ابیات باھو : گُجھے سائے ربّ صاحب والے کُجھ نہیں خبر اَصل دی ھو

ابیات باھو : گُجھے سائے ربّ صاحب والے کُجھ نہیں خبر اَصل دی ھو

ابیات باھو : گُجھے سائے ربّ صاحب والے کُجھ نہیں خبر اَصل دی ھو

مصنف: Translated By M.A Khan نومبر 2024

گُجھے سائے ربّ صاحب والے کُجھ نہیں خبر اَصل دی ھو
گندم دانا اساں بہتا چُگیا ہُن گل پئی ڈور اَزل دی ھو
پھاہی دے وچ مَیں پئی تَڑپاں بُلبل باغ مثل دی ھو
غیر ولے تھیں سٹ کے باھوؒ تاں رکھیئے اُمید فَضل دی ھو

Secret shadows are of Honourable Rabb none know anything regarding the reality Hoo

Tasted the wheat grain and ended up with string of primordial in the neck Hoo

Within the trap I flutter like bulbul without spring garden Hoo

Remove other then Allah from your heart Bahoo and have faith in Divine grace Hoo

‘Gujjay saye rabb waly kujh nahi’N ‘Khbar asal di Hoo

‘Gandum dana assa’N bohta chu’Gya hun gal pai ‘Dor azal di Hoo

Phahi day wich main pai ta’Rpa’N bulbul bagh masal di Hoo

‘Ghair walay thi’N sa’T kay Bahoo ta’N rakhiye umeed fazal di Hoo

تشریح: 

:اسرارِ الٰہی بہت گہرے ہیں جن کی حقیقت اور اصل کا انسانی عقل اور فہم ادراک نہیں کرسکتے -یہ اسرار مکمل مخفی اور پوشیدہ ہیں جن سے ایک عام انسان نابلد ہے- انسان کو بھی اللہ تعالیٰ کا راز قراردیا گیا ہے-بعض صوفیائے کرام نے انسان کو اللہ تعالیٰ کا سایہ قراردیا ہے جبکہ الہیاتی و مذہبی نقطہ نظر سے انسان اللہ تعالیٰ کا مخفی راز ہے- جیساکہ حدیث قدسی میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’اَلْاِنْسَانُ سِرِّیْ وَاَنَا سِرُّہ‘‘ ’’اِنسان میرا راز ہے اور مَیں اِنسان کا راز ہوں‘‘-

انسان کا اپنی حقیقت سے آشنا ہونا یا عرفانِ خودی حاصل کرنا دراصل اسرارِ ربانی کی واقفیت حاصل کرنا ہے -اپنی معرفت حاصل کرنے والا انسان اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرلیتا ہے -

2: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے سیدنا حضرت آدم ؑ کی تخلیق فرمائی اور انہیں جنت میں سکونت بخشی - قرآن مجید میں قصہ آدم ؑ کا تمثیلی ذکر آیا ہے - اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو جنت کی ہر شئے اور ہر نعمت سے مستفیذ ہونے کی اجازت دی سوائے دانہ گندم کے-مگر ابلیس کے بہکاوے کے سبب ممنونہ پھل (دانہ گندم) کھالیا -نتیجتاً آپ کو سکونت کےلیے دنیائے فانی میں بھیج دیا گیا- دنیا میں ہر لمحہ،مصائب ،آزمائشیں اور امتحانا ت انسان کے منتظر رہتے ہیں- اس لیے آپؒ فرماتے ہیں:

”دنیا آرائش و آسائش کی جگہ نہیں بلکہ امتحان و آزمائش کی جگہ ہے-تجھے دنیا پسند ہے یا خدا پسند ہے؟ تجھے دنیاپسند ہے یافقرِ محمدی (ﷺ) پسند ہے؟‘‘ (امیرالکونین)

یادرہے! اللہ عزوجل کی تقدیروچاہت غالب ہے،انسان اللہ عزوجل کے احکامات کی روگردانی کرکے بعض اوقات اپنی خواہشات کی تکمیل میں بہت آگے نکل جاتا ہے-اس لیے اولاد آدم ؑ کو صنم کدہ کائنات میں اپنی خواہشات کے باعث احکام الٰہی کی روگردانی سےسختی سے منع کیا گیا ہے- ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اے آدم کی اولاد! خبردار! تمہیں شیطان فتنہ میں نہ ڈالے جیسا تمہارے ماں باپ کو بہشت سے نکالا‘‘-(الاعراف:27)

3-حضور نبی کریم (ﷺ) کا فرمان ہے :’’دنیا ایک کمان ہے اور حادثات ِ دنیا اُس کے تیر ہیں، پس تم اﷲ کی طرف دوڑو تاکہ لوگوں سے تمہیں نجات مل جائے‘‘- حضور نبی کریم (ﷺ) کا فرمان مبارک ہے:’’دنیا ایک حوض ہے، اِنسان مچھلی ہے، بیماری جال ہے اور موت شکاری ہے‘‘-(کلیدالتوحیدکلاں)

تمام صوفیائے کرام نے ناجائز دنیاوی محبت کی نفی کی ہے کیونکہ دنیا کی محبت میں خطراتِ شیطانی اور ہوائے نفسانی انسان کو اللہ تعالیٰ سے دور کردیتی ہے اور انسان مرتبہ انسانیت سے گرکر انسان نماحیوان بن جاتا ہے- آپؒ فرماتے ہیں:

’’جو دل حُبِ دنیا کی ظلمت میں گھر کر خطراتِ شیطانی اور ہوائے نفسانی کی آما جگاہ بن چکا ہو اُس پر اللہ تعالیٰ کی نگاہِ رحمت نہیں پڑتی اور جس دل پر اللہ تعالیٰ کی نگاہِ رحمت نہ پڑے وہ سیاہ و گمرا ہو کرحرص و حسد و کبر سے بھر جاتا ہے‘‘- (عین الفقر)

4:بے پرواہ درگاہ ربّ باھوؒ نہیں فَضلاں بَاجھ نَبیڑا ھو

انسا ن جتنے بڑے بڑے اعمال کرلے ،جب تک اللہ عزوجل کا فضل شامل حال نہ ہو ،بات نہیں بنتی-اس لیے فقیر کی قیمتی متاع صرف اعمال نہیں ہوتے بلکہ اس کی نگاہ اپنے مالک وخالق کے فضل وکرم پہ ہوتی ہے اور یہ فضل تب نصیب ہوتا ہے جب انسان اپنے دل کو ماسویٰ اللہ سے پاک کرلے- جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں:

’’خبردار! عقل سے کام لے اور ہر غیر ماسویٰ اللہ کو دل سے نکال دے‘‘- (کلیدالتوحید کلاں)

دانا و آگاہ باش آنچہ غیر

 

از ماسوا اللہ از دل بہ تراش

’’ دانا بن اور یاد رکھ کہ اپنے دل سے اللہ کی طلب کے سوا ہر چیز کی طلب نکال دے‘‘- (امیر الکونین )

جو انسان اپنے باطن سے مادی خواہشات نکال کر اللہ تعالیٰ کی ذات کو پانے کیلئے سعی اور جستجو کرتا ہے اسے فضلِ الٰہی نصیب ہوتا ہے –حضرت سلطان باہوؒ فرماتے ہیں:

’’جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف دوڑتا ہے اللہ تعالیٰ کا فضلِ عنایت اُسے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے‘‘-(نور الہدیٰ)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر