گ: گِیا ایمان عِشقے دیوں پاروں ہو کر کافر رہیئے ھو
گھَت زَنار کُفر دا گل وچ بُت خانے وچ بَہیئے ھو
جِس جاں تے جانی نظر نہ آوے اوتھے سجدا مول نہ دِیہئے ھو
جاں جاں جانی نظر نہ آوے باھو توڑے ؒ کلماں مول نہ کہیئے ھو
Iman left due to ishq so live like an infidel Hoo
Sit in the house of idols by wearing the girdle of infidel Hoo
Where beloved is invisible never prostrate in such place indeed Hoo
In such place where beloved in unseen Bahoo never recite creed Hoo
‘Giya iman ishqay diyo’N paro’N ho kar kafir rahiye Hoo
‘Ghat zarar kufr da gal wich but “khany wich bahiye Hoo
Jis ja’N tay jani nazar nah aawey othay sajda mol nah dihiye Hoo
Ja’N ja’N jani nazar nah aawey Bahoo to’Ray kalma’N mol nah kahiye Hoo
تشرہح:
خَلق گوید ذاکران دیوانہ اند |
|
بیذ کر مُردہ دل ز حق بیگانہ اند |
1-2: ’’ ذاکرانِ قلبی کو لوگ دیوانہ سمجھتے ہیں حالانکہ وہ ہوشمند ہوتے ہیں جب کہ ذکر ِ قلبی سے غافل لوگ مردہ دل اور معرفت ِحق تعالیٰ سے بیگانہ ہوتے ہیں‘‘-(کلیدالتوحیدکلاں)
بلاشبہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) کا فرمان مبارک ہے:’’جس راہ کو شریعت رد کر دے وہ زندقہ کی راہ ہے‘‘-
لیکن یادرہے! اسلام صرف ظاہری احکام کا نام نہیں بلکہ اسلا م شریعت ،طریقت ،معرفت اور حقیقت کے مجموعے کا نام ہے اور طریقت میں طالب کوایسے مقامات وکیفیات سے بھی گزرنا پڑتاہے جومحض ظاہر بینوں کو سمجھ نہیں آتی اور وہ ان اللہ مست درویشوں سے بدگمانی کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں اوران کو خلاف شریعت قر اردیتے ہیں حالانکہ وہ عین شریعت ہوتا ہے جیسا کہ اللہ ربّ العزت کی لاریب کتاب میں مذکور سیّدنا موسٰیؑ اور حضرت خضرؑ کا واقعہ (کشتی توڑنا،بلا اجرت دیوار سیدھی کرنااور بچے کو قتل کرنا) اس کو سمجھنے کیلئے کافی ہے- سُلطان العارفین حضرت سخی سُلطان باھوؒ ارشادفرماتے ہیں:’’جب کوئی تمامیت ِمعرفت و فقر و ہدایت و ملک و ولایت کے مراتب پر پہنچتا ہے تو لوگ اُسے دیوانہ و خبطی کہتے ہیں اور گھر والے اُسے احمق سمجھتے ہیں کہ وہ دل کے اندھے حقیقت ِمعرفت کو نہیں جانتے، وہ محض بے عقل حیوان ہیں‘‘(امیرالکونین)-مزید ارشادفرمایا :’’ یہ وہ راہ ہے کہ جس میں قرب اللہ حضور کی آگاہی نصیب ہوتی ہے -اِس میں سر کو قدم بنا کر چلنا پڑتا ہے بلکہ سر اور پاؤں کی شناخت ہی ختم کرناپڑتی ہے - حضور نبی رحمت(ﷺ) کا فرمان مبارک ہے: ’’اِس راہ میں قدموں کی بجائے سر کے بل چلا جاتا ہے‘‘(امیرالکونین)- ایک اور مقام پہ آپؒ نے راہ فقر وطریقت کے پیچ وخم کی تفصیل اور اس کا حل بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا:
’’جان لے کہ باطن کی راہ میں بہت سے حجابات اور بے شمار آفات و رنج و مصائب پیش آتے ہیں- بعض حجابات سکر صحوقبض بسط ِنورانی ہیں، بعض حجاباتِ نفسانی ہیں، بعض حجاباتِ رجعت ِدنیاپریشانی ہیں، بعض حجاباتِ فرشتگانِ مکانی ہیں اور بعض حجاباتِ خلق جہالت ونادانی ہیں-اِسی طرح حجاباتِ شریعت و طریقت و معرفت و حقیقت بھی ہیں،اِن جملہ حجابات کی تعداد70 کروڑ30لاکھ بہتر شمار کی گئی ہے- کل و جز کے یہ تمام حجاباتِ ذاتی و صفاتی اور حجاباتِ علمِ کلماتی و درجاتی ہیں- مرشد ِکامل ایک ہی توجہ سے ،ایک ہی نظر سے ، ایک ہی تصور سے ،ایک ہی تصرف سے، ایک ہی تفکر سے،ایک ہی توفیق سے اور کنۂ کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی حاضرات سے طالب اللہ کے مردہ دل کو زندہ کر کے ایک ہی ساعت میں اِن تمام حجابات سے بخیر و عافیت گزار کر حضوری میں پہنچادیتا ہے اور حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) سے ولایت و ہدایت کی تلقین دلوا دیتا ہے‘‘-(نورالھدٰی)
3: ’’نماز وہ ہے کہ سر سجدہ میں جائے تو خدانظر آئے- جس سجدہ میں خدا نظر نہ آئے وہ سجدہ کہاں رواہے‘‘؟ (امیرالکونین)
’’خواص کی نمازمشرف بدیدار ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے روبرو ہو کر دائم سجود ِراز کرتے ہیں جب کہ عوام کی نماز محض رسم رسوم بہ سجدۂ آوازہوتی ہے‘‘(امیرالکونین)-سُلطان العارفین حضرت سخی سُلطان باہوؒ اپنے بارے میں ارشادفرماتے ہیں:’’ ازل و ابد کے دونوں چشمے میری چشمِ بینا کے سامنے رہتے ہیں، مَیں جب بھی سجدہ ریز ہوتا ہوں عین ذات کو اپنے سامنے پاتا ہوں‘‘-(عین الفقر)
4: ’’ اگر دل میں تُوہے تو دل ایک مسجدہے اور تُونہیں تو دل بت خانہ ہے، دل میں تُو نہیں تو دل ایک دوزخ ہے اور دل میں تُو ہے تو دل ایک بہشت ہے‘‘ (کلید التوحید کلاں)- عاشقوں کی ساریں بہاریں اپنے محبوب کے دم قد م سے ہوتی ہیں ،اس لیے آپؒ اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ اقدس میں دست ِ سوال دراز کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں : ’’الٰہی! وہ سر نہ دے جو تجھے چھوڑ کر مخلوق کو سجدہ کرے، وہ آنکھ نہ دے جو تجھے چھوڑ کر غیر کو دیکھے، وہ کان نہ دے جو تیرے کلام کو چھوڑ کر غیر کا کلام سنیں، وہ زبان نہ دے جو تیری ثنا چھوڑ کر غیر کی ثنا کرے، وہ قدم نہ دے جو تجھے چھوڑ کر غیر کی طرف اُٹھیں، وہ ہاتھ نہ دے جو تیری بجائے غیر سے دستگیری چاہیں، وہ کمر نہ دے جو تجھے چھوڑ کر غیر کی طاعت میں جھکے، وہ سینہ نہ دے جو تیرے پیار کی بجائے نجاست و غلاظت ِغیر سے بھرا رہے اور وہ دل نہ دے جو تیری قربت کے بجائے قربت ِغیر سے معمورہو‘‘-(عقلِ بیدار)