پس مقامِ ازل و مقامِ ابد و مقامِ دنیا و مقامِ عقبیٰ سب مقاماتِ ظلمات ہیں، اگرچہ اِن میں زندگی کی آب و تاب ہے لیکن انجام اِن کا فنا ہے سوائے معرفتِ اِلَّااللّٰہُ ذات کے- عارف وہ ہے جو اِس ظلمت کدے کی لذّات سے منہ موڑ کر لذّاتِ معرفت ِ ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ حاصل کرلے اور وحدانیت ِذات میں غرق ہو جائے- یہ ہیں مراتب ِ خواص کہ وہ معرفت ِالٰہی کے روشن نور تک پہنچتے ہیں- بندے کے لئے اِس سے بہتر مرتبہ اور کوئی نہیں کہ وہ اللہ کی طرف رجوع کر لے اور دین و دنیا کے تمام معاملات اللہ کے سپرد کر دے-فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
’’مَیں اپنے تمام معاملات اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں، بے شک وہ اپنے بندوں کی خبر گیری کرنے والا ہے‘‘-
عارف کو معرفت ِالٰہی تک پہنچنے کیلئے سات مراتب سے گزرنا پڑتا ہے- پہلا مرتبہ نفیٔ لَآاِلٰہَ ہے دوسرا مرتبہ اثباتِ اِلَّااللّٰہُ ہے- تیسرامرتبہ تصدیق ِدل کے ساتھ ’’ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کا اقرار ہے- چوتھا مرتبہ آیاتِ قرآن کی تلاوت ہے، پانچواں مرتبہ دعائے سیفی کا پڑھناہے- چھٹا مرتبہ اسمِ اعظم اور اللہ تعالیٰ کے تمام اسمائے حسنیٰ کا وردہے اور ساتواں مرتبہ وحدانیت ِاسمِ اللہ ذات میں غرق ہونا ہے - یہ سات خزانے ہیں اور ہر خزانے سے مزید ستر خزانے منکشف ہوتے ہیں- ’’ اٰ مَنَّا وَ صَدَ قْنَا ‘‘ ماسویٰ اللہ پر ایمان لانا کفر ہے –
جو شخص دعوت پڑھنے کے انتہائی مرتبے پر پہنچ جاتا ہے وہ عامل کامل عارف باللہ ہو جاتا ہے، چنانچہ اُس کی نظر کامل ہوجاتی ہے، اُس کی زبان سے نکلا ہوا ہر حرف اللہ تعالیٰ کی کامل تلوار ہوتا ہے، ابھی وہ کسی کام کے لئے لب ہی ہلا رہا ہوتا ہے کہ بارگاہِ الٰہی سے وہ کام ہو جاتا ہے- فرمایا گیا ہے:’’زبانِ فقرأ سیف الرحمن ہوتی ہے‘‘- عارفوں کی زبان اُس وقت تک سیف ِرحمن نہیں بنتی جب تک کہ وہ ترتیب ِخواندگی جان کر صاحب ِدعوت نہ بن جائیں اور کسی ولی اللہ کی قبر کی ہم نشینی میں دعائے سیفی نہ پڑھ لیں-
ابیات: (۱)’’ شہسوارِ قبر کامل فقیر ہوتا ہے، شہسوارِ قبر ملک گیر عالم ہوتاہے‘‘-
(۲)’’ جسے دعوت ِقبور پڑھنے پر قدرت حاصل ہو جائے وہ اہل ِحضور ہو جاتا ہے‘‘-
(۳)’’جو شخص دعوتِ قبور پڑھنا جان لیتا ہے وہ زیر و زبر کی ہر حقیقت سے واقف ہو جاتا ہے‘‘-
(۴)’’ علمِ دعوت ایک ننگی تلوار ہے جس سے فنا فی اللہ فقیر موذیوں کو قتل کرتے ہیں‘‘-
جب کوئی شخص قبر پر سوار ہو کر قرآن مجید پڑھتا ہے تو کلام الٰہی کی برکت سے صاحب ِقبر روحانی کا مرتبہ بڑھ جاتا ہے اور جب کوئی شخص کسی ولی اللہ کی قبر پر قرآن پڑھتا ہے تو اُس کا یہ عمل دریا کی طرح جاری ہو جاتا ہے جو قیامت تک رکتا نہیں-
(جاری ہے)