جو ہرِ جمعیت کی دو علامات ہیں کہ بظاہر شریعت میں ہوشیار اور بباطن مراقبہ میں مشاہدۂ ربوبیت سے سرفرازو دیدارِ تجلیاتِ انوار میں غرق-جان لے کہ زمین وآسمان کی مخلوق کو قیامت تک پہنچنے کے لئے پچاس ہزار سال کا عرصہ لگتاہے- اِس پچاس سالہ عرصے کو شب ِدنیا کہتے ہیں، اِسی طرح حساب گاہ ِقیامت کے پچاس ہزار سالہ عرصے کو دن کہاجاتاہے-پس ظاہر و باطن کا کل عرصہ ایک لاکھ سال ہے جس میں شب ِدنیا لباس ہے اور روزِ قیامت معیشت ہے- لباس کا تعلق عبودیت (بندگی) سے ہے- معیشت کسب کو کہتے ہیں اور کسب ذکر، فکر، معرفت اور اشتغال اللہ ہے جس کا تعلق ربوبیت سے ہے - علماء اہل ِعبودیت ہیں اور فقراء صاحب ِ ربوبیت-فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ’’ہم نے رات کو لباس بنایا اور دن کو معاش‘‘- پس اہل ِشب کی نظر دنیا پر لگی رہتی ہے اور اہل ِ روز کی نظر روزِ قیامت پر، بجزیادِ حق وہ کچھ خریدتے ہیں نہ لیتے ہیں- علما ءو فقراء کے درمیان بھلا کیا فرق ہے؟ علماء جب غضب وغصے کی حالت میں ہوتے ہیں تو جلالیت ِعلم کی وجہ سے انائے مِنِّیْ (مَیں ہی مَیں کا گھمنڈ) میں مبتلا ہوجاتے ہیں جبکہ فقراء غصے کے وقت جمالیت ِمعرفتِ اِلَّا اللّٰہُ کے باعث انائے مِنِّیْ سے محفوظ رہتے ہیں - جو آدمی ابتدا میں عالمِ باعمل ہوتاہے وہ انتہا پر پہنچ کر درویش ِکامل ہوجاتاہے-
جان لے کہ علم ’’ع‘‘ سے ہے اور دو ’’ع ‘‘ کا یکجا ہونا مشکل ہے اِس لئے جو آدمی عالم عامل ہو وہ فقیرِکامل عارف ہوجاتاہے - جس شخص کو علم اپنا قیدی بنا لیتاہے اُس کے وجود میں چار علومِ الہام پیدا ہوجاتے ہیں جنہیں غیب الغیب کہاجاتاہے اور جن کی وجہ سے اُس کا حجاب اُٹھ جاتاہے اوروہ خُلق ِمحمدی (ﷺ) کا پیکر بن جاتاہے اور اُس کے وجود میں قدرتِ سبحانی سے اوّل الہامِ ازل پیدا ہوتاہے، دوم الہام تصورِ اسمِ محمد(ﷺ)پیدا ہوتاہے جو اُسے راہ ِراستی سے آگاہ کرتاہے، سوم الہام جملہ صحابہ کرام کو ایصالِ ثوابِ عبادت بخشنا ہے- چہارم الہام کراماً کاتبین اور جملہ فرشتے اُسے نیکی و بدی اور ماضی حال و مستقبل کے حالات بتلاتے ہیں- فرمایا گیاہے :’’ابرار لوگوں کی نیکیاں مقربین کے نزدیک گناہ کے زمرے میں آتی ہیں‘‘-
جان لے کہ عالم فاضل صاحب ِفقہ و نص و حدیث و صاحب ِتفسیر کا مرتبہ اور ہے اور صاحب ِ ورد وظائف اہل ِ ذکر فکر صاحب ِتاثیر کا مرتبہ اورہے- جو فکر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں کیا جائے اُس سے دل میں حیا پیدا ہوتی ہے، جو فکر اللہ تعالیٰ کے وعدہ و وعید میں کیا جائے اُس سے دل میں خوف پیدا ہوتاہے، جو فکر اللہ تعالیٰ کی معرفت میں کیا جائے اُس سے دل میں نورِ توحید پیدا ہوتا ہے، جو فکر تلاوتِ قرآن مجید میں کیاجائے اُس سے دل میں اعمالِ صالحہ کی رغبت پیدا ہوتی ہے اور جو فکر معاملاتِ دنیا میں کیا جائے اُس سے دل میں سیاہی اور شیطانی منصوبہ بندی پیدا ہوتی ہے-اِس جہان میں دنیا اور اہل ِدنیا سے بدترچیزاور کوئی نہیں - عجیب نادان ہیں وہ لوگ کہ جنہوں نے اِس بدتر چیز کو اللہ کے نام سے اور دین ِمحمدی و فقرِ محمدی (ﷺ) سے بہتر سمجھ رکھا ہے-
