مسلم انسٹیٹیوٹ اور ادارہ نظریہ پاکستان لاہور نے مشترکہ طور پر ادارہ نظریہ پاکستان میں 3فروری 2024ء کو مولانا رومیؒ و حضرت سلطان باھوؒ کانفرنس کا انعقاد کیا-یہ کانفرنس دو سیشن پہ مشتمل تھی-کانفرنس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی -
سیشن اول
کانفرنس کے پہلے سیشن کی صدارت ڈاکٹر شاہد منیر، چیئرمین پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن نے کی-ملک آصف تنویر اعوان ایڈوکیٹ نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دئیے- معروف گلوکار راجہ حامد علی نے کلام باھو پیش کیا-
معزز مقررین
- ڈاکٹر شاہد منیر (چیئرمین پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن)
- میاں فاروق الطاف (سینئر وائس چیئرمین ادارہ نظریہ پاکستان)
- صاحبزادہ سلطان احمد علی (چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ)
- پروفیسر ہمایوں احسان (پرنسپل پاکستان لاء کالج)
- حمیرہ مسیح ا لدین ایڈووکیٹ(سکالر و ایکڈیمیشن)
- ڈاکٹر خاور سعید بھٹہ (چیئرمین شعبہ پنجابی جی سی یونیورسٹی لاہور)
- ناہید عمران گل (سیکریٹری ادارہ نظریہ پاکستان)
کانفرنس کے پہلے سیشن میں مقررین کے اظہار خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے -
رومی ایک ایسی شخصیت ہیں جن کی مثنوی نے 600 برس تک برصغیر پاک و ہند پر ادبی حکومت کی ہے- اس خطے کی مسلم فکر پر مولانا جلال الدین رومیؒ کا گہرا اثر ہے-آپ جب بھی اسے پڑھیں گے، آپ کو اس کے تانے بانے رومی کی مثنوی سے ملیں گے- برصغیر میں صوفیاء کی وجودی روایت رہی ہے- یہ روایات فتوحات مکیہ یا فصوص الحکم ہی کے ذریعے یہاں داخل نہیں ہوئیں بلکہ مثنوی مولانا جلال الدین رومی کے ذریعے داخل ہوئی ہیں- مولانا رومی کا اس خطے کی علمی و ادبی روایات میں ایک خاص اثر ہے جس کو آج لوگ بھولتے جا رہے ہیں-
ہیر وارث شاہ کا ایک اپنا ترنم ہے- آپ نے ہیر وارث شاہ کو ایک ہی سر میں سنا ہوگا- اس کی کوئی دوسری سر نہیں لگائی جاتی، لوگوں نے کوشش کی لیکن قبولیت نہ ملی- میاں محمد بخش صاحب کے کلام کی اپنی ایک طرز ہے جسے ہمیشہ اسی طرز میں پڑھا جاتا ہے- یہی اس کی شناخت ہے- اسی طرح حضرت سلطان باھو ؒ کے کلام پڑھنے کا ایک درباری سطح پر فقیرانہ اور درویشی طریقہ ہے دوسرا وہ طریقہ جو عام ہے جسے اقبال باھو اور دوسروں نے پڑھا ہے- ہم میں سے کم لوگ جانتے ہیں کہ مثنوی شریف کو بھی ترنم میں پڑھنے کا ایک اپنا طریقہ ہے- اس کی خاص سُر تھی جس میں مثنوی کو پڑھا جاتا تھا-
مثنوی میں ایک کہانی ہے ’’یہودی بادشاہ اور اس کی عیسائی رعایا‘‘،جو موجود دور کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ کس طرح سے پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے اور کس طرح سے ہم اس سے اپنا دفاع کر سکتے ہیں- مثنوی ایک شاہکار سٹرکچر کے مطابق لکھی گئی ہے جس میں ایک پیغام ہے کہ ادب برائے ادب نہیں بلکہ ادب برائے ہدف ہونا چاہیے-
مثنوی کو صدیوں سے انسان سازی، کردار سازی اور سلوک سازی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور مولانا خود فرماتے کہ یہ کتاب مثنوی دین کی بنیاد ہے اور قرآن کریم کی تفسیر ہے-
سب سے حیران کن یہ ہے کہ رومی کا فنون لطیفہ سے شغف نہیں تھا آپ کی تربیت تو فقہ و قانون کی ہے اور آپ قونیہ میں فقہ کے چار کالجوں میں قانون پر لیکچر دیا کرتے تھے، 37 سال کی عمر میں مولانا شمس کی رفاقت میں آتے ہیں، جس جگہ پر آپ کی پہلی ملاقات ہوئی اس کو ترکیہ زبان میں مجمع البحرین کہتے ہیں یعنی دو سمندروں کا ملنا اور 40 برس کی عمر میں مولانا رومیؒ فرماتے ہیں:
ہیچ چیزے خود بخود چیزے نہ شد |
’’کوئی بھی چیز خود بخود خاص چیز نہیں بنتی، کوئی بھی لوہا خود بخود تلوار نہیں بن سکتا-مولوی (رومی ؒ) ہرگز مولائے روم نہ بن سکتا، جب تک وہ شمس تبریزی کی غلامی اختیار نہ کرتا‘‘-
حضرت سلطان باھوؒ بھی یہی فرماتے ہیں کہ :
الف: اَللہ چَنْبے دِی بُوٹی میرے مَن وِچ مُرشد لَائی ھو |
یعنی مرشد ہی ہے جس کے بغیر کچھ ممکن نہیں- اس کے برعکس جس کا کوئی مرشد نہیں ہوتا اس کا مرشد شیطان ہوتا ہے، وہ اس سے رہنمائی لیتا ہے- یعنی کتابوں سے آپ اس طرح سے فیض حاصل نہیں کر سکتے- آپ کو ہر حال میں مرشد چاہیے جس طرح حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
سَئیے ہَزار کِتاباں پَڑھیاں پَر ظَالم نَفس نَہ مَردا ھو |
مثنوی میں چوبیس ہزار اشعار ہیں جو کہ 6 دفاتر میں مشتمل ہے- جس کا پہلا دفتر نفس پر ہے اور نفس کے بارے میں تیرہویں صدی کے مولانا رومیؒ اور سترہویں صدی کے حضرت سلطان باھوؒ دونوں بیان کرتے ہیں کہ یہ نفس ہی ہے کہ جس سے سب کچھ بنتا اور بگڑتا ہے-
دوسرا دفتر بصیرت اور بصارت پر ہے- اس میں12 کہانیاں ہے جو ایک دوسرے سے مکمل ربط رکھتی ہے-
تیسرے دفتر کا موضوع علم اور حکمت پر ہے- اس کے آغاز میں مولانا رومیؒ فرماتے ہیں کہ حکمت اسی طرح ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی فوج-
چوتھے دفتر کا تعلق الہام سے ہے اور پانچویں اور چھٹے دفتر کا تعلق روح کی بد عنوانی سےہے-
ان تمام دفاتر میں جو کہانیاں آپ نے بیان کی ہیں ان کی مثال Social Engineering کی ہے اور اگر ہم ان کہانیوں کو اپنی ایجوکیشن میں شامل کر لیں تو ہمیں ایک سال میں واضح فرق نظر آئے گا-
مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھوؒ دونوں شخصیات مسلمانوں کی میراث ہیں- امن و محبت کے سفیر کے طور پر حضرت سلطان باھوؒ کا کلام اہم ہے - محبت سے بڑا کوئی مؤثر ہتھیار نہیں ہے- مختلف عقیدوں کے لوگوں کو محبت کے ساتھ رہنا چاہیے- ہمارے پاس صوفیا کا بہت بڑا خزانہ ان کی کتابوں اور تعلیمات کی صورت میں موجود ہے- اس ورثے کی ترویج کے لیے عربی اور فارسی زبان کو فروغ دینے کی ضرورت ہے- اپنے فلسفے کے اعتبار سے یہ تعلیمات بہت اعلیٰ ہیں- ان تعلیمات سے پاکستان کو مایوسی سے نکال کر ایک پر امن اور پاکیزہ معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے-
کسی بھی معاشرے میں امن کی مقدار اس میں پائے جانے والی سچائی کے سفر سے منسلک ہے- مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیمات طبیعاتی و مابعد طبیعاتی پہلوؤں پر انسان کی تربیت کرتی ہیں- سچائی کے کسی ایک زاویے کو بھی پکڑ لیا جائے تو وہ زاویہ انسان کو سچائی کے گہرے سمندر میں لے جاتا ہے- بعینہ جمالیاتی تحقیق بھی خدا سے اپنا رشتہ بحال کرنے کا ایک بہترین زاویہ ہے- دنیا میں ایمانوئل کانٹ کے جمالیات کے تصور پر بہت کام ہوا ہے صوفیاء کا خدا تک پہنچنے کا تصور جمالیات سے جدا نہیں ہے-
جب ہمارے اعمال میں خدا کی صفات نظر آئیں گی تو ہمارے چہرے پر خدا کی محبت نظر آ جائے گی-جن معاشروں نے work ethics پر کام کیا وہ خوشحال ہوئے کیونکہ انہوں نے اپنی عملی زندگی میں خدا کی محبت کا اظہار کیا-مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھوؒ کا کلام اس خلا کو پُر کرتا ہے- یہی وجہ ہے کہ آج تک اہل دل اور اہل نظر ان سے فیض حاصل کر رہے ہیں- ان تعلیمات کو جہاں سے بھی پرکھیں سچائی ہی ملے گی- آج ہمیں اسی بات کی ضرورت ہے کہ ہم طالب علموں کو سکھائیں کہ جو پڑھیں اس کا عملی مظاہرہ پیش کریں- جیسا کہ مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھوؒ نے خدا کی محبت کا عملی نمونہ پیش کیا- اگر ان تعلیمات پر بھر پور عمل شروع کیا جائے تو ان تعلیمات کوapplied science کی صورت دی جا سکتی ہے- اس صورت میں ہم اپنے مقاصد کو بہتر طریقے سے حاصل کر سکتے ہیں-
وقفہ سوال و جواب
وقفہ سوال و جواب کا خلاصہ درج ذیل ہے-
فلسفیانہ و کلامی مسائل بھی حضرت سلطان باھوؒ کے پنجابی کلام میں پائے جاتے ہیں جب ذات و صفات باری تعالیٰ، روح، تجلیات وغیرہ کی بات ہو گی تو کلامی مسائل ضرور زیرِ بحث آئیں گے- اس طرح کی مباحث موجود ہیں مگر بد قسمتی سے ماضی میں اس پر کوئی وسیع تحقیقی کام نہیں ہو سکا - لیکن آپؒ کی کتب کے مخاطبین طالبانِ مولیٰ ہیں جو تصوف کی تعلیمات کو عمل میں لانا چاہتے ہیں- مولانا جامی نے مثنوی کو فارسی کا قرآن کہہ کر بہت بڑا دعوی کیا ہے جو کہ مثنوی کیلئے ایک قسم کا خراجِ تحسین بھی ہے کیونکہ مثنوی شریف قرآن کریم کی تعلیمات کی عکاسی کرتی ہے جس کا یقین ایک شخص کو تبھی ہو سکتا ہے کہ جب وہ مثنوی کا بغور مطالعہ کرے گا- یہ دعویٰ مولانا جامی نے بغیر پیشگی علم اور ثبوت کے نہیں کیا- خدا، انسان اور فطرت کے تعلق کو سمجھنے کیلئے صوفیائے کرام کی تعلیمات بنیادی حیثیت رکھتی ہیں -
سیشن دوئم :
کانفرنس کے دوسرے سیشن کی صدارت ڈاکٹر محمد سلیم مظہر (ڈائریکٹر جنرل مقتدرہ قومی زبان)نے کی- ڈاکٹر عظمیٰ زرین نازیہ نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دئیے-معروف گلوکار راجہ حامد علی نےاختتام پہ کلام باھو پیش کیا-
معزز مقررین:
- ڈاکٹر محمد سلیم مظہر (ڈائریکٹر جنرل مقتدرہ قومی زبان)
- صاحبزادہ سلطان احمد علی (چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ)
- ڈاکٹر دلدار علوی (ڈین نیچرل سائنسز ، ایف سی کالج یونیورسٹی لاہور)
- میاں سلمان فاروق (سکالر ممبر بورڈ ادارہ نظریہ پاکستان)
- پروفیسر ڈاکٹر فلیحہ زہرہ کاظمی (وائس چانسلر ہوم اکنامکس یونیورسٹی لاہور)
کانفرنس کے دوسرے سیشن میں مقررین کے اظہار خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے -
مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھوؒ دنیائے اسلام کے ہی نہیں بلکہ بنی نوع انسان کی عظیم شخصیات میں سے ہیں اور بنی نوع انسان آج جس المیے اور مشکل کا شکار ہے انہوں نے اُس کا وقت سے پہلے علاج تجویز کیا اور جس نے اس علاج کو اختیار کیا وہ دنیا اور آخرت میں سرخروئی اور کامیابی پا گیا- حضور نبی اکرم (ﷺ) کے ساتھ زندگیاں گزارنے والے نماز بھی پڑھتے تھے، اُن میں سے بہت سے لوگوں نے حج بھی کیا تھا اور صاحبِ استطاعت تھے زکوٰۃ بھی دیتے تھے، لیکن اُن میں سے نہ کسی کو حاجی کہا جاتا ہے، نہ نمازی کہا جاتا ہے اور نہ زکوٰۃ دینے والا، اُن کو صحابی کہا جاتا ہے- یعنی ساری فضیلتوں کے باوجود جو نسبت ہے وہ تعلق کی ہے- تو جس کا کسی بڑے کے ساتھ نسبت اور تعلق والا معاملہ نکل آیا وہ اُس بڑائی تک خود بھی پہنچ گیا-
مولانا رومیؒ کی ایک غزل ہے جس کا عنوان ہے ’’مردہ پرست‘‘ جس میں وہ کہتے ہیں کہ تو آ تاکہ ہم ایک دوسرے کی قدر اور مرتبہ پہچان لیں- کہیں ایسا نہ ہو کہ تقدیر کے کسی فیصلے کی وجہ سے ہم ایک دوسرے سے محروم نہ ہو جائیں- کل توں میری قبر پر آ کر جو بوسے دے گا، تو آج آ میرے رخسار چوم لے میں وہی ہوں جو کل قبر میں چلا جاؤں گا-
اللہ تعالیٰ نے کمال کے اولیائے کرام سے برصغیر کو نوازا ہے جنہوں نے پچھلے سینکڑوں برسوں میں بے شمار خدمات سر انجام دی ہیں انہوں نے اپنی ساری زندگی اپنے حسن کردار سے کتنے لوگوں کے دلوں کو منور کیا ہے اور دعوت اسلام میں ساری زندگی انہوں نے وقف کی- ان تمام اولیاء کرام میں حضرت سلطان باھوؒ ممتاز حیثیت رکھتے ہیں لیکن ان بےمثال کرداروں کو کسی بھی سطح پر پڑھایا یا بتایا نہیں جاتا-ہماری دو تہائی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے ہم سب پر لازم ہے کہ ہم ان کے تعلق کو اللہ اور اس کے پاکباز بندوں سے جوڑیں- جس طرح حضرت سلطان باھوؒ کی باکمال زندگی سے ہمیں بے شمار درس ملتے ہیں اگر ہم 400 برس پیچھے جائیں تو ہمیں حضرت جلال الدین رومی ملتے ہیں جن کو حضرت علامہ اقبال نے اپنا مرشد قرار دیا جن کی مثنوی کا دنیا میں متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے- جو دنیا کی سب سے زیادہ بِکنے والی کتابوں میں شمار ہوتی ہے لیکن چراغ تلے اندھیرے والی بات ہےکہ ہم نے حضرت سلطان باھوؒ اور مولانا رومیؒ کی تعلیمات سے تعلق نہیں جوڑا-
حضرت مولانا رومیؒ انسانی زندگی کو دو قوتوں روح اور نفس امارہ کا مرکب قرار دیتے ہیں روح کو عقاب سے اور نفس کو کوے سے تشبیہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دونوں ایک ہی پنجرے میں قید ہیں اگر روح نفس پہ غلبہ پا لے تو فرد اور سماج میں توازن قائم ہو جاتا ہےاور خیر کی قوتیں مضبوط ہوتی ہیں اس کے برعکس اگر نفس روح پر غالب آ جائے تو انسان نہ صرف برائیوں کی طرف راغب ہوتا ہے بلکہ پورا سماج انتشار کا شکار ہوتا ہے حضرت سلطان باھوؒ بھی روحانی طور پہ دیوالیہ معاشرے کو ایک تاریک جنگل سے تشبیہ دیتے ہیں کہ جہاں کے رہنے والے صرف اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل میں دن رات لگے ہوئے ہیں اور کسی دوسرے انسان کا دکھ درد بانٹنے کیلئے ان کے پاس کوئی فرصت نہیں-محسوس ہوتا ہے کہ مایوسی کا عالم ہے لیکن ایسے حالات میں ہمارے اولیائے کرام نے ہمیں اپنے کلام سے مایوسیوں کی تاریکیوں سے نکالا اور یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے پاس ایسے بہترین کردار والے اولیاء کرام موجود ہیں- ان کی تعلیمات نہایت ہی بنیادی ہیں کہ انسان اپنی ذات کی نفی کر کے مخلوق خدا کی خدمت کرے اور دوسروں کی خوشی اور سکون کی خاطر اپنا سکھ چین قربان کرے-
جہاں تصوف کی بات ہوتی ہے وہاں محبت کی بات ہوتی ہے عشق کی بات ہوتی ہے- مولانا رومیؒ کی بانسری اور حضرت سلطان باھو کی ’’ھو‘‘ یہ دو چیزیں بہت بنیادی عنصر ہیں ان دونوں شخصیات کے کلام میں یا ان کے پیغام میں جو انسانی روح کو تبدیل کر کے رکھ دیتے ہیں اور اس کی ذات کو اس کے پروردگار سے ملانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں- رومی کی موسیقی میں جو ’’نے‘‘ (بانسری)ہے یہ روح کی آواز ہے یہ بانسری جب بچتی ہے تو پروردگار سے ہماری جدائی کی بات کرتی ہےاور دوبارہ اس رستے پر چلے جانے کی بات کرتی ہے جو در حقیقت انسان کی معراج بھی ہے اور وصال کا مقام بھی- حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں :
الف: اَللہ چَنْبے دِی بُوٹی میرے مَن وِچ مُرشد لَائی ھو |
مولانا رومیؒ فرماتے ہیں :
ایں مرغ کہ خوشں غا غا |
’’اے وہ پرندے جو خوبصورت آواز میں غا غا (اس ذات کی تعریف) کر رہا ہے ،تو ہی ہی کرتا ہے(اس ذات کا وصف بیان کرتا ہے) اور میں فریاد کے نعرے بلند کر رہا ہوں-تیری صفت خخ اور میری جبلت مروت ہے، میں ایسا پرندہ ہوں جو اس (ذات) کی شان ھو ھو پکارتا ہوں‘‘-
یہ دراصل وہی احساسات ہیں جو دونوں عظیم شخصیات انسان کی روح کی اس تلاش کی جانب اشارہ کرتی ہیں جو اُس کو اپنے پروردگار سےملا دیتی ہیں اور اس کو معراج عطا کرتی ہیں- شاعر کے لیے ضروری ہے کہ اس کے کلام میں اور اس کی ذات میں معجزانہ صلاحیتیں ہوں تب ہی وہ قائم رہ سکتا ہے اور اگر ہم رومی کو دیکھتے ہیں یا حضرت سلطان باھوؒ کو دیکھتے ہیں تو دونوں ہی شخصیات اس صفت سے مامورنظر آتی ہیں- یورپ کے پاس بڑی شخصیات نہیں تھیں، شیکسپئیر ان کے ہاں سب سے بڑی شخصیت نظر آتی ہے لیکن برصغیر میں یا مسلم دنیا میں رومی سے بھی پہلے سنائی، عطار، فردوسی، رومی، حافظ جیسی شخصیات ہیں اور برصغیر میں حضرت امیرخسرو، حضرت سلطان باھو،علامہ اقبال اور بے شمار ایسی شخصیات ہیں- ہم تو معمور ہیں علم و فن اور دانش کے نور سے لیکن ہم سے اس کو دور کیا گیا تاکہ ہم اپنے اصل سے بھاگ جائیں اس کی ہمیں پہچان نہ رہے- ہم ایک انگریزی زبان کی پیروی کرتے رہے، انگریزی سیکھنا پڑھنا بہت اچھی بات ہے آپ جتنی زیادہ زبانیں سیکھتے ہیں آپ کے آئی کیو لیول میں اتنا ہی اضافہ ہوتا ہے لیکن کیا یہ درست ہے کہ ہم اپنے ماضی کو بھول جائیں-کوئی بھی قوم ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ وہ اپنے ماضی کو یاد نہ رکھے- مولانا رومی اور حضرت سلطان باھُو تابناک ماضی کے روشن مینار ہیں جن کی روشنی سے آج بھی انسانی دل نور حاصل کرتے ہیں -
٭٭٭