صبر کا مفہوم مشکل وقت میں مایوسی سے بچنا اور اللہ تعالیٰ سے امید رکھنا ہے، جبکہ شکر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف اور ان کے سامنے سجدہ ریزی ہے-انسان کا جسمانی یا ذہنی تکلیف پر فطری ردِ عمل بے ساختہ ہوتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی صابر اور دانشمند کیوں نہ ہو- لیکن جو لوگ اللہ تعالیٰ کی قربت اور اُس کے نظام کی پہچان حاصل کرلیتے ہیں، ان کا رویہ منفرد ہوتا ہے- وہ رب کی نعمتوں اور آزمائشوں کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہیں اور کسی بھی آزمائش میں بے صبری کا مظاہرہ نہیں کرتے، ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی رضا ہی سب سے مقدم ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ ہر حالت میں سکون اور اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرتےہیں-آزمائش پر صبر اور نعمت پر شکر کرنا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے- قرآن مجید میں صبر کے متعلق ارشادِ ربانی ہے:
’’یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا قف وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ‘‘[1]
’’اے ایمان والو! صبر کرو اور ثابت قدمی میں (دشمن سے بھی) زیادہ محنت کرو اور (جہاد کے لیے) خوب مستعد رہو، اور (ہمیشہ) اللہ کا تقویٰ قائم رکھو تاکہ تم کامیاب ہو سکو‘‘-
ایک اور مقام پر ارشاد ہوا:
’’وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ اِلَّا بِاللهِ ‘‘[2]
’’اور (اے حبیبِ مکرّم(ﷺ)!) صبر کیجیے اور آپ کا صبر کرنا اللہ تعالیٰ ہی کی توفیق سے ہے‘‘-
اللہ عزوجل نے صابرین کو اپنے معیت کی خوشخبری سُناتے ہوئے ارشادفرمایا:
’’اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ‘‘[3]
’’بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘-
اللہ تعالیٰ نے صبر کے ساتھ شکر کا بھی حکم ارشادفرمایا - ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ ‘‘[4]
’’اگر احسان مانو گے تو میں تمہیں اور دوں گا اور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب سخت ہے ‘‘-
حضور نبی کریم (ﷺ) نے اپنے اعمال، افعال اور اقوال سے صبر و شکر کی اہمیت کو واضح فرمایا ہے-سیدنا ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
’’جسے چار چیزیں مل گئیں اسے دنیاوآخرت کی بھلائی مل گئی- شکر کرنے والادل،ذکر کرنے والی زبان، آزمائش پر صبر کرنے والا بدن اور اپنے اور شوہر کے مال میں خیانت نہ کرنے والی بیوی‘‘- [5]
اسلاف نے قرآن کریم اور احادیث مبارکہ سے اسے سیکھا اور سمجھا، اپنی زندگیوں میں اسے اختیار کیا اور آنے والوں کے لئے بھی اسے بہتر بتایا-قادری طریقہ کے بانی سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی زندگی مبارک صبر، استقامت اور رضائے الٰہی کی ایک قابلِ تقلید مثال ہے- زمانہ طالب علمی میں آپؒ نے سخت مشکلات اور فاقہ کا سامنا کیا، لیکن ان حالات میں بھی آپؒ کی ثابت قدمی اور صبر میں کبھی لغزش نہ آئی- ان ظاہری مشکلات کے باوجود، آپؒ نے صبر اور شکر کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا اور آپؒ ان آزمائشوں میں استقامت سے گزرے-اولیائے کرام (رحمتہ اللہ علیھم) نے آپؒ کی عظمت اور روحانی مقام کا اعتراف کیا-
صبراختیار کرنا کیوں ضروری ہے؟
سیدنا غوث الاعظمؒ کی تعلیمات میں صبر کو مومن کی روحانی ترقی اور کامیابی کا ایک بنیادی عنصر قرار دیا گیا ہے- آپؒ کے مطابق:
’’صبر محض مشکلات برداشت کرنے کا نام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر آزمائشوں کو قبول کرنے اور شکر گزاری کا رویہ اپنانے کا عمل ہے، جس کے نتیجے میں انسان اللہ تعالیٰ کی بےپایاں نعمتوں کا حقدار بنتا ہے‘‘-[6]
آپؒ نے ایک لمحے کے صبر کو حقیقی شجاعت اور دنیا و آخرت کی کامیابی کی کنجی قرار دیا- مزید برآں آپؒ نے اہل اللہ کے رویے کو نمایاں کرتے ہوئے ارشادفرمایا کہ:
’’ وہ آزمائشوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور ہمیشہ قضا و قدر کے ساتھ موافقت رکھتے ہیں- ان کی تمام تر آرزوئیں اللہ کے ساتھ اپنے قلوب کا تعلق مضبوط رکھنے میں مرکوز رہتی ہیں، چاہے وہ خوشحالی ہو یا فقر، صحت ہو یا مرض- اہل اللہ نہ صرف خود صبر و قناعت کی مثال بنتے ہیں بلکہ مخلوق کی بھلائی اور سلامتی کے لیے بھی ہمیشہ دعاگو رہتے ہیں ‘‘- [7]
بندہ مومن کو چاہیئے کہ وہ ہر حال میں اپنے خالق و مالک کا شکر ادا کرے اور مشکلات پر صبر سے کام لے- سیدنا غوث الاعظمؒ نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’جوحق تعالیٰ کے ساتھ اس کی تقدیرپر راضی بن کر صبر اختیار کرتا ہے اس کیلئے دنیا میں خدا کی بے شمار مدد ہے اور آخرت میں بے شمار نعمت- اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے کہ صبر کرنے والوں کو اُن کا پورا اجر بے شمار دیا جائے گا‘‘-[8]
قربِ الٰہی کے مراحل اور صبر کی تلقین:
سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم سیدنا محمد مصطفےٰ(ﷺ) سے فرمایا کہ دنیا کے ظاہری اموال اور اسباب کی طرف متوجہ نہ ہوں کیونکہ یہ کفار کے لیے فتنہ اور امتحان ہیں- اس حکم کے تحت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیروکاروں کیلئے ہر حال میں صبر و شکر کرنا اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر راضی رہنا لازم ہے- جبکہ یہ حکم اس بات کی وضاحت بھی کرتا ہے کہ نبوت، علم، قناعت، توحید، جہاد، صبر، ولایت اور غیبی فتوح جیسی چیزیں جو دین کی بنیاد ہیں، بندہ مومن کیلئے بہتر اور دائمی حیثیت رکھتی ہیں-
آپؒ فرماتے ہیں:
’’خیر، منصبِ نبوت، علم، قناعت، توحید و معرفت، جہاد، صبر، ولایت اور فتوح غیبی وغیرہ جو چیزیں دین کے متعلق حبیب پاک (ﷺ)کو عطا کی گئی ہیں، وہ ان کی ذات کیلئے مخصوص ہیں، دنیا کے مال اور سامانِ عشرت سے بہتر اور دائمی حیثیت کی ہیں اور مکمل خیر کا مطلب بھی یہی ہے کہ خدا کی رضا پر راضی ہو کر اپنے حال کی حفاظت کی جائے اور فانی چیزوں کی طرف ملتفت نہ ہونا ہی نیکیوں اور برکتوں کی اصل ہے- دنیا کی تمام اشیاء کو اللہ تعالیٰ نے بندوں کی آزمائش کے لئے پیدا کیا ہے‘‘-[9]
مومن پر آفات و بلیات کا آنا:
غوث الاعظم سیدنا شیخ عبد القادر الجیلانیؒ کی تعلیمات میں صبر اور رضا کی اہمیت اور روحانی اثرات کو گہرائی سے بیان کیا گیا ہے- آپؒ کے مطابق:
’’بندۂ مومن آزمائش کے وقت ابتدا میں ذاتی کوشش اور پھر مخلوق سے مدد طلب کرتا ہے، لیکن جب تمام ظاہری اسباب ناکام ہو جاتے ہیں، تو وہ اللہ کی بارگاہ میں دعا و التجا کرتا ہے- اللہ تعالیٰ بندے کی دعا کی قبولیت میں اس وقت تک تاخیر فرماتا ہے جب تک وہ ظاہری اسباب سے مایوس ہو کر مکمل طور پر اللہ تعالیٰ پر بھروسہ نہ کر لے- اس مرحلے پر بندہ قضاء و قدر کو قبول کرتے ہوئے ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کو فاعلِ حقیقی تسلیم کرتا ہے اور اسے یہ یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ دنیا کے تمام امور، جیسے خیر و شر، نفع و نقصان اور عزت و ذلت، سب اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہیں- اس یقین کے ساتھ وہ خود کو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے سپرد کر دیتا ہے اور رضا بالقضا کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو جاتا ہے، جہاں وہ ہر حال میں اللہ کی رضا پر راضی رہتا ہے‘‘- [10]
آپؒ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے مومن بندے کو اس کے ایمان کی پختگی کے لحاظ سے آفت اور ابتلاء میں ڈالتا ہے جتنا کسی مومن کا ایمان قوی ہوگا، اتنا ہی بڑی آزمائش سے اُسے گزارا جائے گا - چنانچہ ایمان کے درجے کے اعتبار سے دیکھیں تو رسول کی مشکل نبی کی مشکل سے زیادہ بڑی ہوتی ہے- اسی طرح نبی کی آزمائش ابدال کی آزمائش سے سخت ہوتی ہے کیونکہ ابدال کے ایمان سے نبی کا ایمان زیادہ مضبوط اور توانا ہوتا ہے- پھر ایک ابدال کی ابتلا ولی کی ابتلا سے زیادہ ہوتی ہے- بالکل اسی طرح آفت و آزمائش کے درجوں میں کمی ہوتی جاتی ہے اور مومن بندہ اپنے ایمان و ایقان کے مطابق امتحان میں ڈالا جاتا ہے‘‘- [11]
ایک ضروری تصحیح:
سیدنا غوث الاعظمؒ کی تعلیمات میں توکل اور رضا بالقضا کی جامع حکمت موجود ہے- جہاں آپؒ نے مومن کی زندگی میں جدوجہد اور اللہ پر بھروسے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے وہیں آپؒ نے وضاحت کی ہےکہ مومن کاتقدیر پر بھروسہ کرتے ہوئے سست رہنا غلط ہے، کیونکہ اسلام محنت اور کوشش کا درس دیتا ہے- آپؒ فرماتے ہیں کہ تقدیر کا بہانہ بنا کر کوشش سے کنارہ کشی اختیار کرنا مناسب نہیں، بلکہ انسان کو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے محنت کرنی چاہیے- آپؒ نے قربِ الہٰی کی ابتدا تقویٰ سے اور انتہا تسلیم، رضا اور توکل میں بیان کی ہے، جو عملی جدوجہد اور روحانی بھروسے کا سنگم ہے جو ایک مومن کے کامل ایمان کی علامت بنتی ہے- آپؒ فرماتے ہیں:
’’میں تمہیں کہتا ہوں: (معاش کیلئے) کوشش کرو اور تقدیر کے ساتھ (جدوجہد سے منہ موڑ کر) چپکنا چھوڑ دو، یہ سست مزاج لوگوں کی دلیل ہے- ہم تو (نوشتۂ تقدیر کے باوجود) کمر باندھ کر جدوجہد کریں گے- ہم فقط یہ کہنے پر اکتفا نہیں کریں گے: ’’فلاں نے کہا اورہم نے کہا، کیوں؟ کیسے؟ اور نہ ہی اللہ کے علم میں داخل ہوں گے‘‘- ہم کوشش کریں گے اور وہ (مالک) جو چاہے گا کرے گا‘‘- [12]
دورِ حاضر میں صبر و شکر کی ضرورت:
انسانی زندگی خوشیوں اور مشکلات سے لبریز ہے، جو کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع ہے- قرآن و حدیث کے مطابق ایک مومن کو ہر حال میں صبر و شکر کا دامن تھامے رکھنا چاہیے- ’صحیح مسلم‘ میں حضرت صہیب بن سنان رومی (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ آقا کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’مومن کیلئے ہر حال میں خیر ہی خیر ہے- اگر خوشی ملتی ہے تو وہ شکر ادا کرتا ہے، اگر مشکلات آتی ہیں تو وہ صبر کرتا ہے اور یہی رویہ اس کی کامیابی کا باعث بنتا ہے‘‘-
اسلاف کی تعلیمات ہمیں زندگی میں مشکلات کا سامنا کرتے وقت صبر کرنے اور خوشی کے لمحات میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی تلقین کرتی ہیں- موجودہ دور کی مشکلات اور آزمائشوں میں ضروری ہے کہ اگرہم کسی مشکل یا بیماری میں مبتلا ہیں تو صبر کریں اور اگر صحت مند اور خوشحال ہیں تو شکر گزاری کا مظاہرہ کریں- لازم ہے کہ دل و زبان میں تضاد نہ ہو اور اگر زبان پر شکر ہے تو دل بھی اس پر مطمئن ہو- حضور غوث پاکؒ فرماتے ہیں:
’’افسوس تجھ پر کہ تیری زبان تقویٰ پُکارتی ہے اور تیرا دل فاجر بن رہا ہے ، تیری زبان شکر کرتی ہے اور تیرا قلب اعتراض کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے کہ اے ابن آدم میری طرف سے تو خیر تیری جانب اُترتی ہے اور تیری طرف سے شر میری جانب چڑھتا ہے افسوس تجھ پر تو دعویٰ کرتا ہے کہ اللہ کا بندہ ہے اور اطاعت کرتا ہے اس کے ماسِوا کی - اگر تو واقعی اس کا بندہ ہوتا تو اسی کیلئے عداوت کرتا اور اسی کے لئے محبت۔ سچّا مومن اپنے نفس ،اپنے شیطان اور اپنی خواہش کی پیروی نہیں کیا کرتا، وہ شیطان کو جانتا ہی نہیں اس کی اطاعت کیا کرے گا، وہ دنیا کی پرواہ ہی نہیں کرتا تو اس کے سامنے ذلیل کیسے ہوگا؟ بلکہ وہ تو دنیا کو خود ذلیل سمجھتا ہے اور آخرت کا طالب بنتا ہے اور جب آخرت حاصل ہو جاتی ہے تو اس کو بھی چھوڑ دیتا ہے اور اپنے مولیٰ عزوجل سے متصل ہو جاتا ہے کہ اپنے تمام اوقات میں خالص اسی کی عبادت کرتا رہتا ہے‘‘- [13]
آج ہمارے وجود میں صبر کی قلت ہے اور شکر کی غیر موجودگی- مصائب، مشکلات، مرض اور پریشانی میں ہم گھبراجاتے ہیں اور راضی بہ رضا نہیں رہتے جبکہ لازم ہے کہ ہم اپنی طرزِ زندگی میں ہر لمحہ و لحظہ صبر و شکر کا دامن تھامے رہیں- اسی بابت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا فرمان ہے:
’’جب تجھ کو کوئی مرض لاحق ہو تو صبر کے ہاتھ سے اس کا استقبال کر اور سکون سے رہ یہاں تک کہ اس کی دوا آجائے پھر جب دوا آجائے تو شکر کے ہاتھ سے اس کا استقبال کر کہ دُنیا میں بھی تجھ کو عیش حاصل رہے گا‘‘-
آج کے انسان کی کامیابی اس میں ہے کہ وہ احکامِ الٰہی کی جانب لوٹ آئے اور اپنی زندگی کو صبر و شکر سے گزارے جیسا کہ انبیاء (علیھم السلام) کا طریق رہا ہے- اس بارے میں حضور غوث الاعظمؒ نے یہ نصیحت فرمائی ہے:
’’اس کی نعمتوں کو شکر گزاری کے ساتھ محفوظ رکھو، اس کے حکم اور ممانعت کا سُننے اور ماننے کے ساتھ استقبال کرو، تنگ حالی کا مقابلہ کرو صبر سے اور خوشحالی کا شکر سے، یہی حال تھا تم سے پہلے گزر جانیوالے نبیوں پیغمبروں اور نیک بندوں کا کہ شکر کرتے تھے نعمتوں پر اور صبر کرتے تھے آزمائشوں پر- کھڑے ہو جاؤ اس کی معصیتوں کے دسترخوانوں سے (یعنی گناہ ونافرمانی ترک کردو)،اس کی اطاعت کے دسترخوانوں سے کھاؤ، اس کی قائم کی ہوئی حدود کی حفاظت کرو - جب خوشحالی تمہارے شامل حال ہو تو اس کا شکر کرو اور جب تنگی آئے تو توبہ کرو اپنے گناہوں سے اور جھگڑا کرو اپنے نفسوں سے(کہ وہی اس کا سبب بنے ہوئے ہیں) کیونکہ اللہ جل شانہ بندوں پر ظلم کرنیوالا نہیں ہے‘‘-[14]
المختصر!مومن مشکلات کے باوجود صبر کا دامن نہیں چھوڑتا، ہر چیز پر شکر ادا کرتا ہے، شکوہ نہیں کرتا اور اپنے ایمان کی حفاظت کرتا ہے، چاہے حالات خوشگوار ہوں یا ناخوشگوار- جب مومن مشکلات کا سامنا کرتے ہیں تو وہ ان آزمائشوں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سمجھتے ہیں اور صرف اسی سے مدد مانگتے ہیں- اجتماعی سطح پر بھی، ایسی قومیں جو ہمت سے مشکلات کا سامنا کرتی ہیں، کامیاب ہوتی ہیں تو ان کی عزت اور وقار میں اضافہ ہوتا ہے- لہٰذا، مشکل حالات میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کا انتظار کرنا لازم ہے - اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اسلاف کی عادات اپنانے کی توفیق عطا فرمائے- آمین!
٭٭٭
[1](آلِ عمران:200)
[2](النحل:127)
[3](البقرہ:153)
[4](ابراہیم:7)
[5](مشكوة المصابيح، رقم الحدیث: 3273)
[6](فتح الباری ، ص:11،مجلس :1)
[7](فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربّانی، مجلس:18، ص: 128)
[8](فتح الباری ، ص:11،مجلس :1)
[9](فتح الباری ، ص:19)
[10](فتح الباری ، ص:28)
[11](فتح الباری ، ص:45)
[12](فتح الباری ، ص:175)
[13](فتح الربانی ، ص:12-13)
[14](فتح الربانی ، ص:25)