انسان جب اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس کی بارگاہ کی حضوری کا طلبگار بنتا ہے تو اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہے وہ اس کےلیے اسباب پیدا فرما دیتا ہے-اس کا وعدہ ہے جو میری طرف چل کے آتا ہے میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں - اس کے لیے شرط طلب و جستجو ہے وہ طالب کو اپنے انوار عطا فرماتا ہے- اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی بارگاہ کی حضوری کے لیے وسیلہ ہم پہ فرض کیا ہے-
حضرت سلطان بہادر علی شاہ ؒفرماتے ہیں:
وسیلہ اہل ایمان تے فرض ہویا ثابت نال آیت قرآن بیلی |
جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَ جَاہِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ‘‘[1]
’’اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ‘‘-
وسیلہ سے مراد رہبر و رہنما ہے جسے اصطلاح تصوف میں مرشد کہا جاتا ہے- پہلے یہ ذمہ داری انبیاء و مرسلین (علیہم السلام) نے ادا فرمائی جس کا اختتام خاتم الانبیاء حضور رسالت مآب (ﷺ) کی ذاتِ مبارکہ پہ ہوا اس کے بعد یہ فریضہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) ادا فرماتے رہے- چونکہ رہنمائی کا یہ سلسلہ تا قیامت رہنا ہے اس لیے یہ ذمہ داری اب صوفیاء کرام نبھا رہے ہیں جو تا ابد جاری رہے گی- دنیا کے طول و عرض میں اولیائے کرام نے طالبان حق کو حق سے واصل فرمایا- صوفیاء کرام کا ایک خاصہ رہا ہے کہ انہوں نے نظم ونثر کے اندر قرآن و حدیث کی تفسیرو شرح اپنی علاقائی زبانوں میں کی- جس کی بدولت مخلوقِ خدا قرآنی رموز سے آسانی کے ساتھ آگاہ ہو گئی - بالخصوص خطہ پاک و ہند میں ہمارے سامنے واضح مثالیں موجود ہیں- جہاں دین مبین پھیلانے کا موجب صوفیاء کرام کی ارواح قدسیہ ہیں-
جنہوں نے قرآن مجید کی تعلیمات کو شعر میں بیان فرما کے لوگوں کے دلوں میں راسخ فرما دیا جس کے نتیجے میں مخلوق کا تعلق باللہ قائم ہو گیا- برصغیر کی ان بے شمار ہستیوں میں ایک اسم گرامی سلطان سید محمد بہادر علی شاہ ؒ کا ہے جنہوں نے اپنے کلام کے ذریعے طالبانِ مولیٰ کی رہنمائی فرمائی- آپؒ کا تعلق پنجاب کے ضلع جھنگ سے ہے، آپ کاظمی سید ہیں- سلسلہء نسب حضرت امام موسیٰ کاظم ؒسے جا ملتا ہے-
آپؒ کے والد محترم سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ کے ارادت مندوں میں سے تھے اور اکثر دربار شریف پہ حاضری دیا کرتے تھے- سلطان سید بہادر علی شاہ ؒ عہد طفلی میں تھے کہ ایک دفعہ والد صاحب کے ساتھ دربار حضور پہ حاضری دی سات یوم تک قیام فرمایا انہی ایام میں حضرت سلطان باھو ؒ نے توجہ باطنی سے ظاہری و تعلیماتِ فقر میں درجہِ کمال تک پہنچا دیا - اس کے بعد دینی تعلیم کی غرض سے والد محترم ملتان میں معروف عالم دین عبید اللہ شاہ ملتانی ؒکے پاس لے گئے انہوں نے آپؒ کو قرآن پاک پڑھانا شروع کیا تو آپ کو زبانی یاد تھا -غرضیکہ درس نظامی کا جملہ نصاب بھی ازبر تھا- دریافت کرنے پر معلوم ہوا سات دن حضرت سلطان باھو ؒ کے دربار پر قیام کیا اس وقت تمام علوم منکشف ہوگئے - آپ ؒ نے ظاہری بیعت مڈھ شریف(جھنگ ) حضرت عبد الغفور شاہ قریشیؒکے دست مبارک پہ کی-آپ نے اپنا آپ حضور سلطان العارفین ؒکے سپرد کردیا جہاں ساری زندگی بسر فرما دی-
حضرت سلطان سید محمد بہادر علی شاہ ؒ نے طالبان مولیٰ کیلئے سی حرفی، ابیات اور مناجات تحریر فرمائیں-جو اہل تصوف کے ہاں ایک ممتاز مقام رکھتی ہیں- تصور اسم اللہ ذات نصیب ہونے کے بعد آپؒ کا کلام طالبان مولیٰ کو راہ حق سے آشنا کرتا ہے - آپ کی شاعری تخیل و تصورات کی بجائے حقیقت حق کے رازوں پر مبنی ہے- اس کی مثال اس سنگ پارس کی مانند ہے جو لوہے کو سونا بنا دیتا ہے یعنی آپ کا کلام طالب ناقص پر تاثیر کر جائے تو اسے خالص بنا دیتا ہے-
زیر نظر مضمون آپ کے کلام میں موجود حصہ نصیحتوں پہ مشتمل ایک نظم سے اخذ کردہ اسرار و رموز پر مبنی ہوگا جہاں آپ نے مرشد کامل کے اوصاف اور طالب کو ہدایات صادر فرمائی ہیں- جب انسان مرشد کامل کی صحبت اختیار کرتا ہے اس وقت یہ حقیقت کھلتی ہے کہ انسان کا وجود اللہ تعالیٰ کا مکان ہے اور اس میں مکین خالق کائنات کی ذات ہے- جب انسان اپنے اندر سے انوار الہٰیہ کو پا لیتا ہے پھر اس کی نظر جس طرف بھی اٹھتی ہے اسے انوار ہی انوار نظر آتے ہیں- اس طرف اشارہ کرتے ہوئے آپؒ فرماتے ہیں:
نحن اقرب دی سمجھ آئی |
طالب یا مرید پہ فرض عائد ہوتا ہے مرشد کی خدمت میں ادب کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رکھے کیونکہ با ادب با نصیب اور بے ادب بے نصیب جس طرح اقبال فرماتے ہیں :
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں |
یہاں ادب سے مراد یہ نہیں ہے کہ جب مرشد کے سامنے آئے تو ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جائے- ادب سے مراد احکامات کی پابندی ہے اس طرح مرشد سے منسوب ہر ایک چیز کا احترام دل وجان سے احترام لازم و ملزوم ہے - مؤدب کو خوشنودی مرشد عطا ہوتی ہے - جس کے بدلے میں قرب الٰہی نصیب ہو جاتا ہے- ایک بات ذہن نشین رہے ولی اکمل صفات الٰہیہ سے متصف ہوتا ہے کبھی کیفیت حلیم اور کبھی غضب لیکن طالب ہر حال میں ادب کے ساتھ جھکا رہے- آپؒ فرماتے ہیں:
فرمایوس رکھ نگاہ ادب نوں |
مرشد اکمل صفات حق کا مظہر ہوتا ہے - جب طالب عاجزی و انکساری سے اس کی خدمت میں حاضر ہوجاتا ہے تو اس کی خطائیں معاف ہو جاتی ہیں لیکن جو طالب ایسے مرشد سے رخ پھیرتا ہے یا روگردانی کرتا ہے وہ شیطان لعین کے ہتھے چڑھ جاتا ہے-
زیان کرے شیطان تنہاں جہڑے مرشد نوں بہندے وسار بیلی |
ایک اور جگہ فرمایا :
نافرمان ہویوں سوہنے پیر دا جے شیطان بے سار گنوار کیتا |
جو طالب اس طرز عمل کو اختیار کر بیٹھتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے دور ہوجاتا ہے-
پیر بھلیاں نوں رب بھل گیا ایہو راہ گمراہ اغواء دا ای |
کیونکہ مرشد اکمل بندے اور مولا کے درمیان وسیلہ ہے جو شخص بے ادبی و جسارت کی روش اختیار کر بیٹھتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی یاد سے بے خبر ہو جاتا ہے- آپؒ فرماتے ہیں:
جلال جمال اوصاف ہن میرے |
جو طالب ارشادات مرشد کو وطیرہ جاں بنا لیتا ہے اسے اللہ تعالیٰ کا فضل خاص نصیب ہوتا ہے جس کی بدولت وہ محب کے مقام پر فائز ہو جاتا ہے- جب طالب پر یہ کیفیت حاوی ہو جاتی ہے تو اس کا وجود غیرماسوی اللہ سے پاک ہو جاتا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے علم لدنی القاء ہوتا ہے یہ وہ خاص علم ہے جس کے متعلق سلطان العارفین حضرت سلطان باھو ؒ’’عین الفقر‘‘نے فرمایا:
”جس کے پڑھ لینے کے بعد کسی اور علم کے پڑھنے کی حاجت نہیں رہتی “-
حضرت سلطان سید بہادر علی شاہ ؒفرماتے ہیں:
عمل ارشاد بموجب کیتا |
مرشد اکمل طالب کو فقر تک پہنچا دیتا ہے جسے فقر کی دولت نصیب ہوتی ہے وہ مقام فنا فی اللہ پر فائز ہوجاتا ہے کیونکہ فقر کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
’’اذا تم الفقرفھو اللہ ‘‘
’’جب فقر اپنے کمال کو پہنچتا ہے تو اللہ ہی اللہ ہوتا ہے“-
جو شخص نفس کی جکڑ بندیوں میں آتا ہے وہ اس حقیقت سے محروم ہو جاتا ہے-
ہوئے غرق طوفان کنعان وانگوں کیتے نفس خبیث خوار بیلی |
جب انسان نفس سے خلاصی پا جاتا ہے تو اُسے ہدایت کلی عطا ہوجاتی ہے ہدایت سے مراد فرمان باری تعالیٰ ہے:
’’وَمَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللہِ فَقَدْ ہُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ‘‘ [2]
”اور جس نے اللہ کا سہارا لیا تو ضرور وہ سیدھی راہ دکھایا گیا“-
یعنی انسان اللہ تعالیٰ کے انوار سے سرفراز ہوجاتا ہے یہ ہدایت کلی ہے - جب یہ مقام آتا ہے تو انسان کے وجود سے غیراللہ نابود ہو جاتے ہیں آپؒ فرماتے ہیں :
فناء فقر دا راہ سکھایا |
انسان کی زندگی کا مقصد چونکہ معرفت الٰہی ہے- معرفت دو طرح سے ہوتی ہے ایک صفات کی اور دوسرا ذات کی - جب انسان آفاق کا مشاہدہ کرتا ہے تو اسے صفاتی تجلی نصیب ہوتی ہے- جب اپنے من کی دنیا میں اترتا ہے تو اسے ذاتی تجلی نصیب ہوجاتی ہے- حقیقی معرفت ذات کی ہے جبکہ صفات ، ذات کا پردہ ہیں-جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:
’’سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ ط‘‘[3]
” عنقریب ہماری نشانیاں آفاق میں دیکھ لیں گے اور اپنے اندر بھی حتیٰ کہ ان پہ ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے“-
اس حقیقت سے شناسائی کے لیے مرشد کا دامن تھامنا نہایت ضروری ہے کیونکہ :
رفیق بنا طریق ناہیں اوجھڑ جنگل دے وچ رل گئے |
جب بندے کو مرشد اکمل کی غلامی میں استقامت نصیب ہوجاتی ہے وہ طالب کو من کی دنیا میں اترنے کا طریق عطا فرماتا ہے جس سے صفات کے پردے چاک ہوتے ہیں اور وہ ذاتی توحید کو پا لیتا ہے -آپؒ فرماتے ہیں:
صفات حجاب ہن ذات خدا تے |
معرفت الٰہی کے حصول کے لیے مرشد اکمل کی رفاقت اس لیے ضروری ہے کیونکہ وہ راہ معرفت سے آگاہ ہوتا ہے اور طالب کو بارگاہِ ذات تک پہنچانے میں مکمل دسترس رکھتا ہے - ایسے مرشد کے اندر یہ کمال ہوتا ہے کہ طالب کو نفس و شیطان کے چنگل سے نکال کر منزل تک لے جاتا ہے- اسے نقصانات سے نکال کر ظاہری و باطنی طور پر نفع بخش بنا دیتا ہے جس کے سبب اس کے وجود سے غم دنیا، غم جہنم و عقبی مٹ جاتے ہیں آپؒ فرماتے ہیں :
مرشد شاہ ہے کون ومکاں دا |
مرشد اکمل فنا فی الرسول ہوکر فنافی اللہ اور بقا باللہ کے مقام پر فائز ہوتا ہے - جب طالب اپنے وجود کوفنا فی الشیخ کرتا ہے تو اسے مرشد کامل کے انوار سے حقیقت نصیب ہوتی ہے-
فنا فی الشیخ فنا فی الرسول ہوون مشہود وجود ستیر جانے |
جب طالب کی یہ کیفیت ہوتی ہے تو اسے رمز محمد (ﷺ) کی سمجھ نصیب ہوتی ہے جس کے متعلق آپؒ فرماتے ہیں:
بشریت دے وچ عبد سدائے |
اس رمز محمد (ﷺ)کو پانے کے لیے ظاہر کے ساتھ ساتھ باطن کی بیداری نہایت ضروری ہے- جب دل کی آنکھیں کھلتی ہیں تو اس حقیقت سے آگاہی نصیب ہوجاتی ہے- قرآن پاک میں بھی ہماری توجہ اسی طرف دلائی گئی ہے فرمان باری تعالیٰ ہے:
’’فَاِنَّهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَلٰـكِنْ تَعْمَى الْـقُلُوْبُ الَّتِىْ فِى الصُّدُوْرِ‘‘ [4]
”ظاہری آنکھیں اندھی نہیں بلکہ دل اندھے ہیں جو سینوں میں ہیں “-
اقبال بھی یہ کہتے ہیں:
ظاہر کی آنکھ سے تماشا کرے نہ کوئی |
جب دل کی آنکھیں کھول کر انسان مشاہدہ انوار کرتا ہے تو اس کو فنائیت نصیب ہوجاتی ہے- جس سے وہ دوئی سے نکل کر یکتائی میں آجاتا ہے- آپؒ درج بالا صورتحال کو اس انداز میں بیان فرماتے ہیں:
اکھ بنوا جاہل بے چارا |
اگر ساری گفتگو کو ملخص کیا جائے تو یہ ہےکہ طالب مولیٰ کو منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے اپنی ذات کی نفی کرنا لازم ہے کیونکہ فناء کے بعد بقاء ہے لا کے بعد اثبات ہے- ان مراحل کو طے کرنے کے دوران اگر اسے مرشد اکمل کی رفاقت نصیب ہے تو یہ خاص کرم و عنایت ہے- طالب پر فرض عین ہے کہ وہ ہمیشہ عاجزی کے ساتھ پیشانی جھکائے رکھے کیونکہ اس کا نصیبہ اور مقصود وہیں پہ موجود ہوتا ہے-
سلطان بہادر شاہ مرشد ہے صفت خدا دی |
٭٭٭