ابیات باھُو: ک: کر عِبادت پِچھو تَاسیں تَینڈی عمراں چَار دِہاڑے ھو

ابیات باھُو:  ک: کر عِبادت پِچھو تَاسیں تَینڈی عمراں چَار دِہاڑے ھو

ابیات باھُو: ک: کر عِبادت پِچھو تَاسیں تَینڈی عمراں چَار دِہاڑے ھو

مصنف: Translated By M.A Khan جون 2024

ک: کر عِبادت پِچھو تَاسیں تَینڈی عمراں چَار دِہاڑے ھو
تھِی سوداگر کر لے سودا جاں جاں ہٹ نہ تاڑے ھو
مَت جانی دِل ذوق مَنّے موت مریندی دَھاڑے ھو
چوراں سادھاں رَل پُور بھَریا باھوؒ رَبّ سلامت چَاڑے ھو

Your life is few days establish worshiping or you will be regretful but Hoo

Be a trader and barter the shop will gradually shut Hoo

Perhaps beloved acknowledges your passion, challenging is death alas Hoo

Thieves and pious people filled the boat, Bahoo Rabb will take the boat across Hoo

Kar ibadat pichho tasai’N tani’Di umra’N char diha’Ray Hoo

Thi sodagar kar lai soda ja’N ja’N ha’T nah ta’Ray Hoo

Mat jani dil zoq mannay mot maraindi dha’Ray Hoo

Chora’N sadha’N ral poor bharya Bahoo rab salamat cha’Ray Hoo

تشریح:

گر تو خواہی دیدنِ وحدت خدا

 

در زندگی یکبار شو از خود فنا

1:’’ اگر تُو وحدت ِخدا کا مشاہدہ کرنا چاہتاہے تو زندگی ہی میں خود کو فنا کے گھاٹ اُتار دے ‘‘-(نورالھدٰی)

 زندگی انتہائی مختصر ہے اگر اس میں اللہ عزوجل کی عبادت کرکے اس کا قرب ووصال اور مرتبہ یقین حاصل نہ کیا تو بعد میں پچھتاوے کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوگا- جیساکہ حضرت سُلطان باھوؒ ہیں:

’’دنیا میں تجھے چند روزہ زندگی عطا کی گئی ہے، یہ زندگی دائمی بندگی کے لئے ہے اور بندگی اللہ تعالیٰ کی کامل معرفت کا نام ہے یعنی جثۂ نفس سے نکل کر جثۂ قلب و روح میں اِس طرح آنا کہ زندگی و موت کا فرق ہی مٹ جائے‘‘(نورالھدٰی)-جیسا کہ آقا کریم (ﷺ) نے ارشادفرمایا: ’’ دنیا کی زندگی ایک لحظہ ہے جس میں ہمیں طاعت گزار ہو کر رہنا ہے‘‘(عین الفقر)-ایک اور مقام پہ آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا :’’حیاتِ دنیا محض ایک دن کی زندگی ہے اور ہمیں اِس میں روزہ رکھنا ہے‘‘-(عین الفقر)

2:’’چند روز کے بعد تجھے بھی زمین کے نیچے جانا ہے -بروقت معرفت اللہ وصال حاصل کر کہ وقت ایک کاٹ دار تلوار ہے جو زندگی کی ڈور کاٹ رہی ہے- اگر تُوسمجھے توزندگی کی فرصت کوغنیمت جان، اگر نہ سمجھے تو تیری عاقبت مردہ ہے - تُونے ہمیشہ زندہ نہیں رہنا‘‘(امیرالکونین)- اس لیے طالب اللہ کو اللہ تعالیٰ کے فرمان ’’وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَ تَبَتَّلْ اِلَیْهِ تَبْتِیْلًا(اور اپنے رب کا نام یاد کرو اور سب سے ٹوٹ کر اسی کے ہو ر ہو)‘‘کو سامنے رکھ زندگی گزارنی چاہیے اس سے پہلے کہ زندگی کی مہلت ختم ہوجائے-اس لیے آپؒ طالب اللہ کو نصیحت فرماتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں :’’ظاہر باطن میں صاحب ِطاعت بن کر رات دن ذکر ِ ’’اَللّٰہُ‘‘ میں غرق رہے ، گھر بار چھوڑ کر خلق سے جدا ہو جائے، صبح شام بلکہ ہر وقت اشتغال اللہ ( تصورِ اسمِ اللہ ذات ) میں غرق رہے ، ہردم معیت ِحق کو غنیمت جانے ، دنیا و اہل ِ دنیا سے رغبت نہ رکھے ، لباسِ شریعت پہنے اور لب بستہ خاموشی کو عزیز جانے ‘‘-(محک الفقرکلاں)

3: موت کا وقت ہر لمحہ قریب آرہا ہے اس لیے ان فرصت کے لمحات کو غنیمت جان کر اپنے دل میں اللہ عزوجل کا ذوق و شوق پیداکرنا ہے کیونکہ نفس تو اس چیز سے دور بھاگتا ہے-وہ خود بخود عشق ومحبت کی کشتی پہ سوار نہیں ہوگا- اس لیے آپؒ ارشادفرماتے ہیں:

’’اے عقلمند! ہوش سے کام لے اور ہمیشہ یاد رکھ کہ موت کا کوئی بھروسہ نہیں، اسے بلا فرصت آناہے- پس طالب اللہ کو چاہیے کہ ہر وقت تصور اسم اللہ ذات میں مشغول رہے اور حروف اسم اللہ ذات سے پیدا ہونے والے شعلہ تجلی انوار میں غرق ہوکر اس شان سے مشرف دیدار پروردگار رہے کہ نہ اسے بہار بہشت یاد رہے اور نہ ہی نار جہنم‘‘-(شمس العارفین)

ایک اور مقام پہ آپؒ ارشاد فرماتے ہیں:

’’دم کی نگہبانی کر کہ دم ایک پورا جہان ہے، داناؤں کے نزدیک (تصورِ اسم اَللّٰہُ میں گزرا ہوا)ایک دم جہان بھر سے افضل ہے- حیف و افسوس میں اپنی عمر برباد نہ کر، فرصت ِدم کو عزیز رکھ کہ وقت کی تلوار اُسے کاٹ رہی ہے‘‘-(عین الفقر)

4:ایک مفہوم تو یہ ہے کہ دنیا میں مختلف قسم کے لوگ ہیں،اللہ پاک کرم فرمائے ایمان کی سلامتی کے ساتھ یہاں سے گزر جائیں- دوسرا مفہوم یہ ہے کہ انسان کو نفس و شیطان،دنیا اور خواہشات نفسانیہ جیسے موذی دشمنوں کاسامنا ہے-اللہ تعالیٰ اپنے کرم و فضل سے صحیح و سلامت یہاں سے کامیاب و کامران گزر جانے کی توفیق مرحمت فرمائیں- جیسا کہ آپؒ ارشاد فرماتے ہیں :

’’سن اے جان من! کہ مرشدوں اور طالبوں کے لئے یہی ایک نکتہ ہی کافی ہے کہ تیرےبائیں پہلو میں نفس اور دائیں پہلومیں شیطان کا ڈیرہ ہے اور ان دونوں دشمنوں سے تیری جنگ چھڑی ہوئی ہے-پس جس شخص کے دونوں پہلوؤں میں مثل زخم تیر یا مثل درد خار ایسے دشمن ہر وقت موجود رہتے ہوں اور انہوں نے اس کے اندر تباہی مچا رکھی ہو، اسے بھلا خواب و خوش وقتی سے کیا واسطہ؟‘‘ (شمس العارفین)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر