کلام : پیر سید محمد بہادر علی شاہ صاحب میں موسیقیت ، نغمگی اور ترنم

کلام  : پیر سید محمد بہادر علی شاہ صاحب میں موسیقیت ، نغمگی اور ترنم

کلام : پیر سید محمد بہادر علی شاہ صاحب میں موسیقیت ، نغمگی اور ترنم

مصنف: مستحسن رضا جامی فروری 2024

شاعری ایک وسیع سمندر کی مانند ہے- جس میں احساسات و جذبات کا ایسا رچاؤ ہوتا ہے کہ مثال نہیں ملتی- جذبات کا انسانی زندگی کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے- جذبات ہی ہیں جو انسان کی کیفیت کو تبدیل کرنے کی سکت رکھتے ہیں اور انسان بیک وقت کئی طرز کی کیفیات کا مشاہدہ کر سکتا ہے- اگر اس کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ طاقت بنیادی طور پہ تخلیق کار کے پاس ہے- وہ تخلیق کار شاعر اور مصنف دونوں ہو سکتے ہیں- شاعر کے پاس تخیل کی طاقت ہے جس کی تکمیل کیلئے وہ الفاظ کا سہارا لیتا ہے-کلام کو مزید خوبصورت اور منفرد بنانے کیلئے وہ اصطلاحات، استعارات اور صنائع بدائع کا استعمال کرتا ہے-

معروف صوفی شاعر میاں محمد بخشؒ کے کلام میں بھی فنِ شعر اور تاثیرِ شعر پہ گفتگو موجود ہے- آپؒ کے کلام کا یہ رنگ دیکھیں:

ہر ہر فن ہنر وچ ہووے ماہر تے یک فنی
 لطف خدائی نال عطائی نال اوہ ہوندا سنی

ایک اور شعر جس میں شاعر کی خصوصیات پہ بات کی گئی ہے-

جو شاعر بے پیڑا ہووے سخن اوہدے بھی رکھے
بے پیڑے تھیں شعر نہ ہوندا اگ بِن دھواں نہ دھکھے

شعر کے بارے میں یہ نقطہ نظر جاننا بھی اہم ہے-

’’شعر کے لغوی معنیٰ کسی شئے کی آگاہی اور واقفی ہے- یعنی شعر میں جو بات کہی جاتی ہے اس کا تعلق ادراک یا شعور کے ساتھ ہوتا ہے اور شعور کے ساتھ ہی شعر سمجھا جاتا ہے‘‘-[1]

اردو اور پنجابی زبان کی شعری روایت کا اگر تفصیلی مطالعہ کریں تو درجنوں صوفیائے کرام ہمیں بطور شاعر نظر آتے ہیں- جہاں انہوں نے معاشرے کی بھلائی اور اصلاح کیلئے اپنے دن رات صرف کیے وہیں شعر و سخن کے ذریعے عوام الناس کو حقیقت کے پیغام کے قریب کیا- صوفیائے کرام نے جہاں شریعت مطہرہ کے احکامات کی روشنی میں اپنے دنیاوی معاملات کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا وہیں اصلاح معاشرہ کے احسن فریضہ کو بخوبی سرانجام دیا- ہر عہد میں مختلف خطوں میں صوفیائے کرام موجود رہے ہیں جن کی شاعری اور پیغامِ حقیقت آج بھی لاکھوں لوگوں کے دلوں میں روحانی و نورانی افکار کا تاثر چھوڑتا ہے- تصوف اور صوفیانہ افکار و نظریات کا تعلق انسانی معاشرہ سے ہمیشہ مضبوط و مستحکم رہا ہے- نہ صرف انسانی زندگی بلکہ ادب سے بھی تصوف کا گہرا رشتہ ہے-

’’تصوف کا ادب سے تعلق ہمیشہ سے رہا ہے - مُرورِ وقت کے ساتھ یہ تعلق مضبوط سے مضبوط تراور گہرا ترین ہوتا جا رہا ہے- ادب ایک ذریعہ اظہار ہے جو انسانی جذبات و احساسات کی جملہ کیفیات کو شاعرانہ زبان عطا کرتا ہے- انسان نے جب سے بولنا شروع کیا ہے؛ تب سے ادب کا انسان کی سماجی زندگی سے تعلق متصل ہو گیا ہے- ادب انسان کے وجود سے پُھوٹا ہے یہ کوئی علیحدہ چیز نہیں ہے- ادب ہی وہ ذریعہ اور وسیلہ ہے جس نے انسان کو اپنے عقائد و رسوم اور جملہ انسانی مباحث کے اطوار و اوہام کا اظہار کرنے کا موقع فراہم کیا‘‘-[2]

صوفیانہ شاعری کی روایت میں سب سے دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ تمام صوفیائے کرام نے اپنے خطہ کی مقامی بولیوں میں شاعری کی- یہاں سے صوفیاء کی بصارت کا مشاہدہ اہلِ نظر کر سکتے ہیں کہ وہ حال اور مستقبل کے تمام معاملات پہ گہری نظر رکھتے تھے- اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ مقامی بولی میں بات سمجھانا نسبتاً آسان ہوتا ہے- مزید تفہیم کیلئے درج ذیل رائے بہت معاون ہوگی:

’’صوفیاء نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے اس زبان اور لہجے کو اپنایا جو عام لوگوں کے فہم ادراک سے انتہائی مماثلت اور قربت رکھتا ہو- کیونکہ لوگوں کو ہم خیال بنانے کے لیے انہی کی زبان اثر پذیر ہوتی ہے- چونکہ ان خیالات کو اپنانے اور اس زبان کو سیکھنے کے لیے انہیں دماغی خفت نہیں اٹھانا پڑتی- چنانچہ وعظ، تلقین اور رشد و ہدایت کے لیے صوفیاء نے عوام سے انہی کی بولی میں بات چیت کی جس سے مشترکہ عوامی زبان کے فروغ کا راستہ ہموار ہو گیا‘‘-[3]

پنجابی شعر و سخن میں نمایاں اور ممتاز لہجے کی ایک باوقار اور روحانی شخصیت سلطان الاولیاء حضرت سلطان سید محمد بہادر شاہ مشہدیؒ ہیں- جنہیں عوام میں پیر بہادر شاہ اور سلسلہ عالیہ سروری قادری میں’’حضور پیر صاحب‘‘ بھی کہا جاتا ہے- سلطان سیدمحمد بہادر علی شاہؒ کا سلسلہ نسب امیر المؤمنین سیّدنا علی المرتضٰی (رضی اللہ عنہ) کی اولاد میں سے حضرت امام موسیٰ کاظمؒ سے ملتا ہے- 1801ء کو فقر و عرفاں سے منور اس چراغ کی ولادتِ باسعادت ضلع جھنگ کی تحصیل شورکوٹ کے ایک قصبہ ’’حسووالی‘‘ میں ہوئی- سلطان سید محمد بہادر علی شاہؒ نے 133 سال کی طویل عمر پائی- آپؒ نے 1934ء میں وصال فرمایا-

پیر بہادر شاہؒ صاحب کا کلام پیغامِ حق اور حقیقتِ انسان پہ لکھا گیا ہے- پیر بہادر شاہؒ صاحب نے خالص پنجابی زبان میں کلام رقم فرمایا-آپؒ کے کلام میں روحانی اقدار ،عشق حقیقی ،مرشد کامل کی تلاش، شانِ مرشد، طالب کی صفات، طالب کی مشکلات،  بارگاہ مرشد میں حاضری کا طریقہ اور اسی طرح کے نمایاں صوفیانہ موضوعات کو تخلیقات کا حصہ بنایا گیا ہے- آپؒ کے کلام میں روحانی جذبات اور احساسات انتہا پہ دیکھے جا سکتے ہیں- آپؒ کا کلام پڑھتے ہوئے قاری کو کہیں بھی نا مانوسیت اور اجنبیت کا شائبہ تک نہیں ہوتا بلکہ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ آپؒ قاری سے کلام کر رہے ہیں اور نہایت شفیق لہجے میں تصوف کے گہرے راز کھول رہے ہیں-

چونکہ شاعری کی مختلف خصوصیات ہوتی ہیں اسی طرح پیر بہادر شاہؒ صاحب کے کلام میں ہم بطور خاص نغمگی اور ترنم کی اصطلاحات کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ کے کلام سے چُنیدہ مثالوں کی روشنی میں ان پہ بات کرنے کی ایک ادنیٰ سی کوشش کریں گے- موسیقیت کے بارے میں یہ رائے جاننا بہت ضروری ہے:

’’شاعری موسیقیت کے بغیر بے اثر گردانی جاتی ہے بلکہ شاعری کی تشکیل میں موسیقیت کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے- موسیقیت لفظوں کی صوت، بحر اور وزن سے تشکیل پانے والا وہ خاص صوتی آہنگ ہوتا ہے جس سے شاعر شعر سے معنوی تاثیر برآمد کرتا ہے- اس عمل میں شعر میں لفظوں کی نشت و برخاست کا التزام ان کی صوتیات کےپیش نظر کیا جاتا ہے- لفظ کی موسیقی دو صورتوں میں موجود ہوتی ہے- ایک لفظ کی خارجی موسیقیت جس کا تعلق لفظ کی صوت سے ہوتا ہے اور دوسرا لفظ کی داخلی موسیقیت جس کا تعلق لفظ کی معنوی تاثیر سے ہوتا ہے- لفظ کی اس داخلی اور خارجی موسیقیت کے امتزاج سے ہی وہ شعری آہنگ پیدا کیا جاتا ہے جو شعر کی موسیقیت کہلاتا ہے‘‘-[4]

سلطان سید محمد بہادر علی شاہؒ   کے کلام بالخصوص ’’مناجات در شان سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ‘‘ میں موسیقیت، نغمگی اور ترنم کا اگر بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو ادب کے طالب علم پر درجنوں مفاہیم منکشف ہوتے ہیں- کیونکہ آپؒ کا کلام پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپؒ شاعری کے فنی اسرار و محاسن سے بخوبی آگاہ تھے- صرف مناجات کے اسی حصہ کے دس بند ہم بطور خاص دیکھیں گے جن میں فنی طور پہ آپؒ نے الفاظ کے در و بست کا نہایت خوبصورت اور منفرد انتظام کیا ہے-

پیر بہادر شاہؒ صاحب اپنے مرشد کریم کی بارگاہ میں مناجات میں یوں ارشاد فرماتے ہیں:

وجدانی عرفانی دی واہ اس جاہ کل آبادی

یہ پہلا بند ہے اور ’وجدانی عرفانی‘ کے الفاظ میں جو ایک نغمگی پیدا ہو رہی ہے وہ فکری طور پہ تو خوبصورت ہے ہی، فنی طور پر بھی قاری کو مسحور کر رہی ہے- وجدانی اور عرفانی کے اس ملاپ نے مصرعے کی خوبصورتی کو مزید بڑھا دیا ہے-اس مصرعہ میں پیش کی گئی روحانی کیفیت بھی خاص کشش کی حامل ہے-

اسی کلام کے دوسرے بند میں آپؒ ارشاد فرماتے ہیں:

خاص حضوروں عالم نوروں واحد اَحد جھلایا

اس مصرعے میں ’حضوروں اور نوروں‘ کے الفاظ میں نغمگی اور ترنم کی کیفیت بہت دلفریب ہے- جبکہ اسی مصرعہ کے دوسرے حصے میں ’واحد اور احد‘ کے الفاظ کو آپ نے جس طرح شعری آہنگ میں پِرویا ہے وہ بھی اپنی جگہ پر نہایت خوبصورت ہے- فکری طور پہ اس مصرعہ میں اپنے مرشد کی شان بیان کی گئی ہے-

 اس بند کا آخری مصرعہ کچھ یوں ہے:

مار مینوں تلوار فنا دی دے کر ڈھال بقا دی

اس مصرعہ میں ’فنا اور بقا‘ کے الفاظ کا ہم آواز ہونا الگ کیفیت پیدا کر رہا ہے جبکہ فکری طور پہ اس کی چاشنی قاری کیلئے مزید دلچسپی کا سامان مہیا کر رہی ہے- فکری طور پہ ایک طالبِ صادق عرض گزار ہے کہ اگر میں سفرِ عشقِ حقیقت کی لذات اور کیفیات سے آشنا ہو جاؤں تو بقا پا جاؤں گا-

تیسرے بند میں آپؒ فرماتے ہیں:

سنسار دی سار بھلا کے ہوواں عالم توں بیگانہ

یہاں مصرعے میں ’سنسار اور پھر سار‘ کی یکجائی نے مصرعے کو پرلطف اور پُر آہنگ بنا دیا ہے-سنسار معاشرہ کو کہتے ہیں- آپؒ فرماتے ہیں کہ عشق میں ایسی دیوانگی اور وارفتگی مجھ پر وارد ہو جائے جو مجھے دنیا و مافیہا کی لذات اور ناجائز خواہشوں سے دُور کر دے اور خالصتاً مالکِ کائنات کی محبت میرے دل میں سما جائے-

ذوق تے شوق ونجائے تیرا سُدھ بُدھ نفس ہوا دی

اس مصرعے میں ’ذوق و شوق‘ کی ہم آہنگی نہایت مترنم ہے-مصرعہ کےآخری حصے میں آپؒ کا اشارہ ’سد بدھ‘ کی طرف ہے- ایک تو یہ الفاظ کا خوبصورت استعمال ہے دوسرا موسقیت اور نغمگی کا عمدہ اظہار ہے- فکری حوالے سے بہت باریک بات کی گئی ہے- اگر اپنے محبوب سے محبت انتہا پہ پہنچ جائے تو ارد گرد کی کوئی خبر نہیں رہتی کیونکہ ہر وقت ہوش و خرد تذکرۂ محبوب میں محو رہتے ہیں-

چوتھے بند کے ایک مصرعہ میں آپؒ اشعار فرماتے ہیں:

وقت اخیر تاخیر نہ ہووے ہو ہر دم ہمراہی

اس مصرعے میں اخیر اور تاخیر کے الفاظ کا ہم آواز ہونا خوبصورتی کے ساتھ دونوں الفاظ کو یہاں یکجا کر رہا ہے- ساتھ ہی اپنے شیخِ کامل کی بارگاہ میں استغاثہ کی لافانی آرزو بھی تڑپ رہی ہے-جب انسان کا آخری وقت ہوتا ہے تو وہ نہایت مضطرب اور پریشان ہوتا ہے اور خواہش یہی ہوتی ہے کہ اپنے اُس لمحے پاس ہوں جبکہ تصوف کی دنیا میں طالب کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے آخری وقت میں اس کے سر پہ اس کے شیخ یا محبوب کا دستِ شفقت ہو-

پانچویں بند میں آپؒ فرماتے ہیں:

نا ماہر نا محرم آہم ذات اکبر اطہر دا

مصرعہ کے پہلے نصف میں ’ماہر، محرم اور آہم‘ سے میم کی تکرار نے موہ لینی والی موسیقیت انڈیل دی ہے جس مصرعہ یوں لگتا ہے جیسے تیز موجوں کا بہاؤ ہو -اس مصرعہ میں ’اکبر اور اطہر‘ کے الفاظ کا حُسن دیکھیں- آپؒ اپنے مرشد کی بارگاہ میں استغاثہ کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں کہ مجھے اپنے خالق و مالک کی کوئی خبر نہ تھی- میرے مرشد کامل نے کرم فرمایا اور مجھے راستے سے آشنا فرمایا-

 اس کے بعد فرماتے ہیں:

اس رفیق شفیق اعظم دا دلوں بجانوں بردہ

’رفیق اور شفیق ‘ دونوں الفاظ کا یکجا استعمال کمال نغمگی اور ترنم لئے ہوئے ہے مصرعہ کے آخری نصف میں ’دا دلوں بجانوں بردہ‘ کی موسیقیت کا لطف الگ ہے - اسی بند کے آخری مصرعہ میں آپؒ ارشاد فرماتے ہیں:

نور حضور ظہور سوا اے ظالم نفس نہ مردا

’نور، حضور اور ظہور‘ ان تینوں الفاظ کا مترنم اظہار اور یہ فنی کمال پنجابی شعر و سخن کی روایت بالخصوص صوفیانہ شاعری میں بہت خال خال ملتا ہے- مصرعوں کی یہ بُنت اور فنی پختگی قاری کو مسرور و مامون کر دیتی ہے- فکری طور پہ محبت کا اظہار بھی ہے اور یہ سبق بھی دیا گیا ہے کہ نفس انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے- جس کا مقصد انسان کو راہِ حق سے دُور کرنا ہے لیکن عشاقانِ حق حضورِ حق سے نور کے اظہار کی بدولت نفس سے نبرد آزما ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں-

چھٹے بند میں ایک مصرعے میں آپؒ ارشاد فرماتے ہیں:

شرف الفاظ لحاظ ہووے میں گرچہ پُر عصیانی

الفاظ اور لحاظ کا ہم قافیہ ہونا اور ہم آواز ہونا مصرعہ کو بہت خوبصورت بنا رہا ہے- فنی طور پہ مہارت کی عمدہ مثال ہے- فکری حوالے سے دیکھا جائے تو آپ عرض گزار ہیں کہ میں پُر عیب ہوں اور گناہوں میں ڈُوبا ہوا ہوں- لیکن اگر نظرِ کرم نصیب ہو جائے تو یہ سفر آسان ہو جائے-

ساتویں بند میں آپؒ فرماتے ہیں:

بخش شفا یا ہادی مہدی نام نہ رہے الم دا

’ہادی اور مہدی‘ کے الفاظ کی مناسبت کا بیان بہت عمدگی کے ساتھ موسیقیت اور ترنم سے لبریز ہے- فکری معانی یہ ہیں کہ ہادی صفت الٰہی ہے جس کا مطلب ہے ہدایت دینے والا، مومن کامل صفاتِ الٰہیہ سے متصف ہوتا ہے حق کی طرف ہدایت کرتا ہے اس لئے اسے بھی ہادی یا مرشد کہتے ہیں-مہدی کا معنی بھی پیشوا اور رہبر ہے- نیز ان دونوں الفاظ کا مصدر ہدیٰ/ہدایت ہے-اے میرے مرشد و پیشوا ، میرے روحانی الم (وسوسے اور وہمات) دور کر دیجئے اور (دل کی) کامل شفا بخش دیجئے-

اسی بند کا ایک اور مصرعہ اس انداز میں رقم فرمایا:

کنہ کن مکشوف ہووے کر محرم اسم اعظم دا

ایک تو میم کی تکرار خوبی پیدا کر رہی ہے اور ’محرم اور اعظم‘ کی فنی خوبصورتی ایک نئے انداز کے ساتھ قاری کو اپنی جانب مبذول کر رہی ہے- روزِ ازل کے راز اسی صورت میں منکشف ہو سکتے ہیں جب اسمِ اعظم یعنی اللہ کریم کے ذاتی اسم مبارک کا بھید قلبِ انسان پہ عیاں ہو جائے- یہ واحد بھید ہے جو انسان پر عیاں ہو تو روزِ الست کی یادیں تازہ ہو سکتی ہیں-

آٹھویں بند میں آپؒ ارشاد فرماتے ہیں:

یقین قرین رہے ہر ویلے دل پائے معموری

’یقین اور قرین ‘ کا ہم آواز و ہم قافیہ ہونا بہت شاندار و بے ساختہ آیا ہے- راہِ فقر و حقیقت میں یقین کا ہونا لازم و ملزوم ہے- کیونکہ جو طالب شک و شبہ کے درمیان رہتا ہے وہ ناکام ہو جاتا ہے- سلوک کی منازل یقینِ کامل کے ہوتے ہوئے طے کی جا سکتی ہیں-

اسی بند کا اگلا مصرعہ کچھ یوں ہے:

مغروری دوری دُور ہووے کر استدعا منظوری

’مغروری ، دوری دُور‘ کے لفظوں کا جوڑ بھی آپس میں منفرد کیفیت کی جانب اشارہ کر رہا ہے - فکری چاشنی یہ ہے کہ نفس کی سرکشی کی وجہ سے ہجر طویل ہو گیا ہے اس سرکشی اور ہجر کو اب مٹا دیں میری عاجزانہ استدعا قبول فرمایئے -

نویں بند میں پیر بہادر شاہؒ صاحبارشاد فرما رہے ہیں:

داد امداد عطا فرما یا قبلہ ستر کرم دا

’داد اور امداد‘ کی فنی خوبصورتی قابلِ داد ہے-

پھر آگے ارشاد فرماتے ہیں:

تیری اوٹ دا کوٹ تکے کل عالم عرب عجم دا

’اوٹ اور کوٹ‘ کے لفظوں کی یہاں خوبصورتی شاندار ہے اور ساتھ ہی لاجواب اظہارِ عشق ہے- ’اوٹ عالم عرب عجم‘ الف کی آواز سے شروع ہوتے ہیں، اس سے بھی پڑھنے میں ایک لطیف سی نغمگی پیدا ہوتی ہے - یہاں اپنے مرشد کی شان بیان کرنے کا لاجواب انداز ہے- عرب و عجم کے الفاظ نے مفہوم کو مزید عالمگیر کر دیا ہے- کیونکہ فقر کا شہنشاہِ کائنات میں فقر کا فیض تقسیم کرنے والا ہوتا ہے-

اسی بند کے آخری مصرعے میں آپؒ فرماتے ہیں:

ویرانی نفسانی نوں کر نال فضل آبادی

’ ویرانی اور نفسانی‘ کے الفاظ کا ایک ساتھ آنا آپؒ کا فن پر دسترس رکھنا واضح کر رہا ہے اور نون کی تکرار نے نغمہ چھیڑ دیا ہے - فکری اظہار میں بے مثال عاجزی ہے- میرے اندر کی ویرانی جو میری نفسانی لغزشوں کا نتیجہ ہے اسے اپنے فضل سے آباد کر دیجئے کہ یہ آپ کا فضل ہی ہے جو میرے نفس پہ غالب آ سکتا ہے -

پیر بہادر شاہؒ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ خود کو ہمیشہ خطا کار تصور کیا جائے- ویران کا مطلب یہاں بالکل واضح ہے- ویران کو آباد کرنے کےلیے مالکِ حقیقی کے کرم اور فضل کی تلاش ہے-

پیر بہادر شاہؒ کی یہ مناجات بالعموم اور دیگر کلام پہ بالخصوص اگراجتماعی بات کی جائے تو پنجابی شعر و ادب کی صوفیانہ روایت میں آپؒ کی آواز یکسر منفرد ہے-کلام کی وہ تمام شاعرانہ خوبیاں جو کسی بھی شاعر کو اپنے عہد سے ممتاز و منفرد کرتی ہیں وہ آپ کے کلام میں بدرجہ اتم موجود ہیں- آپؒ کا کلام آفاقی اقدار کو چھوتا ہوا نظر آتا ہے- آپؒ کے کلام میں ندرتِ خیال بھی موجود ہے ، رفعتِ تخیل بھی جلوہ گر ہے، وسیع مشاہدہ بھی کارفرما ہے جبکہ زبان و بیان پہ گہری دسترس بھی آپؒ کا خاصا ہے- آپؒ کا ایک اختصاص یہ بھی ہے کہ آپؒ کا دور مبارک سیاسی و سماجی حوالے سے انتشار کی زد میں تھا اور جان و مال محفوظ نہ تھے- لیکن اس کرب ناک عہد کی تاریکیوں اور مایوسیوں کی آپ کے کلام میں کوئی چھاپ نظر نہیں آتی بلکہ ایک مردِ خود آگاہ کی طرح آپؒ نے یقینِ کامل کا مشاہدہ کیا اور نُور کے روشن پیغامِ حق سے عام و خاص کو منور کیا- آپؒ کا کلام آج بھی صوفیانہ محافل میں عشاقانِ حق ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں اور ہمیشہ پڑھا جاتا رہے گا-آئندہ آنے والے عہد میں آپؒ کے صوفیانہ کلام کی مزید بے شمار پرتیں کھلیں گی جن سے جویانِ حق سیراب ہوں گے-

٭٭٭


[1]اختر جعفری ، شہباز ملک ، اسلم رانا ، یونس احقر ، نور احمد ثاقب (مرتبین) تنقیدی وچار ، تاج بک ڈپو، لاہور ، ص 11

[2]محمد محسن خالد ، عظمی نورین ، ’’تصوف ، دردؔ اور تصوراتِ دردؔ کا تلمیحی جائزہ‘‘، مشمولہ : ترجیحات آن لائن ادبی رسالہ ، جلد: 1I ، شمارہ :XI ، ص :20

[3]یاسر ذیشان مغل ، ابرار خٹک، طاہرہ رباب ، ’’متصوفانہ لسانی روایت کے پیش رو : بابا فریدؒ اور امیر خسروؒ‘‘، مشمولہ ، جرنل آف ریسرچ (اردو) ، جلد: 36 ، شمارہ: 2 ، ص: 141

[4]https://www.aikrozan.com/%D9%85%D9%88%D8%B3%DB%8C%D9%82%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B4%D8%A7%D8%B9%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%D8%A7%DB%81%D9%85%DB%8C-%D8%B1%D9%88%D8%A7%D8%A8%D8%B7/

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر