جب وجود پر مجلس ِ محمدی (ﷺ)کے اِن نیک احوال کی تاثیر ہوتی ہے توشریعت ِمحمدی (ﷺ) کی برکت سے وجود کا تانبا اکسیر بن جاتاہے-سارے وجود میں ذوق شوقِ محمدی (ﷺ)، معرفت ووصالِ محمدی (ﷺ)، جمعیت و حالِ محمدی (ﷺ)اور رضائے محمدی (ﷺ) بھر جاتی ہے، وجود سے تمام ناشائستہ خصلتیں نا پید ہوجاتی ہیں اور ظاہر و باطن کے تمام مراتب منکشف ہو جاتے ہیں- جب عارف باللہ اِس مقام پر پہنچ جاتاہے تو اُسے دعا کے لئے ہاتھ اُٹھانے سے شرم آتی ہے کہ اہل ِحضور کا بھلاالتماس و التجا سے کیا واسطہ؟ وہ دعا و بددعا اور کشف و کرامات کے اظہار سے ہزار بار استغفار کرتاہے کہ اہل ِحضور کے لئے اسمِ اَللّٰہُ پر نگاہ رکھنا ہی کشف و آگاہی ہے- اہل ِحضور کا وہم بھی مقامِ وحدانیت سے ہوتاہے، وہ جب بھی وہم کرتاہے اُس کی ہر مشکل حل ہوجاتی ہے اور ظاہر باطن کا ہر مطلب اُسی وقت حاصل ہوجاتاہے-اہل ِحضور کا خیال بھی انتہائی کامل ہوتاہے، وہ جس کام کے متعلق بھی خیال کرتاہے وہ فوراً اور اُسی وقت ہوجاتاہے - اہل ِحضور کی دلیل بھی حضوری ٔربّ ِجلیل کی دلیل ہوتی ہے کہ وہ ہروقت ذکر اللہ کے نور میں غرق رہتاہے اِس لئے وہ جس کام کی بھی دلیل کرتاہے وہ فوراً ہوجاتاہے- صاحب ِباطن عارف باللہ ہر وقت حضوری میں غرق رہتا ہے اورہر لحظہ و ہر ساعت اللہ تعالیٰ سے ہم کلام رہتاہے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے شوق میں مسرور رہتاہے، اُس کا ابتدائی مرتبہ’’ مومن‘‘ ہے جس کے متعلق فرمایا گیاہے: ’’مومن مومن کا آئینہ ہے‘‘-معلوم ہونا چاہیے کہ علمائے عامل شکر گزار ہوتے ہیں اور اُنہیں ہررات یا ہر جمعہ کی رات یا ہر ماہ وسال میں حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا دیدارِ پُر انوار نصیب ہوتاہے لیکن بعض کو یاد رہتا ہے اور بعض کو نہیں رہتا، پس علماءاور حفاظِ قرآن کا ادب کیا کرو کہ صحیح طریق یہی ہے- وہ اہل ِ معرفت و اہل ِقرب ولی اللہ فقیر جو ہمیشہ دل پر اسمِ اللہ ذات لکھنے کی مشق کرتا رہتا ہے اور اُسے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس ِخاص الخاص کی دائمی حضوری حاصل رہتی ہے اُس کی سات نشانیاں ہیں- اوّل یہ کہ اُسے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وجود مبارک سے مشک سے بہتر خوشبو آتی ہے اور خدائے تعالیٰ کے بھیدوں میں سے یہ ایک بھید ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وجود مبارک میں نفس ِامارہ نہیں تھا اور نہ ہی آپ کے وجود میں طمع و حرص و ہوا اور حسد پایا جاتا تھا ، آپ ہمیشہ قربِ فنا فی اللہ میں غرق رہتے تھے- آپ کی پیدائش باپ کے آبِ منی سے نہیں کی گئی بلکہ جبرائیل علیہ السلام نے بہشت سے شجرۃ النور کا پھل لا کر بی بی آمنہ (رض)کو کھلایا تھا- اُسی شجرۃ النور کی خوشبو آپ کے سارے وجود میں سر سے قدم تک رچی ہوئی ہے اور سارے جہان میں مشہور ہے- دوم اُس کا دل ظاہر باطن میں غنی رہتا ہے- سوم وہ جو بات بھی کرتا ہے نص و حدیث کے مطابق کرتا ہے- چہارم ہر وقت لباسِ شریعت میں ملبوس رہتا ہے- پنجم سنت جماعت کو خود پر لازم رکھتا ہے- ششم نافع المسلمین ہوتا ہے- ہفتم سخاوت میں بے نظیر ہوتا ہے، بظاہر عوام میں گھل مل کر رہتا ہے لیکن بباطن غرق فنا فی اللہ ہوتا ہے-
ابیات: ’’اے باھُو! جس کے دل کی نوری آنکھ کھل جاتی ہے وہ غرور سے پاک ہو جاتا ہے اور اُسے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دائمی صحبت نصیب ہو جاتی ہے- حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چہرے کی زیارت سے اُس کے تمام مطالب پورے ہو جاتے ہیں اور وہ غرق فنا فی اللہ حضور ہو جاتا ہے اور عرش و کرسی و لوح و قلم اُس کے دل میں سمائے رہتے ہیں- جو دل کی حقیقت کو پا لیتا ہے وہ غم و الم سے محفوظ رہتا ہے‘‘-
القصہ!جو فوائد مجلس ِمحمدی (ﷺ)کی حضوری سے حاصل ہوتے ہیں اُنہیں مکمل طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا-
باب ششم:
علمِ دعوتِ قبور کے بارے میں
جب کوئی توجہ و تصرف کے ساتھ روحی زبان سے علمِ دعوت [1]پڑھتا ہے تو تمام انبیا ءو اؤلیا ءاور جملہ اہل ِایمان کی ارواح بھی اُس کے گرد حلقہ بنا کر اُس کی امداد و رفاقت میں علمِ دعوت پڑھنے لگتی ہیں-ایسی دعوت سے ایک ہی دم اور ایک ہی قدم پر مشرق سے مغرب تک ملک ِسلیمانی جیسی حکومت صاحب ِدعوت کے قبضے و عمل داری میں آ جاتی ہے- ایسی دعوت کو مستجاب دعوت کہا جاتا ہے- جو کوئی نوری زبان سے تصورِ اسمِ محمد (ﷺ) کی دعوت پڑھے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مقدس و معظم و مکرم روح مبارک اور چھوٹے بڑے تمام اصحابہ کرام ()کی ارواحِ مبارکہ بھی اُس کے گرد حلقہ بنا کر اُس کی امدادو رفاقت میں آیاتِ قرآن سے علمِ دعوت پڑھتی ہیں - ایسی دعوتِ تکسیر کا عمر بھر میں ایک ہی بار پڑھناکافی ہوتا ہے-
شرحِ دعوت
دعوت وہ عمل ہے کہ جس سے دونوں جہان کے مطالب حاصل ہوتے ہیں - وہ کون سی دعوتِ قرآن ہے کہ جو اگر پڑھی جائے تو دارِ حرب کے کافر دشمنوں کے ہزاراں ہزار لشکرحیرت و عبرت کا شکار ہو جائیں اور دست بستہ حاضر ہو کر دین ِمحمدی (ﷺ)اختیار کر لیں - وہ کون سی دعوت ہے کہ جس میں اگر قرآن مجید اور اِسمِ اَللّٰہُ پڑھا جائے تو تمام دشمن اندھے ہو جائیں اور جب صلح کر کے سامنے آئیں تو اُن کی بینائی لوٹ آئے - وہ کون سی دعوت ہے کہ جس میں اگر قرآن پڑھا جائے تو تمام دشمنانِ دین دیوانے اور مجنون ہو جائیں، اُن کے تمام لشکری اِس قدر بے خود ہو جائیں کہ اُنہیں اسلحہ یاد رہے نہ گھر بار اور نہ وہ زبان کھولیں اور اُس وقت تک حیران و پریشان اور خراب حال رہیں جب تک کہ صاحب ِدعوت بزرگ کی زیارت کر کے جمعیت و ہوشمندی حاصل نہ کر لیں- وہ کون سی دعوت ہے کہ جس میں قرآن پڑھنے سے جملہ جن و اِنس و مؤکل فرشتے صاحب ِدعوت کی قید و قبضے میں آجائیں- وہ کون سی دعوت ہے کہ جس کے پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کے تمام غیبی خزانے زمین سے نکل کر صاحب ِ ِدعوت کے تصرف میں آجائیں اور مشرق سے مغرب تک ہفت اقلیم کے حکمران اُس کے قبضے میں آکر اُس کے حلقہ بگوش غلام و طالب مرید بن جائیں اور وہ کون سی دعوت ہے کہ جس میں اگر اسمِ اعظم پڑھ کر مٹی کے ڈھیلے یا سنگریزے پر دم کر دیا جائے تو وہ فی الفور چاندی یا سونا بن جائے-
(جاری ہے)
[1]علمِ دعوت = یہ ایک دینی عمل ہے جس میں اہل ِقبور کے مزارات پر ایک خاص ترتیب سے قرآن مجید پڑھا جاتا ہے جس سے اہل ِقبور کی ارواح حاضر ہو جاتی ہیں اور مطلوبہ مقصد کے حصول میں صاحب ِدعوت کی مدد کرتی ہیں- اِسے علمِ دعوتِ قبور یا علمِ تکسیر کہا جاتا ہے- اِسی کے بارے میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے :
’’اِذَا تَحَیَّرْ تُمْ فِی الْاُمُوْرِ فَاسْتَعِیْنُوْا مِنْ اَہْلِ الْقُبُوْرِ‘‘ ’’جب تم اپنے معاملات میں پریشان ہو جایا کرو تو اہل ِقبور سے مدد مانگ لیا کرو‘‘-
علمِ دعوت صرف دینی معاملات میں مدد کے لیے پڑھی جاتی ہے- اگر کسی دنیوی معاملے میں پڑھی جائے تو اُلٹا خسارہ ہوتا ہے-