اگر دعوت شروع کرتے وقت صاحب ِدعوت کی خواہش ہو کہ کفار کو مسلمان کر لے یا رافضیوں اور خارجیوں کی بیخ کنی کر دے یا اُنہیں جلا وطن کردے یا ایک ہی دم میں دشمنانِ دین کی جان قبض کرلے یا اُنہیں ایسا روگ لگا دے کہ پھر وہ تندرست نہ ہوسکیں یا وہ چاہے کہ مشرق سے مغرب تک تمام لوگوں کو ہدایت و تلقین ِمحمدی (ﷺ) نصیب ہو جائے یا وہ ایساصاحب ِنظر و اہل ِمعرفت ہو جائے کہ کونین کی ہر زیر و زبر اُس کے تابع فرمان ہو جائے یا وہ عیسیٰ صفت ہو کر ایسے مرتبے پر پہنچ جائے کہ ایک ہی دم سے مردے کو زندہ کردے تو وہ اِن اسمائے مبارکہ کے تصور و تصرف و توفیق کی باطنی راہ اختیار کرکے یہ مقاصد حاصل کرلے- وہ اسمائے مبارکہ یہ ہیں:
یہ وہ اسمائے مبارکہ ہیں کہ اگر اِن کے تصور سے مجلس ِمحمدی (ﷺ) کی حضوری کا ارادہ کیاجائے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور اصحابِ کبار (رضی اللہ عنھم) کی ارواحِ مقدسہ حاضر ہوجاتی ہیں، اگر اِن کے تصور سے صحبت ِشیخ کی نیت کی جائے تو صورتِ شیخ حاضر ہوجاتی ہے اور الہامات کے ذریعے رہنمائی کرتی ہے- اگر اِن کے تصور سے میکائیل (علیہ السلام) کا خیال کیا جائے تو وہ حاضر ہو جاتے ہیں اور بارانِ رحمت برسا دیتے ہیں، اگر اِن کے تصور سے اسرافیل (علیہ السلام) کا خیال کیا جائے تووہ حاضر ہوجاتے ہیں اور جس ملک کو فنا کر نا مقصود ہو اُسے دم بھر میں ایسا تباہ و برباد کرتے ہیں کہ پھر قیامت تک آباد نہیں ہوتا، اگر اِن کے تصور سے عزرائیل (علیہ السلام) کا خیال کیا جائے تو وہ حاضر ہوجاتے ہیں اور بذریعہ الہام پوچھتے ہیں کہ اگر کسی دشمن کو ہلاک کرنا مقصود ہے تو دم بھر میں وہ اُس کی جان قبض کرلیتے ہیں- اِن کے انتہائی تصور سے وہم توجہ بن جاتاہے اور فقیر کا وہم تمام جہان کو گھیر لیتاہے کیونکہ جب وہ دعوت ختم کرتاہے تو چار قسم کے باطنی لشکر اُس کی حفاظت کے لئے اُس کے گرد جمع ہو کر نگہبانی کرتے ہیں ، اگرچہ وہ ظاہری آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتے- وہ باطنی لشکریہ ہیں-(۱) نگاہِ الٰہی میں منظوری کا لشکر،(۲) نگاہِ محمدی (ﷺ)میں منظوری و حضوری کا لشکر،(۳)مؤکل فرشتوں اور جنونیت کا لشکر، (۴) ارواحِ شہدا کا لشکر- ایسے صاحب ِدعوت ولی اللہ کو جب کسی پر غصہ آتاہے تو غیب سے اُسے ایسا زخم لگتاہے جو کبھی ٹھیک نہیں ہوتا اور آخر کار وہ اُسی زخم سے مر جاتاہے لیکن بہتر یہ ہے کہ وہ خلق کا بوجھ برداشت کرے اور اُنہیں دکھ نہ دے، بلکہ نافع المسلمین بن کر رہے-
باب ہفتم
متفرق مضامین و شرحِ جمعیّت
جان لے کہ جمعیت کہ پانچ حروف ہیں اور ہر حرف کا اپنا الگ مقام ہے- ہر حرف کا تصور اپنے مقام کی تمام نعمتوں کا مکمل تصرف بخشتاہے- صاحب ِ جمعیت جب اِن پانچوں مقامات کو اپنے قبضے و تصرف میں لے لیتاہے تو اُس کے دل میں حاجت باقی رہتی ہے نہ کوئی افسوس کہ وہ جو چاہتاہے اُسے مل جاتاہے- مقامِ جمعیت جملہ علومِ تحقیقاتِ حیُّ قیوم کا جامع ہے اور وہ پانچ گنج وپانچ مقامات کہ جن میں جملہ نعمتوں کا تصرف پایا جاتاہے یہ ہیں- مقامِ ازل، تصرفِ ازل، گنج ِازل اور نعمت ِ ازل- مقامِ ابد، تصرفِ ابد،گنج ِابد اور نعمت ِابد- مقامِ دنیا ، تصرفِ دنیا، گنجِ دنیا اور نعمت ِ دنیا، نعمت ِدنیا سے مراد اُن تمام چیزوں کا تصرف ہے جو روئے زمین پر پائی جاتی ہیں- مقامِ عقبیٰ، تصر فِ عقبیٰ ، گنجِ عقبیٰ اور نعمت ِ عقبیٰ- پنجم مراتب ِنعمت و تصرف و گنجِ اعلیٰ قربِ وحدانیت ِفنا فی اللہ بقا باللہ بحق تعالیٰ - یہ ہے کامل و مکمل جمعیت- جو مرشد اپنے طالب کو تصورِ اسمِ اللہ ذات، تصورِ اسمِ محمد سرورِ کائنات (ﷺ) اور تصورِ کلمہ طیبات ’’لَآاِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کی حاضرات سے پہلے ہی روز جمعیت کے اِن تمام مقامات پر پہنچا دیتاہے بے شک وہ مرشد کامل ہے ورنہ ناقص و زندیق و جھوٹا و لافزن ہے - اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس-
جان لے کہ رحمانی و شیطانی و نفسانی کاموں میں تاخیر و مہلت میں کیا فرق ہے؟ مجھے تعجب ہوتاہے اُس قوم پر کہ جس کے ہر خاص و عام فرد کی زبان پر اللہ کے نام کا ورد جاری رہتاہے یا وہ قرآن حفظ کرکے تلاوت کرتے رہتے ہیں یا مسائل ِفقہ بیان کرتے رہتے ہیں لیکن اُن کی زبان سے جھوٹ،دل سے منافقت اور وجود سے حرص و حسد و کبر نہیں جاتا- اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کا نام اخلاص سے نہیں لیتے اور کلامِ الٰہی کی تلاوت رضائے الٰہی کی خاطر نہیں کرتے بلکہ محض رسمی رواجی طور پر آندھی و جھکڑ کی رفتار سے اللہ اللہ کرتے رہتے ہیں ورنہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے نام اور اُس کے کلام کی کنہ تک پہنچ کر اُن کا آشنا ہو جاتاہے اُس کا نفس فنا اور قلب صفا ہو جاتاہے ، اُسے مجلس ِمحمدی (ﷺ) کی دائمی حضوری حاصل ہوجاتی ہے اور وہ دونوں جہان کا نظارہ پشت ِناخن پر کرتاہے- جو شخص اللہ تعالیٰ کے نام سے آشنا ہوجاتاہے اور اُسے کامل اخلاص کے ساتھ پڑھتاہے وہ صدق کے بلے سے معرفت کی گیند کو میدانِ دوجہان سے لے جاتاہے کہ اللہ کا نام تو وہ عظیم و باعظمت نام ہے کہ ابتدا سے انتہا تک معرفت ِنورِ حضور کا تمام مشاہدہ اِسی نام میں پایا جاتاہے بشرطیکہ اِسے اخلاص سے پڑھاجائے کہ اللہ کے نام کو اخلاص سے پڑھنا اور دل کو ہمیشہ اُس کے مطالعہ میں غرق رکھنا ہی تو عارفوں کی پرواز کے لئے بمنزلہ دو بال و پر ہیں -
ابیات:(۱) ’’ اگرتُو صبح و شام درویش کے در پر حاضری دیتا رہے تو تجھے ہر مطلب حاصل ہوتا رہے گا‘‘
(۲)’’ اگروہ تجھے سرزنش بھی کرے تو تُو اپنا سر جھکائے رکھ اور اپنا سب کچھ اُس کے حوالے کردے‘‘
(۳) ’’ تُو جو کچھ اُس کے حوالے کرے گا اُسے جاوداں پائے گا اور اگر اُس نے تجھ پر نگاہِ التفات ڈال دی تو تُوشاہ ِ جہان ہو جائے گا‘‘
(۴)’’ جو شخص کسی درویش کی نظر میں مقبول ہوگیا وہ عرش سے بالا تر مراتب پر پہنچ گیا‘‘
جاری ہے