حضرت سلطان باھوؒ اور پنجابی ادب

حضرت سلطان باھوؒ اور پنجابی ادب

حضرت سلطان باھوؒ اور پنجابی ادب

مصنف: سیدعزیزاللہ شاہ ایڈووکیٹ اکتوبر 2024

حضرت سلطان باھوؒ پنجابی کے تیسرےاورسی حرفی[1] کے پہلے شاعر ہیں جو آپ کی وجہ شہرت بھی ہے- ہر فلسفی کی فکر اپنے زمانے، ماحول اورحالات کی پیدا وار ہوتی ہے-حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیمات اور فکر میں آپ کے زمانے، سماج اور سیاسی حالات کی جھلک واضح نظر آتی ہے- مذہبی شخصیات کا کردار بڑاہی مایوس کن تھا، علماء، دربارکے پجاری بن کر رہ گئے تھے-[2] عقائد میں بگاڑآچکا تھا، آپؒ نے احمد نگر، بیجاپور، قندھار کی لڑائی ، دھرمات، سموگڑھ ،اجمیر اور کجھوہ کی لڑائیاں دیکھیں، بھائی بھائی کا قتل[3] اور بادشاہِ وقت کواپنی ہی حفاظت کےلئے بنائے گئےقلعہ میں قید تنہائی میں رہنا پڑااور اسی نظر بندی کی حالت میں موت آئی یہ تمام واقعات آپ نے دیکھے- اس کے علاوہ ست نامیوں کا مسئلہ اور مرہٹوں کی ہلچل جیسے واقعات آپؒ کے سامنے وقوع پذیر ہو رہےتھے- تبھی آپؒ کی تعلیمات میں دنیا کی بے ثباتی کا موضوع[4] بڑی شدت سےبیان کیا ہے -[5]

آپ کے کلام میں جامعیت یوں ہے جیسےکسی شاعر کے کلام میں تلمیح [6]-ہر بات کسی خاص پس منظر، تاریخی واقعہ اورتاریخی حوالے یا نظریہ کے حق یا رد میں کی ہے- قاری جب تک اس سیاق و سباق، آپؒ کے روحانی مقام اور واردات روحانی سے واقف نہ ہو مکمل ادراک مشکل ہو جاتا ہے-

سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپؒ نے سی حرفی کی صنف میں شاعری کیوں کی؟ فارسی، عربی کی اہمیت کےباوجودپنجابی ابیات کیوں لکھے؟ جبکہ درباری زبان، دفتری زبان اور اہل دربار کی زبان فارسی تھی پھر پنجابی کو کیوں اپنایا؟دراصل (آپ کے خطے کے)عام عوام کی زبان پنجابی تھی اور آپ کے مخاطب عام عوام تھی-[7] علاوہ ازیں پنجابی ابیات کیوں لکھے اس کی تاریخی وجہ جوبیان کی جاسکتی ہے اس میں سے ایک مقبول ترین وجہ یہ ہے کہ اس وقت مغل دور حکومت میں پنجابی زبان میں تعلیم دینے کا رواج تھاخاص طور پربچیوں کے لئے -[8] اس سے ظاہر ہے کہ لوگوں میں پنجابی زبان مقبول تھی تو آپ نے تربیت و تلقین کےلئے پنجابی کو منتخب کیا- بچوں کی نصابی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے جہاں مصنفین نے مختلف کتابیں لکھیں وہیں حضرت سلطان باھوؒ نے بالغ، سمجھدار اور پختہ شعور رکھنے والوں کی تعلیم و تربیت کے لئے وہی کام اپنی شاعری سے لیا-[9] یوں آپؒ کے بیت ان پنجابی بچیوں کی زبان پر لوری[10] بن گئے ایسے بچے کی پیدائش اور ماں کی گود سے ابیات باھوکوسننے کا سفر شروع ہو جاتا- شاید یہی وجہ تھی کہ حضرت سلطان باھوؒ کا پنجابی کلام معروف ومقبول ہو گیا اور فارسی نثر کی 140 کتب کے گنجینہ کو وہ شہرت دوام حاصل نہ ہوئی-جیسا کہ میاں محمد بخشؒ نے کئی قصے لکھے پر انہیں مقبولیت سفر العشق [11]سےہوئی-

حضرت سلطان باھوؒ کی شاعری میں ھو کی اہمیت کے بارے فرحت شاہ جہاں پوری نے بڑی خوبصورت وضاحت فرمائی ہے:

’’ھو ردیف ہی نہیں ہے یہ ہمارے فکر کی ایک منزل، ہمارے درد کی ایک پناہ گاہ اور زندگی کے تپتے ہوئے ریگستانوں میں ایک سایہ دار نخلستان بھی ہے- پر سکون، اداس، خاموش اور ایسی فضا میں دل کی جوت جلتی ہے، عشق کی لہر اٹھتی ہے، دنیا کی حقیقت کھلتی ہے اور آنکھیں معرفت کے نور سے چمک اٹھتی ہیں گویا ’’ھو‘‘ کی ردیف فکر و احساس کے لیے ایک تازیانہ ہے- یہ تازیانہ فکر دنیا سے فکر عقبیٰ کی طرف جاتا ہے‘‘-

انچارچ شعبہ پنجابی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور، پروفیسر ڈاکٹر سعید خاور بھٹہ اپنے مضمون ’’حضرت سلطان باھو کا نویکلاپن‘‘ میں پنجابی ابیات کے منفرد اسلوب کے حوالے سے بیان کرتے ہیں:

’’سلطان باھوؒ کا پنجابی کےصوفی شاعروں میں ایک الگ منفرد’’نویکلا‘‘ مقام ہےانہوں نے ولائت اور تصوف میں نسبت اویسیہ کے حوالے سے’’وصول الی اللہ‘‘ کا ایک الگ طریقہ نکالاہے اور اپنے مریدین کو اس طریقہ کی تعلیم دی اور جنوبی ایشیا کے صوفیوں میں اپنا الگ مقام پیدا کیااسی طرح انہوں نے پنجابی شاعری میں بھی ایک نئی راہ پیداکی اور اس کو ایک نئے رجحان سے واقف کروایا‘‘-[12]

مزید ڈاکٹرسعید خاور بھٹہ حضرت سلطان باھوؒ کے ابیات بارے لکھتے ہیں کہ:

’’ان کا بیان کرنے کا اندازپڑھنے والے اور سننے والے پر بہت گہرا اثر کرتا ہے جو باھوؒ کا ہی حصہ ہے- سلطان باھوؒ کے پاس ایک اور نویکلی، الگ چیز موسیقیت میں ڈوبی ہوئی ’’لے‘‘ ہے- اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ باھو سے پہلےشاہ حسین نے کافیاں ہندی راگ کو سامنے رکھ کر لکھیں لیکن اس کے مقابلے میں باھوؒ نے راگ یا راگنی کو اپنے کلام کی بنیاد نہیں بنایالیکن باھوؒ نے اس طرح کا پرتاثیراور سرمست انداز اپنایا ہےجو سیدھا دلوں کی گہرائی پر اثرانداز ہوتاہے- ایک طرف یہ حقیقت بھی ملتی ہےکہ بڑے بڑے عالم آپؒ کے ابیات کی خاص کیفیات کی تشریح کرنے سے قاصرہیں لیکن جب کوئی عام بندہ پورے سوز کے ساتھ ابیات پڑھ رہا ہو تو سننے والے کے دل کے تار بجنے لگ جاتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہےکہ سننے والے کے اوپر سارے اسرار و رموز روشن ہو گئے ہیں-[13]

عصر حاضر میں اب حضرت سلطان باھوؒ کی فکر کو بیسویں صدی کے اردو کےسب سے بڑے شاعر اقبال کی فکری سانجھ[14]سے ملاکر دیکھا جاتا ہے- کئی تقابل اور موازنے موجود ہیں- اس کے باوجود ہماری بدقسمتی ہے کہ ابیات سلطان باھو کا ترجمہ ہو یا پھر دیگر اس طرح کے حضرت سلطان باھوؒ پر موجود تحقیقی وادبی کام جن میں سے بہت سے کام منظر عام پر نہیں آئے- [15]

آج ضرورت اس امرکی ہے کہ حضرت سلطان باھو کی تعلیمات و فکر میں پوشیدہ فلسفے کو سامنے لایا جائے جیساکہ ڈاکٹر سرفرازحسین قاضی لکھتے ہیں:

’’فکر تے فلسفہ جےروحانیت نال مل جاوے تے فیر حضرت امام غزالی جیہے بندے جم دے نیں تےحضرت مولانا رومی جیہاںشخصیتاں دنیا وچ رونما ہندیاں نیں، حضرت سلطان باھو ہوراں نے فلسفہ تے شریعت دونواں نوں اپنے سامنے رکھیا اے، تے ایسےلئی اوہناں کول آپنے توں پہلیاں صوفیاں کولوں ذرا وکھ ہوکے صوفیانہ مسئلیاں تے بحث لبھ دی اے[16] -

شاید یہی وجہ ہےکہ ڈاکٹر لاجونتی نے آپ کو فلسفی صوفی شمار کیا ہے:

Bahu as judged from his poetry belonged to the philosophical school of sufi[17]

عصر حاضر کےمشہور مصنف زیڈ-اےاعوان حضرت سلطان باھوؒ کے شاعرانہ اسلوب سے متعلق لکھتے ہیں:

“All of his works are written under ‘inspiration’ in a style and substance peculiar to his mystical philosophy- He often used a bit formulated formations diffusing Sufi doctrine and method of spiritual realization in his expostulations” [18].

’’آپ کا تمام کلام الہامی ہے جو آپ کے روحانی فلسفہ کی مخصوص طرز کا عکاس ہے-آپ اکثر صوفیانہ فکر اور روحانی حقیقتوں کے طریق کی تشکیل کردہ تراکیب کو اپنے بیان میں شامل کرتے ہیں‘‘-

زیڈ-اے اعوان ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

“The Poetic rhyme and rhythm ends with melody of Hoo – He – Him (SWT) which is a splendid special feature instantly recognizable in the poetical composition of ‘Abiat’- This specifies meditational, mediation of ‘Dhikr – Fikr’ (Remembrance- Reflection)- The Bahoo is an integral part of the final verse so beautifully incorporated with reminding resonance of Allah (SWT) ‘Zat’ essence and Siffat, manifestations – attributes-” [19]

’’آپ کی شاعری کا قافیہ اور وزن ”ھو“ (وہ ذات) کے ترنم کے ساتھ مکمل ہوتا ہے، جو ”ابیات“ کی شاعرانہ ترکیب کی فوراً پہچان کرانے والی ایک شاندار خصوصیت ہے-یہ مراقبہ اور ذکر و فکر پر توجہ مرکوز کرتا ہے-”باھو“ آخری مصرعہ کا لازم جزو ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی یاد دہانی کی گونج کے ساتھ خوبصورتی سے شامل کیا گیاہے‘‘-

کسی شاعر کےاشعار کی تشریح قاری کی ذہنی سطح اور ذہنی رجحان سے بھی طے پاتی ہے- ہر ادیب نے اپنی سمجھ اور ذہنی سطح کے مطابق حضرت سلطان باھوؒ کے کلام کی توضیح بیان کی ہے- پنجابی ادب میں شریف کنجاہی کے نام سے کون واقف نہیں-ان کی کتاب ’’جھاتیاں‘‘میں جھات ڈالی جائےتو پتہ چلتا ہے کہ کیسے شریف کنجاہی صاحب نے ’’صوفیاں دی شاعری‘‘ کے آرٹیکل میں سماجی تفریق کی تفریق (نفی) کو حضرت سلطان باھوؒ کی نظر میں بیان کیا ہے:

نہ میں ہندو نہ میں مسلم نہ میں ملاں قاضی ھو
نہ دل دوزخ منگے میرا نہ شوق بہشتاں راضی ھو
نہ میں تیہے روزے رکھے، نہ میں پاک نمازی ھو
باہجھ وصال رب دے باھو ہور سب جوٹھی بازی ھو

ڈاکٹر سرفراز حسین قاضی فرماتے ہیں کہ ’’حضرت سلطان باھو صوفیاں وچوں پہلے شاعرہن جنہاں نے تصوف دے مسئلیاں تے’فکری نظر ‘[20]وی ماری اے-

بقول ڈاکٹر سرفراز حسین قاضی "حضرت سلطان باھو ہوری وی وحدت الوجودول جھکے ہوئے لبھ دے نیں، توحید دے علم بردار، اللہ پاک دی موجودگی تے باقی ہر شے دا غیر موجود ہونا اوہناں کول لبھدا اے"-[21]

حضرت سلطان باھوؒابیات میں فرماتے ہیں:

اندر ھُو تے باہرھُو اَیدَم ھُودے نال جَلیندا ھو

آپؒ ایک جگہ فرماتے ہیں

اسیں اوسے وچ اوہ اساں وچ باھویاراں یار سَولے ھو

قاضی صاحب کا مزید کہنا ہے کہ:

’’حضرت سلطان باھو ہوراں کول توحید دےنظریئے جیہڑے ساہنوں لبھدے نیں اوہ وکھرے تے نکھرے ہوئے لبھدے نیں-انج تے ہندوستان دے صوفی شاعر حضرت ابن عربی دے فلسفہ وحدت دے قائل سن پر شاعری وچ یاں پنجابی دیاں شعراں وچ ایس رجحان دا کھلم کھلا تے وحدت دا ناں لے کے ورتاوا حضرت سلطان باھوؒ ہوراں کول ای لبھدا اے‘‘-

  • وحدت دا دریا[22] الٰہی جتھے عاشق لیندے تاری ھو
  • عاشق غرق ہوئے وچ وحدت باھوؒ ویکھ تِنہاندے مُجرے ھو
  • جے توں چاہیں وَحدت رَب دی تاں مل مرشد دِیاں تلیاں ھو

ایک جگہ پر دل سے غیر ماسوا اللہ کو نکالنے کا مقصد بھی عشق وحدت حق بیان فرمایا ہے-

عارف عبدالمتین پنجابی ادب کا ایک بڑا نام ہیں جوکہ ناقد، شاعر، ادیب اور ایڈیٹر تھے، انہیں پنجابی کا ٹی ایس ایلیٹ کہا جاتا ہے- انہوں نے حضرت سلطان باھوؒ کو ’’اسلامی تصور دا مبلغ‘‘کہا ہے-

مشہور مستشرق امریکی پروفیسرڈاکٹر گیرہارڈ بورنگ (Dr- Gerhard H- Bowering) کا حضرت سلطان باھوؒ کے ہاں ابیات کی لفظالی کےاستعمال سے متعلق ماننا ہے کہ:

“The imagery of the abyat is taken from everyday life of the ordinary Panjabi and is rife with word plays, ambiguities, paradoxes, and various tones and pitches conveying allusive meanings”-[23]

’’ابیات کی تمثیل آفرینی عام پنجابی روزمرہ زندگی سے لی گئی ہے اور یہ الفاظ کے خوبصورت استعمال، ذومعنویت، متناقضات، اور مختلف ہجوں اور سروں سے بھری ہے جو کنایہ آمیز معانی فراہم کرتے ہیں‘‘-

گیرہارڈ مزید لکھتے ہیں کہ:

“There are two strands of vocabulary that mark the abyat- One is Arabic terms and concepts, first absorbed by the Persian language, as well as originally Persian words that are taken over into the native language of Panjabi Muslims- The other strand is age-old Panjabi words and images that reflect the native substratum of daily life and its surrounding nature- Both of these trends are intertwined and welded into a whole- Arabic-Persian vocabulary represents the embroidery that is woven into the texture of the Panjabi carpet- Sultan Bahoo’s abyat are a prime example of this characteristic of nascent Muslim Panjabi poetry in its amalgamated dress.”[24]

’’ذخیرہ ِالفاظ کی دو لڑیاں ابیات کی پہچان ہیں- ایک عربی اصطلاحات اور تصورات ہیں، جو پہلے فارسی زبان میں جذب ہوئے اور اس کے علاوہ اصل فارسی کے الفاظ بھی ہیں جو پنجابی مسلمانوں کی مقامی زبان میں سرایت کر گئے ہیں- دوسری لڑی قدیم پنجابی الفاظ اور تصورات پر مشتمل ہے، جو روزمرہ زندگی اور اس کے ارد گرد فطرت کی بنیادی سطح پر عکاسی کرتے ہیں- یہ دونوں رجحانات ایک دوسرے میں مدغم اور نتھی ہوئے ہیں۔ عربی-فارسی ذخیرہ الفاظ کی بناوٹ پنجابی غالیچے میں بُنی ہوئی ہے- اس اعتبار سے سلطان باھُو کے ابیات ابتدائی مسلم پنجابی شاعری کی ایک عمدہ مثال ہیں جو آمیزش میں نظر آتے ہیں‘‘-

میاں محمد بخش صاحبؒ کے نام سے پنجابی علم و ادب میں کون واقف نہیں- حضرت سلطان باھوؒ کے کلام پر انہیں خراج تحسین یوں پیشں فرماتے ہیں:

فیر سلطان باھو ہک ہویا خاصہ مرد حقانی
دوہڑے پاک زبان اوہدی دے روشن دوہیں جہانی

ڈاکٹر اسلم رانا کی نظر میں حضرت سلطان باھوؒ کا جومقام پنجابی ادب میں ہے اور جوانہوں نے پنجابی پر دور رس اثرات چھوڑےملاحظہ فرمائیں:

’’آپ پنجابی زبان دے صاحب طرزشاعر نیں- ایس مختصر جیئی سی حرفی نے اوہناں دی فکری تے فنی عظمت دے جیہڑے چراغ روشن کیتے نیں اوہناں نال پنجابی زبان دا ادب جگمگ جگمگ کررہیا اےتے ایہہ نواں اسلوب خطے دی پنجابی زبان نوں نویاں جہتاں عطاء کرگیا اےتےدوجے پاسے اسلامی تصوف دی روایت نوں اک نواں رنگ دےگیا‘‘-

احمد یار مرالوی بھی حضرت سلطان باھوؒ کے ابیات کے بارے میں فرماتے ہیں:

واہ واہ دوہڑے سلطان باھو دے چیر دوستو جاندے
بے درداں دا درد ودھاندے پکی راہ وکھاندے

٭٭٭


[1]آپؒ کے بعدپنجابی میں سی حرفی کی صنف میں بہت کچھ لکھا گیااور سی حرفی کی صنف پنجابی میں ایسی مشہور ہوئی کہ ہاشم شاہ، فضل شاہ نواں کوٹی، میاں محمد بخش، میاں ہدایت اللہ برداپشاوری جیسی شخصیات نے اپنی سوچ اور جذبات کے اظہار کےلئے اسے اپنایا جبکہ علی حیدر ملتانی نے ہیر کو سی حرفی میں لکھالیکن جو مقام ابیات باھو کو حاصل ہے وہ باقی حسرت لئےگئے- آپؒ نے 140 کتب لکھیں- ان کتابوں کا علمی و ادبی مرتبہ اپنی جگہ مسلم ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ آپ کی شہرت کا اصل سبب یہ کتب نہیں بلکہ پنجابی کی چھوٹی سی ’’سی حرفی‘‘ہے- جو اپنی ضخامت میں تو شاہد چھوٹی لیکن وسعت پیغام و فکرمیں عالمگیراور آفاقی نوعیت ہے-

[2] پڑھ پڑھ علم ملکوک رجحاون کیا ہویا اس پڑھیا ھو

[3]داراشکوہ،شجاع، اورنگزیب مراد

[4]ادھی لعنت دنیا تائیں تے ساری دنیا داراں ھو

[5]مزید یہ کہ راقم کی نظر میں ’اللہ بس ماسوی اللہ ہوس‘ جو کہ آپؒ کی تعلیمات کا مرکزی خیال ہےکواسی تناظرمیں دیکھا جائے- اسی طرح فکر حضرت سلطان باھوؒ کےتاریخی پس منظراور اس وقت کے سیاسی و سماجی عوامل کا جائزہ لیا جائے جن کےاثرات کابیان حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیمات میں واضح نظر آتے ہیں توکافی بہتر فہم حاصل ہوگا- مثلاًہر دور کی اپنی ضرورت ہوتی ہے، شاہ حسین نے اپنی شاعری میں جس طرح سے چرخہ کااستعمال کیا ہے اور اس کی علامتی معنویت بیان کی ہے وہ کمال ہے- جس کے بارے میں ایک پنجابی ناقد نے کہا تھا کہ 'شاہ حسین دے تصوف دی بنیاد چرخہ دے منایاں تے کھڑی اے'- اگر اس دور میں چرخہ کا استعمال دیکھا جائے تو اکبر بادشاہ کا دور تھا اور لاہور میں ہر فوجی کو سالانہ دو وردیاں ملتی تھیں، یعنی کپڑے کاکام عروج پر تھا اورچرخہ ہر ایک کی ضرورت تھی تو شاہ حسین ؒ نے اپنا پیغام ڈھکے چھپے لفظوں میں بیان کیا، کیونکہ اس وقت کے حالات، مغل بادشاہ اکبر کے مطالبات اور طرح کے تھے،غالب گمان ہے کہ اسی لئےانہوں نے ملامتی فرقہ بھی اپنایا- حضرت سلطان باھوؒکی تعلیمات کوبھی اگر تاریخی پیرائےمیں دیکھا جائے توجو توحید کا نظریہ تھا، ذات باری تعالیٰ کے حوالے سے خواجہ باقی باللہ، شیخ احمدسرہندی سے لے کر سرمد کاشانی تک کے تمام اولیاء کی توحید کی وضاحت کےلئے خدمات نمایاں ہیں، حضرت سلطان باھوؒ کے تصور اسم اللہ ذات، ذکر اسم اللہ ذات کو اسی تناظر میں دیکھیں تو معاملہ مزید واضح ہوجاتاہے- مزید اس سے حضرت سلطان باھوؒ کی epistemology (علمیات) کو نمایاں طورپر defineکرنے میں آسانی ہوگی-

[6]آپ کے کلام میں بھی ویسے کئی جگہ پر تاریخی واقعات کوبیان کیا گیا ہے، مثلاواقعہ کن فیکون کو بطور تلمیح یوں استعمال کیا ہے ’کن فیکون جدوں فرمایااساں بھی کولوں ہاسے ھو‘-

 منصور حلاج کے واقعے کو تلمیحی انداز میں اپنی سی حرفی میں یوں بیان کیاہے ’مَنصُور جیہےچُک سولی دِتے جیہڑے واقف کُل اَسراروں ھو‘-

کربلا کے واقعہ کو جس طرح سے آپ نے استعمال کیا وہ بیت زبان زد عام ہے- اپنے کلام میں حضرت خضرکے واقعہ کو ایک بندمیں یوں بیان کیا ہے کہ قاری کے شعور کی دنیا میں مکمل قصہ آ جاتا ہے ’ایہہ تَن رب سَچے دا حُجراوِچ پَا فَقیراجَھاتی ھو، ناں کر مِنت خواج خِضر دی تیرےاندر آب حیاتی ھو‘- مزید فرماتے ہیں :’اَساں بَھر پیالاخِضروں پِیتاباھوآب حیاتی وَالا ھو‘

[7]اس بات کو یوں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ آپ کا پنجابی کلام اور فارسی نثر کی diction اور الفاظ کا چناؤ بالکل ایک دوسرے سے مختلف ہے، پنجابی کلام کی زیادہ ترمثالیں اورموضوعات سماج، اخلاقیات اور عشق سے متعلق ہیں جبکہ فارسی نثر کے موضوعات روحانی تجربات، واردات قلبی اور سالک کی رہنمائی سے متعلق ہیں- جوکہ ایک دوسرے سےیکسرمختلف ہیں-

[8]اس بات کو حافظ محمود شیرانی ’’پنجاب میں اردو‘‘میں لکھتے ہیں کہ اورنگزیب کے دورسےہی بچوں کےلئے پنجابی زبان میں نصابی کتابوں کے لکھنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، مختلف لوگوں نے نصاب تیار کیاجن میں کہرمل رائے، رامید،عبدالرحمن بن قاسم قصوری نے کتابیں لکھیں جن کا ذکر وارث شاہ نے اپنی کتاب ہیر میں بھی کیا ہے اور آخر میں خدا بخش نے اپنا نصاب تیار کیا-

[9]ادب سمندراز ڈاکٹر عصمت اللہ زاہد،ص: 48

[10]لوری جوکہ ماں اور بیٹی کا گیت ہے-

[11]جسے سیف الملوک کہا جاتا ہےاسی نام سے مشہور ہے حالانکہ سیف الملوک قصہ ’سفرالعشق‘کے ایک کردار کا نام ہے-

[12]پروفیسر ڈاکٹر سعید خاور بھٹہ، ’’حضرت سلطان باھوؒ کا نویکلا پن‘‘، اشاعت خاص حضرت سلطان باھو نمبر 2011ء، ص:667

[13]ایضاً، ص:670

[14] یہا چند مثالیں علامہ محمد اقبال اور حضرت سلطان باھوؒ کی فکری مماثلت کی نقل کی جارہی ہیں:

عقل فکر دیاں بھل گیاں باھو جد عشق وجائی تاڑی ھو (حضرت سلطان باھوؒ)

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق -----عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی (علامہ محمد اقبال )

جتھے ویکھن چنگا چوکھا پڑہن کلام سوائی ھو (حضرت سلطان باھوؒ)

یہی شیخ حرم ہے جوچرا کربیچ کھاتا ہے-----گلیم بوذرو دلق اویس و چادر زہرا(علامہ محمد اقبال )

ایک جگہ آپؒ فرماتے ہیں:’’ناں اوہ ہندو ناں او مومن ناں سجدہ دین مسیتی ھو‘‘یعنی کہ عشق کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، اسی طرح ’’ایمان سلامت ہر کوئی منگے عشق سلامت کوئی ھو‘، اورعلامہ اقبال فرماتے ہیں: ’’اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی‘‘، عشق اور ایمان، طریقت اور شریعت لازم و ملزوم ہیں عشق کے بنا ایمان ادھورا اور ایمان کے بغیرعشق نہ ہونے کے برابر ہے-

[15]جیسےپنجابی زبان و ادب کا ایک بڑا نام علامہ یعقوب انورکا ابیات سلطان باھو کا انگریزی ترجمہ یاپھر شفیع عقیل کا ابیات باھو کا اردو منظوم ترجمہ ، انہیں منظر عام پر لانے اور پھیلانے کی ضرورت ہے تاکہ جو پنجابی زبان کو سمجھ یا پڑھ نہیں سکتے وہ آپؒ کی فکر سے استفادہ کرسکیں-

[16]تصوف تے پنجابی دے صوفی شاعر ازڈاکٹر سرفراز حسین قاضی، ص30

[17]Punjabi Sufi Poets by Lajwanti Rama KrishnaT

[18]Dr- Z- A- Awan, Heart Deeper than Ocean (translation of Sultan Bahoo's Punjabi Abyat), (Alarifeen Publication Lahore, 2017), 19.

[19]I.b.i.d.

[20]کیونکہ ڈاکٹر سرفراز حسین قاضی نے اپنی کتاب میں یہ مقدمہ بھی پیش کیا ہے کہ پہلےتصوف جذبات کانام تھااور بعد میں اس میں فکر کا عنصر شامل ہوا-

[21]تصوف تے پنجابی دے صوفی شاعر ازڈاکٹر سرفراز حسین قاضی، ص33

[22]دریا کیا ہے، لہروں کا مجموعہ اور لہر، قطروں کا مجموعہ ہے اور یوں کثرت مل کر وحدت بن جاتی ہے-

[23]Paper Presented at Hadrat Sultan Bahoo Conference 2013, 3rd Session Globlal Impact

[24]I-b-i-d-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر