عین الفقر اور کلید التوحید کے انگریزی تراجم کی تقریب ِ رونمائی

عین الفقر اور کلید التوحید کے  انگریزی تراجم کی تقریب ِ رونمائی

عین الفقر اور کلید التوحید کے انگریزی تراجم کی تقریب ِ رونمائی

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ فروری 2023

مسلم انسٹیٹیوٹ (یوکے چیپٹر) کی جانب سے سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ کی دو کتب ’’عین الفقر‘‘اور ’’کلید التوحید‘‘ کا فارسی سے انگریزی میں ترجمہ کی تقریب رونمائی کا اہتمام کیا گیا- یہ تقریب لندن میں دنیا کے ممتاز تعلیمی ادارے ’’لندن سکول آف اکنامکس اینڈ پولیٹکل سائنس (ایل ایس ای)‘‘ میں منعقد ہوئی- علی افتخار (ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ، یو کے چیپٹر) نے تقریب میں ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دیئے- تقریب میں مختلف سفارت کاروں، سیاسی و سماجی شخصیات، ماہرینِ تعلیم، طلباء اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی-

معزز مقررین :

v    صاحبزادہ سلطان احمد علی

(چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ و دیوان آف ریاست جوناگڑھ)

v   ایم اے خان ( مترجمِ کتب حضرت سلطان باھُوؒ )

v   پروفیسر ڈاکٹر امینہ ھوتی ( لوسی کیونڈش کالج، یونیورسٹی آف کیمبرج )

v   ڈاکٹر فٹزروئے موریسی (آل سولز کالج ، یونیورسٹی آف آکسفورڈ)

v   ڈاکٹر اسماء بائیگیٹ (ڈائریکٹر برجنگ سپرچوئل کلچر، برطانیہ )

v   ڈاکٹر اقبال حسین( صدر مسلم انسٹیٹیوٹ یو کے چیپٹر)

v   مرو سیٹنکایا (پی ایچ ڈی اسکالر یونیورسٹی کالج لندن )

مقررین کے اظہارِ خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:

سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ نے صوفیانہ حقیقت اور علم تصوف پر فارسی میں تقریباً 140 کتابیں تصنیف کیں- حضرت سلطان باھوؒ کی کتابیں ماضی قریب تک انگریزی سامعین و قارئین خصوصاً مغرب کے لوگوں کے لیے ناآشنا رہی ہیں-جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ آپؒ کی اکثر کتابوں کے اصلی فارسی نسخے ابھی تک دستیاب نہیں ہیں- اس کے علاوہ جن کتب کے اصل متن دستیاب ہیں ان کے انگریزی تراجم میں بھی معیار کا فقدان ہے- تاہم جنوبی ایشیاء کی مختلف لائبریریز میں فارسی نسخوں کی ایک بڑی تعداد دستیاب ہے جن پر تحقیق یا دوسری زبانوں میں ترجمہ ہونا باقی ہے- یہ دو کتابیں ’’عین الفقر‘‘ اور ’’کلید التوحید‘‘ اصل میں سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ نے فارسی زبان میں لکھی تھیں اور اب ایم اے خان نے ان کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا ہے- ایم اے خان نے زیرِ بحث خیالات کے جوہر کو برقرار رکھتے ہوئے ان فارسی کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کا شاندار کام سر انجام دیا ہے- ان کتابوں کے ترجمے کیلئے فارسی متن سے استفادہ کیا گیا جو جناب سید امیر خان نیازی (مرحوم) نے تحقیق کے ساتھ فارسی متن اور اردو ترجمہ کو ترتیب دیا- عین الفقر کے درست متن کو نکالنے کیلئے سید امیر خان نیازی نے خلیفہ گل محمد سندھی، غلام مصطفےٰ، محمد حسن، مولوی نور الدین کنجاہی اور مولوی نظام الدین ملتانی کی اشاعت کے متن کا موازنہ کیا-

عین الفقر حضرت سلطان باھوؒ کی نثر نگاری کے شاہکاروں میں سے ایک ہے جو مستند صوفی نظریات سے مالا مال ہے- عین الفقر کا لغوی معنی ’’فقر کی آنکھ‘‘ ہے- یہ کتاب انسان کو باطنی کیفیات کی حقیقتوں کے بارے میں رہنمائی اور بیداری فراہم کرتی ہے- کلید التوحید سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ کا ایک متاثر کن کام ہے اور اسے سلطان باھوؒ نے مشکل کشاء (مشکلات کو دور کرنے والا) کہا ہے- اس کا مطلب ہے کہ یہ کتاب اللہ رب العزت کے چاہنے والوں کیلئے ایک مکمل رہنمائی کا کام کرتی ہے- اگرچہ یہ کتابیں نثری شکل میں ہیں لیکن کتابوں میں شاعرانہ بند ادب اور گہرے فہم کو بڑھاتے ہیں- مزید برآں، فارسی متن بذات خود ایک شاعرانہ طریق رکھتا ہے جہاں مختلف مقامات پر روانی اور تال میل محسوس ہوتے ہیں-

ان مستند تحریروں کا ترجمہ کرنا کوئی سیدھا اور آسان کام نہیں ہے کیونکہ اُس وقت کے مقامی اور وقتی ماحول اور معاشرے کو ذہن میں رکھنا پڑتا ہے- جب یہ تحریر ہوئے تھے تو ان کتابوں کے ترجمے کے لیے مترجم نے برطانیہ میں اپنی شاہانہ زندگی کو خیر باد کہا اور درگاہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ پر 2 سال سے زائد عرصہ اس باطنی آزادی اور احساسات کی تلاش میں گزارا جو اس طرح کے ادب کیلئے ضروری ہیں- وہاں آپ نے روحانی تربیت حاصل کی، فقیروں اور درویشوں کے ساتھ وقت گزارا تاکہ ان کتابوں میں بیان کردہ حقائق کا تجربہ کیا جاسکے- دیگر صوفیاء کی تصانیف کے انگریزی تراجم میں بہت ساری اصطلاحات ہیں جن کو غلط سمجھا جاتا ہے- مثال کے طور پر، لفظ ’’فقر‘‘کا ترجمہ عام طور پر غربت کے طور پر کیا جاتا ہے- تاہم، روحانی تناظر میں اس کے مختلف معنی ہیں، فقر کا ترجمہ کرنے کیلئے روحانی فضیلت (Spiritual Excellence) کی اصطلاح متعارف کرائی گئی ہے- جیسا کہ حدیث نبوی (ﷺ) میں ہے:

’’اذاتم الفقرفھواللّٰہ‘‘

’’جب فقر اپنے کمال کو پہنچتا ہے تو صرف اللہ ہی اللہ ہوتا ہے‘‘-

لفظ ’’مراقبہ‘‘ کا ترجمہ اکثر میڈیٹیشن یا ٹرانس کے طور پر کیا جاتا ہے- تاہم مراقبہ کے اصل تصور کو بیان کرتے ہوئے یہ تراجم زیادہ مناسب نہیں ہیں- مراقبہ کے معنی اپنے نفس پر قابو پانا ہے جب آپ اللہ تعالیٰ کے نام پر غور کر رہے ہوں اور آپ کسی موم بتی یا کسی دوسری جسمانی چیز پر توجہ نہ دیں- دوسری مثالوں میں نفس، قلب، فواد اور روح کی اصطلاحات میں فرق شامل ہے-

 

 

ان کتابوں کا تعلق روحانی اور ذہنی صحت سے بھی ہو سکتا ہے- صوفیانہ طریقوں سے فرد کو ذہنی تندرستی میں مدد ملتی ہے-یہ علمی اور غیر علمی دونوں طریقوں سے ادب پر تحقیق، دماغی صحت اور روحانی طریقوں کے درمیان تعلق تلاش کرنے کیلئے مفید ہے- عصری دنیا کو مدِنظر رکھتے ہوئے روحانیت کا ایک اہم نکتہ فلاح و بہبود ہے- حضرت سلطان باھوؒ ’’ھُو‘‘کے مراقبہ پر زور دیتے ہیں جس میں ایک سانس محبوب کا نام لینے اور محبوب کی طرف اشارہ کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے- آج ہم مراقبہ کی موبائل ایپس اور سبسکرپشنز کے لیے بہت زیادہ رقم ادا کرتے ہیں- لیکن یہاں آپ کے پاس ’’ھُو‘‘کے مراقبہ کا ایک خوبصورت تصور ہے جو کہ اللہ کا ذکر ہے جو ابدی سکون اور اطمینان بخشتا ہے-

حضرت سلطان باھوؒ کی صوفیانہ شاعری اور نثری تصنیف میں مذہب، خدا اور رسول (ﷺ) کے ساتھ ذاتی، انفرادی اور روحانی تعلق قائم کرنے کے لیے رہنمائی موجود ہے-’عین الفقر، ص:47‘ پر سلطان باھوؒ بیان کرتے ہیں کہ درویش ہونے کاایک ہی مطلب ہے اور وہ یہ ہے کہ فقر کو اختیارکیا جائے کیونکہ فقر اللہ تعالیٰ کا راز ہے اور اللہ تعالیٰ فقر کا راز ہے- حضرت سلطان باھوؒ نے ’کلید التوحید،ص:93‘ پر بھی بہت خوبصورتی سے روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح مراقبہ، تلاوت اور ذکر الٰہی کے ذریعے محبت کی راہ پر چل کر قرب الٰہی تک پہنچا جا سکتا ہے-

تمام صوفی مصنّفین اپنی کتب میں قرآن اور حدیث نقل کرتے ہیں- اسی طرح حضرت سلطان باھوؒ نے بھی قرآن کریم کی متعدد آیات کا حوالہ دیا ہے- وہ بعض آیات کو متواتر نقل کرتے ہیں- مثال کے طور پر، وہ آیت جس میں فرمایا گیا ہے کہ ’’خدا انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے‘‘- ایک اور حدیث جس میں رسول اللہ (ﷺ)فرماتے ہیں کہ ’’مرنے سے پہلے مر جاؤ‘‘ یا وہ حدیث جس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ’’میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا، میری چاہت بنی کہ میں پہچانا جاؤ، اس لیے دنیا کو اپنی پہچان کے لیے بنایا‘‘-

حضرت سلطان باھوؒ تصوف کے ابتدائی اور مستند ادوار کی چند عظیم شخصیات کے حوالے دیتے ہیں- وہ مشہور صوفی خاتون رابعہ بصریؒ، حضرت شیخ عبد القادر الجیلانیؒ، حضرت جنید بغدادیؒ اور امام اعظم ابوحنیفہؒ جیسے عظیم صوفیاء کا حوالہ دیتے ہیں- حضرت سلطان باھوؒ بھی منظر کشی کا اطلاق کرتے ہیں، جب وہ مرشد کا موازنہ اس باغبان سے کرتے ہیں جو پودوں کی دیکھ بھال میں ماہر ہو-سلطان العارفین  حضرت سلطان باھوؒ سالک کو سونا یا موتی قرار دیتے ہیں کیونکہ ایسی قیمتی اشیاء اس خاص مرحلے تک پہنچنے کے لیے ایک مشکل عمل سے گزرتی ہیں-

حضرت سلطان باھوؒ اپنی کتابوں اور خوبصورت اشعار میں فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم(ﷺ) تمام انبیاء کے سردار ہیں اور تمام مبلغین اور 18 ہزار مخلوقاتِ کائنات سے بڑھ کر محترم ہیں- اللہ تعالیٰ نے  آقا کریم (ﷺ) کی شان میں حدیث قدسی میں ذکر فرمایا کہ اے محبوب اگر آپ (ﷺ) نہ ہوتے تو میں آسمان کو پیدا نہ کرتا- آقا کریم (ﷺ) مسلمانوں کو بہت محبوب ہیں اسی لیے اس بات کو سمجھنے اور احترام کی ضرورت ہے-

موجودہ دنیا نے متعدد بحرانوں کا سامنا کیا جیسے کورونا وائرس جیسی بیماریوں سے لے کر موت تک، ہم نے مذہب اور سیکولرازم کے درمیان تصادم دیکھا، ہم نے قتل، نسل کشی اور جنگیں دیکھی ہیں، ہم نے ابھی افغانستان کی ایسی تصاویر دیکھی ہیں جہاں لوگ کرب میں ہیں- ہندوستان میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو شہریت کے حوالے سے مشکل وقت درپیش ہے جہاں ان کی جان، مال اور دولت کو خطرہ ہے- ایسے مشکل حالات میں لوگ اپنی رہنمائی کیلئے رول ماڈل کی طرف دیکھتے ہیں اور سالارِ عارفین جانشینِ سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب(مدظلہ الاقدس) ایسا ہی ایک کردار ہے-

الفاظ بہت اہم ہیں کیونکہ اگر الفاظ نہیں ہوں گے تو بات چیت ممکن نہیں ہوگی- زندگی کے سفر میں صوفیانہ تجربات کو بانٹنے کیلئے الفاظ بہت کم اور چھوٹے ہیں- تصوف ایک ایسا راستہ ہے جو انسان کو دل سے اللہ تعالیٰ کے قرب تک لے جاتا ہے اور ہمارے دلوں کو پاک کرتا ہے-

ان کتابوں ’’عین الفقر اور کلید التوحید‘‘ کا ترجمہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور یہ ضروری تھا کہ حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیمات کو دوسری زبانوں میں بھی لوگوں تک پہنچایا جائے- مترجم نے ان کتابوں کا منفرد اور خوبصورت انداز میں ترجمہ کیا ہے تاکہ قاری ان تعلیمات سے آسانی سے مستفید ہو سکے- حضرت سلطان باھوؒ جیسے صوفیاء کے خیالات اور کام کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کیا جائے اور آنے والی نسلوں کو ان کے بارے میں پڑھنے کی ترغیب دی جائے- حضرت سلطان باھوؒ اور دیگر تمام صوفی بزرگوں کو نوجوان نسل کےلیے ہیرو اور رول ماڈل ہونا چاہیے، کیونکہ انہیں قلبی اور باطنی اطمینان حاصل کرنے کیلئے ان تعلیمات کوسیکھنا نہایت ضروری ہے- حضرت سلطان باھوؒ کی روحانی نشوونما کے لیے والدہ محترمہ کا اہم کردار بھی پڑھا جائے اور اس پر روشنی ڈالی جائے- تمام ماؤں کو اس سے سیکھنا چاہیے کہ اپنے بچوں کی پرورش کیسے کی جائے؟

 

 

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر