اَزل واَبد کے دوکناروں کے درمیان زمان و مکان پہ مشتمل ہماری یہ کائنات رواں دواں ہے -وہ زمانہ کہ جس کی کوئی اِبتدا نہ ہو یعنی مخلو ق کی پیدائش کے وقت سے پہلے کادَور اَزل کہلاتا ہے اور جس زمانے کی کوئی اِنتہا نہ ہو اُسے اَبد کہا جاتا ہے - انسان اپنی پیدائش سے قبل بھی اللہ تعالیٰ کے حضور ایک زندگی گزار کر آیا ہے اور اپنی موت کے بعد بھی اُسے ایک نئی زندگی گزارنا ہے - جسے علامہ اقبال نے یوں واضح کیا تھا ﴿ازل اِس کے پیچھے ابد سامنے - نہ حد اِس کے پیچھے نہ حد سامنے﴾ - انسان کی ظاہری عمر پیدائش سے لے کر موت تک ہے لیکن انسانی رُوح کا سفر اَزل سے شروع ہو کر اَبد تک جاتا ہے - غافل ہے وہ انسان جو اپنی ظاہری زندگی کو حرفِ آخر سمجھ کر اِسی پہ قناعت کر لیتا ہے –
قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بو پر
چمن اَور بھی آشیاں اَور بھی ہیں
اِسی روز و شب میں اُلجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اَور بھی ہیں
ایسا اِس لیے ہے کہ انسان اپنی رُوح سے بے خبر ہو جاتا ہے اور رُوحانی مقاصد سے ناآشنا رہتا ہے -اِس لیے دِین اسلام نے ایسے انسانوں کو سخت وعید سنائی جو اُخروی زندگی پہ یقین نہیں رکھتے -خوش بخت ہے وہ انسان جو اپنی مختصر سی ظاہری حیات میں واقعاتِ ازل کو مدِ نظر رکھتا ہے اورعرفانِ ذات کا رُوحانی مقصد حاصل کرتا ہے کہ جس کے لیے اُسے دُنیا کے کمرۂ امتحان میں بھیجا گیا - حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرہ، فرماتے ہیں کہ :-
اے عزیز ! انسان وہ ہے جو قدم ازل پر اور نظر حساب گاہِ قیامت پر رکھتا ہے ، دنیا کو رات سمجھتا ہے اور دنیامیں مسافر کی طرح رہتا ہے- دنیا کافروں کے لئے جنت و جمعیت کا مقام ہے -دنیا آرائش و آسائش کی جگہ نہیں بلکہ امتحان و آزمائش کی جگہ ہے - تجھے دنیا پسند ہے یا خدا پسند ہے ؟ تجھے دنیا پسند ہے یافقرِ محمدی صلی اللہ علیہ و آلہٰ و سلم پسند ہے ؟ ﴿ امیر الکونین :۹۱۱﴾
انسان اپنی پیدائش سے قبل ایک زمانہ اللہ تعالیٰ کی معیت میں گزار چکا ہے تصوف کی اِصطلاح میں اُس دور کو زمانۂ اَلست کہتے ہیں -اُس وقت اسم اللہ ذات متجلی تھا اورانوار کی بارش میں انسان کااپنے خداسے عشق عروج پہ تھا -
عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جس کانہیں کوئی نام
محبتِ الٰہی سے سرشار انسانی اَرواح ٹِکٹِکی باندھ کراسم اللہ ذات کو تکتی رہتی تھیں اوراللہ تعالیٰ کی اُلفت کادم بھرتی تھیں -اسم اللہ ذات سے پھوٹنے والے اَنوار انسانی اَرواح کی غذا تھے - اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کی صدا ئے حق سنائی دی تو اَرواح نے قالُوا بلٰی پکار کر خدا کی ربوبیت کی گواہی دی - اللہ تعالیٰ نے انسان کے دعوٰیٔ عشق کو پرکھنے اورقرب کے مزید بلند درجات پہ فائز کرنے کے لیے انسانی اَرواح کو قفسِ عنصری میں مقید کر کے عالمِ ناسوت کے کمرۂ آزمائش میں بھیجا -حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ :-
’’فقرأ اُسی دن سے مست چلے آ رہے ہیں کہ جس دن اُنہوں نے اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ﴿ کیا مَیں تمہارا ربّ نہیں ہوں ؟ ﴾کی آواز سن کر ’’ بَلٰی‘‘ کہا تھا - جیسی کیفیت اُن کی اُس وقت تھی ویسی ہی اب ہے کہ اُنہوں نے دنیا کا منہ دیکھا ہی نہیں ‘‘- ﴿محک الفقر:۵۶۲﴾
حضور غوث الاعظم قدس اللہ سرہ ،فرماتے ہیں کہ :-
’’پھر جب ارواح کا تعلق اجسام سے قائم ہو گیا اور وہ اجسام سے مانوس ہو گئیں اور اُس قول وقرار کو بھول گئیں جو اُنہوں نے میثاق کے دن اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کے جواب میں قَالُوْ ا بَلٰی کہہ کر اللہ تعالیٰ سے کیا تھا تو اُن کا رجوع اپنے اصلی وطن کی طرف نہ رہا -اِس پر اللہ رحمن المستعان نے اُن پر رحم کیا اور اُن پر آسمانی کتابیں نازل فرما کر اُنہیں اُن کے اصلی وطن کی یاد دلائی جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے - : ’’ اور یاد دلائیں اُنہیں وہ ایامِ الٰہی‘‘- یعنی وہ ایامِ وصال جو وہ معیت ِحق تعالیٰ میں گزار چکے تھے - جملہ انبیائے کرام اِسی یاد دہانی کے لئے دنیا میں تشریف لائے --- حتیّٰ کہ سلسلۂ نبوت خاتمِ رسالت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روحِ اعظم تک پہنچا جنہیں اللہ تعالیٰ نے غفلت و گمراہی میں پڑے ہوئے لوگوں کی راہنمائی کے لئے ہادی بنا کر بھیجا تاکہ اُنہیں خوابِ غفلت سے جگا کر اُن کی چشمِ بصیرت کو روشن کریں - پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے اُنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا اور اُس کے دیدار و وصال اور جمالِ ازلی کی طرف متوجہ کیا‘‘ - ﴿سرالاسرار:۳۲﴾
اَلَسْت ُبِرَبِّکُمْ سنیا دل میرے، نِت قالُوا بلےٰ کو کیندی ھُو
حب وطن دی غالب ہوئی، ہک پل سو ن نہ دیندی ھُو
قہر پووے تینوں رہزن دنیا توں تاں حق دا راہ مریندی ھُو
عاشقاں مول قبول نہ کیتی باھُو تونے ط کرکر زاریاں روندی ھُو
حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرہ ،اس امر کے بارے میں مزید فرماتے ہیں کہ :-
’’ایمان کی دوسری جزو رجایہ ہے کہ صاحب ِعیان مقامِ ازل میں داخل ہو جائے اور اہل ِایمان کی صف میں کھڑاہوکر اَلَسْتُ بِرَ بِّکُمْ ﴿کیا مَیں تمہار ا ربّ نہیں ہوں؟﴾ کی آواز سنے اور اُس کے جواب میں اخلاص و محبت سے قَالُوْا بَلٰی کہہ کر مسلمانِ حقیقی بن جائے تا کہ اُس کی روح فرحت یاب ہواور اُس پر علمِ معرفت ِ توحید کھل جائے اور وہ ہمیشہ معیت ِ خداوندی میں مستغرق رہے - یہ ہیںمراتب اہل ِ رجااولیا ٔ اللہ کے ‘‘ - ﴿امیرالکونین:۳۵۱﴾
اَزل سے اَبد تک ہزار ہانظریات منصہ شہود پہ آئیں گے اوراُن کے زیرِ اثر ان گنت تہذبیں معرکہ آراہوں گی لیکن معرفت حق تعالیٰ کانصاب ہمیشہ ایک رہے گااورعشاق وحدانیت حق کی لگن میں جذبۂ عرفانِ ذات میں مگن رہیں گے - آپ قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ :-
’’معرفت ِ اِلٰہی کی راہ صرف اڑھائی قدم ہے کہ طالب ایک قدم ازل سے اُٹھاتا ہے اور دنیا میں رکھ دیتا ہے اور دوسرا قدم دنیا سے اُٹھاتا ہے اور عقبیٰ میں رکھ دیتا ہے جہاں وہ عرصہ گاہِ قیامت کے پل ِصراط سے گزر کر بہشت میں داخل ہو جاتا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے -: ’’ پس میرے پسندیدہ بندوں میں شامل ہو کر میری جنت میں داخل ہو جا ‘‘- پھر وہ عقبیٰ سے قدم اُٹھاتا ہے اور آدھے قدم پر لقائے ربّ العٰلمین سے مشرف ہو جاتا ہے - یہ آدھا قدم وہ آدمی اُٹھا سکتا ہے جو اپنے نفس کو قتل کر کے تیغِ ہمت سے رازِ ربّ کو دو نیم کر دے کہ راز بہتر ہے ریاضت سے‘‘ - ﴿محک الفقر:۹۳۱﴾
یہ حقیقت ہے کہ انسان اَزل سے سفر کرتا ہوا اس دُنیا کے کمرۂ امتحان میں پہنچا ہے لیکن اس مختصر ظاہری حیات کے نتائج اُس کی اُخروی زندگی پہ مرتب ہوں گے -یوں کہاجاسکتا ہے کہ یہ ظاہری حیات مختصر ہونے کے ساتھ انسان کے لیے اہم ترین بھی ہے- انسا ن کواِس دُنیا میں اِسی لیے بھیجا گیاکہ وہ معرفتِ حق تعالیٰ کے تسلسلِ اَزل کو نہ صرف برقرار رکھے بلکہ ہر لحظہ قرب کے درجات میں عروج کی جانب گامزن بھی رہے - انسان کو عالم ناسوت میں صرف اس بنا پہ مشکل پیش آتی ہے کہ یہاں پہ حقیقت کو پردوں میں چھپا دیا گیا ہے- طائر لاہوتی ﴿رُوح ﴾ کوقفس عنصری ﴿جسم﴾میں مقید کیا گیا ہے اور رُوح کے مرکز فواد میں درجات قرب کوپنہاں کر دیا گیا ہے - کامل انسان وہ ہے جو اسباب دُنیا میں رہ کر بھی عشقِ الٰہی کا ساز و سامان پیدا کر لیتا ہے کیونکہ عشقِ الٰہی رُوح کی ضرورت ہے اور یہ قلب کو ماسویٰ اللہ سے پاک کر دیتا ہے - اگر قلب و رُوح پاک ہو جائیں تو یہ ظاہری زندگی بھی واقعاتِ الست کا آئینہ بن جاتی ہے اور جو اس آئینے میں جھلکے گا وہی انسان کو اُخروی زندگی میں نصیب ہو گا - اگر اس آئینہ میں معرفتِ حق کے جلوے موجود ہیں تویقینا اُخروی زندگی میں قربِ ذات کے مراتب حاصل ہوں گے- آپ قدس اللہ سرہ ،فرماتے ہیں کہ :-
’’سب سے پہلے دل کی تحقیق و معائنہ ضروری ہے کہ دل کے ارد گرد چار میدان ہیں پہلے اُن کا مشاہدہ کیا جائے چنانچہ میدانِ ازل کا مشاہدہ ، میدانِ ابد کا مشاہدہ، میدانِ طبقات کا مشاہدہ جو عرش سے تحت الثریٰ تک پھیلا ہوا ہے اور میدانِ عقبیٰ کا مشاہدہ - دل کے اندر قلب ، قلب کے اندر روح ، روح کے اندر سرّ اور سرّ کے اندر اسرار ہیں- دل وقلب و روح و سرّ اور اسرار میں نور حضور، معرفت قرب اللہ ہے ‘‘ - ﴿عین الفقر :۱۸۱﴾
حضرت سُلطان العارفین اپنا تجربہ و مُشاہدہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
ازل ابد چشمہٰ د ر چشم بر بینی بہ بین
عین را باعین بینم سجد ہ کرد م باجبین
’’ازل و ابد کے دونوں چشمے میری چشمِ بینا کے سامنے رہتے ہیں، مَیں جب بھی سجدہ ریز ہوتا ہوں عین ذات کو اپنے سامنے پاتا ہوں ‘‘ - ﴿عین الفقر :۷۶۲﴾
حضرت سُلطان العارفین کے نظامِ فکر میں بڑے تسلسل سے یہ بات پائی جاتی ہے کہ ذاتِ باری تعالیٰ کی طلبِ صادق رکھنے والوں کو یہ استطاعت بخشی جاتی ہے کہ وہ محبت کے آغاز کی لذّت و سرور سے مستفید و مستفیض ہوتے ہیں - وہ مقاماتِ ازل کا بھی مُشاہدہ کرتے ہیں :
ازل ابد نوں صحی کیتوسے ویکھ تماشے گزرے ھُو
چوداں طبق دلینْدے اندر آتش لائے حُجرے ھُو
جنہاں حق نہ حاصل کیتا اوہ دوہیں جہانیں اُجڑے ھُو
عاشق غرق ہوئے وِچ وحدت باھُو (رح) ویکھ تنہاندے مُجرے ھُو
حضور غوث الاعظم ارشاد فرماتے ہیں کہ:-
’’انسانِ خاص کا رجوع اپنے وطن کی طرف رہتاہے اور وہ ہے عالمِ لاہوت میں قربِ الٰہی جو نتیجہ ہے علمِ حقیقت کا اور یہ خالص توحید ہے - یہ مقام اُسے حیاتِ دُنیا ہی میں اُس کی عادت ﴿تصورِ اسم اللہ ذات ﴾ کے سبب حاصل ہوتا ہے جس میں اُس کا سونا اور جاگنا ایک جیسا ہو جاتا ہے بلکہ جب جسم سو جاتا ہے تودِل کو فرصت مل جاتی ہے اور وہ مکمل طورپر یا جزوی طور پر اپنے اصلی وطن ﴿لاہوت﴾ میں پہنچ جاتا ہے ‘‘ - ﴿سر الاسرار :۹۳﴾
صُوفیائے کرام کے کلام میں جہاں بھی ’’وطن‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اُس سے مُراد اُن کا وہ وطنِ اصلی و حقیقی ہوتا ہے جہاں سے اُن کی رُوح Belong کرتی ہے یعنی عالمِ لاہُوت اور مقامِ ازل ، جیسا کہ سیّدی غوث الاعظم پیرانِ پیر رضی اللہ عنہ کے درج بالا فرمان سے بھی ظاہر ہو رہا ہے - یا جیسا کہ حضرت سُلطان العارفین رحمۃ اللہ علیہ کے فرامین ابیاتِ باھُو میں ملتے ہیں:
ò حُب وطن دی غالب آئی ہک پل سووَن ناں دیندی ھُو
ò بنھ چلایا طرف زمیں دے عرشوں فرش ٹکایا ھُو
اسیں پردیسی ساڈا وطن دُراڈھا باھُو دَم دَم غم سوایا ھُو
ò ہکے لامکان مکان اساڈا ہکے آن بتاں وچ پھاسے ھُو
اِسی طرح جہاں صُوفیانہ شاعری میں بے وطن ہو جانے ، غریب الدیار ہوجانے یا پردیسی ہونے سے متعلق جو اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں اُن کا اِشارہ بھی اِسی جانب ہوتا ہے کہ ہم اصل مقیم تو اُس مقامِ ازل کے ہیں لیکن ہمیں امتحان کیلئے وہاں سے اِس ناسُوت میں بے وطن کیا گیا ہے -
ò جس دے کارن اساں جنم گنوایا باھُو اوہ یار ملے ہک پھیرا ھُو
ò گھر تھیں ملیا دیس نکالا اساں لکھیا جھولی پایا ھُو
ò شالا مُسافر کوئی ناں ہووے ککھ جنہاں تیں بھارے ھُو
تاڑی مار اڈاؤ نہ باھُو اسیں آپئی اُڈن ہارے ھُو
ò ہک پردیسی دوجھا نیوں لگایا تریجھا بے دردی دیاں ماراں ھُو
اِس سارے مضمون کا بیان بزرگانِ دین نے ایک بُنیادی بات انسان کو سمجھانے کیلئے کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اے انسان!اپنی قد رپہچان کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے تجھے اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے اورتیرا یہ شرف معرفتِ حق حاصل کرنے کی صلاحیت کے سبب ہی تو ہے - غفلت کا پردہ اُٹھا کر تو دیکھ کہ وہ تو تیری جان سے بھی قریب ہے - نفس امّارہ کو مغلوب تو کر خدائے برحق تجھے دو جہان پہ غالب کر دے گا - زندگی کی مختصر مہلت میں شوق الیٰ اللہ پیدا تو کر خدا تیرے عشق کا سلسلہ اَزل سے اَبد تک دراز کر دے گا - ضروریات ِ زندگی کی محبت سے ہاتھ کھینچ کہ رزق مقدر کر دیا گیا وہ تو تجھے مل کر رہے گا - خود کو بارگاہِ حق کے لیے مخصوص تو کر کائنات کو اپنے لیے پائے گا یعنی اللہ تعالیٰ نے کائنات کو انسان کے لیے پیدا کیا ہے مگر انسان کو اپنے لیے خاص بنایا ہے - حضور غوث الاعظم قدس اللہ سرہ ،ایک حدیث قدسی نقل فرماتے ہیں کہ:-
﴿کُنْتُ کَنْزاً مَخْفِیاًّ فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِیْ اُعْرِف ﴾
’’مَیں ایک مخفی خزانہ تھا، مَیں نے چاہا کہ میری پہچان ہو ، پس مَیں نے اپنی پہچان کے لیے مخلوق کو پید اکیا ‘‘ -
آپ قدس اللہ سرہ ،مذکورہ حدیث قدسی کی شرح میں فرماتے ہیں :-
’’لہٰذا یہ حقیقت توکھل کرسامنے آگئی کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو محض اپنی معرفت و پہچان کے لیے پیدا فرمایا ہے ‘‘ - ﴿سرالاسرار:۷۲﴾
معرفتِ الٰہی کے جملہ مراتب مرشد کامل کی رہنمائی و رہبری کے بغیر ہاتھ نہیں آتے - یہ کسب نہیں عطا ہے اس لیے جب نگاہِ مرشد سے اسم اللہ ذات طالب فقیر کے دِل میں جاگزین ہو جائے تو اسم اللہ ذات ایک شفاف آئینہ بن جاتا ہے -حضرت سلطان باھُو فرماتے ہیں کہ (رح):-
’’بعض طالبوں کو تصورِ اسمِ اللہ ذات سے ایسا نظر آتا ہے گویا کہ اُن کے سامنے ایک آئینہ ہے جس میں وہ حرمِ کعبہ کو دیکھ رہے ہیں بلکہ اُس آئینہ میں تجلیات ِ شمس و قمر ، تماشائے میدانِ ازل ، تماشائے میدانِ حشر اور روضے کی شکل کا بہشتی دروازہ دکھائی دیتا ہے جس پر کلمہ طیب لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ لکھا ہوا ہے اور وہ تفکر سے کلمہ طیب کا ذکر کرتے ہیں بلکہ وہ اسمِ اَللّٰہُ کے آئینے میں ہمہ قسم تماشا دیکھتے ہیں ‘‘ - ﴿محک الفقر :۱۹۱﴾
حضور غوث الاعظم قدس اللہ سرہ ،فرماتے ہیں کہ :-
’’پس انسان پر واجب ہے کہ وہ اہل بصیرت کی راہنمائی حاصل کرے اور عالم لاہوت کے عارف ولیٔ مرشد کی تلقین سے چشمِ بصیرت وا کرے --- راہِ طریقت اختیا رکرو اوراُن رُوحانی قافلوں میں شامل ہو کر اپنے ربّ کی طرف رجوع کرو کہ عنقریب اِس جہان کا راستہ منقطع ہو جائے گا اور تمہیں کوئی ساتھی نہ ملے گا- ہم نہ تو اس خرابہ دُنیا میں مستقل قیام کے لیے آئے ہیں اورنہ محض کھانے پینے اورخبیث نفسانی مہمات سرکرنے آئے ہیں‘‘ - ﴿سرالاسرار:۵۲﴾
عصرِ حاضر میں اصلاحی جماعت مذکورہ رُوحانی قافلوں کے تمام تقاضے پورا کرتی نظر آ رہی ہے- وارث فیض ِباھُو، شہبازِ عارفاں حضرت سلطان محمد علی صاحب کی رفاقت و رہنمائی میں، اسم اللہ ذات کو سینوں میں سجا کر، قرآن وسنت کا پرچار اور معرفتِ الٰہی کی دعوت دے رہی ہے-
اَزل واَبد کے دوکناروں کے درمیان زمان و مکان پہ مشتمل ہماری یہ کائنات رواں دواں ہے -وہ زمانہ کہ جس کی کوئی اِبتدا نہ ہو یعنی مخلو ق کی پیدائش کے وقت سے پہلے کادَور اَزل کہلاتا ہے اور جس زمانے کی کوئی اِنتہا نہ ہو اُسے اَبد کہا جاتا ہے - انسان اپنی پیدائش سے قبل بھی اللہ تعالیٰ کے حضور ایک زندگی گزار کر آیا ہے اور اپنی موت کے بعد بھی اُسے ایک نئی زندگی گزارنا ہے - جسے علامہ اقبال نے یوں واضح کیا تھا ﴿ازل اِس کے پیچھے ابد سامنے - نہ حد اِس کے پیچھے نہ حد سامنے﴾ - انسان کی ظاہری عمر پیدائش سے لے کر موت تک ہے لیکن انسانی رُوح کا سفر اَزل سے شروع ہو کر اَبد تک جاتا ہے - غافل ہے وہ انسان جو اپنی ظاہری زندگی کو حرفِ آخر سمجھ کر اِسی پہ قناعت کر لیتا ہے –
قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بو پر
چمن اَور بھی آشیاں اَور بھی ہیں
اِسی روز و شب میں اُلجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اَور بھی ہیں
ایسا اِس لیے ہے کہ انسان اپنی رُوح سے بے خبر ہو جاتا ہے اور رُوحانی مقاصد سے ناآشنا رہتا ہے -اِس لیے دِین اسلام نے ایسے انسانوں کو سخت وعید سنائی جو اُخروی زندگی پہ یقین نہیں رکھتے -خوش بخت ہے وہ انسان جو اپنی مختصر سی ظاہری حیات میں واقعاتِ ازل کو مدِ نظر رکھتا ہے اورعرفانِ ذات کا رُوحانی مقصد حاصل کرتا ہے کہ جس کے لیے اُسے دُنیا کے کمرۂ امتحان میں بھیجا گیا - حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرہ، فرماتے ہیں کہ :-
اے عزیز ! انسان وہ ہے جو قدم ازل پر اور نظر حساب گاہِ قیامت پر رکھتا ہے ، دنیا کو رات سمجھتا ہے اور دنیامیں مسافر کی طرح رہتا ہے- دنیا کافروں کے لئے جنت و جمعیت کا مقام ہے -دنیا آرائش و آسائش کی جگہ نہیں بلکہ امتحان و آزمائش کی جگہ ہے - تجھے دنیا پسند ہے یا خدا پسند ہے ؟ تجھے دنیا پسند ہے یافقرِ محمدی صلی اللہ علیہ و آلہٰ و سلم پسند ہے ؟ ﴿ امیر الکونین :۹۱۱﴾
انسان اپنی پیدائش سے قبل ایک زمانہ اللہ تعالیٰ کی معیت میں گزار چکا ہے تصوف کی اِصطلاح میں اُس دور کو زمانۂ اَلست کہتے ہیں -اُس وقت اسم اللہ ذات متجلی تھا اورانوار کی بارش میں انسان کااپنے خداسے عشق عروج پہ تھا-
عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جس کانہیں کوئی نام
محبتِ الٰہی سے سرشار انسانی اَرواح ٹِکٹِکی باندھ کراسم اللہ ذات کو تکتی رہتی تھیں اوراللہ تعالیٰ کی اُلفت کادم بھرتی تھیں -اسم اللہ ذات سے پھوٹنے والے اَنوار انسانی اَرواح کی غذا تھے - اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کی صدا ئے حق سنائی دی تو اَرواح نے قالُوا بلٰی پکار کر خدا کی ربوبیت کی گواہی دی - اللہ تعالیٰ نے انسان کے دعوٰیٔ عشق کو پرکھنے اورقرب کے مزید بلند درجات پہ فائز کرنے کے لیے انسانی اَرواح کو قفسِ عنصری میں مقید کر کے عالمِ ناسوت کے کمرۂ آزمائش میں بھیجا -حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ :-
’’فقرأ اُسی دن سے مست چلے آ رہے ہیں کہ جس دن اُنہوں نے اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ﴿ کیا مَیں تمہارا ربّ نہیں ہوں ؟ ﴾کی آواز سن کر ’’ بَلٰی‘‘ کہا تھا - جیسی کیفیت اُن کی اُس وقت تھی ویسی ہی اب ہے کہ اُنہوں نے دنیا کا منہ دیکھا ہی نہیں ‘‘- ﴿محک الفقر:۵۶۲﴾
حضور غوث الاعظم قدس اللہ سرہ ،فرماتے ہیں کہ :-
’’پھر جب ارواح کا تعلق اجسام سے قائم ہو گیا اور وہ اجسام سے مانوس ہو گئیں اور اُس قول وقرار کو بھول گئیں جو اُنہوں نے میثاق کے دن اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کے جواب میں قَالُوْ ا بَلٰی کہہ کر اللہ تعالیٰ سے کیا تھا تو اُن کا رجوع اپنے اصلی وطن کی طرف نہ رہا -اِس پر اللہ رحمن المستعان نے اُن پر رحم کیا اور اُن پر آسمانی کتابیں نازل فرما کر اُنہیں اُن کے اصلی وطن کی یاد دلائی جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے - : ’’ اور یاد دلائیں اُنہیں وہ ایامِ الٰہی‘‘- یعنی وہ ایامِ وصال جو وہ معیت ِحق تعالیٰ میں گزار چکے تھے - جملہ انبیائے کرام اِسی یاد دہانی کے لئے دنیا میں تشریف لائے --- حتیّٰ کہ سلسلۂ نبوت خاتمِ رسالت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روحِ اعظم تک پہنچا جنہیں اللہ تعالیٰ نے غفلت و گمراہی میں پڑے ہوئے لوگوں کی راہنمائی کے لئے ہادی بنا کر بھیجا تاکہ اُنہیں خوابِ غفلت سے جگا کر اُن کی چشمِ بصیرت کو روشن کریں - پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے اُنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا اور اُس کے دیدار و وصال اور جمالِ ازلی کی طرف متوجہ کیا‘‘ - ﴿سرالاسرار:۳۲﴾
اَلَسْت ُبِرَبِّکُمْ سنیا دل میرے، نِت قالُوا بلےٰ کو کیندی ھُو
حب وطن دی غالب ہوئی، ہک پل سو ن نہ دیندی ھُو
قہر پووے تینوں رہزن دنیا توں تاں حق دا راہ مریندی ھُو
عاشقاں مول قبول نہ کیتی باھُو تونے ط کرکر زاریاں روندی ھُو
حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرہ ،اس امر کے بارے میں مزید فرماتے ہیں کہ :-
’’ایمان کی دوسری جزو رجایہ ہے کہ صاحب ِعیان مقامِ ازل میں داخل ہو جائے اور اہل ِایمان کی صف میں کھڑاہوکر اَلَسْتُ بِرَ بِّکُمْ ﴿کیا مَیں تمہار ا ربّ نہیں ہوں؟﴾ کی آواز سنے اور اُس کے جواب میں اخلاص و محبت سے قَالُوْا بَلٰی کہہ کر مسلمانِ حقیقی بن جائے تا کہ اُس کی روح فرحت یاب ہواور اُس پر علمِ معرفت ِ توحید کھل جائے اور وہ ہمیشہ معیت ِ خداوندی میں مستغرق رہے - یہ ہیںمراتب اہل ِ رجااولیا ٔ اللہ کے ‘‘ - ﴿امیرالکونین:۳۵۱﴾
اَزل سے اَبد تک ہزار ہانظریات منصہ شہود پہ آئیں گے اوراُن کے زیرِ اثر ان گنت تہذبیں معرکہ آراہوں گی لیکن معرفت حق تعالیٰ کانصاب ہمیشہ ایک رہے گااورعشاق وحدانیت حق کی لگن میں جذبۂ عرفانِ ذات میں مگن رہیں گے - آپ قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ :-
’’معرفت ِ اِلٰہی کی راہ صرف اڑھائی قدم ہے کہ طالب ایک قدم ازل سے اُٹھاتا ہے اور دنیا میں رکھ دیتا ہے اور دوسرا قدم دنیا سے اُٹھاتا ہے اور عقبیٰ میں رکھ دیتا ہے جہاں وہ عرصہ گاہِ قیامت کے پل ِصراط سے گزر کر بہشت میں داخل ہو جاتا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے -: ’’ پس میرے پسندیدہ بندوں میں شامل ہو کر میری جنت میں داخل ہو جا ‘‘- پھر وہ عقبیٰ سے قدم اُٹھاتا ہے اور آدھے قدم پر لقائے ربّ العٰلمین سے مشرف ہو جاتا ہے - یہ آدھا قدم وہ آدمی اُٹھا سکتا ہے جو اپنے نفس کو قتل کر کے تیغِ ہمت سے رازِ ربّ کو دو نیم کر دے کہ راز بہتر ہے ریاضت سے‘‘ - ﴿محک الفقر:۹۳۱﴾
یہ حقیقت ہے کہ انسان اَزل سے سفر کرتا ہوا اس دُنیا کے کمرۂ امتحان میں پہنچا ہے لیکن اس مختصر ظاہری حیات کے نتائج اُس کی اُخروی زندگی پہ مرتب ہوں گے -یوں کہاجاسکتا ہے کہ یہ ظاہری حیات مختصر ہونے کے ساتھ انسان کے لیے اہم ترین بھی ہے- انسا ن کواِس دُنیا میں اِسی لیے بھیجا گیاکہ وہ معرفتِ حق تعالیٰ کے تسلسلِ اَزل کو نہ صرف برقرار رکھے بلکہ ہر لحظہ قرب کے درجات میں عروج کی جانب گامزن بھی رہے - انسان کو عالم ناسوت میں صرف اس بنا پہ مشکل پیش آتی ہے کہ یہاں پہ حقیقت کو پردوں میں چھپا دیا گیا ہے- طائر لاہوتی ﴿رُوح ﴾ کوقفس عنصری ﴿جسم﴾میں مقید کیا گیا ہے اور رُوح کے مرکز فواد میں درجات قرب کوپنہاں کر دیا گیا ہے - کامل انسان وہ ہے جو اسباب دُنیا میں رہ کر بھی عشقِ الٰہی کا ساز و سامان پیدا کر لیتا ہے کیونکہ عشقِ الٰہی رُوح کی ضرورت ہے اور یہ قلب کو ماسویٰ اللہ سے پاک کر دیتا ہے - اگر قلب و رُوح پاک ہو جائیں تو یہ ظاہری زندگی بھی واقعاتِ الست کا آئینہ بن جاتی ہے اور جو اس آئینے میں جھلکے گا وہی انسان کو اُخروی زندگی میں نصیب ہو گا - اگر اس آئینہ میں معرفتِ حق کے جلوے موجود ہیں تویقینا اُخروی زندگی میں قربِ ذات کے مراتب حاصل ہوں گے- آپ قدس اللہ سرہ ،فرماتے ہیں کہ :-
’’سب سے پہلے دل کی تحقیق و معائنہ ضروری ہے کہ دل کے ارد گرد چار میدان ہیں پہلے اُن کا مشاہدہ کیا جائے چنانچہ میدانِ ازل کا مشاہدہ ، میدانِ ابد کا مشاہدہ، میدانِ طبقات کا مشاہدہ جو عرش سے تحت الثریٰ تک پھیلا ہوا ہے اور میدانِ عقبیٰ کا مشاہدہ - دل کے اندر قلب ، قلب کے اندر روح ، روح کے اندر سرّ اور سرّ کے اندر اسرار ہیں- دل وقلب و روح و سرّ اور اسرار میں نور حضور، معرفت قرب اللہ ہے ‘‘ - ﴿عین الفقر :۱۸۱﴾
حضرت سُلطان العارفین اپنا تجربہ و مُشاہدہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
ازل ابد چشمہٰ د ر چشم بر بینی بہ بین
عین را باعین بینم سجد ہ کرد م باجبین
’’ازل و ابد کے دونوں چشمے میری چشمِ بینا کے سامنے رہتے ہیں، مَیں جب بھی سجدہ ریز ہوتا ہوں عین ذات کو اپنے سامنے پاتا ہوں ‘‘ - ﴿عین الفقر :۷۶۲﴾
سوشل میڈیا پر شِیئر کریں