ک:کُوک دِلا مَتاں رَبّ سُنی چَا دَردمَنداں دِیاں آہیں ھو
سِینہ میرا دَردیں بھَریا اَندر بھَڑکن بھَاہیں ھو
تِیلاں باجھ نہ بَلن مَشالاں دَرداں باجھ نہ آہِیں ھو
آتش نال یاراناں لا کے باھوؒ پھِر اوہ سَڑن کہ ناہِیں ھو
Lament O heart perhaps Rabb might hear compassionates sigh’s Hoo
With fire of loves flame my breast is stricken with pain Hoo
Lamps don’t kindle without oil and no sigh’s without pain Hoo
Befriending with fire Bahoo would or wouldn’t they be burnt again Hoo
Kook dila mata’N rab suni cha dard manda’N diya’N ‘Aahai’N Hoo
Seena mera dadai’N bharya andar bha’Rkan bhahai’N Hoo
Teela’N bajh nah balan mashalaa’N darda’N bajh nah ‘Aahai’N Hoo
Aatish naal yarana’N laa kay Bahoo ooh sa’Ran kah nahai’N Hoo
تشریح :
بعد ازاں لائق شوی سِرّ راز را |
|
ہر دمی جان و جگر سوزد آہ! آہ! |
1:’’آہ! توُ اُس راہِ راز پر چلنے کے لائق تب ہوگا کہ جب تُواپنی جان و جگر کو ہر وقت عشق ِ اِلٰہی کی آگ میں جلائے گا‘‘-(کلید التوحید کلاں)
اللہ تعالیٰ کی محبت اور عشق کے درد کا راہ فقر میں ایک خاص مقام ہے اور فقراء اس کو متاع بے بہا(انمول خزانہ یا نہایت قیمتی دولت )سے تعبیر کرتے ہیں -جیسا کہ حضرت سُلطان باھوؒ ارشادفرماتے ہیں :’’خاص تجلی وہ ہے جو محبت ِالٰہی کے درد سے پیدا ہوتی ہے‘‘- (عین الفقر)
دراصل مرشد کامل اکمل کی صفا ت میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ نگاہ مبارک سے طالب کے وجود میں عشق ومحبت کے درد کو جگاتا ہے- جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں: ’’جب کسی کامل نے سائل کے سینے میں یہ درد جگا دیاتو اُس کا مطلوب اُس کے سامنے آگیا ، پھر اُس نے جنت کی طلب چھوڑ دی‘‘-(امیر الکونین)
ذکر کا مقصود بھی ابتداءً یہ درد ہےجیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں :’’ذکر ایک لا دَوا دَرد ہے جس کی شفا بھی ذکر ہے ، وہ ذکر جو اُسے لقائے الٰہی سے مشرف کردے،ذکر ایک سوز ہے جو مغز و جان کو جلائے رکھتاہے، یہی سوز اہل ِذکر کو لاھُوت لامکان میں پہنچا کر مشرفِ دیدار کرتاہے‘‘-(امیر الکونین)
چوں در آتشِ عشق شد منزلم |
|
دلِ دوزخ آتش گرفت از دلم |
2:’’جب مَیں نے آتش ِعشق میں چھلانگ لگائی تو میرے دل کی آگ سے دوزخ کا دل جل اُٹھا ‘‘-(عین الفقر)
حضرت سُلطان باھوؒ الشیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی بارگاہِ اقدس میں اپنا درد بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا :
’’راہ ِلطف و کرم مجھے گردابِ ِپریشانی سے رہائی دلا دیں ، میرا جگر زخمی ہے، اندرون خستہ حال ہے،دل آ پ کے لطف و کرم کا منتظر ہے، اِنتہائی احسان فرما کر میرا علاج فرمائیں اور دوا دیں-آپ کے مجھ جیسے ہزاروں غلام دنیا میں موجودہیں لیکن میرے لئے آپ کے آستان کے سوا ا ور کوئی جائے پناہ نہیں ، آپ کی مرضی ہے کہ پناہ دے دیں یا دھتکار دیں، میرے پاس درد و غم و شدت کے سوا کچھ بھی نہیں‘‘-(محک الفقرکلاں)
3:’’صاحب ِحضور مذکور روشن ضمیر فقیر ہر دم پُر سوز رہتا ہے اورہر وقت درد سے آہیں بھرتا رہتا ہے، وہ یگانہ با خدا ہو کر گناہوں سے بے خبر رہتا ہے- یہ جمعیت کی وہ راہ ہے کہ جس میں نظر ہر وقت معبود پر لگی رہتی ہے ‘‘-(محک الفقرکلاں)
آپؒ یہاں اس چیز کی نشاندہی فرماتے ہیں کہ جس طرح چراغ ،تیل کے بغیر نہیں جلتے ،ایسے ہی عاشق کی آہوں کا سبب بھی دردِ عشق ہوتا ہے ،جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں: ’’اُن(فقیروں) کے دل میں وہ آتش ِعشق بھڑک رہی ہے جو عاشق درویشو ں کے د ل کے علاوہ کہیں اور قرار نہیں پکڑ سکتی- اگر خدانخواستہ اُن میں سے کوئی صاحب ِ درد غلبات ِشوق سے مجبور ہو کر اپنے سینے سے ایک آہ بھی نکال دے تو مشرق سے مغرب تک تمام عالم جل اُٹھے اور کچھ بھی باقی نہ بچے‘‘(عین الفقر)-آپؒ نے اسی چیز کو ایک اورمقام پہ یوں بیان فرمایا:’’خاص الخاص کشف ِحقیقی وہ ہے کہ جس میں قربِ الٰہی اور مجلس ِ محمدی (ﷺ) کی حضوری حاصل ہو تی ہے -اِس کشف کے دو گواہ ہیں، حیرت و عبرت جن کی وجہ سے وجود ہر دم جلتا رہتا ہے اور طالب اللہ رات دن آہیں بھرتا رہتا ہے - کشف ِجامۂ کثیف سے وجود میں کثافت پیدا ہوتی ہے اور کشف ِ جامۂ لطیف سے لطافت پیدا ہوتی ہے‘‘-(اسرارالقادری)
4: ’’اولیاء اللہ کو آتش ِدیدار اِس طرح جلاتی ہے جس طرح کہ آگ خشک لکڑی کو جلاتی ہے، اولیاء اللہ کو یہ ریاضت خدائے تعالیٰ کی بارگاہ سے نصیب ہوتی ہے‘‘(امیر الکونین)- اور’’وہ(فقیر) اپنے وجود کے تنور میں اعضائے بدن کے ایندھن کو آتش ذکر اللہ میں اس طرح جلاتا رہتا ہے جس طرح آگ خشک ایندھن کو جلاتی ہے اگر وہ ذرہ بھر آتش جلالیت حضور کی نظر سے زمین و آسمان کو دیکھ لے تو وہ جل اٹھیں مگر آفرین ہے اس کے حوصلے پر کہ وہ اس آگ میں جلتا رہتا ہے لیکن دم نہیں مارتا اور قیامت تک اس سے خلاصی نہیں پاتا‘‘(شمس العارفین)-آپؒ اپنے بارے میں فرماتے ہیں :’’ فقر کی ابتدا و انتہا مجھ پر ختم ہو چکی ہے اور سوزِ عشق سے میرے وجود میں نفس جل کر راکھ ہو چکا ہے‘‘-(اسرارالقادری)