صحیح مومن مسلمان وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کو ہر وقت حاضر ناظر اور غالب قدرت والا ماننے کا عظیم فرض ادا کرتاہے کہ سب فرائض سے بڑا فرض یہی ہے اور یہ فرضِ عین ہے اور سب سنتوں سے بزرگ ترین سنت یہ ہے کہ گھر بار کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں کرچ کر دیا جائے تاکہ سب سے عظیم سنت ادا ہو جائے- اِس عظیم فرض و سنت کو صرف اہل اللہ ہی ادا کرتے ہیں- جو شخص مردہ دل دنیا داروں سے جدائی اختیار کر لیتا ہے اُس کا دل صاف ہوجاتاہے اور نفس مطلقاً مرجاتاہے اور نفس کے مرنے سے مراد یہ ہے کہ وہ کفر و شرک، کبر و ہوا اور بُری خصلتوں سے باز آجائے- جب ایسا ہوجائے تو گویا نفس مر گیا ہے- وہ گناہوں سے تائب ہوکر نیک اعمال اختیار کر لیتا ہے، صفائے قلب اور ارواحِ مقدسہ سے اُنس رکھتاہے اور مرتبۂ مطمئنہ حاصل کر کے عبادتِ معرفت میں مشغول رہتاہے-
حدیث مبارک میں آیا ہے :’’دنیا کمان ہے،حادثاتِ دنیا تیر ہیں اور انسان ہدف ہے‘‘-
ایک اور حدیث مبارک میں آیا ہے :
’’ دنیا میں اِس طرح رہو گویا کہ تم ایک غریب الدیار مسافر ہو اور خود کو اہل ِقبور میں شمار کرو‘‘-
تمام علمِ ظاہر اور تمام فقر و معرفت ِالٰہی کو ہم نے ایک نکتہ میں سمو دیا ہے اور وہ نکتہ ہے حرف ’’ ن‘‘ یعنی’’ ن‘‘ سے نیک نیت ہو کر طمع و حرص و حسد سے پاک رہنا- جو شخص اِن تینوں یعنی طمع و حرص و حسد کو چھوڑ دیتاہے وہ علم و معرفت دونوں کو پالیتاہے اور دوام اِنہی دو کو حاصل ہے- اِن تینوں سے قطع تعلق کر لینا فقراء کے لئے معرفت کی انتہا ہے-مصنف کہتاہے کہ صاحب ِقلب کو دل سے سات فتوحات حاصل ہوتی ہیں اور ہر فتح سے ستر ہزار فیوض کا نور ظاہر ہوتاہے- اِن فتوحات کو وہی شخص جان سکتاہے جو اِن کے فیض کا نور حاصل کرچکا ہو-اِس مقام پر پہنچ کر طالب کو وہ یقین و قرار نصیب ہوتاہے کہ پھر وہ فرار ہوتاہے نہ سلب و خوار-
تجلی ٔذات اور ہے، تجلی ٔاسماء اور ہے، تجلی ٔحروف اور ہے اور تجلی ٔ ربانی اور ہے- تجلی چار قسم کی ہوتی ہے جسے محض عطائے ذات کا فیض کہاجاتاہے- جو تجلی حاضراتِ اسمِ اللہ ذات سے ظاہر ہوتی ہے وہ مطلق توحید ِوحدانیت ِخدا کی تجلی ہے، اُسے نورِ معرفت ِالٰہی کہاجاتاہے- جو تجلی اسماء سے ظاہر ہوتی ہے اُسے تجلی ٔذات کہاجاتاہے نہ تجلی ٔصفات کہ وہ ذات و صفات کی ملی جلی تجلی ہوتی ہے- جو تجلی آیاتِ قرآن و احادیث سے ظاہر ہوتی ہے اُسے نفس کے خلاف جہادِ اکبر کہاجاتاہے اور جو تجلی تیس حروفِ تہجی سے ظاہر ہوتی ہے اُسے قلب المکشوف کہاجاتاہے-
ہر ایک تجلی تصور و تفکر و یقین سے کھلتی ہے اور عین بعین دکھائی دیتی ہے- بند آنکھوں سے دیکھنا اور بات ہے-عمر بھر کی ریاضت سے بہتر ہے کہ نظر تجلی پر رکھی جائے اور توجہ استغراقِ فنا فی اللہ پر- استغراقِ فنا فی اللہ کے علاوہ ہر مرتبے کی تجلی خام و نا تمام تجلی ہے- مطلب ِ کلی کا مرتبہ کو ن سا ہے؟ اپنی ہستی کو مٹا کر حق رسیدہ ہوجانا کہ یہ سب سے بہتر انجام ہے یعنی جمعیت ِنور اللہ کا جام پی لینا- اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس-جو مرشد طالب اللہ کو حاضراتِ اسمِ اللہ ذات سے تمام مقام و معرفت ِالٰہی کا سبق نہیں دیتا اور جملہ مقاماتِ معرفت ِ الٰہی منکشف کرکے دکھا نہیں دیتا وہ ناقص و لاف زن مرشد ہے-
ابیات:(۱) ’’ مَیں ہر دم تجلی ٔذات میں جلتا رہتا ہوں جو سراسر رازِ الٰہی ہے- یہی تجلی ٔذات قربِ الٰہی تک راہنمائی کرتی ہے‘‘-
(۲) ’’ مَیں ازل سے ابد تک غرقِ نور رہا ہوں اِس لئے از ل سے ابد تک حضوری میں رہتا ہوں‘‘-
(۳) ’’ مَیں ازل سے ابد تک مست ِحال تھا اور ازل سے ابد تک صاحب ِوصال ہوں‘‘-
(۴)’’ مَیں ازل سے ابد تک خود سے جدا رہاہوں اِس لئے ازل سے ابد تک مقربِ خدا ہوں ‘‘-
جاری ہے