرمایا: ’’کتنا عمدہ مقام ہے وہ جہاں مغز ہڈی میں ہے اور کتنا پیارا درد ہے وہ جو بد خواہوں کی آنکھ سے اوجھل ہے‘‘(اسرارالقادری)-حضرت سُلطان باھو (رح) نے اپنے پنجابی اور نثری کلام میں کئی مقامات پہ اہل درد کی تعریف و توصیف بیان فرمائی ہے اور اس سے مراد وہ لو گ ہیں جن کے دلوں میں اللہ اور اس کے حبیب مکرم (ﷺ) کاعشق ومحبت کا دیا جل رہا ہو اور جس کی بنا پہ وہ دنیاوی مفاد سے بالاتر ہو کر محض اللہ عزوجل کی رضا کیلئے عمل کرتے ہیں -یہاں آپ (رح) اسی چیز کی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ کلمہ کی حقیقت اور اس کو اپنا اوڑھنا بچھونا کوئی اہل درد ہی بناسکتا ہے ،جیسا کہ آپ (رح) اپنے پنجابی کلام میں فرماتے ہیں :
دَرد منداں ایہہ رَمز پچھاتی باھوؒ بِے دَردَاں سر کھلّہ ھو |
3-’’ریاضت ِ خاص جو ظاہر و باطن میں محض رضائے اِلٰہی کی خاطرکی جاتی ہے - یہ رازِ توحید کی ریاضت ہے جس کی چابی کلمہ طیّب ’’ لَآ اِلٰہَ اِ لَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ہے - جو شخص کلمہ طیب کی چابی سے دل کا قفل کھول کر معرفت ِ الٰہی کا راز پا لیتا ہے وہ بے نیاز و لا یحتاج طالب ہے‘‘-مزید ارشادفرمایا:’’جب کلید ِکلمہ طیبات ’’ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘سے دل کا قفل کھلتا ہے تو بے شک ذات و صفات کے تمام مقامات منکشف ہوجاتے ہیں-جو کوئی اِس میں شک کرے وہ منافق و زندیق ہے - یہ سلک سلوک صرف سروری قادری طریقے میں پایاجاتا ہے‘‘-(کلیدالتوحیدکلاں)
4-’’ جو آدمی کلمہ طیّب کو کنۂ کن سے پڑھتا ہے وہ ہر علم سے واقف ہو کر اُسے جان لیتا ہے‘‘(عقل بیدار)- ایک اورمقام پہ آپ (رح)نے ارشاد فرمایا : ’’ کلمہ طیب کے ہر ایک حرف میں ہزار ہا اذکا ر کا نور مستو رہے اور اِس کے ہر ایک حرف سے انوارِ وحدت کا مشاہدہ حاصل ہوتاہے‘‘-(نورالھدٰی)
مزیدارشادرفرمایا :’’ابتداء سے انتہا تک فقر کی طے کلمہ طیب ’’ لَآ اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کی حاضرات سے ہوتی ہے‘‘- (نورالھدٰی)