بہ زبانِ باھُو

بہ زبانِ باھُو

سُلطان العارفین حضرت سخی سُلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کا زمانہ ۹۳۰۱ھ ﴿۹۲۶۱ئ﴾ تا ۲۰۱۱ھ ﴿۱۹۶۱ئ﴾ ہے- آپ کا شہرِ وِلادت شور کوٹ جو ضلع جھنگ کی ایک تحصیل ہے- آپ کے والد ماجد حضرت محمد بازید رحمۃ اللہ علیہ ایک صالح ، حافظ ِقرآن اور فقیہ شخص تھے اور مغلیہ خاندان کے حکمران شاہجہان کے دور میں قلعۂ شور کے قلعہ دار تھے- آپ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی راستی رحمۃ اللہ علیہا اؤلیائے کاملین میں سے تھیں- آپ کی والدہ ماجدہ کو الہامی طور پر بتا دیا گیا تھا کہ عنقریب آپ کے  بطن سے ایک ولی ٔکامل پیدا ہوگا جو تمام روئے زمین کو اپنے انوارِ فیضان اور اسرار و عرفان سے بھر دے گا لہٰذا اُن کا نام ’’باھُو‘‘ رکھنا- چنانچہ مائی صاحبہ نے آپ کا نام ’’باھُو‘‘ ہی رکھا  -

حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کے احوال سے آشنائی ہمیں صرف ’’مناقب سلطانی ‘‘ کے حوالے سے ہوئی ہے جو آپ کے احوال و مناقب پر لکھی جانے والی اوّلین کتاب ہے ، یہ کتاب ’’باھُو شناسی‘‘ میں بنیادی ماخذ کی اہمیت رکھتی ہے- دلچسپ امر یہ ہے کہ حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ نے خود بھی جابجا اپنی تصانیف میں اپنی رُوحانی زندگی کے مختلف درجات و مراحل سے نقاب کشائی فرمائی ہے جو آپ کی کتب کا باریک بینی سے مطالعہ کرنے والوں سے پوشیدہ نہیں ہے- یہاں حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کی ذاتی معلومات پر مشتمل انہی انکشافات میں سے چند ایک کو مرتب کرنے کی ایک سعی کی گئی تاکہ ’’باھو شناسی‘‘ میں مہمیز کا کام دے اور میرے لیے خوشنودیٔ رحمن کا سامان بنے- ان معلومات تک رسائی کے لیے ’’العارفین پبلیکیشنز‘‘ کی نگرانی میں شائع حضرت سلطان باھُو کی چند کتب کا انتخاب کیا گیا ہے جس کی تفصیل کتابیات میں درج ہے-

حضرت سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتب میں صراحت سے اپنے والدین اور اپنے زمانے کا ذکر فرمایا ہے جیسا کہ آپ اپنی کتاب ’’عقل بیدار‘‘ کے آغاز میں فرماتے ہیں؛

’’اِس کتاب کا مصنف فقیر باھُو ولد بازید(رح) عرف اعوان ہے جو قلعۂ شور کا رہنے والا ہے ، اللہ تعالیٰ شور کوٹ کو ہر آفت و ظلم سے محفوظ رکھے -‘‘ ﴿ص: ۱۵

اسی طرح ’’عین الفقر‘‘ کے آخر میں درج ہے؛

’’اِس نکتہ ٔوحدت ِ اِلٰہ ﴿عین الفقر﴾ کو شاہ اورنگ زیب عالم گیر کے دور ِحکومت میں ۵۸۰۱ ہجری میں تحریر کیا گیا ہے- یہ کتاب عین الفقر ، واصل با ’’ ھُوْ‘‘  فقیر فنا فی اللہ بقا باللہ حضرت سلطان باھُو ولد بازید (رح) عرف اعوان ساکن ڈیرہ سارنگ بلوچ کی تصنیف ِلطیف ہے-‘‘ ﴿ص : ۷۱۴

آپ کے سالِ وِلادت کو مدنظر رکھیں تو گویا آپ نے یہ کتاب اپنی زندگی کی چھیالیسویں بہار میں تحریر فرمائی- اسی کتاب میں ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ میں تیس سال تک مرشد کامل کی تلاش میں رہا- یقینا آپ سنِ بلوغت کے بعد ہی مرشد کامل کی تلاش میں نکلے ہوں گے اور یہ کتاب بھی مرشد کامل سے فیض ملنے کے بعد ضبط تحریر میں آئی- سنِ بلوغت کی کم از کم مدت سولہ سال فرض کریں تو آپ کی مرشد کامل تک رسائی چھیالیس سال کی عمر مبارک میں بنتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرشدِ کامل سے جو فیضان ملا اس کا پہلا اور فوری اظہار ’’عین الفقر‘‘ کی صورت میں ہی ہوا-

آپ اپنی کتب میں اپنی والدہ محترمہ کا بالخصوص ذکر فرماتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اپنی والدہ کی قربت اور صحبت زیادہ نصیب رہی ہے- آپ ’’عین الفقر ‘‘ میں فرماتے ہیں ؛

’’مائی راستی ﴿رحمۃ اللہ علیہا﴾ کا بیٹا باھُو دین ِحق میں صادق قدم ہے، اُس کی دونوں آنکھیں ہر وقت محو ِدیدار رہتی ہیں- مائی راستی ، راستی ﴿سچائی﴾ سے آراستہ ہیں، اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت ہو اُن پر-‘‘ ﴿ ص: ۷۰۱

اگرچہ زندہ افراد کے لیے بھی رحمت و مغفرت کی دعا مانگی جاسکتی ہے لیکن ان الفاظ سے جو حقیقت عیاں ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ اس کتاب کی تصنیف سے پہلے یا اسی دوران آپ کی والدہ محترمہ کا وصال ہو چکا تھا- اسی طرح ایک اور انکشاف جو آپ اپنی کتب میں فرماتے ہیں کہ آپ کا نام آپ کی والدہ محترمہ نے ہی ’’باھُو‘‘ رکھا- آپ فرماتے ہیں؛

’’صد بار آفرین ہو باھُو کی ماں پر کہ اُس نے اُس کا نام باھُو رکھا ، باھُو جو بی بی راستی (رح) کا بیٹا ہے ذکر ِ ’’ یَاھُوْ ‘‘میں مسرور رہتا ہے- اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت ہو بی بی راستی (رح) پر کہ وہ راستی ﴿سچائی﴾ سے آراستہ ہیں-‘‘ ﴿محک الفقر، ص: ۷۶۲

حضرت سلطان باھُو اپنی کتب میں اپنا نام ﴿باھُو﴾ رکھنے کا سبب بھی بیان فرماتے ہیں؛

’’ باھُو کی والدہ نے اُس کا نام بَاھُوْ اِس لئے رکھا ہے کہ وہ ہر وقت ھُوْ کی معیت میں رہتا ہے - ‘‘ ﴿محک الفقر، ص: ۵۸۱

اپنی کتاب ’’عقلِ بیدار‘‘ میں فرماتے ہیں؛

’’باھُو کا نام باھُو اِس لئے رکھا گیا ہے کہ باھُو یَاھُوْ میں محو ہے اور غرق فی التوحید ہو کر اللہ کے روبرو ہے -‘‘ ﴿ ص: ۳۷

ان توضیحات میں آپ کی والدہ محترمہ کے ولیہ کاملہ ہونے کی طرف بھی اشارہ ہے جس نے پیدائش کے وقت ہی اس نوزائیدہ کی محویت کو ملاحظہ فرما لیا تھا اور ان بشارات کی جانب بھی جو آپ کی پیدائش کے وقت آپ کی والدہ محترمہ کو آپ کے متعلق سنائیں گئیں-

آپ اپنی والدہ محترمہ کے عبادت گزار ، زہد و ریاضت میں مگن اور ذاکرہ ہونے کے بارے میں یوں اظہار فرماتے ہیں؛

’’اِس طرح ﴿کلمہ طیبہ﴾ کے ذکر ِجہر اور ذکر ِخفیہ سے آنکھوں سے خون جاری ہو جاتا ہے- مصنف کہتا ہے کہ اِس فقیر کی والدہ محترمہ اِسی طرح کا ذکر ِخفیہ کیا کرتی تھیں اور اُن کی آنکھوں سے خون جاری رہا کرتا تھا- ایسے ذاکر کو حضور الحق فقیر کہتے ہیں-‘‘ ﴿محک الفقر، ص: ۳۲۵

اسی طرح ’’کلید التوحید کلاں‘‘ میں اسی بات کی مزید وضاحت موجود ہے؛

’’اﷲتعالیٰ نے صرف اؤلیائے کرام کو اِتنی قوت بخشی ہے کہ وہ چودہ طبق کا مشاہدہ ایسے کرتے ہیں گویا کہ اپنی ہتھیلی پر اسپند کا دانہ دیکھتے ہیں- چودہ طبق کا اِس طرح تماشا دیکھنا اُن کے لئے کوئی مشکل نہیں- جب وہ تصورِ اسم اﷲ ذات میں محو ہوتے ہیں تو اسم اﷲ ذات کی گرانی سے اُن کی آنکھوں سے خون جاری ہو جاتا ہے- اِس فقیر کی والدہ ماجدہ کو یہ مرتبہ حاصل تھا کہ شوقِ حق تعالیٰ کی سوزش سے اُن کی آنکھوں سے خون بہتا رہتا تھا-‘‘ ﴿ص: ۹۹۲

ان عبارات سے اشارہ ملتا ہے کہ آپ کی والدہ ماجدہ اسم اللہ ذات کا تصور فرماتی تھیں تو یقینا آپ کے والد محترم کو بھی اس کی معرفت نصیب ہوگی-

آپ اپنی تصانیف میں اپنی والدہ کی طرف سے رکھے ہوئے الہامی اسمِ ’’باھُو‘‘ کے اسرار و رموز سے آگاہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں؛

’’اگر باھُو میں سے پہلے دو حرف ’’ب‘‘ اور ’’ ا ‘‘ کا پردہ اُٹھا دیا جائے تو باقی ’’ھُوْ‘‘ رہ جاتا ہے- باھُو کے سامنے کوئی پردہ باقی نہیں رہا او ر وہ باھُو سے ’’ےَاھُوْ‘‘ بن گیا ہے کہ وہ ہر وقت ذکر ِ’’ےَاھُوْ ‘‘ میں غرق رہتا ہے- جس شخص کے وجود میں ذکر ِ’’ھُوْ‘‘ جاری ہو جاتا ہے ا ُس کا وجود نورِ ذات میں ڈھل جاتا ہے- اُس کا جسم و جان اور تمام وجود تجلی ٔنور بن جاتا ہے اور وہ لاہوت لامکان میں پہنچ جاتا ہے-‘‘ ﴿عین الفقر ، ص: ۳۲۳

اسی طرح اپنی کتاب ’’امیر الکونین‘‘ میں فرماتے ہیں؛

’’باھُو ھُوْ میں فنا ہوا تو اُسے ھُوْ کے ساتھ بقا حاصل ہوگئی اور اب وہ ابتدا سے انتہا تک لقائے ھُوْ میں غرق ہے- ھُوْ چشمِ باھُو کی عینک بن گیا ہے اِس لئے باھُو اب ھُوْ کی عینک سے یَاھُوْ کو دیکھتا ہے- جو کوئی ھُو کا منکر ہوا وہ مردود ہو گیا کہ یَاھُوْ کے بغیر کبھی کوئی باھُوْ نہیں بن سکا-‘‘ ﴿ص: ۷۷

’’نور الھدیٰ ‘‘ میں فرماتے ہیں؛

’’ باھُوجب ’’ھُو‘‘ میں فنا ہو گیا تو باھُو نہ رہا- باھُو ’’ھُو‘‘ سے ظاہر ہوا اِس لئے ذکر ِ’’یاھُو‘‘ میں غرق رہتا ہے-‘‘ ﴿ص: ۷۰۱

’’محک الفقر‘‘ میں اسم اعظم کی تلاش کا نسخہ بتاتے ہوئے فرماتے ہیں؛

’’ اسمِ اعظم کو اسمِ ’’ھُو‘‘ میں تلاش کر- کیا تجھے نہیں معلوم کہ اسمِ ’’باھُو‘‘ کیا چیز ہے؟ اسمِ باھُو الٹا ﴿وَہَابُ﴾ ہے- ‘‘ ﴿ص: ۷۷۱

یعنی اللہ تعالیٰ کے ایک صفاتی نام ﴿وھاب﴾ کو آخر سے جوڑ کر پڑھنا شروع کریں تو یہ اسمِ ﴿باھُو﴾ بنتا ہے- اسی طرح اپنے نام کا ایک اور نہایت ہی دلچسپ اور معرفت سے معمور نکتہ بیان فرماتے ہیں؛

’’ باھُو ایک ہی نقطے کے اِضافے سے یاھُو بن جاتا ہے لہٰذا باھُو رات دن یاھُو کے ذکر میں غرق رہتا ہے- اسمِ یاھُو نے باھُو کا راہنما و پیشوا بن کر اُسے مجلس ِمحمدی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی دائمی حضوری سے مشرف کر دیا ہے-‘‘ ﴿محک الفقر، ص: ۷۰۳

 عاجزی کا اظہار دیکھیں تو اتنا شاندار نام ہونے کے باوجود اپنی ذات اور نام و ناموس کی نفی نہایت ہی لطیف پیرائے میں کرتے ہوئے فرماتے ہیں؛

’’ آنکھیں تھیں کہ دیدارِ الٰہی میں گم ہوگئیں، نفس تھا کہ ہوا میں غرق ہوگیا، دل تھا کہ دائم باخدا ہوگیا اور روح تھی کہ مصطفےٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جا ملی- جب یہ چاروں مجھ سے نکل گئے تو میرا نام کہاں باقی بچا؟ باھُو ’’ھُو‘‘ میں گم ہو گیا ہے، اب وہ نام و ناموس کو سلامِ الوداع کہتا ہے-‘‘ ﴿نور الھدیٰ، ص:۳۷۱

حضرت سلطان باھُو عامۃ الناس میں ’’حق باھو‘‘ معروف ہیں اس کی دلیل بھی آپ کی تصانیف میں موجود ہے - ’’کلید التوحید کلاں‘‘ میں لکھتے ہیں؛

’’حق مجھ میں اور مَیں حق میں ہوں- اِس طرح حق جب حق سے ملتا ہے تو دل روشن ہو جاتا ہے-‘‘ ﴿ص: ۹۲۲          

﴿---جاری ہے---

کتابیات:

  ﴿۱﴾ عین الفقر، العارفین پبلیکیشنز لاہور پاکستان، ﴿۲﴾ عقل بیدار، العارفین پبلیکیشنز لاہور پاکستان

  ﴿۳﴾ محک الفقر، العارفین پبلیکیشنز لاہور پاکستان،             ﴿۴﴾ امیر الکونین، العارفین پبلیکیشنز لاہور پاکستان

  ﴿۵﴾ نور الھدیٰ، العارفین پبلیکیشنز لاہور پاکستان، ﴿۶﴾ کلید التوحید کلاں، العارفین پبلیکیشنز لاہور پاکستان

 

 

سُلطان العارفین حضرت سخی سُلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کا زمانہ ۹۳۰۱ھ ﴿۹۲۶۱ئ﴾ تا ۲۰۱۱ھ ﴿۱۹۶۱ئ﴾ ہے- آپ کا شہرِ وِلادت شور کوٹ جو ضلع جھنگ کی ایک تحصیل ہے- آپ کے والد ماجد حضرت محمد بازید رحمۃ اللہ علیہ ایک صالح ، حافظ ِقرآن اور فقیہ شخص تھے اور مغلیہ خاندان کے حکمران شاہجہان کے دور میں قلعۂ شور کے قلعہ دار تھے- آپ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی راستی رحمۃ اللہ علیہا اؤلیائے کاملین میں سے تھیں- آپ کی والدہ ماجدہ کو الہامی طور پر بتا دیا گیا تھا کہ عنقریب آپ کے  بطن سے ایک ولی ٔکامل پیدا ہوگا جو تمام روئے زمین کو اپنے انوارِ فیضان اور اسرار و عرفان سے بھر دے گا لہٰذا اُن کا نام ’’باھُو‘‘ رکھنا- چنانچہ مائی صاحبہ نے آپ کا نام ’’باھُو‘‘ ہی رکھا-

حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کے احوال سے آشنائی ہمیں صرف ’’مناقب سلطانی ‘‘ کے حوالے سے ہوئی ہے جو آپ کے احوال و مناقب پر لکھی جانے والی اوّلین کتاب ہے ، یہ کتاب ’’باھُو شناسی‘‘ میں بنیادی ماخذ کی اہمیت رکھتی ہے- دلچسپ امر یہ ہے کہ حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ نے خود بھی جابجا اپنی تصانیف میں اپنی رُوحانی زندگی کے مختلف درجات و مراحل سے نقاب کشائی فرمائی ہے جو آپ کی کتب کا باریک بینی سے مطالعہ کرنے والوں سے پوشیدہ نہیں ہے- یہاں حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کی ذاتی معلومات پر مشتمل انہی انکشافات میں سے چند ایک کو مرتب کرنے کی ایک سعی کی گئی تاکہ ’’باھو شناسی‘‘ میں مہمیز کا کام دے اور میرے لیے خوشنودیٔ رحمن کا سامان بنے- ان معلومات تک رسائی کے لیے ’’العارفین پبلیکیشنز‘‘ کی نگرانی میں شائع حضرت سلطان باھُو کی چند کتب کا انتخاب کیا گیا ہے جس کی تفصیل کتابیات میں درج ہے-

حضرت سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتب میں صراحت سے اپنے والدین اور اپنے زمانے کا ذکر فرمایا ہے جیسا کہ آپ اپنی کتاب ’’عقل بیدار‘‘ کے آغاز میں فرماتے ہیں؛

’’اِس کتاب کا مصنف فقیر باھُو ولد بازید(رح) عرف اعوان ہے جو قلعۂ شور کا رہنے والا ہے ، اللہ تعالیٰ شور کوٹ کو ہر آفت و ظلم سے محفوظ رکھے -‘‘ ﴿ص: ۱۵

اسی طرح ’’عین الفقر‘‘ کے آخر میں درج ہے؛

’’اِس نکتہ ٔوحدت ِ اِلٰہ ﴿عین الفقر﴾ کو شاہ اورنگ زیب عالم گیر کے دور ِحکومت میں ۵۸۰۱ ہجری میں تحریر کیا گیا ہے- یہ کتاب عین الفقر ، واصل با ’’ ھُوْ‘‘  فقیر فنا فی اللہ بقا باللہ حضرت سلطان باھُو ولد بازید (رح) عرف اعوان ساکن ڈیرہ سارنگ بلوچ کی تصنیف ِلطیف ہے-‘‘ ﴿ص : ۷۱۴

آپ کے سالِ وِلادت کو مدنظر رکھیں تو گویا آپ نے یہ کتاب اپنی زندگی کی چھیالیسویں بہار میں تحریر فرمائی- اسی کتاب میں ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ میں تیس سال تک مرشد کامل کی تلاش میں رہا- یقینا آپ سنِ بلوغت کے بعد ہی مرشد کامل کی تلاش میں نکلے ہوں گے اور یہ کتاب بھی مرشد کامل سے فیض ملنے کے بعد ضبط تحریر میں آئی- سنِ بلوغت کی کم از کم مدت سولہ سال فرض کریں تو آپ کی مرشد کامل تک رسائی چھیالیس سال کی عمر مبارک میں بنتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرشدِ کامل سے جو فیضان ملا اس کا پہلا اور فوری اظہار ’’عین الفقر‘‘ کی صورت میں ہی ہوا-

آپ اپنی کتب میں اپنی والدہ محترمہ کا بالخصوص ذکر فرماتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اپنی والدہ کی قربت اور صحبت زیادہ نصیب رہی ہے- آپ ’’عین الفقر ‘‘ میں فرماتے ہیں ؛

’’مائی راستی ﴿رحمۃ اللہ علیہا﴾ کا بیٹا باھُو دین ِحق میں صادق قدم ہے، اُس کی دونوں آنکھیں ہر وقت محو ِدیدار رہتی ہیں- مائی راستی ، راستی ﴿سچائی﴾ سے آراستہ ہیں، اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت ہو اُن پر-‘‘ ﴿ ص: ۷۰۱

اگرچہ زندہ افراد کے لیے بھی رحمت و مغفرت کی دعا مانگی جاسکتی ہے لیکن ان الفاظ سے جو حقیقت عیاں ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ اس کتاب کی تصنیف سے پہلے یا اسی دوران آپ کی والدہ محترمہ کا وصال ہو چکا تھا- اسی طرح ایک اور انکشاف جو آپ اپنی کتب میں فرماتے ہیں کہ آپ کا نام آپ کی والدہ محترمہ نے ہی ’’باھُو‘‘ رکھا- آپ فرماتے ہیں؛

’’صد بار آفرین ہو باھُو کی ماں پر کہ اُس نے اُس کا نام باھُو رکھا ، باھُو جو بی بی راستی (رح) کا بیٹا ہے ذکر ِ ’’ یَاھُوْ ‘‘میں مسرور رہتا ہے- اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت ہو بی بی راستی (رح) پر کہ وہ راستی ﴿سچائی﴾ سے آراستہ ہیں-‘‘ ﴿محک الفقر، ص: ۷۶۲

حضرت سلطان باھُو اپنی کتب میں اپنا نام ﴿باھُو﴾ رکھنے کا سبب بھی بیان فرماتے ہیں؛

’’ باھُو کی والدہ نے اُس کا نام بَاھُوْ اِس لئے رکھا ہے کہ وہ ہر وقت ھُوْ کی معیت میں رہتا ہے - ‘‘ ﴿محک الفقر، ص: ۵۸۱

اپنی کتاب ’’عقلِ بیدار‘‘ میں فرماتے ہیں؛

’’باھُو کا نام باھُو اِس لئے رکھا گیا ہے کہ باھُو یَاھُوْ میں محو ہے اور غرق فی التوحید ہو کر اللہ کے روبرو ہے -‘‘ ﴿ ص: ۳۷

ان توضیحات میں آپ کی والدہ محترمہ کے ولیہ کاملہ ہونے کی طرف بھی اشارہ ہے جس نے پیدائش کے وقت ہی اس نوزائیدہ کی محویت کو ملاحظہ فرما لیا تھا اور ان بشارات کی جانب بھی جو آپ کی پیدائش کے وقت آپ کی والدہ محترمہ کو آپ کے متعلق سنائیں گئیں-

آپ اپنی والدہ محترمہ کے عبادت گزار ، زہد و ریاضت میں مگن اور ذاکرہ ہونے کے بارے میں یوں اظہار فرماتے ہیں؛

’’اِس طرح ﴿کلمہ طیبہ﴾ کے ذکر ِجہر اور ذکر ِخفیہ سے آنکھوں سے خون جاری ہو جاتا ہے- مصنف کہتا ہے کہ اِس فقیر کی والدہ محترمہ اِسی طرح کا ذکر ِخفیہ کیا کرتی تھیں اور اُن کی آنکھوں سے خون جاری رہا کرتا تھا- ایسے ذاکر کو حضور الحق فقیر کہتے ہیں-‘‘ ﴿محک الفقر، ص: ۳۲۵

اسی طرح ’’کلید التوحید کلاں‘‘ میں اسی بات کی مزید وضاحت موجود ہے؛

’’اﷲتعالیٰ نے صرف اؤلیائے کرام کو اِتنی قوت بخشی ہے کہ وہ چودہ طبق کا مشاہدہ ایسے کرتے ہیں گویا کہ اپنی ہتھیلی پر اسپند کا دانہ دیکھتے ہیں- چودہ طبق کا اِس طرح تماشا دیکھنا اُن کے لئے کوئی مشکل نہیں- جب وہ تصورِ اسم اﷲ ذات میں محو ہوتے ہیں تو اسم اﷲ ذات کی گرانی سے اُن کی آنکھوں سے خون جاری ہو جاتا ہے- اِس فقیر کی والدہ ماجدہ کو یہ مرتبہ حاصل تھا کہ شوقِ حق تعالیٰ کی سوزش سے اُن کی آنکھوں سے خون بہتا رہتا تھا-‘‘ ﴿ص: ۹۹۲

ان عبارات سے اشارہ ملتا ہے کہ آپ کی والدہ ماجدہ اسم اللہ ذات کا تصور فرماتی تھیں تو یقینا آپ کے والد محترم کو بھی اس کی معرفت نصیب ہوگی-

آپ اپنی تصانیف میں اپنی والدہ کی طرف سے رکھے ہوئے الہامی اسمِ ’’باھُو‘‘ کے اسرار و رموز سے آگاہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں؛

’’اگر باھُو میں سے پہلے دو حرف ’’ب‘‘ اور ’’ ا ‘‘ کا پردہ اُٹھا دیا جائے تو باقی ’’ھُوْ‘‘ رہ جاتا ہے- باھُو کے سامنے کوئی پردہ باقی نہیں رہا او ر وہ باھُو سے ’’ےَاھُوْ‘‘ بن گیا ہے کہ وہ ہر وقت ذکر ِ’’ےَاھُوْ ‘‘ میں غرق رہتا ہے- جس شخص کے وجود میں ذکر ِ’’ھُوْ‘‘ جاری ہو جاتا ہے ا ُس کا وجود نورِ ذات میں ڈھل جاتا ہے- اُس کا جسم و جان اور تمام وجود تجلی ٔنور بن جاتا ہے اور وہ لاہوت لامکان میں پہنچ جاتا ہے-‘‘ ﴿عین الفقر ، ص: ۳۲۳

اسی طرح اپنی کتاب ’’امیر الکونین‘‘ میں فرماتے ہیں؛

’’باھُو ھُوْ میں فنا ہوا تو اُسے ھُوْ کے ساتھ بقا حاصل ہوگئی اور اب وہ ابتدا سے انتہا تک لقائے ھُوْ میں غرق ہے- ھُوْ چشمِ باھُو کی عینک بن گیا ہے اِس لئے باھُو اب ھُوْ کی عینک سے یَاھُوْ کو دیکھتا ہے- جو کوئی ھُو کا منکر ہوا وہ مردود ہو گیا کہ یَاھُوْ کے بغیر کبھی کوئی باھُوْ نہیں بن سکا-‘‘ ﴿ص: ۷۷

’’نور الھدیٰ ‘‘ میں فرماتے ہیں؛

’’ باھُوجب ’’ھُو‘‘ میں فنا ہو گیا تو باھُو نہ رہا- باھُو ’’ھُو‘‘ سے ظاہر ہوا اِس لئے ذکر ِ’’یاھُو‘‘ میں غرق رہتا ہے-‘‘ ﴿ص: ۷۰۱

’’محک الفقر‘‘ میں اسم اعظم کی تلاش کا نسخہ بتاتے ہوئے فرماتے ہیں؛

’’ اسمِ اعظم کو اسمِ ’’ھُو‘‘ میں تلاش کر- کیا تجھے نہیں معلوم کہ اسمِ ’’باھُو‘‘ کیا چیز ہے؟ اسمِ باھُو الٹا ﴿وَہَابُ﴾ ہے- ‘‘ ﴿ص: ۷۷۱

یعنی اللہ تعالیٰ کے ایک صفاتی نام ﴿وھاب﴾ کو آخر سے جوڑ کر پڑھنا شروع کریں تو یہ اسمِ ﴿باھُو﴾ بنتا ہے- اسی طرح اپنے نام کا ایک اور نہایت ہی دلچسپ اور معرفت سے معمور نکتہ بیان فرماتے ہیں؛

’’ باھُو ایک ہی نقطے کے اِضافے سے یاھُو بن جاتا ہے لہٰذا باھُو رات دن یاھُو کے ذکر میں غرق رہتا ہے- اسمِ یاھُو نے باھُو کا راہنما و پیشوا بن کر اُسے مجلس ِمحمدی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی دائمی حضوری سے مشرف کر دیا ہے-‘‘ ﴿محک الفقر، ص: ۷۰۳

 عاجزی کا اظہار دیکھیں تو اتنا شاندار نام ہونے کے باوجود اپنی ذات اور نام و ناموس کی نفی نہایت ہی لطیف پیرائے میں کرتے ہوئے فرماتے ہیں؛

’’ آنکھیں تھیں کہ دیدارِ الٰہی میں گم ہوگئیں، نفس تھا کہ ہوا میں غرق ہوگیا، دل تھا کہ دائم باخدا ہوگیا اور روح تھی کہ مصطفےٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جا ملی- جب یہ چاروں مجھ سے نکل گئے تو میرا نام کہاں باقی بچا؟ باھُو ’’ھُو‘‘ میں گم ہو گیا ہے، اب وہ نام و ناموس کو سلامِ الوداع کہتا ہے-‘‘ ﴿نور الھدیٰ، ص:۳۷۱

حضرت سلطان باھُو عامۃ الناس میں ’’حق باھو‘‘ معروف ہیں اس کی دلیل بھی آپ کی تصانیف میں موجود ہے - ’’کلید التوحید کلاں‘‘ میں لکھتے ہیں؛

’’حق مجھ میں اور مَیں حق میں ہوں- اِس طرح حق جب حق سے ملتا ہے تو دل روشن ہو جاتا ہے-‘‘ ﴿ص: ۹۲۲          

﴿---جاری ہے---

کتابیات:

﴿۱﴾ عین الفقر، العارفین پبلیکیشنز لاہور پاکستان، ﴿۲﴾ عقل بیدار، العارفین پبلیکیشنز لاہور پاکستان

﴿۳﴾ محک الفقر، العارفین پبلیکیشنز لاہور پاکستان،               ﴿۴﴾ امیر الکونین، العارفین پبلیکیشنز لاہور پاکستان

﴿۵﴾ نور الھدیٰ، العارفین پبلیکیشنز لاہور پاکستان، ﴿۶﴾ کلید التوحید کلاں، العارفین پبلیکیشنز لاہور پاکستان

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر