خواب اور ان کی تعبیریں : منہج قادریہ و سلطانیہ سے مختصر مطالعہ

خواب اور ان کی تعبیریں : منہج قادریہ و سلطانیہ سے مختصر مطالعہ

خواب اور ان کی تعبیریں : منہج قادریہ و سلطانیہ سے مختصر مطالعہ

مصنف: لئیق احمد جون 2024

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ یٰٓاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ رَاَیْتُهُمْ لِیْ سٰجِدِیْنَ‘‘[1]

’’یاد کرو جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا اے میرے باپ میں نے گیارہ تارے اور سورج اور چاند دیکھے انہیں اپنے لیے سجدہ کرتے دیکھا‘‘-

 اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے خواب کا ذکر فرمایا ہے- جس کا انہوں نے اپنے والد ماجد سے تذکرہ فرمایا تھا- خواب کے متعلق حضور رسالت مآب (ﷺ) کا فرمان مبارک ہے:

’’نبوت ختم ہوگئی- اب میرے بعد نبوت نہ ہوگی ہاں! بشارتیں ہوں گی- عرض کی گئی کہ وہ بشارتیں کیا ہیں؟ ارشاد فرمایا: اچھا خواب آدمی خود دیکھے یا اس کیلئے دیکھا جائے‘‘- [2]

حضور نبی کریم (ﷺ) کے اس فرمان مبارک سے معلوم ہوتا ہے کہ خواب نیک لوگوں کیلئے بشارت و حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں- اسی طرح ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عہنا)ارشاد فرماتی ہیں کہ :

’’حضور پاک علیہ الصلواۃ والسلام پر وحی کی ابتدا اچھے خوابوں سے ہوئی‘‘-[3]

خواب بتانے کے متعلق رسول اللہ (ﷺ) کا فرمان مبارک ہے:

’’ اچھا خواب اللہ پاک کی طرف سے ہوتا ہے جب تم میں سے کوئی پسندیدہ خواب دیکھے تو اس کا ذکر صرف اسی سے کرے جو اس سے محبت رکھتا ہو‘‘-[4]

بلکہ ایک روایت کے مطابق آقا کریم (ﷺ) بوقت صبح صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)سے دریافت فرماتے کہ اگر کسی نے رات میں خواب دیکھا تو بیان کرے، جب صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) میں سے کوئی اپنا خواب بیان کرتا تو حضور پاک (ﷺ) اس کی تعبیر بیان فرمایا کرتے تھے- [5]

سائنسی نقطہ نظر میں بنیادی طور پر حواس کی تین قسمیں ہیں- شعور، نصف شعور اور لاشعور- جب لاشعوری حواس غالب آتے ہیں تو انسان پر نیند چھا جاتی ہے اور جب شعوری حواس غالب ہوں تو انسان جاگتا ہے- البتہ لاشعور کو باطن کی آواز بھی کہا جا سکتا ہے یا پھر اسے الہام سے تشبیہ دی جا سکتی ہے کیونکہ لاشعور کا تعلق اعلیٰ ذات (عقل و روح) سے ہوتا ہے- ہم اپنے خوابوں سے لاشعور کی طاقت کا اندازہ لگا سکتے ہیں- ہر انسان کی زندگی انہی دو حصوں میں منقسم یعنی سونا اور جاگنا-

حضور خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کی امت کے علماء و صوفیاء نے فلسفۂ خواب کو اپنی تعلیمات میں بہت تفصیل سے بیان فرمایا ہے- زیرِ غور مقالہ میں سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی اور سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیمات میں سے خواب کی حقیقت و اقسام و دیگر زاویوں کو پیش کیا گیا ہے-

خواب کی حقیقت و تعبیر :

قلب و نگاہ پاک ہوجانے کے بعد روح بیدار ہوجاتی ہے- آدمی روشن ضمیر ہوجاتا ہے اور پھر اس کا ٹھکانہ ظاہر میں کہیں بھی ہو لیکن باطن اور خواب میں وہ حضوری ذات کا مشاہدہ کرتا رہتا ہے- یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب کریم (ﷺ) کی خاص الخاص عنایات ہیں- حضرت سلطان باھوؒ نے اس پر کچھ اس طرح مقدمہ درج فرمایا ہے:

’’روشن ضمیر آدمی خواب میں جو کچھ دیکھتا ہے وہ صحیح و درست ہوتا ہے کیونکہ اُسے قربِ الٰہی کی حضوری حاصل ہوتی ہے لیکن اہلِ نفس چونکہ اپنے نفس کا غلام ہوتا ہے اِس لئے جو کچھ دیکھتا ہے اپنی نیت و یقین کے مطابق دیکھتا ہے- چنانچہ جب وہ خواب میں حیوانوں کو دیکھتا ہے تو یہ حُبِّ دنیا اور اُس کے دل کی سیاہ دلی کی نشانی ہے کیونکہ وہ مقامِ ناسوت کا باسی ہے اور حیوانوں میں مشغول رہتا ہے - جو شخص خواب میں گھوڑا یا اونٹ یا شہباز دیکھتا ہے یا خود کو کسی بلند مقام پر دیکھتا ہے تو یہ دولت مند ہونے کی علامت ہے، اگر کوئی آدمی خواب میں باغ و بہار دیکھے یا خود کو کشتی میں سوار ہو کر دریا سے بخیر و عافیت پار اُترتا دیکھے اور بہشت میں داخل ہوکر حوروں سے مجامعت کی لذت پائے لیکن اُس کی منی باہر نہ نکلے تو یہ تقویتِ تقویٰ، توفیقِ ازلی، سلامتئ ایمان اور فیض و فضل سے باطن کی آبادی کی علامت ہے، حقیقی مومن مسلمان کو یہ مرتبہ مبارک ہو اور اگر کوئی شخص خواب میں جہنمی کافروں یا جوگی سنیاسیوں یا تارکِ نماز آدمیوں یا شرابیوں سے ملاقات کرتا ہے یا جھوٹے منافقوں اور جاہلوں کی مجلس کو دیکھتا ہے تو یہ اِس بات کی علامت ہے کہ خواب دیکھنے والا معرفتِ ’’اِلَّااللہُ‘‘، حضورئ مجلسِ محمد رسول اللہ (ﷺ) اور قربِ الٰہی کے نزدیک پہنچ گیا ہے اِس لیے شیطانِ لعین ہر رات اُسے ناشائستہ مجالس کے ذریعے فریب دیتا ہے تاکہ اُس کا دل راہِ باطن سے سرد ہو جائے- اِس کا علاج یہ ہے کہ طالب اللہ دن رات اسمِ الله ذات اور اسمِ محمد سرورِ کائنات (ﷺ)  اور صورتِ شیخِ کامل کو اِس طرح اپنے تصور اور قبض و تصرف میں رکھے کہ ہر ایک تصور طالب اللہ کو خطراتِ شیطان اور مجالسِ ناشائستہ سے بچا کر حضورِ حق میں پہنچا دے تاکہ اُسے باطل کی خبر ہی نہ رہے- اکثر لوگ ایسے ہیں جو باطل کو حضورئ حق سمجھتے ہیں اور اہلِ حق کو باطل قرار دیتے ہیں- ایسے لوگ فقیرو درویش کس طرح ہو سکتے ہیں؟ یہ تو محض دوکاندار ہیں جو نفس کے غلام، شیطان کے قیدی، ہوا و ہوس میں مبتلا ریاکار اور باطن میں معرفتِ الٰہی سے محروم لوگ ہیں، یہ لوگ حیوانوں سے بدتر ہیں یا یوں کہیے کہ تیلی کے بیل ہیں جو بظاہر آراستہ نظر آتے ہیں مگر بباطن بدکردار ہیں، حقیقت میں اہلِ تقلید ہیں لیکن لوگوں کے سامنے اہلِ توحید فقیر بنے رہتے ہیں‘‘- [6]

حضور نبی کریم (ﷺ)کی سنت مبارکہ میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ (ﷺ)روشن ضمیر ہیں اور آپ (ﷺ) ظاہری طور پر آرام فرماتے تھے لیکن آپ (ﷺ) کا قلب بیدار رہتا تھا- حضور پاک (ﷺ) کی کامل اتباع کرنے والوں کو بھی یہ فیض نصیب ہوتا ہے- جیسا کہ سلطان صاحب فرماتے ہیں:

’’اگر کوئی شخص دورانِ خواب یا مراقبہ بہشت میں چلا جائے اور بہشت کا کھانا کھا لے یا وہاں کی ندی کا پانی پی لے یا حور و قصور کو دیکھ لے تو خواب و مراقبہ کے بعد عمر بھر اُسے کھانے پینے کی حاجت نہیں رہتی ،اُس کے وجود سے بھوک و پیاس مٹ جاتی ہے اور عمر بھر اُسے نیند نہیں آتی اگرچہ بظاہر وہ سوتا ہوا نظر آتا ہے - وہ تمام عمر ایک ہی وضو سے گزار دیتا ہے- اُس کے وجود میں طاعت و بندگی کی ایسی توفیق بھر جاتی ہے کہ اُس کا سر رات دن سجدے سے فارغ نہیں ہوتا - وہ روز بروز فربہ ہوتا جاتا بظاہر وہ جو کچھ کھاتا پیتا ہے محض لوگوں کی ملامت سے بچنے اور اُن سے پوشیدہ رہنے کی غرض سے کھاتا پیتا ہے، اُس کے لیے موسمِ سرما و گرما ایک جیسا ہوتا ہے بلکہ گرمی و سردی اُسے مزہ دیتی ہے، لیکن ایک درویش کے لئے یہ مراتب بھی نہایت ادنیٰ اور حقیر ہیں ، فقیر کو اِن مراتب سے شرم وحیا آتی ہے کہ یہ مراتب فقرِ محمدی (ﷺ) سے بہت دور ہیں،اِن کا تعلق نفس و ہوا سے ہے- انتہائی مرتبہ یہ ہے کہ وہ دورانِ خواب یا مراقبہ لقائے ربّ العالمین سے مشرف ہو جائے، پھر اُس کی مثل کوئی نہیں ہو سکتا- اُس کے باوجود میں معرفتِ توحید الٰہی، تصورِ اسمِ اللہ ذات اور طلب ومحبت کی ایسی آگ پیدا ہوجاتی ہے کہ جس کی ضرب وجلالیت سے نفس ہر وقت قہر و غضب و عتاب کا شکار رہتا ہے، لباسِ شریعت پہنتا ہے، اشاعتِ شریعت میں کوشاں رہتا ہے اور ہمیشہ پکارتا رہتا ہے:

’’تَفَکَّرُوْا فِیْ اٰیٰتِهٖ وَلَا تَفَکَّرُوْا فِیْ ذَاتِهٖ‘‘

’’تعالیٰ کی نشانیوں میں تفکر کرو مگر اُس کی ذات میں تفکر مت کرو‘‘-[7]

نفس پرستی کے ماروں کی نجات اور خوابِ غفلت کے مرض کا علاج حضرت سلطان باھوؒ نے ایک کلیہ میں یوں درج فرمادیا ہے:

’’کوئی خواب یا مراقبہ میں کفار اور مجلسِ اہلِ بدعت دیکھے یا کوئی ہر وقت نیند میں ڈوبا رہے اور وہ بیداری و زندہ دلی کھو بیٹھے یا اگر کوئی فسق و فجور ظلم و ستم اور شراب نوشی سے نجات نہ پاسکے تو اِن سب امراض کا علاج حاضراتِ تصورِ اسمِ اللہ ذات اور حاضراتِ تصورِ کلمہ طیبات’’لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ‘‘ ہے، طریقِ تحقیق سے ہر ایک معاملہ اسمِ اللہ ذات کی برکت اور دعوتِ اہلِ قبور سے سمجھا بھی جا سکتا ہے اور اُس کا علاج بھی کیا جا سکتا ہے‘‘-[8]

’’ذاکر فقیر کو خواب نہیں آیا کرتے کہ (خواب تو غفلت کا نتیجہ ہوتے ہیں اور) فقیر غافل نہیں ہوتا بلکہ اُسے خدا اور اُس کے رسول (ﷺ) کی بارگاہ سے دائم الہام آیا کرتے ہیں جن سے اُسے جواب باصواب ملتے رہتے ہیں- باطن سے بے خبر فقیر کے خواب محض خیالات ہوتے ہیں جبکہ زندہ دل و روشن ضمیر فقیر کو ذکرِ اَللهُ اور اسمِ اَللهُ کے خواب آتے ہیں جن میں وہ وصالِ لازوال سے مشرف ہو کر نورِ جمالِ اَللهُ کا عین بعین مشاہدہ کرتا ہے- الغرض! خواب کی شرح و تعبیر کسی صاحبِ تفسیر عالم یا کسی صاحبِ معرفت روشن ضمیر فقیر سے پوچھنی چاہیے- طالبِ دنیا، طالبِ عقبٰی اور طالبِ مولیٰ کے خوابوں کی حال حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی خواب میں حیوان و پرندے اور حوش و سانپ و بچھو وغیرہ دیکھتا ہے تو سمجھو کہ اُس کے دل پر حُبِّ دنیا کی کدورت و سیاہی کا غلبہ ہے- اگر کوئی خواب میں باغ و بوستان، بلند و بالا محلات ،حورو قصور اورمیوہ درخت دیکھتا ہے تو سمجھ لو کہ اُس کے دل میں طلبِ عقبیٰ کا غلبہ ہے اور اگر کوئی خواب میں ذکرِ اَللهُ کا شغل کرتا ہے، نماز پڑھتا ہے، خانہ کعبہ اور حرمِ مدینہ پاک کی زیارت کرتا ہے، سورج، چاند، دریا اور بادل دیکھتا ہے، انبیاءواؤلیاءکا ہم مجلس ہوتا ہے یا ذوق شوق کے ساتھ نورِ اَللہُ کی تجلیات کا مشاہدہ کرتا ہے تو یہ اِس بات کی علامت ہے کہ وہ طالبِ مولیٰ ہے لہٰذا اُس کے خواب عبادات و معاملات اور اِستغراقِ تصورِ اسمِ اللہ ذات کے متعلق ہوں گے اور اُن کی تعبیر بیانِ صحیح کے مطابق کی جائے گی- اِسی طرح حیوانوں، انسانوں، پریشانوں اور نادانوں کے خوابوں کی تعبیر بھی اُن کی عقل کے مطابق نقل کی جائے گی‘‘-[9]

غوث الاعظمؒ خواب کی حقیقت اور اس کے اجزاء و تعبیر کے بارے میں مفصل گفتگو کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’خواب دو طرح کے ہوتے ہیں - ایک کا تعلق آفاق (عالمِ دنیا) سے ہے اور ایک کا تعلق انفس(عالمِ غیب) سے ہے اور اِن کی بھی دو دو قسمیں ہیں- عالمِ انفس سے متعلق خواب یا تو اخلاقِ حمیدہ کی پیداوار ہوتے ہیں یا اخلاقِ ذمیمہ کی- اخلاقِ حمیدہ کے نتیجہ میں آنے والے خوابوں میں جنت اور نعمائے جنت، حور و قصور و غلمان و سفید نورانی صحرا، سورج و چاند ستارے اور ایسی ہی دیگر چیزیں نظر آتی ہیں- اِن سب کا تعلق صفتِ دل سے ہے لیکن وہ خواب کہ جن میں حیوانوں اور پرندوں کا گوشت کھایا جائے نفسِ مطمئنّہ سے تعلق رکھتے ہیں کہ جنت میں نفسِ مطمئنّہ کی خوراک بھنا ہوا گوشت ہے مثلاً بکری اور پرندوں کا بھنا ہوا گوشت یا گائے کہ جسے جنت سے حضرت آدم (علیہ السلام)کے لئے بھیجا گیا تا کہ وہ اِس سے دنیا میں کھیتی باڑی کریں- اِسی طرح اونٹ کہ جسے جنت سے کعبۂ ظاہر اور کعبۂ باطن کے تزین کے لئے بھیجا گیا اور گھوڑا کہ جسے جہادِ اصغر اور جہادِ اکبر کا آلہ بنا کر بھیجا گیا- یہ تمام چیزیں بہبودِ آخرت کے لئے ہیں- حدیثِ مبارکہ میں آیا ہے کہ بکری کو جنت کے شہد سے، گائے کو جنت کے ریحان سے پیدا کیا گیااور خچر نفسِ مطمئنّہ کی ادنیٰ صفات میں سے ہے اِس لئے اِسے خواب میں دیکھنے کی تعبیر یہ ہے کہ خواب دیکھنے والا معاملاتِ عبادت میں سست و کاہل ہے اور اُس پر نفسانی ثقالت غالب ہے اس لئے اُس کے اعمال کا نتیجہ کچھ بھی نہیں البتہ اگر وہ توبہ کر کے اعمالِ صالحہ اختیار کر لے تو اُس کی جزا بھلائی ہے اور گدھے کو جنت کے پتھروں سے پیدا کیا گیا ہے تا کہ حضرت آدم (علیہ السلام)اور اُن کی اولاد اِس سے دنیا و آخرت کی کمائی کرے‘‘- [10]

ایک اور مقام پر شیخ عبد القادر جیلانیؒ نے خوابوں کی تعبیر کے متعلق کچھ اس طرح بیان فرمایا ہے:

’’خواب میں چیتے کو دیکھنا اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں عجب و تکبر کی علامت ہے جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:”جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور اُن کے مقابلے میں تکبر کیا، اُن کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور اُن کا جنت میں جانا ایسے ہی ناممکن ہے جس طرح کہ سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا - اِسی طرح بدلہ دیا جائے گا اُس مجرم کو جو لوگوں کے سامنے تکبر کرتا ہے“- شیر کو خواب میں دیکھنا مخلوق پر عظمت و بڑائی کے اظہار کی علامت ہے - اِسی طرح ریچھ کو دیکھنا زیرِ دست لوگوں پر غلبہ اور قہر و غضب کی علامت ہے، بھیڑیے کو دیکھنا حرام و مشتبہ چیزوں کو بلا تمیز کھانے کی رغبت ظاہر کرتا ہے، کتے کو دیکھنا حُبِّ دنیا اور اُس کی خاطر غیض و غضب میں آنے کی علامت ہے - خنزیر کو دیکھنا کینہ و حسد و حرص و شہوت کی علامت ہے-خرگوش کو دیکھنا معاملاتِ دنیا میں حیلہ و مکر کرنے کی علامت ہے، لومڑی کو دیکھنا بھی خرگوش کی مانند ہے لیکن خرگوش میں غفلت کی صفت غالب ہے، تیندوے کو دیکھنا جاہلیت کی غیرت اور حُبِّ ریاست و حُبِّ عزت کی علامت ہے، بلی کو دیکھنا بخل و نفاق کی علامت ہے، سانپ کو دیکھنا لوگوں کو زبان سے اذیت دینے مثلاً گالی گلوچ کرنے،  غیبت کرنے اور جھوٹ بولنے وغیرہ کی علامت ہے- اِس قسم کے درندوں کو خواب میں دیکھنے کی صحیح تعبیر کرنا اہلِ بصیرت کا کام ہے کہ وہ اپنی بصیرت سے اُس کا ادراک کر لیتے ہیں-خواب میں بچھو کو دیکھنا آنکھوں کے اشارے سے نکتہ چینی و تہمت و عیب جوئی و چغل خوری کی علامت ہے ، بھڑکا دیکھنا لوگوں کو زبان سے معمولی دکھ پہنچانے کی علامت ہے جب کہ سانپ کو دیکھنا لوگوں سے عداوت رکھنے کی علامت ہے - جب سالک دیکھے کی وہ خواب میں موذی جانوروں سے لڑ رہا ہے لیکن اُن پر غالب نہیں ہو رہا ہے تو اُسے چاہیے کہ وہ عبادت و ذکر اللہ میں کثرت کرے حتّٰی کہ وہ اُن پر غالب آجائے اور اُن کو ہلاک کر دے یا اُن کی صفتِ درندگی کو صفتِ بشریت میں بدل دے - اُن پر پورا پورا غلبہ اور اُن کی مکمل تباہی کا مطلب یہ ہے کہ وہ اُن برائیوں کو مکمل طور پر ترک کر دے جیسا کہ بعض تائبین کے حق میں فرمانِ حق تعالیٰ ہے:” اللہ تعالیٰ نے اُن کی برائیوں کو مٹا دیا اور اُن کے دلوں کی اصلاح فرما دی“ اور اگر وہ خواب میں کسی درندے کی شکل کو انسانی شکل میں بدلا ہوا دیکھے تو یہ اِس بات کی علامت ہے کہ اُس کی برائیاں نیکیوں میں بدل گئی ہیں جیسا کہ بعض تائبین کے حق میں فرمانِ حق تعالیٰ ہے:”جو توبہ کرلے ، ایمان لے آئے اور اعمالِ صالحہ اختیار کر لے تو اُس کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں میں بدل دے گا“-پس وہ اُن موذیوں سے نجات پا گیا - اِس کے بعد بھی انسان کو چاہیے کہ وہ اِن کے شر سے بے خوف نہ ہو جائے کیونکہ برائیوں کے مٹ جانے کے بعد بھی نفس کو عصیان کی جانب سے ایسی قوت حاصل ہو سکتی ہے جو زور پکڑ کر نفسِ مطمئنّہ پر غالب آجائے - اِسی لئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ بندہ جب تک دنیا میں رہے جمیع آفات و مناہی سے دُور رہے- بعض اوقات نفسِ امارہ کفار کی صورت میں، نفسِ لوامہ یہود کی صورت میں اور نفسِ ملہمّہ نصاریٰ کی صورت میں نظر آتا ہے اور بعض اوقات اُن سے بھی انوکھی اور نئی نئی صورتوں میں نظر آتا ہے‘‘-[11]

خواب میں انوار و تجلیات کا مشاہدہ کرنا:

تعلیماتِ صوفیاء کے مطابق خواب میں اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات کی روئیت کرنا روا ہے- جیسا کہ ماقبل از روئے قرآن و حدیث ذکر ہوا ہے کہ خواب بندہ مومن کے لئے بشارت ہے اور حدیث نبوی (ﷺ) میں نیک خواب کو نبوت کا ایک حصہ بھی فرمایا گیا ہے یعنی نیک خواب انبیاء (علیھم السلام)کی سنت میں سے ہے- خواب میں ظاہر سوتا ہے لیکن عقل و روح بیدار رہتے ہیں اور جن کے اذہان و ارواح پاک ہوتے ہیں انہیں ذات الٰہی کے انوار و تجلیات کا مشاہدہ کرنا نصیب ہوتا ہے-

روایات میں آتا ہے امام اعظم امام ابو حنیفہؒ کو 100 مرتبہ خواب میں اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات کی روئیت نصیب ہوئی جسے صحیح سند سے اہل سیر اور حنفی فقہا نے بیان فرمایا ہے- جیسا کہ حضرت سلطان باھو علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

’’اہلِ ناسوت لوگوں کا خواب میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنا روا ہے جیسا کہ امامِ اعظمؒ نے خواب میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا اور اہل شرح نے اِسے جائز قرار دیا‘‘-[12]

اسی نسبت سے شیخ عبدُ الحق محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ:

’’ دنیا میں خواب میں اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات کی روئیت ہوسکتی ہے بلکہ ہوئی بھی ہے، ہمارے امامِ اعظم بھی اس نعمت سے مشرف ہوئے ہیں‘‘-[13]

مزید ملا علی قاریؒ  نے حکیم ترمذی، شمسُ الائمہ علامہ کردری اور حمزہ الزیات وغیرہ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ خواب میں اللہ پاک کے انوار و تجلیات کی روئیت سے مشرف ہوئے ہیں- [14]

امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں :

’’مَیں خواب میں اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات کی روئیت سے مشرف ہوا، میں نے عرض کی : اے رب! تیرے نزدیک کون سا عمل افضل ہے جس کے ذریعے مقربین تیرا قرب حاصل کرتے ہیں؟ ارشاد فرمایا : اے احمد! وہ میرا پاک کلام(قراٰنِ پاک) ہے- میں نے عرض کی : اے رب! اسے سمجھ کر پڑھےیا بغیرسمجھے پڑھے- ارشاد فرمایا : سمجھ کر پڑھےیا بغیر سمجھے‘‘-[15]

عارف باللہ شخص خواب میں مشاہدہ کرنے کے بعد ظاہر میں شریعت کا مزید پابند ہوجاتا ہے اور اس کا ظاہر باطن اشتیاقِ جمال میں محو رہتا ہے- جیسا کہ حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:

’’جو کوئی اللہ تعالیٰ کو خواب یا مراقبے میں دیکھ لیتا ہے وہ مجذوب ہوجاتا ہے یا بیدار و ہوشیار ہوکرتوحیدِربوبیت کے نور کا مشاہدہ کرتا ہے جس سے اُس کے وجود میں اِتنی تپش پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ جل کر مر جاتا ہے یا پھر اُس کی زبان پر مہرِ سکوت لگ جاتی ہے اور وہ خاموشی اختیار کر لیتا ہے یا پھر رات دن سجدہ ریز رہتا ہے- لباسِ شریعت میں ملبوس ہو کر احکام ِشریعت کی پابندی میں کوشاں رہتا ہے اور اُس صورتِ بے مثل کو کسی صورت کی مثل قرار نہیں دیتا‘‘-[16]

ہماری زندگی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اور اس کی معرفت اور قرب و وصال حاصل کرنا ہے جس کیلئے بیدارئ قلب و روح، محاسبہ نفس ضروری ہے- کیونکہ بندہ مومن اس وقت تک کامیابی کی راہ پر نہیں چل سکتا جب تک اس کے ظاہر کے ساتھ اس کا باطن یعنی نفس و قلب پاک نہ ہوجائیں- ذکر اَللہُ قلب کی پاکی و بیداری کا ذریعہ ہے اور خواب میں مشاہدہ ربانی کی کلید- حضرت سلطان باھوؒ اسی نسبت فرماتے ہیں:

’’بعض عارفوں کو تصورِ اسمِ اللہ ذات کے ذریعے انوارِ محبت و معرفت کا مشاہدہ خواب میں نصیب ہوتا ہے اور وہ عین بعین اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات کی روئیت کرتے ہیں- ایسے لوگوں کو چاہیے کہ رات دن خواب دیکھا کریں کہ اُن کے خواب عین عبادت و ثواب ہوتے ہیں اور نوم العروس کی طرح اُن کے خواب غفلت و ظلمت کا پردہ چاک کرنے والے ہوتے ہیں-آقا کریم (ﷺ) کا فرمان ہے: ’’میری آنکھ تو سوتی ہے مگر میرا دل جاگتا رہتا ہے ‘‘-[17]

خواب کی اقسام:

خواب کی تقسیم انسانی عادات و اعمال سے ہوتی ہے- نیک کار کے خواب پاک اور حقیقت سے قریب تر ہوتے ہیں جبکہ شر پسند کے خواب اس کے اعمال کے منعکس ہوتے ہیں-

سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی (رحمتہ اللہ علیہ) نے خواب کے متعلق فرمایا ہے کہ:

’’ایک خواب عالم دنیا یعنی آفاق سے تعلق رکھتا ہے جبکہ دوسرا عالم غیب یعنی انفس سے- آپ نے مزید شرح کرتے ہوئے فرمایا کہ انفس کا دارومدار اخلاق پر مبنی ہے- جبکہ آپ نے تعبیرات کے متعلق بھی مفصل گفتگو فرمائی ہے‘‘-[18]

انسانی نفوس اور خواب کی اقسام کو حضرت سلطان باھو علیہ الرحمہ نے یوں بیان فرمایا ہے:

’’جان لے کہ خواب اور اہلِ خواب تین قسم کے ہوتے ہیں ـ (1) ظالم و جاہل مردہ دل اہلِ دنیا کے خواب محض خیال ہی ہوتے ہیں کہ ظلمت و گمراہی کی وجہ سے اُن کی دل سیاہ ہو کر اللہ تعالیٰ کی نگاہِ رحمت سے دور ہو جاتے ہیں -(2) علمائے تفسیر و احادیث کے خواب قال و اعمال و احوال اور کمالِ علم کے خواب ہوتے ہیں-(3) اگر کوئی کسی خوب صورت نو جوان کو سفید لباس میں دیکھتا ہے تو وہ ابھی ابتدائی درجے میں ہے، اگر کسی روحانی مجلس میں سرخ لباس اور دو بال دیکھتا ہے تو وہ متوسط درجے میں ہے اور اگر و ہ نورانی مجلس میں سفید ریش اور سرخ لباس کو دیکھتا ہے تو وہ منتہی درجے میں ہے‘‘-  [19]

ایک جگہ آپؒ نے خواب کی 6 اقسام بیان کی ہیں- جیسا کہ آپ ارشاد فرماتے ہیں :

’’خواب و مراقبہ چھ طرح کا ہوتا ہے- بعض کا خواب و مراقبہ تصورِ اسم اللہ ذات کے زیر اثر ہوتا ہے، یہ خواب و مراقبہ معرفتِ رحمانی ہے (یعنی اِس سے معرفتِ رحمٰن نصیب ہوتی ہے)- بعض کا خواب و مراقبہ تلاوتِ قرآن اور وِردِ اسمائے سبحان کے زیر اثر ہوتا ہے، یہ خواب و مراقبہ روحانی ہے جس میں تمام انبیاء واؤلیاء کی ارواح سے مجلس و ملاقات نصیب ہوتی ہے- بعض کا خواب و مراقبہ سرود و شراب نوشی اور بدعت و گمراہی کے زیر اثر ہوتا ہے، یہ خواب و مراقبہ شیطانی ہے- بعض کا خواب و مراقبہ حرص و حسد، غیبت و عجب اور کبر و ریا کے زیر اثر ہوتا ہے، یہ خواب و مراقبہ نفسانی ہے اور بعض کا خواب و مراقبہ فرشتوں یا جنوں یا مؤکلات کے زیر اثر ہوتا ہے جس سے مختلف احوال معلوم ہوتے ہیں، یہ خواب و مراقبہ نادانی ہے- در حقیقت خواب ومراقبہ دو قسم کا ہوتا ہے- ایک یہ کہ بعض لوگوں کا خواب و مراقبہ محض خام خیالی ہوتا ہے، یہ مردو دل ناسوتی لوگوں کا خواب ومراقبہ ہے جس میں دو مختلف حیوانات مثلاً درندے، مور و سانپ، گائے گدھے اور اُونٹ وغیرہ دیکھتے ہیں- پس معلوم ہوا کہ اُن کے دل حُبِّ دنیا کی ظلمت سے آلودہ ہیں اِس لئے معرفتِ ذاتِ اِلٰہی سے محروم ہیں- دوسرے یہ کہ بعض کا خواب و مراقبہ معرفت و وصالِ اِلٰہی پر مبنی ہوتا ہے، یہ اہلِ ذکرفکر صاحبِ تلاوت، صاحبِ وظائف، صاحبِ صوم و صلوٰۃ اور  صاحبِ ذات غرق فنا فی اللہ بقا باللہ حضرات کا خواب و مراقبہ ہے- بعض حضرات خواب ومراقبہ میں جنت کے و ا نہار اور حور و قصور دیکھتے ہیں، خواب میں نماز پڑھتے ہیں اور حرمِ کعبہ وحرمِ مدینہ کی زیارت کرتے ہیں، یہ اہلِ تقویٰ اہل جنت علمائےعامل کا خواب ومراقبہ ہے-بعض لوگ خواب ومراقبہ میں آبِ دریا میں تیرتے ہیں، پھر دریا سے نکل کر طیر سیر کرنے لگتے ہیں اور ذکرِ کلمہ طیب ’’لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ مُحَمَّدً رَّسُوْلُ اللهِ‘‘ میں محو ہو کر مجلس ِمحمدی (ﷺ) کی دائمی حضوری اختیار کر لیتے ہیں اور دریائے معرفتِ نور ِتوحید میں غوطہ زن رہتے ہیں-یہ عارفانِ باللہ فقرائے کامل کاخواب و مراقبہ ہے- پس معلوم ہوا کہ خواب کا دار و مدار تعبیر پر ہے اور مراقبہ سراسر روشن ضمیری ہے- عارفوں کو خواب و مراقبہ کی حاجت ہی نہیں ہوتی کہ اُنہیں تو دم بدم بارگاہِ حق قصر سے ہزارہا اِلہامات اور بارگاہ ِنبوی (ﷺ) سے ہزارہا پیغامات اور قربِ حضور سے جوابات با صواب آتے رہتے ہیں- باطن صفاآدمی کو مراقبہ و خواب و استخارہ کی ضرورت ہی کیا ہے کہ جب نفس ِامارہ کو مار دیا جائے تو دونوں جہان نظر کے سامنے رہتے ہیں لہٰذا عارفان ِ باللہ کے مدنظر ہر وقت ’’لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ‘‘ رہتا ہے اور وہ ہر وقت حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی مجلس میں حاضر رہتے ہیں،قرب ِحضور کا یہ مرتبہ اُنہیں اسم اللہ ذات کی برکت و حرمت سے نصیب ہوتا ہے- اِس کے علاوہ خواب و مراقبہ کے پانچ مراتب اور پانچ مقامات اور بھی ہیں -بعض حضرات اِن سب کے عامل و کامل ہوتے ہیں اور بعض اِن سب سے بے خبر اور ناقص خام ہوتے ہیں- مقام ِازل میں صاحب ِ رجا خواب و مراقبہ میں جو کچھ دیکھتا ہے مقامِ روحانیت سے ذکر ِ روح کی برکت سے دیکھتا ہے- مقامِ دنیا ناسوت سے مردہ دل اہل ِدنیا خواب و مراقبہ میں جو کچھ دیکھتا ہے وہ مقامِ دنیا سے شامتِ نفس کی بدولت دیکھتا ہے- صاحب ِمقام ِ عقبیٰ خواب و مراقبہ میں جو کچھ دیکھتا ہے وہ مقامِ عقبی سے ذکر ِقلب کی برکت سے دیکھتا ہے اور صاحبِ مراتب ِ معرفت ِ مولیٰ خواب و مراقبہ میں جو کچھ دیکھتا ہے وہ مقام ِتوحید لامکان سِر اسرار ِسبحان معرفت ِقربِ حضور و عنایت و ہدایت و جمعیت سے جامع العلوم ذکر ِ سِرِی حیُ قیوم کی برکت سے دیکھتا ہے -پس عارف باللہ اُسے کہتے ہیں جو ان پانچ مقامات کے جملہ مطالب کو حاضرات ِاسم اللہ ذات سے کھول کر دکھا دے اور ایک ہی دم میں ایک ہی قدم پر بلا رنج و ریاضت طالب اللہ کو عطا کردے -اِس شان کا مرشد ہی مرشدِکامل ہوتا ہے- اِس سے کم درجے کا مرشد ناقص وخام ہے- طالب ِمولیٰ پر ایسے ناقص و خام مرشد سے دست بیعت کرنااور اُس سے تلقین لینا حرام ہے‘‘-[20]

اہلِ دنیا اور اہل الله کے خواب میں فرق

حضرت سلطان باھو(رحمتہ اللہ علیہ) نے جابجا اپنی تصانیف میں اس بات کو بیان فرمایا ہے کہ اہل دنیا کو اہل اللہ کی مجلس راست نہیں آتی- اس کی وجہ آپؒ یہ بیان فرماتے ہیں کہ اہل دنیا کا مقصود فقط مال و متاع اور زینت دنیا کا حصول ہوتا ہے جبکہ اہل اللہ کے نزدیک دنیا کی حیثیت مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے - ترک ما سوا اللہ کی وجہ سے اہل اللہ کو وہ قرب حاصل ہوتا ہے یہ ان کا جاگنا بھی حضوری ہوتا ہے اور ان کا سونا بھی حضوری ہوتا ہے-جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں :

’’بعض لوگوں کے خواب خیالات کی پیداوار ہوتے ہیں اِس لئے اُن کے خواب محض خیالات ہی ہوتے ہیں اور بعض کے خواب وصال پر مبنی ہوتے ہیں اِس لئے اُن کے خواب مکمل وصال ہوتے ہیں - اِن مراتب کو بد خصال و مردہ دل لوگ کیا جانیں؟ معرفتِ اِلٰہی کی راہ میں مستی خام مرتبہ ہے اور بندگی وعبادت سعادت و کمال کا مرتبہ ہے - مرد وہ ہے جو مستی و خواب میں باشعور رہتے ہوئے ذکرِ مذکور میں مشغول رہے‘‘ -[21]

فقراء خواب میں بھی اہل حضور ہوتے ہیں جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں :

’’فقراء  کا شکم تنور کی مثل ہوتا ہے، اُن کا سب کھایا پیا آتشِ شوق سے جل کر نور بن جاتا ہے- فقراء  کا کھانا نور، سونا شرفِ دیدارِ حضور اور جاگنا باطن معمور ہوتا ہے- فقراء نافع المسلمین ہوتے ہیں اور خلقِ خدا میں آفتاب کی طرح فیض بخش مشہور ہوتے ہیں- طالب فقیر پر فرضِ عین ہے کہ وہ پہلے ہی دن اِس مرتبے پر ضرور پہنچے‘‘-[22]

آپؒ حالت بیداری و خواب میں اپنی کیفیات کے متعلق فرماتے ہیں :

’’اگر مَیں حالتِ خواب میں ہوتا ہوں تو تب بھی غرقِ توحید ہو کر خدا کا یار ہوتا ہوں اور اگرحالتِ بیداری میں ہوتا ہوں تو تب بھی اُس کے قرب و دوستی میں ہوشیار ہوتا ہوں‘‘-[23]

خواب کو نبوت کا 46 واں حصہ فرمایا گیا ہے- اس میں بہت سے رموز پنہاں ہیں- بہت سے اہل اللہ کو خواب کے توسط سے عظیم مراتب نصیب ہوتے ہیں- حضرت سلطان باھوؒ حضرت رابعہ بصریؒ کے بارے میں فرماتے ہیں:

’’حضرت رابعہ بصریؒ حالت ِ خواب میں بلا واسطہ مراتبِ فقر پر جا پہنچیں ‘‘-[24]

اہل اللہ کے خواب انہیں غفلت میں نہیں ڈالتے- جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں :

’’جب قلب ذکرِ اَللہُ سے زندہ و بیدار ہوکر نورِ اَللہُ کے مشاہدہ میں غرق ہوتا ہے تو ازل سے ابد تک نہ تو خواب و غفلت کا شکار ہوتا ہے نہ سلب ہوتا ہے اور نہ کبھی مرتا ہے-

مثنوی: ”عارفوں کی نیند اُن کی بیداری سے کہیں بہتر ہوتی ہے اور اُن کے خواب دیدارِ جنت سے زیادہ خوشگوار ہوتے ہیں- جس کی روح زندہ ونفس مردہ ہو اُس کی نیند میں خواب و خیال ہی نہیں ہوتا اور نہ ہی اُسے خواب کہا جاسکتا ہے اُن کے پیشِ نظر مطلق ذات بے حجاب ہوتی ہے“-[25]

حضرت سلطان باھوؒ نے خواب و بیداری کے متعلق اہل اللہ کا کمال وصف بیان فرمایا ہے جو انہیں باذن الٰہی نصیب ہوتا ہے- آپؒ فرماتے ہیں:

’’پس تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اہل دل کبھی کبھی سچے خوابوں کی صورت میں اسرارِ ملکوت کا مشاہدہ و مکاشفہ کرتے رہتے ہیں اور کبھی کبھی بیداری کی حالت میں بھی اُن پر مشاہدہ کی صورت میں معافی منکشف ہوتے رہتے ہیں اور یہ حالت اعلیٰ درجات میں سے ہے اور یہ درجاتِ نبوت میں سے ہیں- بے شک سچے خواب نبوت کا 46واں حصہ ہیں- پس تم اُن کے معاملے میں ڈرنا ،اگر تم اِس بارے میں غلطی کروگے تو تمہارے قصور کی حد تجاوز کر جائے گی اور تم ہلاکت میں جا پڑو گے - اُس عقل سے جہالت بہتر ہے جو اُن کے انکار کی طرف راغب کرے کیونکہ اؤلیاء اللہ کے امور سے جس نے انکار کیا اُس نے گویا انبیاء (علھیم السلام) کا انکارکیا اور وہ دین سے مکمل طور پرنکل گیا“-[26]

شیطان خواب میں کس کی صورت اختیار نہیں کر سکتا ؟

حضور سیدنا غوث پاک (رحمتہ اللہ علیہ) نے اپنی تعلیمات میں بیان فرمایا ہے کہ شیطان گوکہ کسی کی صورت میں آکر انسان کو بہکا سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پر محال کردیا ہے کہ وہ کبھی بھی حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات پاک کی صورت اختیار نہیں کرسکتا- حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے: ”جس نے مجھے دیکھا (خواب میں) اُس نے سچ مچ مجھے ہی دیکھا کہ شیطان میری مثل نہیں بن سکتا اور نہ ہی اُس کی مثل بن سکتا ہے جس نے شریعت و طریقت و معرفت و حقیقت و بصیرت کے نور سے میری اتباع کی“- چنانچہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ”مَیں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، مَیں اور میرے پیروکار نورِ بصیرت کے مالک ہیں“- شیطان اُن تمام لطیف انوار کی مثل نہیں بن سکتا-

سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی (رحمتہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف لطیف سر الاسرار میں بیان فرماتے ہیں:

’’صاحب مظہر نے لکھا ہے کہ یہ کمال صرف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات سے ہی مختص نہیں بلکہ شیطان وہ تمام صورتیں اختیار نہیں کر سکتا جو مظہرِ رحمت و شفقت و لطف و ہدایت ہیں مثلاً جملۂ انبیائے کرام، اولیائے کرام، ملائکہ، خانہ کعبہ، سورج و چاند، سفید بادل اور الہامی کتب و مصحف وغیرہ کیونکہ شیطان مظہرِ قہر ہے اِس لئے وہ صرف ایسی صورتیں اختیار کر سکتا ہے جو اسم مُضِلُّ کی مظہر ہیں- پس جو صورت اسم ھَادِیٌ کی مظہر ہے وہ اسم مُضِلُّ کی مظہر کیونکر ہو سکتی ہے کہ ہدایت و ضلالت ایک دوسرے کی ضد ہیں اِس لئے ممکن ہی نہیں کہ آگ پانی میں تبدیل ہو جائے یا پانی آگ میں بدل جائے کیونکہ دونوں کے درمیان بے حد تفاوت و نفرت و دوری ہے اور یہ اِس لئے ہے کہ حق و باطل میں تمیز ہو سکے جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:”اِسی طرح اللہ تعالیٰ حق و باطل کی مثال دیتا ہے“- شیطان صورتِ ربَّانی کی مثل بن سکتا ہے اور دعویٰ ربوبیّت بھی کرسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صفاتِ جلال و جمال کا جامع ہے اور شیطان صفتِ قہر کا مظہر ہے اِس لئے اِس صورت میں اُس کا ظاہر ہونا اور دعویٰ ربوبیّت کرنا اسم مُضِلُّ کے ساتھ مختص ہے جیسا کہ مذکور ہو چکا ہے- شیطان چونکہ مظہرِ صفاتِ ضلالت ہے اِس لئے خود کو صورتِ ربانی میں ظاہر کرتا رہتا ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے البتہ وہ ایسی صورت میں ظاہر نہیں ہو سکتا جو تمام صفات کی جامع ہو کیونکہ شیطان میں صفاتِ ہدایت مفقود ہیں‘‘-[27]

بعین اسی طرح حضرت سلطان باھوؒ نے بھی اپنی کتاب میں اس بیان کو قلمبند فرمایا ہے- ملاحظہ ہو:

’’حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:” جس نے مجھے دیکھا، بے شک اُس نے مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری مثل ہرگز نہیں بن سکتا اور نہ ہی وہ خانہ کعبہ کی مثل بن سکتا ہے“ یعنی جس نے خواب میں مجھے دیکھا، بے شک اُس نے سچ مچ مجھے ہی دیکھا- کیونکہ شیطان کو یہ قدرت حاصل نہیں کہ وہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صورت اختیار کرسکے یا شیخ کامل کی صورت اختیار کر سکے- جس نے مندرجہ بالا حلیہ کے مطابق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دیدار کا اِنکار کیا اُس نے گویا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حدیث کا اِنکار کیا اور جس نے آپ کی حدیث مبارک کا اِنکار کیا اُس نے گویا آپ (ﷺ)کا اِنکار کیا اور جس نے آپ (ﷺ) کا اِنکار کیا بے شک وہ کافر ہے- اِس عطائے اِلٰہی کا شرف بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس سے حاصل ہوتا ہے‘‘-[28]

حرفِ آخر:

نفسانی اور روحانی کے خواب ایک سے نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کی بیداری ایک سی ہوتی ہے- صوفیاء کرام نے خوابوں کی حقیقت، تعبیر اور اقسام کو کھول کھول کر بیان فرمایا ہے- اگر ان تمام اقتباسات کا لبِ لباب پیش کیا جائے تو وہ محض یہی ہے کہ انسان کا جاگنا اور سونا، زندہ رہنا اور مرنا، کھلی آنکھ سے مشاہدہ کرنا اور خواب میں طیر سیر کرنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ بابرکات کی خاطر ہی ہونا چاہئے- جب انسان اپنا سب کچھ اللہ اور اس کے محبوب (ﷺ) کے سپرد کردیتا ہے تو اس کو خوف و خطر سے رہائی نصیب ہوجاتی ہے اور وہ ہر لمحہ، ہر لحظہ مشاہداتِ جمال میں گرفتار رہتا ہے- اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن کریم اور احادیث  مبارکہ کی روشنی میں صوفیاء کرام کی تعلیمات کوسمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے- آمین!

٭٭٭


[1](یوسف: 4)

[2](معجم الکبیر ،ج:3، ص:179، رقم الحدیث :3051)

[3]( صحیح بخاری ، ج:1، ص:7، رقم الحدیث:3)

[4]( صحیح بخاری، ج:4، ص:423)

[5](صحیح بخاری، ج:1، ص:467، رقم الحدیث: 1386)

[6]( نور الھدی، ص: 87)

[7]( شمس العارفین، ص: 147)

[8](شمس العارفین، ص: 127)

[9]( محک الفقر، ص: 401)

[10]( سرّالاسرار، ص: 191)

[11](سرّالاسرار، ص: 201)

[12]( عین الفقر، ص: 214)

[13](اشعۃا للمعات ،ج:4، ص:449)

[14]( منح الروض الازھر ، ص:151)

[15](احیاء العلوم ، ج:1، ص:364)

[16]( کلید التوحید کلاں، ص: 459)

[17](نور الہدی، ص: 247)

[18]( سرّالاسرار، ص: 191)

[19]( محک الفقر، ص: 399)

[20]( کلید التوحید کلاں، ص: 59)

[21](کلید التوحید کلاں، ص:83)

[22](نور الھدی، ص:559)

[23]( عین الفقر ، ص:75)

[24](عین الفقر، ص: 287)

[25]( محک الفقر، ص: 242)

[26]( کلید التوحید کلاں، ص: 629)

[27]( سرّالاسرار،  ص: 187)

[28]( کلید التوحید کلاں، ص: 105)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر