شریعت ، طریقت، معرفت و حقیقت: تعلیماتِ غوثیہ و سلطانیہ کی روشنی میں

شریعت ، طریقت، معرفت و حقیقت:  تعلیماتِ غوثیہ و سلطانیہ کی روشنی میں

شریعت ، طریقت، معرفت و حقیقت: تعلیماتِ غوثیہ و سلطانیہ کی روشنی میں

مصنف: لئیق احمد جنوری 2024

اللہ تعالیٰ کی معرفت اور قرب و وصال انسان کی زندگی کا مقصود اور انتہائے مطلوب ہے- سلوک و تصوف میں عشق الٰہی و قرب الٰہی کے حصول کیلئے مختلف درجات ہیں- شریعت اُس کا ابتدائی درجہ ہے- طریقت، حقیقت اور معرفت درمیانی درجے ہیں اور فقر (وَحدت) اُس کی اِنتہا ہے- روح اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے آئی ہے اور اسے وہیں رجوع کرنا ہے- جسم اور روح شریعت کا پاک لباس زیب تن کرے، طریقت کی مہک سے خود کو معطر کرے، حقیقت کی عینک پہن کر عین عیاں ہو، معرفت کا پھل کھا کر توانا ہو تاکہ وہ فقر حاصل کر سکے اور فقر عین وحدت ذاتِ حق تعالیٰ ہے- یہ مرتبے رتبے دائرے سب کچھ شریعت سے شروع ہوتے ہیں اور شریعت کے دائرے ہی میں رہتے ہیں- اگر کوئی شریعت سے لاتعلقی کا اظہار کرے تو وہ کاذب جھوٹا ہے کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھو (﷫) اپنے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:

ہر مراتب از شریعت یافتم
پیشوائے خود شریعت ساختم[1]

’’میں نے ہر مرتبہ شریعت سے حاصل کیا اور شریعت کو اپنا پیشوا و رہبر بنایا ‘‘-

امام ربانی شیخ السرہندی المعروف مجدد الف ثانی (﷫) ان مراتب کے حوالے سے بیان کرتے ہیں:

’’شریعت مطہرہ کشتی کی طرح ہےاور طریقت دریا کی طرح ہےاور حقیقت صدف کی طرح ہےاور معرفت موتی کی طرح ہےپس جوشخص موتی لینے کا ارادہ رکھتا ہےاسے شریعت کی کشتی میں سوار ہو کرطریقت کے دریا میں اترنا ہوگاتب موتی حاصل کرے گا اور جس نے اس ترتیب کو چھوڑ دیاہر گز موتی نہ پائیگا‘‘- [2]

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان حنفی قادری (﷫)نے ان چاروں درجات کو یوں بیان فرمایا ہے:

’’شریعت،طریقت،حقیقت،معرفت میں کوئی آپس میں مخالفت نہیں اس کا مدعی اگر بے سمجھے کہے تو نرا جاہل ہے اور اگر سمجھ کر کہے تو گمراہ، بددین-شریعت حضور اقدس (ﷺ) کے اقوال ہیں، طریقت حضور (ﷺ)کے افعال، حقیقت حضور (ﷺ) کے احوال اور معرفت حضور کے علوم بے مثال- ’’صلی ﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ واصحابہ الی ما یزال‘‘ [3]

امام اسماعيل بن محمد الجراحی (﷫) اپنی تصنیف میں ان مراتب کی سادہ انداز میں تشریح کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں:

’’شریعت میرے اقوال ہیں، طریقت میرے اعمال ہیں،حقیقت میرا حال ہے اور معرفت میرا اصل سرمایہ ہے‘‘-[4]

شریعت نے انسان کیلئے ایک مکمل ضابطہ پیش کیا ہے- اسے صوفیاء کرام نے یوں سمجھایا ہے کہ جس طرح حکومت کا ہر فرمان دارالسلطنت سے جاری کیا جاتا ہے بعین اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ہر حکم شریعت کے ذریعے موصول ہوتا ہے اور تبھی حکم و قانون کی حیثیت رکھتا ہے-اسی لئے ہر مقام و مرتبہ شریعت میں ہے اور اس سے باہر کچھ نہیں- شرعی احکامات کی رسائی بذریعہ قرآن اور صاحبِ قرآن ہوئی اس لئے شریعت کو قرآن کریم اور جناب رسول اللہ (ﷺ) سے شرف ملا ہے- اس لئے شریعت کا رد کرنا راہِ کفر ہے-

طریقت کو آسان الفاظ میں اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ جب مسلمان کلمہ طیب پڑھتا ہے تو وہ شریعت کا حکم مکمل کرلیتا ہےاور مسلمان بنتا ہے لیکن جب شعور کی حکمت و دانش کی بدولت ایمانی قوت کو حاصل کرنے کی تگ و دو کرتا ہے اور دل سے کلمہ طیب کی تصدیق کرتا ہے تو وہ دراصل طریقت کے مرتبے پر فائز ہوجاتا ہے- باطنی کدورتوں اور نفسانی خواہشات کا تدارک کرکےوہ باطن صفا ہوجاتا ہے- طریقت میں رہنمائی کیلئے شیخ ہادی رہنما کی صحبت ضروری ہوتی ہے- جیسا کہ مجدد الف ثانی (﷫) فرماتے تھے کہ مَیں نے ہر مقام پر حضرت خواجہ نقشبند (﷫) کواپنے ہمراہ پایا حالانکہ حضرت خواجہ اس دنیا سے رحلت فرماچکے تھے-

جب بندہ مومن طریقت میں استقامت حاصل کرلیتا ہے تو پھر وہ افعال و اقوال سے آگے بڑھ کر حال یعنی حقیقت کی جانب بڑھتا ہے- قلبِ مومن میں خشیتِ الٰہی کی واردات ہوتی ہیں اور وہ مشاہداتِ غیبی میں محو رہتا ہے-یہ وہ مقام و مرتبہ ہے کہ جہاں تعلیم و تلقین کے امتزاج سے بندہ قلبِ سلیم پالیتا ہے-علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین میں بدل جاتے ہیں-

ہر شے کی حقیقت، ایقان و الہام اور کشف و کرامات سے باز آکر جب مقصود و مطلوب ذاتِ خداوندی کی معرفت اور مقامِ مطمئنہ و راضیہ و مرضیہ ہو تو انسان کا وجود مکمل طور پر عشقِ الٰہی میں مستغرق ہوجاتا ہے-اسے دولتِ یقین حاصل ہوجاتی ہے اور وہ ’’لَا مَقْصُوْدَ اِلَّا ھُوْ‘‘اور’’اَللہُ بس ماسویٰ اللہ ہوس ‘‘ کی صدائیں بلند کرتا ہے- یہ عارف و معارف کا مقام ہے جسے معرفت کہتے ہیں- جب مقامِ معرفت کسی کا نصیبہ بن جاتا ہے تو وہ بفضلِ الٰہی دنیا و مافیہا سے بیزار ہوکر خالصتاً ہر عمل فقط اللہ تعالیٰ کی خاطر انجام دیتا ہے- اس کا جینا اور مرنا اللہ کے لئے ہوتا ہے-اسے اللہ کے سوا کسی سے بھی غرض نہیں رہتا-

المختصر اس مقالہ میں شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کے ربط کو پیران پیر دستگیر محی الدین سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی (﷫) کی تصنیف لطیف ’’سر الاسرار‘‘ اور سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو (﷫) کی تصنیف لطیف ’’عین الفقر‘‘ کے اقوال سے پیش کیا جائے گا - نیز انہی اقوال کو زیر بحث لا کر استدلال قائم کیا جائے گا- جن میں ان چاروں درجات کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہو-

تعلیماتِ غوثیہ و تعلیماتِ سلطانیہ میں مراتبِ تصوف کا جائزہ: 

 

 

حضور غوث پاک اپنی تصنیف لطیف سرا لاسرار فی مایحتاج الیہ الابرار کی بابت بیان کرتے ہیں:

’’ہم نے اس کا نام”سِرُّالْاَسْرَارِ فِیْمَا یَحْتَاجُ اِلَیْهِ الْاَبْرَارِ“ رکھا ہے کیونکہ ہم نے اِس میں اُن مسائلِ شریعت و طریقت و حقیقت کا ذکر کیا ہے جن کی عموماً جستجو رہتی ہے‘‘- [5]

شریعت، طریقت، حقیقت و معرفت مراتب ہیں جن کے ذریعے فقر کو پایا جاتا ہے - فقر دنیا و مافیہا سے لایحتاج ہو کر کامل تکمیلِ توکل الی اللہ اور قرب و وصال اللہ ہے- سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو(﷫) فرماتے ہیں:

’’سن! فقیر باھُو کہتا ہے کہ فقر کے تین حروف ہیں، فقہ کے بھی تین حروف ہیں، علم کے بھی تین حروف ہیں، عمل کے بھی تین حروف ہیں، حلم کے بھی تین حروف ہیں اور حلیم اللہ تعالیٰ کا نام ہے، اِن سب کو ملا کر یکجا کر دے اور شریعت کے پانی میں گھول کر اِس میں طریقت و معرفت و حقیقت اور عشق و محبت ملادے اور پھر پیالہ بھر کر پی لے، اِس کے بعد میدانِ فقر میں قدم رکھ اور ہر دو جہان کو بھول جا- اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس‘‘- [6]

ان مراتب میں مرشد و ہادی کی اہمیت مقدم ہے جسے آپ (﷫) نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:

’’اگر کوئی ریاضت کرنا چاہتا ہے تو اُسے چاہیے کہ 12 سال تک شریعت میں ریاضت کرے اور ہمیشہ قائم اللیل اور صائم الدہر رہے، پھر 12 سال تک طریقت میں ریاضت کرے اور غیر ماسویٰ اللہ کو تین طلاق دے دے اور پھر 12 سال تک حقیقت میں ریاضت کرے اور طلبِ حق کے سوا اور کوئی طلب دل میں نہ رکھے- اِس کےبعد 12 سال تک معرفت میں ریاضت کرے اور ہر وقت معرفتِ حق سبحانہ ٗ وتعالیٰ میں غرق رہے تو تب کہیں جا کر وہ مقامِ عشق و محبت میں پہنچے گا اور اُس کی دل کی آنکھ کھل کر ظاہروباطن کا مشاہدہ کرے گی لیکن مرشدِکامل کے بغیر اگر تمام عمر بھی سنگِ ریاضت سے پھوڑتا رہے تو کوئی فائدہ نہ ہو گا کہ مرشد کی راہنمائی کے بغیر کبھی کوئی خدا تک نہیں پہنچتا کیونکہ مرشدِ کامل جہاز کے دیدہ بان معلم کی مثل ہوتا ہے جو جہاز رانی کے ہر علم و آفت سے واقف ہوتا ہے- جہاز پر اگر کوئی جہاز ران نہ ہو تو جہاز غرق ہو جاتا ہے- مرشدِ کامل خود ہی جہاز اور خود ہی جہاز ران ہوتا ہے- اِس رمز کو کوئی صاحبِ فہم ہی سمجھتا ہے-[7]

دنیا میں دو تصور ہیں ایک حق اور ایک باطل، دو گروہ ہیں ایک رحمانی ایک شیطانی ایسے ہی دو رخ ہیں ایک ظلمات و نار اور ایک نور- تصوف کے مراتب انسان کو باطل اور شیطان سے پرے کرکے حق کی جانب لاتے ہیں اور وہ نور کی لپیٹ میں آجاتا ہے-اسی فلسفہ کو تعلیماتِ سلطانی میں یوں بیان کیا گیا ہے:

 

 

’’پہلی تجلی شریعت کی ہے جس کا تعلق چشمِ ظاہر سے ہے اور اُس کا ظہور پیشانی پر ہوتا ہے- دوسری تجلی طریقت کی ہے جس سے نورِ قلب پیدا ہوتا ہے- تیسری تجلی حقیقت کی ہے جس سے نورِ روح پیدا ہوتا ہے، چوتھی تجلی معرفت کی ہے جس سے نورِ سرّ پیدا ہوتا ہے‘‘-[8]

ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:

’’تجلی اہلِ شریعت کے چہرے پر چمکتی ہے، اہلِ طریقت کے دل میں چمکتی ہے، اہل حقیقت کی آنکھوں میں چمکتی ہے اور اہلِ معرفت کے سر سے قدم تک تمام وجود میں چمکتی ہے‘‘- [9]

ان مراتب و مقامات کے عروج پر بندہ مومن حضور رسالتِ مآب (ﷺ) کی نگاہِ کرم اور خصوصی کرم کو بتدریج پاتا ہے-اسی جانب اشارہ فرماتے ہوئےپیرانِ پیر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی (﷫)نے فرمایا:

’’حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:”جس نے مجھے دیکھا (خواب میں) اُس نے سچ مچ مجھے ہی دیکھا کہ شیطان میری مثل نہیں بن سکتا "اور نہ ہی اُس کی مثل بن سکتا ہے جس نے شریعت و طریقت و معرفت و حقیقت و بصیرت کے نور سے حضور نبی کریم (ﷺ) کی اتباع کی“-[10]

اسی طرح حضور سلطان صاحب بیان فرماتے ہیں:

’’جسے مقامِ شریعت میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس کی حضوری حاصل ہے اُسے مقامِ طریقت میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس کی حضوری کے احوال کی کیا خبر ؟ جسے مقامِ طریقت میں حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی مجلس کی حضوری حاصل ہے اُسے مقامِ حقیقت میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس کی حضوری کے احوال کا کیا خبر؟ جسے مقامِ حقیقت میں حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی مجلس کی حضوری حاصل ہے اسے مقامِ معرفت میں حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی مجلس کی حضوری کے حالات کیا معلوم ؟ ‘‘[11]

الغرض! یہ چاروں مراتب و مقامات طے کرکے اسرارِ الٰہی کا حصول کرنا مقصود ہے اور اسے صوفیاء کرام نے آسان مثال کے ذریعےسمجھایا ہے- سیدی غوث الاعظم (﷫) فرماتے ہیں:

’’پس ہمارے لئے دو قسم کا علم نازل کیا گیا ہے - ایک علمِ ظاہر ہے اور دوسرا علمِ معرفت- شریعت کا علم ہمارے ظاہر کو سنوارتا ہے اور معرفت کا علم ہمارے باطن کو- ان دونوں علوم کے اجتماع کا نتیجہ علمِ حقیقت ہے جیسا کہ درخت اور پتوں کے اجتماع کا نتیجہ پھل ہے‘‘- [12]

اسی متعلق ایک فرمانِ  مبارکہ کو نقل فرماتے ہیں:

’’علمِ ظاہر کی 12 اقسام ہیں اور علمِ باطن کی بھی 12 اقسام ہیں جنہیں عوام و خواص میں اُن کی استعداد و قابلیت کے مطابق تقسیم کیا گیا ہے اور اُن کے 4ابواب ہیں- بابِ اوّل شریعت کے ظاہر سے متعلق ہے جس میں اوامر و نواہی اور جملہ احکامِ شریعت کو زیرِ بحث لایا گیا ہے- بابِ دوم میں شریعت کے باطن پر بحث کی گئی ہے جسے مَیں نے علمِ باطن و طریقت کا نام دیا ہے- بابِ سوم کا موضوعِ سخن بھی علمِ باطن ہی ہے جسے میں نے علمِ معرفت کا نام دیا ہے اور باب چہارم کا موضوع جملہ بطون کا بطن ہے جسے میں نے علمِ حقیقت کا نام دیا ہے- اِن تمام علوم کا حاصل کرنا نہایت ضروری ہے جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے: ”شریعت ایک درخت ہے، طریقت اُس کی ٹہنیاں ہیں، معرفت اُس کے پتے ہیں، حقیقت اُس کا پھل ہے اور قرآن اِن سب کا جامع ہے جس کی تفسیر یا تاویل میں اِن سب کے لئے دلائل و اشارات موجود ہیں ‘‘- [13]

ایک مقام پر مزید مفصل انداز میں فرماتے ہیں:

’’( یاد رہے کہ) عالم چار ہیں : عالمِ ملک ، عالمِ ملکوت ، عالمِ جبروت اور عالمِ لاہوت - اِسی طرح علوم بھی چار ہیں: علمِ شریعت،  علمِ طریقت، علمِ معرفت اور علمِ حقیقت - ارواح بھی چار ہیں: روحِ جسمانی، روحِ نورانی، روحِ سلطانی اور روح قدسی - تجلیات بھی چار ہیں : تجلیٔ آثار، تجلیٔ افعال، تجلیٔ صفات اور تجلیٔ ذات - عقل بھی چار ہیں : عقلِ معاش، عقلِ معاد، عقلِ روحانی اور عقل کل- مذکورہ بالا چاروں عالم، چاروں علوم، چاروں ارواح، چاروں تجلیات اور چاروں عقول کے مقابلہ میں بعض لوگ تو محض دائرہ اوّل، روحِ اوّل، تجلیٔ اوّل اور عقلِ اوّل کے ما حاصل پہلی جنت یعنی جنت الماویٰ میں مقید ہیں - بعض دائرہ دوم کی جنتِ دوم یعنی جنت النعیم میں قید ہیں، بعض دائرہ سوم کی جنت الفردوس میں مقید ہیں- یہ تمام لوگ اشیاء کی حقیقت سے غافل و بےخبر ہیں لیکن اہلِ حق فقرائے عارفین اِن تمام مقامات و درجات سے فرار ہو کر عالمِ حقیقت و قرب میں جا پہنچے - وہ اللہ کے سوا کسی چیز کے قیدی نہ بنے ‘‘-[14]

اسی طرح سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒنے فرمایا:

’’حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کا فرمان ہے: ’نماز مومنوں کی معراج ہے‘- یہ مقام شریعت ہے اور مقامِ شریعت چاہِ رواں کی مثل ہے، مقام ِ طریقت بادل کی مثل ہے، مقامِ حقیقت بارانِ رحمت کی مثل ہے، مقامِ معرفت آب جو کی مثل ہے اور مقامِ عشق و محبت فنا فی اللہ دریائے عمیق کی مثل ہے- دریائے عمیق میں جس قدر بھی بول و براز و نجاست گرتی رہے وہ ناپاک نہیں ہوتا- اگر اُس سے ہزار ہا نہر نالے نکال لئے جائیں تو اُس میں کمی نہیں آتی - اگر ہزار نالہ کسی نہر میں گرا دیا جائے تو وہ دریا بن جاتا ہے- شریعت دروازۂ اوّل ہے، طریقت دروازۂ دوم ہے، حقیقت دروازۂ سوم ہے، معرفت دروازۂ چہارم ہے اور مقامِ عشق و محبت خانۂ یگانہ ہے- جو آدمی مقامِ شریعت و طریقت و حقیقت و معرفت طے کر لیتا ہے وہ

 

محض دربان ہے اور حق سے بیگانہ ہے جب تک کہ وہ عشق و محبت کے خانۂ یگانہ کے اندر داخل ہو کر محرمِ اسرار نہیں ہو جاتا- معلوم ہوا کہ اہلِ مقامات شیخ مخدوم (اسرارِ الہٰی ) سے محروم ہیں‘‘-[15]

حضرت سلطان باھو (﷫) نے ان مراتب کو طے کرنے کیلئے کیسے ہدایت لی جائے اور تصوف کے سفر کو کیسے طے کیا جائے، کے بارے میں بھی بیان فرماتےہیں:

’’مرشدِ شریعت کیا ہے؟ پانچ بنیادی ارکانِ اسلام یعنی کلمہ طیب و نماز و روزہ و حج و زکوٰۃ ـ مرشدِ طریقت کیا ہے؟ گردن میں طوقِ بندگی ڈال کر ہر دو جہان سے بے نیازی- مرشدِ حقیقت کیا ہے؟ جان کی بازی لگا کر اپنی خودی کو اپنے ہی ہاتھوں قتل کرنا اور مرشدِ معرفت کیا ہے؟ صاحبِ اسرار وصاحبِ راز ہونا‘‘-[16]

اب ان مراتب کو نفس کے مراتب سے سمجھا جائے تو اورمفصل انداز میں سمجھ آئے گا- حضور سیدنا غوث الاعظم دستگیر (﷫)فرماتے ہیں:

’’فرمانِ حق تعالیٰ: ’’وَمَا يَعْلَمُ تَاوِيْلَهٗ اِلَّا اللّٰهُ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِى الْعِلْمِ‘‘ میں ”اَلرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ“ کو حرفِ عطف (و) کے ساتھ ”اِلَّا اللّٰهُ “ سے ملایا گیا ہے جس سے معنی یہ بنتے ہیں کہ اِس تاویل کو اللہ تعالیٰ اور ’’راسخون فی العلم‘‘ جانتے ہیں-صاحبِ تفسیر فرماتے ہیں کہ اگر اِس دروازہ کو کھول لیا جائے تو باطن کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں اور انسان پر او امرو نواہی کی پابندی اور چاروں دائروں میں نفس کی مخالفت لازم ہو جاتی ہے کہ دائرۂ شریعت میں نفس وسوسے پیدا کر کے انسان کو او امرو نواہی کی مخالفت پر آمادہ کرتا ہے- دائرۂ طریقت میں دینی موافقت اختیار کر کے دھوکہ دیتا ہے اور نبوت و ولایت کا دعویٰ کرنے پر اُبھارتا ہے- دائرۂ معرفت میں نورانیت کے فریب سے شرکِ خفی کا مرتکب کر کے دعوائے ربوبیّت پر اکساتا ہے- جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:” کیا آپ نے اُس شخص کو دیکھا کہ جس نے ہوائے نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے“- لیکن دائرۂ حقیقت میں شیطان و نفس و ملائکہ داخل نہیں ہو سکتے کہ غیر ما سویٰ اللہ اُس میں جل جاتا ہے جیسا کہ جبرائیل (﷤) نے (حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے شبِ معراج) عرض کی تھی:”اگر مَیں نوکِ انگشت کے برابر بھی آگے بڑھا تو جل جاؤں گا“ اِس دائرۂ میں آکر بندہ اپنے دونوں دشمنوں (نفس و شیطان) سے نجات پا کر مخلص بن جاتا ہے جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ( شیطان نے کہا ) الٰہی ! تیری عزّت کی قسم مَیں ضرور اِن سب کو گمراہ کروں گا سوائے تیرے مخلص بندوں کے‘‘-[17]

سلطان العارفین نے اس انداز میں اسے بیان فرمایا ہے:

’’دائرۂ شریعت میں آدمی کا نفس اماّرہ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ یہ تمہا را دشمن ہے اِسے ماردو- الٰہی ! مجھے بصارت دے کہ مَیں اِسے دیکھوں اور قتل کروں- دائرۂ طریقت میں نفس لوامہ ہوتا ہے، اُس کی لذّات اورچاہت کو پامال کر کے آگے بڑھ جاؤ- دائرۂ حقیقت میں نفس ملہمہ ہوتا ہے، اُسے عشق و ذکر اللہ کی آگ میں موم کر دے حتیٰ کہ یہ مرنے سے پہلے مر جائے - دائرۂ معرفت میں نفس مطمئنہ ہوتا ہے جو حقیقی طور پر مطیع ، با اخلاص، موحدِ خاص الخاص، محرمِ اسرارِ محمد رسول اللہ (ﷺ)  اور غیر ماسویٰ اللہ سے بیزار ہوتا ہے اور ہمیشہ استغفار کرتا رہتا ہے: الٰہی ! ہم تیری مغفرت چاہتے ہیں اور تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں- مطمئنہ سے کیا چیز حاصل ہوتی ہے؟ لامقام ، مشاہدۂ فقرفی اللہ تمام‘‘-[18]

اب ان مراتب کو مقاماتِ مکان سے سمجھا جانا بھی چاہئے جسے شیخنا عبدالقادر الجیلانی (﷫) نے اس انداز میں ارشاد فرمایا ہے:

’’درجات تین طبقات پر مشتمل ہیں- پہلا طبق عالمِ ملکوت کی جنت ہے جسے جنت الماویٰ کہا جاتا ہے- دوسرا طبق عالمِ ملکوت کی جنت ہے جسے جنت النعیم کہا جاتا ہے- تیسرا طبق عالمِ جبروت کی جنت ہے جسے جنت الفردوس کہا جاتا ہے- یہ تینوں طبقات جسمانی نعمتیں ہیں اور جسم اُس وقت تک اپنے عالم میں نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ علومِ شریعت و طریقت و معرفت کو زیرِ عمل نہیں لاتا جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے: ”حکمتِ جامعہ معرفتِ حق کو زیرِ عمل لانا اور معرفتِ باطل کو ترک کرنا ہے“- چنانچہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعا مانگی ہے: ”الٰہی! ہمیں حق کی پہچان اور اُس کی اتباع نصیب فرما اور باطل کی پہچان اور اُس سے اجتناب کی توفیق عطا فرما“- [19]

اسے حضور سلطان العارفین(﷫) نے یوں بیان فرمایاہے:

 

 

’’چار قسم کا مراقبہ چار مقامات پر ہوتا ہے- (1) مراقبۂ شریعت:اِس کا تعلق طاعت و عبادت اور مشاہدۂ ناسوت سے ہے - اِس میں صاحبِ مراقبہ مقامِ ناسوت کو دیکھتا ہے، دنیا کو دیکھتا ہے- (2) مراقبۂ ملکوت: اِس کا تعلق وِرد و ظائف اور مشاہدۂ ملکوت سے ہے- اِس میں صاحبِ  ورد وظائف کو فرشتوں کی سی پاکیزگیٔ تن حاصل ہوتی ہے اور وہ صفاتِ ملائکہ کا حامل ہوتا ہے - اِس میں صاحبِ مراقبہ جو کچھ دیکھتا ہے عالمِ ملکوت کو دیکھتا ہے کہ وہ صفاتِ ملائکہ سے متصف ہوتا ہے- (3) مراقبۂ جبروت: اِس کا تعلق ذکر اللہ اور مشاہدۂ جبروت سے ہے- اِس میں صاحبِ مراقبہ ذکر اللہ کی حاضرات سے مقامِ جبروت اور مرتبۂ جبرائیل کو دیکھتا ہے-(4) مراقبۂ لاھُوت: اِس کا تعلق اعمالِ معرفت اور مشاہدۂ لاھُوت سے ہے، اِس میں صاحب مراقبہ جو کچھ دیکھتا ہے مقام لاھُوت کو دیکھتا ہے ‘‘-[20]

اب ان مقامات کو ان کے اجزاء اور حصول کے مطابق سمجھنے کے لئے حضور سلطان باھو (﷫) کے اس فرمان مبارک کو زیرِ غور لانا چاہئے:

’’شریعت میں شوق ہے جو شرِ شیطان کے خلاف اور شرطِ اسلام ہے یعنی امر بالمعروف کی نشر و اشاعت کرنا، خدائے تعالیٰ کی نافرمانی سے شرم کرنا، حلال کھانا، سچ بولنا، صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرنا، اپنے اردگرد فرض و واجب و سنت و مستحب کا حصار قائم کرنا اور قلعۂ عبادت میں اللہ تعالیٰ کی مدد و توفیق کو اپنا رفیق بنانا- طریقت میں شرطِ شطاری (تیزرفتاری) ہے جیسے کہ شہباز کی پرواز کہ اُڑا اور مطلوبہ مقام پر جا پہنچا- حقیقت میں دلداری ہے یعنی اللہ ہی اللہ، جو کچھ ہو رہا ہے اُسی کے کرشمے ہیں- میرے دوست یہاں دم نہ مار کہ خیر بھی اُسی کی طرف سے ہے اور شر بھی اُسی کی طرف سے ہے- خَیْرَ خَلْقِ اللهِ محمد رسول اللہ (ﷺ) ہیں اور شر شیطان ہے- اِن میں سے تُو کسے چاہتا ہے؟ (خیر کو یا شر کو؟) اور معرفت میں غم خواری ہے، جو جتنا عارف ہے اُتنا ہی عاجز ہے - جو آدمی اِن چاروں مقامات کی خبر نہیں رکھتا وہ گاؤ وخر (حیوان) ہے اور سلک سلوکِ تصوف و فقر سے بے خبر‘‘-[21]

جس طرح آغاز میں عرض کیا گیا ہے کہ تصوف کے یہ مراتب سالک کو اس کی منزل کی جانب عروج عطا کرتے ہیں اور منزل اللہ تعالیٰ کی ذاتِ بابرکات ہے اور اسے مقامِ فقر سے موسوم کیا گیا ہے-جیسا کہ حضرت سلطان باھو(﷫) نے بیان فرمایا ہے:

’’حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے: ’’جو چیز تجھے اللہ تعالیٰ سے غافل کرکے اپنی طرف متوجہ کرلے وہ تیرا بُت ہے‘‘-یہاں پر پہنچ کر فقر ہی شریعت ہے، فقر ہی طریقت ہے،فقر ہی حقیقت ہے ،فقر ہی معرفت ہے، فقر ہی عشق ہے اور فقر ہی لاسویٰ اللہ ہے - جان لے کہ فقر ایک سمندر ہے جس میں مہلک زہر بھرا ہوا ہے - جو آدمی اِس سمندر پر پہنچ کر زہر کا پیالہ پی لیتا ہے وہ مرکر شہید ہو جاتا ہے- یہاں وہ مرتا نہیں بلکہ مقامِ مُوْتُوْا قَبَلَ اَنْ تَمُوْتُوْا پر پہنچ کر خود کو سپردِ خدا کر دیتا ہے- فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ”اور مَیں نے اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا ہے، بے شک وہ اپنے بندوں کی نگہبانی کرنے والا ہے‘‘-جان لے کہ حضرت ابو بکر صدیق (﷜) شریعت ہیں، حضرت عمر (﷜) طریقت ہیں، حضرت عثمان (﷜)حقیقت ہیں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم معرفت ہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سرّ ہیں- حضرت ابو بکر صدیق (﷜) صدق ہیں، حضرت عمر (﷜) عدل ہیں، حضرت عثمان (﷜) حیا ہیں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم جود و کرم ہیں اور حضور علیہ الصلوٰة و السلام فقر ہیں- حضرت ابو بکر صدیق (﷜) ہوا (لطیف ترین پیکر) ہیں، حضرت عمر (﷜)(حیات بخش) پانی ہیں- حضرت عثمان (﷜) (عشقِ الٰہی کی) آتش ہیں،حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم (پاکیزہ) خاک (ابو تراب) ہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام اربعہ عناصر کے اِس مجموعے کی جان ہیں- اِنسان وہ ہے جو حدیثِ قدسی:” اِنسان میرا راز ہے اور مَیں اِنسان کا راز ہوں“ کا مصداق ہو - (کامل) اِنسان حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام ہیں اور اُن کی نسبت سے باقی تمام لوگوں نے مراتبِ انسانیت پائے اور اپنے اپنے مراتبِ کے لحاظ سے اپنی مرادوں کو پہنچ کر دونوں جہان کی آرزؤں سے آزاد ہو گئے ‘‘- [22]

حرفِ آخر: 

درج بالا تمام تر اقتباسات سے دو چیزیں اظہر من الشمس ہیں- اول یہ کہ تمام مراتب کا حصول کسی بھی کشف و کرامت، الہام و ایقان،مظاہر و مقامات، علوم و حالات کے لئے نہیں بلکہ محض ذاتِ باری تعالیٰ کے قرب و وصال کی خاطر کیا جاتا ہے اور دوم یہ کہ وہ تمام اغلاط جو اس بنیاد پر مبنی ہیں کہ طریقت و حقیقت و معرفت و فقر کسی بھی طرح شریعت سے جدا ہیں- درج بالا اقتباسات ان تمام نظریات کا کلی طور پر انکار کرتے ہیں اور یہ واضح کرتے ہیں کہ درجہ بدرجہ سبھی باہم مربوط ہیں اور ایمان کی ترقی انہی مراتب میں عروج پاتے جانے کا نام ہے -اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حبیب مکرم حضور خاتم النبیین (ﷺ)کے وسیلہ جلیلہ کے طفیل اپنی کامل معرفت اور قرب عطا فرمائے- آمین!

٭٭٭



[1](عین الفقر)

[2](مکتوباتِ امام ربانی ،مکتوب نمبر:36، حصہ اول)

[3]( فتاویٰ رضویہ، جلد: 21،ص:  460)

[4]( کشف الخفاء فی حرف الشین، حدیث نمبر:1532)

[5](سرالاسرار، ص:15)

[6](عین الفقر، ص: 67)

[7]( عین الفقر، ص: 74-75)

[8]( عین الفقر، ص: 89)

[9]( عین الفقر، ص: 91)

[10]( سرالاسرار، ص: 187)

[11]( عین الفقر، ص: 119)

[12]( سرالاسرار، ص: 25)

[13]( سرالاسرار، ص: 59)

[14](سرالاسرار، ص: 127)

[15]( عین الفقر، ص: 165)

[16](عین الفقر، ص: 109-111)

[17](سرالاسرار، ص: 61)

[18]( عین الفقر، ص: 151)

[19](سرالاسرار، ص: 37)

[20](عین الفقر، ص: 215)

[21](ایضاً)

[22](عین الفقر، ص: 331)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر