ابیات ِباھو : گَند ظُلمات اَندھیر غُباراں رَاہ نیں خوف خَطَر دے ھو

ابیات ِباھو :  گَند ظُلمات اَندھیر غُباراں رَاہ نیں خوف خَطَر دے ھو

ابیات ِباھو : گَند ظُلمات اَندھیر غُباراں رَاہ نیں خوف خَطَر دے ھو

مصنف: Translated By M.A Khan اکتوبر 2024

گ: گَند ظُلمات اَندھیر غُباراں رَاہ نیں خوف خَطَر دے ھو
مُکھ آب حیات مُنوّر چَشمے اوتے سائے زُلف عَنبر دے ھو
مُکھ محبوب دا خانہ کعبہ جِتھے عَاشِق سَجدہ کر دے ھو
دو زُلفاں وِچ نَین مُصلّے جِتھے چَاروں مَذہب مِل دے ھو
مِثل سکندر ڈُھونڈن عَاشِق اِک پَلک آرام نہ کردے ھو
خضر نَصیب جِنہاندے باھوؒ اوہ گھُٹ اُوتھے جا بھَردے ھو

There are terrifying hazards pitch dark and dark dust storms on the path Hoo

Face is water of eternal life of radiant spring and there are shadows of amber tresses Hoo

Beloved face is house of God where aashiq prostrate Hoo

Between two tresses, there are eyes, which are place for prostration where four madhab (doctrine) reinstate Hoo

Aashiq are in search like Iskander they would not take a respite in it Hoo

Fate of Khidr is of those Bahoo they take a sip from it Hoo

Gand zulmat andhair Ghubara’N rah naeh Khof Khatar day Hoo

Mukh Aab hayat munawwar chshmay oothay sayee zulf umber day Hoo

Mukh Mehboob da Khana kaba jithay aashiq sajda kar day Hoo

Do zulfaa’N wich nain musallay jithay charoo’N mazhab mil day Hoo

Misl Sikandar Dhon’Dan aashiq ek palak Aaram nah kar day Hoo

Khizar naseeb jinhaa’N day Bahoo ooh ghutt oothay ja bhar day Hoo

تشریح:

1-راہ طریقت میں طالب کو جہاں نفس وشیطان کے مکرو فریب کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہاں دنیا کی تاریکیاں  بھی اپنے پر پھیلائے اس کو اپنے جال  میں پھنسانے کی کوشش کرتی ہیں- جیسا کہ  حضرت سُلطان باھوؒ فرماتے ہیں:’’طریقت میں رجوعات ِخلق کی بھر مارر ہتی ہے چنانچہ جن، ملائک، اِنس اور زرومال کا رجوع صاحب ِطریقت کی طرف ہو جاتا ہے اور یہ خالی رجوعات ہی نہیں ہوتیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صاحب ِطریقت کا امتحان بھی ہوتا ہے- ورطۂ طریقت میں ہزاراں ہزار بلکہ بے شما ر طالبوں کا بیڑہ غرق ہوتا ہے، شاید ہی کوئی طالب اللہ تعالیٰ کے کرم سے اور فقرائے کامل کی برکت سے ساحل مراد تک سلامت پہنچتا ہے اور وہ بھی اِس صورت میں کہ حضور نبی کریم (ﷺ )کی طرح کوئی مہر بخش مرشد اُس غریب کی دستگیری کر کے ہر گھڑی اُس کی نگہبانی کرتا رہے‘‘- (عین الفقر)

2-طالب  اللہ کو اپنی محنت وریاضت کا صحیح صلہ اس وقت ملتا  ہے  جب وہ  آقا کریم (ﷺ) کی حضور ی میں پہنچ کر آپ (ﷺ) کے چہرہ ِ اقدس کے نور سے  فیض یاب ہوتا ہے-اپنے نثری کلام میں آقا کریم (ﷺ)کا حلیہ مبارک بیان  کرتے ہوئے آپؒ ارشادفرماتے ہیں :’’ آپ(ﷺ) کا رنگ گورا گندمی، پیشانی و دندان کشادہ، کان متوازن، بینی بلند، آنکھیں سیاہ ، چہرہ ملیح، داڑھی گھنی، ہاتھ لمبے، انگلیاں باریک اور قد درمیانہ تھا -آپ(ﷺ) کے بدن مبارک  پر بال نہ تھے ، صرف چھاتی سے لے کر ناف تک ایک خط سا بنا ہو ا تھا اور پشت پردونوں کندھوں کے درمیان نبوت کی مہر لگی ہوئی تھی‘‘-(نورالھدٰی)

3-  بلاشبہ سجدہ اللہ عزوجل کے سوا کسی کوروا نہیں بلکہ غیر اللہ کو سجدہ حرام اورشر ک ہے لیکن جب طالب  وعاشق اپنے  محبوب کریم (ﷺ)کی ذاتِ اقدس میں گم ہو کر اس میں ذاتِ حق تعالیٰ کے جلووں سے سرشار ہوتا ہے تو پھر وہ اللہ عزوجل کے سامنے سر بسجود ہوجاتا ہے -جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں:’’ جو دل کعبہ سے منسلک ہو جاتا ہے وہ قبلۂ حاجات بن جاتا ہے‘‘-

4- چاروں سلاسل چاہے طریقت کے ہوں یا فقہ کے ،یہ سب کے سب  آقا کریم(ﷺ) کی ذاتِ اقدس  ہی سے فیض یافتہ ہیں-جیسا کہ آپؒ ایک مقام پہ ارشادفرماتے ہیں:’’چنانچہ علماءہر گز عامل نہیں ہو سکتے جب تک کہ باطن میں اُ نہیں حضور نبی رحمت(ﷺ) اپنی زبانِ مبارک سے خود سبق نہ پڑھائیں اور نہ ہی وہ متقی ہو سکتے ہیں جب تک کہ باطن میں خود آقا کریم (ﷺ) اُنہیں تعلیم نہ دیں خواہ وہ عمربھر ریاضت و تقویٰ کے پتھر سے سر ٹکراتے پھریں- اِسی طرح فقیر بھی اُس وقت تک ہر گز کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ خود آقا کریم(ﷺ) باطن میں اُسے دست بیعت کر کے اسمِ اللہ ذات کے تصور و تصرف کی تلقین نہ کر دیں چاہے وہ تمام عمر ذکر کر تا رہے یا ہزار ہا مرشدپکڑتا رہے ہر گز کامل نہیں ہو گا - علمائے عامل ا ور فقرائے کامل کی تعلیم وتلقین ایک عطا ہے جو اُنہیں آقا کریم(ﷺ) کی بارگاہ سے حاصل ہو تی ہے‘‘-(محک الفقر کلاں)

5-عاشق صادق اللہ عزوجل کا قرب اور آقا کریم (ﷺ) کی  بارگاہ مبارک کی حضوری کی تلاش میں اپنا آرام وسکون اس طرح قربان کرکے بے چین رہتے ہیں جیسے سکندر آب حیات کی تلاش میں  سرگرداں رہے-عشاق کی اس صفت کو آپؒ یوں بیان کرتے ہیں:’’ اُن کے دل آتش ِعشق کی گرمی سے دیگ کی طرح کھولتے رہتےہیں، کبھی وہ پُرجوش ہوتے ہیں اور کبھی پُر سکون، وہ اپنے شب و روز اِسی طرح گزارتے ہیں‘‘(عین الفقر)-مزید ارشادفرمایا :’’صدق وہ ہے جو طالب ِ صادق کو رات دن قرار و آرام سے نہ رہنے دے اور نہ ہی نیند و سکون کے قریب جانے دے اور پیادۂ محبت ِواحد اور طلب ِتحصیل ِحصول الوصولِ معرفت اُسے اِس قدر پریشان رکھےکہ جب تک اُسے قربِ الٰہی تک نہ پہنچا دے اُس کی جان نہ چھوڑے ‘‘-(امیر الکونین)

6-راہ طلب میں جس کو مرشدکامل کی دستِ شفقت حاصل ہوجائے آخر وہ بارگاہِ رسالت مآب (ﷺ)  ہی میں پہنچ کر آپ (ﷺ) سے عشق و محبت کے جام نوش کرتے ہیں- جیساکہ آپؒ ارشادفرماتے ہیں :’’مرشد ِکامل جب کسی کا ہاتھ پکڑتا ہے تو اُسے حضوری میں پہنچادیتا ہے جہا ں آقا کریم (ﷺ)  اُسے دریائے وحدت میں غوطہ دے کر علمِ غواصی بخشتے ہیں -پھر غوث وقطب اُس کے ہاتھ پر بیعت کر تے ہیں - ایسے خوش بخت آدمی کو عارف باللہ فقیرکہتے ہیں‘‘-(محک الفقر کلاں)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر