کامِل مُرشد ایسا ہووے جہڑا دھوبی وانگوں چھَٹے ھو
نال نِگاہ دِے پاک کریندا وچ سَجی صَبُون ناں گھَتیّ ھو
مَیلیاں نُوں کر دَیندا چِٹا وِچ ذَرّہ مَیل نہ رکھے ھو
ایسا مُرشد ہووے باھوؒ جہڑا لُوں لُوں دے وِچ وَسّے ھو
Perfect murshid should be as launderer who beats clean Hoo
With glance he purifies without any detergent Hoo
He whitens the dirty never leaves any dirt at all Hoo
Murshid has to be such Bahoo who lives within every hair Hoo
Kamil murshid aisa howay jeh’Ra dhobhi wango’N cha’TTay Hoo
Nal nigah day pak karainda wich sajji saboon na ghattay Hoo
Meliyaa’N noo’H kar dainda chitta wich zarra mail nah rakhay Hoo
Aisa murshid howay Bahoo jeh’Ra loo’N loo’ day wich wassay Hoo
تشریح :
سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھوؒ کی تعلیمات مبارکہ کی روشنی میں مرشد کامل وہ ہوتا ہے جو طالب اللہ کو مختلف مقامات سے گزار کر مقام ِ انسانیت پہ فائز فرماتا ہے جیساکہ آپؒ ارشادفرماتے ہیں:’’مرشد کا کام بھی یہ ہے کہ طالب کو اُس کے وجود میں مقامِ نفس، مقامِ قلب، مقامِ روح، مقامِ سرّ، مقامِ توفیق ِالٰہی،مقامِ علمِ شریعت و طریقت و حقیقت و معرفت اور مقامِ خناس و خرطوم و شیطان و حرص و حسد و کبر علیحدہ علیحدہ کر کے دکھائے یا جس طرح قصاب بکری کو ذبح کر کے اُس کی کھال اُتارتا ہے، اُس کی ہر رگ و بوٹی کو الگ الگ کرتا ہے اور گوشت سے ہر آلائش کو نکال کر دُور پھینک دیتا ہے‘‘-(عین الفقر)
2:’’پیر کو صاحب ِنظر ہونا چاہیے جیساکہ میرے پیر محی الدین شاہ عبدالقادر جیلانیؒ ہیں کہ ایک ہی نظر سے ہزاران ہزار طالب مریدوں میں سے بعض کو معرفتِ اِلَّا اللّٰہُ میں غرق کرتے ہیں اور بعض کو مجلس ِمحمدی (ﷺ)کی حضوری سے مشرف کرتے ہیں- پیر کو ایسا ہونا چاہیے جیسا کہ میرے پیر ہیں کہ ایک ہی نگاہ میں ذکر اللہ سے دل کو چاک، نفس کو خاک، روح کو پاک،موافق ِرحمان اور مخالف ِشیطان کردیتے ہیں‘‘(کلید التوحید کلاں)-اس لیے حضرت سُلطان باھوؒ ارشادفرماتے ہیں:’’ہزار اں ہزار ریاضتوں سے مرشد ِکامل کی ایک بار کی توجہ بدرجہا بہتر ہے‘‘(اسرار القادری)-مزید ارشاد فرمایا:’’فقیر اپنی نظر سے جاہل کو عالم اور مفلس کو غنی کردیتا ہے اور طالب اللہ کو صاحب ِنظر بناکر مجلس نبوی (ﷺ) میں پہنچا دیتا ہے‘‘(امیر الکونین)- آپؒ اپنے بارے میں ارشادفرماتے ہیں :
’’ میرے لئے میرے مرشد ِکامل کی نیم نگاہ ہی بہتر ہے ہر اُس عبادت و کرامت سے کہ جس کی بدولت تُو ہوا میں اُڑتا پھرتا ہے ‘‘-(محک الفقر کلاں)
3:’’جان لے کہ مرشد ِکامل کے ہاتھ پر دست بیعت کئے بغیر نفس کی مخالفت کرنا ،اُس کے حالات سے باخبر رہنا اور اُسے اپنے قابو میں قید کرنا بہت مشکل و دشوار کام ہے- اگرچہ تمام عمر ریاضت کے پتھر سے سر ٹکراتا پھرے کوئی فائدہ نہ ہوگا - اِس لئے کہ نفس بادشاہ ہے اور شیطان اُس کا مقرب وزیر ہے - مرشد ِکامل سب سے پہلے وجود میں اِن دونوں دیووں کو ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے جس سے طالب اللہ شیطانی معصیت اور نفسانی خواہشات سے نجات حاصل کر لیتا ہے‘‘-(مجالسۃ النبی(ﷺ) خورد)
’’ شہوت انسان کو اِس طرح خراب کرتی ہے کہ اُسے عقل سے بے عقل اور انسان سے حیوان بنا دیتی ہے لہٰذا ِن سخت حالات میں مرشد ِکامل دستگیر ہونا چاہیے جو اُسے شہوت اور شامت ِنفس سے باہر نکال لائے‘‘-(کلیدالتوحیدخورد)
ایک اورمقام پہ آپؒ مرشد کامل کی صفات کاتذکرہ کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں: ’’مرشد طالب کے دل میں ذکر اﷲ کی جھا ڑو پھیر کر اُس کے وجود کو ہر قسم کے غلط رویے سے پاک کر تاہے‘‘(کلیدالتوحیدخورد)-مزید ارشادفرمایا:’’ پیر مرشد کو صراف و زرگر کی مثل ہوناچاہیے جو ایک ہی نگاہ میں کھرے اور کھوٹے کو پرکھ لیتا ہے‘‘-(محک الفقر کلاں)
4: جس طرح ہادیٔ اعظم (ﷺ) کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا:
’’ اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ‘‘ ’’یہ نبی مکرم (ﷺ) مؤمنوں کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہیں‘‘-
یعنی ہر وقت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ قدرت سے اپنے امتیوں کے احوال کامشاہدہ کرتے رہتے ہیں -اسی طرح مرشد کامل بھی اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اپنے طالب کے ہرقول وفعل سے آگاہ و باخبر ہوتا ہے جیساکہ آپؒ محبوب سُبحانی سیّدی الشیخ عبدالقادر جیلانی الحسنی والحسینیؒ کےبارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’حضرت پیر میراں محی الدینؒ کا تعلق اپنے طالبوں اور مریدوں سے ایسے ہے کہ جیسے جان و دم کا تعلق جسم کے ساتھ ہے - حضرت پیر دستگیر شاہ عبد القادر جیلانی کا طالب مرید فرزند اگرصالح ہے تو وہ ہر وقت حضرت پیر دستگیرؒ کی آستین میں رہتا ہے اور اگر طالح ہے تو حضرت پیر دستگیرؒ اُس کی آستین میں رہتے ہیں- اللہ اور اُس کے رسول(ﷺ) کی قسم! حضرت محی الدینؒ قیامت تک کسی بھی حال و احوال اور اقوال و افعال و اعمال میں اپنے طالب مرید فرزند سے جدا نہیں ہوتے بلکہ حشرگاہ میں بھی اُسے ہر مقام پر اپنی نظر و نگاہ کی پناہ بخشیں گے‘‘-(اسرارالقادری)
ایک اور مقام پہ آپؒ طالب و مرشد کے تعلق کو بیان کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں:
’’مرشد ِکامل وہ ہے جو طالب کے ہر حال ، ہر قول ، ہر عمل، ہر فعل، ہر حالت ِمعرفتِ قرب وصال اور ہر حالت ِخطرات و دلیل و وہم و خیال سے باخبر رہے-مرشد کو اِس قدر ہوشیار ہونا چاہیے کہ وہ ہر وقت طالب کی گردن پر سوار رہے اور اُس کی ہر بات اور ہر دم کی نگہبانی کرتا رہے-مرشد اِس قدر باطن آباد ہو کہ طالب اُسے حاضراتِ اسم اللہ ذات کی مدد سے ظاہرو باطن میں ہروقت حاضر و ناظر سمجھے اور اُس سے کامل اعتقاد رکھے ‘‘-(کلید التوحید کلاں)